کیا ذاکر نائیک کی منطق مُعتبر ہے؟

دارالعلوم دیوبند کے دار الافتاء نے جوبھارت کی سب سے مقبول ترین دینی علوم کی مرکزی درس گاہ ہے،اُس نے ذاکر عبدالکریم نائیک کے خلاف یہ فتویٰ دیا ہے کہ وہ:

”غیر مُقلّد ہے اور اُس کا علم اِتناگہرا نہیں ہے۔اِس لئے وہ معتبر نہیں ہے اور مسلمانو ں کو اُسے ہر گز نہیں سننا چاہئے۔“

ایک اَور فتویٰ یہ کہتا ہے:

ؔ”ہم جانتے ہیں کہ وہ غیر مُقلّدین کا ایک نمائندہ ہے،جو علم اور حکمت سے کوسوں دُور ہے،شرارت کی باتیں پھیلاتا ہے اور سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرتا ہے۔“ ۲؎

بہت سے دیگر علما،سائنس دانوں اور مسلم رہنماؤں نے ذاکر نائیک کے خلاف اِسی قسم کے بیانات ۴جاری کئے ہیں۔ مسلم علما ٹیلی وژن کے اِس مُبلّغ کے خلاف کیوں ہیں جو ”امن“ او ر”اسلام“کا پرچار کرنے کا دعویٰ کرتا ہے؟یہ مضمون چند ایسی وجوہات کا جائزہ لے گا کہ کیوں ذاکر نائیک غیر تعلیم یافتہ لوگوں کے مجمع میں تو مقبول ہے مگر تعلیم یافتہ علما کے نزدیک حقیر سمجھا جا تا ہے۔

اُس کے مخصوص چاہنے والوں کے نزدیک،اِس ٹیلی وژن کے دل بہلانے والے مُبلّغ نے اپنی بلا رکاوٹ انگریزی بولنے،پُر اعتماد مسکراہٹیں بکھیرنے اور دوسروں کے ایمان کو حقیر جاننے اوراُسے غلط معنی پہنانے کی قابلیت کی وجہ سے تقریباً ایک جدید فنکار کی حیثیت حاصل کر لی ہے۔ہم باقی بچ جانے والوں کے نزدیک وہ زبردست یادداشت کا ایک آلہ ہے مگرایک خراب منطق رکھتا ہے،آدھی سچائیوں کا شوقین،اور خطرناک حدتک انتہا پسندی کے نظریات رکھنے والا شخص ہے۔ سیاق و سباق سے باہر بیان شدہ اقتباسات،جھوٹے اعداد و شمار،اور جان بوجھ کر غلط تشریحات کے لئے ٹیلی وژن اُسے ایک زبردست ذریعہ فراہم کرتا ہے۔اِس کتابچے میں ہم ”ریموٹ کا وقفے کا بٹن دبائیں گے“اور بڑی تنقیدی نگاہ سے ذاکر نائیک کی منطق او راُس کے مواد کا جائزہ لیں گے۔

لیکن ذاکر نائیک کے چند منطقی نکات پر تنقید کرنے سے پہلے چند معاملات میں اُس کی تعریف کرنا اچھا ہے۔وہ اپنے سامعین کوخود سے اپنی مادری زبان میں قرآن مجید پڑھنے کی تحریک دیتا ہے جو بہت ضروری ہے۔وہ نوجوانوں کو مشہور شخصیات کو اپنا رہنما بنانے اور مادی اشیاکی پیروی کرنے سے باز رہنے اور اِس کے بجائے اللہ تعالیٰ کی تلاش کرنے پر اُبھارتا ہے۔وہ شراب نوشی،بے حیائی اور کنجوسی کے خلاف بات کرتا ہے۔اِن باتوں کے لئے اُس کی تعریف ہونی چاہئے۔

خاکہ

کیا ذاکر نائیک اسلام کی درست نمائندگی کرتا ہے؟

نائیک اور اسلامی نظریہ اورعلمیت

سائنس پر

مذاہب کے تقابل پر

نائیک اور دہشت گردی

نائیک کے طریقے

اِرتقا پر:25جملوں میں 25اَغلاط

واضح جھوٹے بیانات

مرد و خواتین کے تناسب کے اعداد و شمار

دنیا کے مذاہب،چیونٹی ”رہنما“

تبدیلی

شہری روایات(دنیا کا نقشہ)

صحائف کی ناخواندگی(بی بی حوّا او رگناہ)

تیزی کے ساتھ نصف سچائیاں بیان کرنا(کیمبل کے ساتھ مناظرہ)

سامعین کے تعصب کوابھارنا(سؤر)

کمپیوٹر کی مانند یاداشت(تیزی سے آیات کے نمبر بتانا)

غیر متحرک سامعین

بڑی تعداد میں اسلام قبول کرنا؟

امریکہ میں خیرات دینا

امریکہ میں ہم جنس پرستی

مغرب میں بدعنوانی اور رشوت ستانی

حجاب او رجنسی چھیڑ چھاڑ

منتخب عالمانہ اقتباسات

سیاق وسباق سے باہر صحائف کی آیات

لسانیاتی بازی گری

صحائف کو غلط پیش کرنا

دوہرے معیار

ٹیلی وژن کا ذریعہ

ناقابل ِ چیلنج مناظر کا افسانوی قصہ


کیا ذاکر نائیک اسلام کی درست نمائندگی کرتا ہے؟

ذاکر نائیک غیر مسلموں کے مسلمانوں کے بارے میں رکھے جانے والے منفی اور گھِسے پِٹے خیالات کو متصعبانہ، سرکش اور بددیانت بناتا ہے۔اِس لئے یہ مسلمانوں او رغیر مسلموں دونوں کے لئے یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ ذاکر نائیک اسلام کے مرکزی علما کی نمائندگی نہیں کرتا۔نائیک کے خیالات اسلام کے ایک ایسے گروہ کی نمائندگی کرتے ہیں جسے وہابی کہا جاتا ہے اور وہ گروہ سعودی عرب سے یہاں پہنچا ہے۔پچھلی چند دہائیوں سے
تیل کی پیداوار سے حاصل کئے گئے کروڑوں ڈالر سعودی عرب سے نچھاور کئے گئے تاکہ اِس قسم کے اسلام کا پرچار کریں اور ذاکر نائیک جیسے لوگوں کی مالی مدد کریں۔

بہت سے تعلیم یافتہ علما کے نزدیک،وہابی فرقہ کو سب سے بڑے سرطان اورمسلم اُمہ میں سب سے بڑے مرض کے طور پر دیکھا گیا ہے۔

مولانا محمود دریا آبادی جو آل انڈیاعلما کونسل کے جنرل سیکرٹری ہیں،وہ ذاکر نائیک کے بارے میں کہتے ہیں:

”وہ نہ تو کوئی عالم ہے او رنہ ہی کوئی مفتی (وہ جو فتویٰ دیتا ہے)۔وہ جیسا چاہتا ہے ویسے اسلام کا پرچار کرتا ہے۔لیکن اُسے عوامی جلسوں میں فتو ے جاری نہیں کرنے چاہئیں۔“ ۵؎

عمرانیات کے ماہر امیتاز احمد لکھتے ہیں:

”سعودی لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اُنہیں یہ الہٰی حق ملا ہے کہ وہ پوری دنیا سے لوگوں کو تنگ نظر ی پر مبنی وہابی اسلام کے دائرہ میں لے آئے۔ ذاکر نائیک اُن کا عوامی نمائندہ ہے۔مخصوص وہابی فرقہ بھارت میں عمل میں لائے جانے والے عوامی اور برداشت پر مبنی اسلام کے لئے خطرہ ہے۔میَں نے ایک دو مرتبہ اُسے ٹیلی وژن پر سنا ہے او رمجھے سخت مایوسی ہوئی ہے۔“ ۶؎

بے شک ذاکر نائیک خود وہابی یا سلفی ہونے سے انکار کرے گا(جیسا کہ زیادہ تر وہابی کرتے ہیں)پھربھی اُس کے خیالات مخصوص حد تک وہابی ہیں۔وہابی نظریات شدید حد تک لکیر کے فقیر اور قدامت پسند ہیں جو سعودی عرب سے یہاں آئے ہیں جو بھارت کے بہت سے مسلمانوں کے نظریات کے دشمن ہیں اور وہ مہلک حد تک دوسرے مذاہب کی مخالفت کرتے ہیں۔ذاکر نائیک کے چند مخصوص وہابی نظریات ہیں جو بہت سے بھارتی مسلمانوں سے تضاد رکھتے ہیں:

حضرت محمد ﷺسے اِلتجا کرنا: ذاکر نائیک صوفی مسلمانوں سے انحراف کرتے ہوئے حضوراکرم سے اِلتجا کرنے کی سخت مذمت کرتے ہیں۔

شرعی قانون اور لادینیت پر: ذاکر نائیک دعویٰ کرتا ہے،”بھارت کے مسلمان اسلامی سزا کا قانون (شریعت)کو تمام بھارتیوں پرلاگو کرنے کو ترجیح دیں گے کیونکہ یہ زیادہ قابل ِ عمل ہے۔“

صوفی مُقدسین کا احترام کرنا: نائیک ایسے مسلمانوں کو ملامت کرتا ہے جو صوفی مقدسین کا احترام کرتے ہیں اور اُن کے مزاروں پر بطور
”قبروں کی عبادت کرنے“ والوں کے جاتے ہیں۔

دیگر عقائد پر: 2003ئمیں ٹورنٹومیں اپنی ایک تقریر میں نائیک یہ تسلیم کرتا ہے کہ مسلمانوں کے لئے یہ حرام ہے،منع ہے کہ وہ اپنے مسیحی دوستوں کو کرسمس کی مبارک دیں۔

سعودی عرب تیل کے پیسے یا تیل کی پیداوار سے حاصل کئے گئے ڈالرز سے جارحیت پسندی کی حد تک حرف بہ حرف عمل کرنے والی اسلام کی قسم کو پوری دنیا میں متعارف کروا رہا ہے۔
چند تعلیم یافتہ نامی گرامی مسلم علما نے ماتم کرتے ہوئے کہا کہ اُن کے زیادہ آزاد خیال اور علم و فضل کا نقطہ نظر رکھنے والے چینل نشر کرنے کے لئے تیل کی پیداوار سے حاصل کئے گئے چند ہی ڈالرزمیسر ہیں جو ٹیلی وژن کے ذریعے اِس طرح کی تشہیر کرنے والوں کا مقابلہ کر تے ہیں۔

8نومبر 2008ئمیں ایک انڈینز پریمئر مسلم سنی تنظیم،رضا اکیڈمی کے اراکین اکٹھے مل کر آئے تاکہ ذاکر نائیک کے پروگراموں پر پابندی لگانے کا مطالبہ کریں۔کولابا(Colaba)میں دارالعلوم حنفیہ رضویہ کے مولانااشرف رضانے بھی ذاکر نائیک کے خلاف ایک فتویٰ جاری کیا۔7 اکیڈمی کے ایک رُکن ابراہیم تاہل نے کہا،”پہلے اُس نے مسیحیوں کو اپنا ہدف بنایا اور اب وہ سنی مسلمانوں کے خلاف ہے۔ہم
آر۔آر۔پاٹیل اور کے۔پرشاد سے ملے ہیں اور اُن سے اُس کے پروگرام پر پابندی عائد کرنے کو کہا ہے۔“اُس نے مزید کہا،”ہم جاننا
چاہتے ہیں کہ نائیک کو مالی مدد کہاں سے ملتی ہے؟“نمایاں بھارتی مسلمان جیسے کہ سلمان خورشیداور جاویداخترنے نائیک کے بارے میں جو کچھ محسوس کیا وہ اُس کی بھارتی مسلم برادری کو تبدیل کرنے اور فرقہ وارانہ جد و جہد کی شر انگیز کوششیں تھیں۔بھارتی مسلمانوں نے صوفی
پیروکاروں کو ”قبر کے پجاری“ کہنے پر اُس کو ملامت کی۔اِسی طرح برطانیہ کے مسلمانوں نے اُس کے اسلامی تاریخ،اسلامی علم ِ الہٰی سے بے بہرہ ہونے اور اُس کے متعصب وہابی نظریات پر اُس کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

دوسرے کئی مسلمانوں کے برعکس،ذاکر نائیک کے نزدیک اسلامی تاریخ کی حدود میں جو کچھ بھی ہے وہ بِنا کسی سوال کے مثبت ہے اور دائرہ اسلام سے جو کچھ باہر ہے وہ لازمی طور پربُرا اور بدی ہے۔اُس کے اسلام سے جو کچھ بھی باہر ہے وہ بالکل جہالت ہے جو کچھ بھی اسلامی اُمہ کے اندر ہے وہ مثالی او رکامل ہے۔یہ اچانک ردعمل اُس وقت عیاں ہوا جب اُس نے یہ کہہ کر یزید کو برکت دی،”رضی اللہ تعالیٰ عنہُ“،
جس کا مطلب ہے،”خدا اُس سے خوش ہو۔“یزید اسلام کے ابتدائی دور میں ایک غیر معروف شخص تھا،جسے سنی علما کہتے ہیں کہ وہ ”ایک فاسق تھا جس نے اپنی ماں،بہن اور بیٹیوں کے ساتھ ہم بستری کی،جس نے شراب پی اور جو نماز نہیں پڑھتا تھا۔“ ۸؎ اُس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اُس نے مدینہ کے ایک حملے میں تقریبا ًایک ہزار عورتوں کی عصمت دری کروائی اور دس ہزار لوگوں کو اپنا غلام بنایا ۹؎ اور وہ غالباً اسدومی تھا۔تب بھی یہ شخص ذاکر نائیک کے نزدیک جنت میں جانے کے قابل ایمان دار تھا اور اُس کا دفاع اِس لئے کرنا چاہئے کیونکہ وہ اسلامی تاریخ کا ایک حصہ ہے۔

ذاکر نائیک کے نظریات اِس قسم کا وہابی قدامت پسندی،بنیاد پرستی،اور تنگ نظر ی کا اسلامی نظریہ پیش کرتے ہیں جس میں کسی قسم کی خود پر تنقید یا دیگر مذاہب یا ثقافتوں کو کھلے دل سے قبول کرنے کا کوئی بھی نشان نظر نہیں آتا۔اگر ہم اسلامی تاریخ کا مطالعہ کریں تو ایسی بہت سے باتیں ہیں جن پر ہم فخر کر سکتے ہیں جس میں ایک بہت بڑا تعلیمی اور سائنسی کا میابیوں کادَور بھی شامل ہے۔تب بھی اسلامی تاریخ کی چند ابتدائی صدیوں میں اِن کامیابیوں نے بھارتی تہذیب اور یونانی تہذیب جیسی دیگر ثقافتوں کے لئے بہت بڑے کھلے ذہن کے ساتھ مطابقت رکھی۔یہ وہ وقت تھا جب مسلم علما نے دیگر ثقافتوں کے علما کے ساتھ مل کر کام کرتے ہوئے اور اُن کے فلسفو ں کے ساتھ متحد ہوتے ہوئے اُن کے عظیم کاموں کا مطالعہ کیا اور اُس میں ضم ہو گئے۔اسلامی تاریخ کے عظیم ترین علما جیسے کہ ابن ِ سینااور ابن ِ رُشد دیگر ثقافتوں کی روایات کو کھلے دل سے قبول کرتے تھے مگر اُنہیں کافر قرار دیتے ہوئے ملامت کی گئی۔اِس نشا ۃِثانیہ کی تبدیلی، اسلامی عظمت کے زوال سے تب شروع ہوئی جب ذاکر نائیک جیسے تنگ نظرفلسفیانہ نقالوں نے تمام دیگر علم و فضل کو جہالت اور آزمائش قرار دے دیا اور یہ
تقاضا کیا کہ علما صرف”خالص“ اسلامی مضامین کا مطالعہ کریں۔ ۰۱؎ ذاکر نائیک کے ساتھ سب سے بڑی ستم ظریفی یہ ہے کہ اگرچہ وہ بڑے جوش و خروش سے اسلام کے سنہرے دَور کا ذکر کرتا ہے مگر یہ بالکل اُسی کی طر ح کاذہین ہے جس نے قبولیت کے اِس سنہرے دور کو تباہ کر دیا اور اِسے زوال کا شکار بنادیا۔

کیا ذاکر نائیک بہترین اسلامی علم ِ الہٰی اورعلمیت کی نمائندگی کرتا ہے؟

حقیقت یہ ہے کہ ذاکر نائیک ایک تربیت یافتہ سرجن اورمنتخب صحائف کے حوالوں کی ایک چلتی پھرتی انسانی یاداشت کی ایک ڈرائیو ہے لیکن وہ کوئی مفکّر یا عالم نہیں ہے۔اسلامی علم ِ الہٰی اور تاریخ میں اُس کی تھوڑی سی عام تعلیم ہے۔اسلام کے چوٹی کے علم ِ الہٰی کے ماہرین اور سائنس دان ذاکر نائیک کے طریقہ کار اور تعلیم کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

سائنس پر

مثلا ذاکر نائیک ایک بات کا شوقین ہے جسے ”بکاؤلے ازم“ (Bucailleism)کہا جاتا ہے یعنی ”قرآن مجید کے سائنسی معجزات“ جنہیں وہ اپنے ٹیلی وژن کے پروگرام میں پیش کرتا ہے۔تاہم مشہوربھارتی اسلامی علم ِ الہٰی کے ماہر جناب مولانا اشرف علی تھانوی (بہشتی زیور کے مصنف)اپنی کتاب ”اسلام اور عقلیات“ ۱۱ ؎میں اِس طریقہ کار کی مخالفت کرتے ہیں۔اِسی طرح مغرب اور عرب یونیورسٹیوں کے بہت سے نامی گرامی اسلامی سائنس دان ”بکاؤلے ازم“ سے اتفاق نہیں کرتے۔ضیاء اُلدین شاکراپنی کتاب،”Exlporations in Islamic Science“ میں سائنسی معجزات پر مناظرہ کو ”بُری طرز کا مناظرہ“ کہتے ہیں۔پین سٹیٹ یونیورسٹی کے مسلم مؤرّخ نعمان الحق”بیکاؤلے ازم“ کے سب سے بڑے نقاد ہیں جو بیکاؤلے ازم کے آغاز کو مسلمانوں میں ”بہت گہرا احساس کمتری“ قرار دیتے ہیں جن کو آبادیانی نظام نے تضحیک کا نشانہ بنایا اور وہ اسلامی سائنس کی گذشتہ عظمت کو حاصل کرنا چاہتے ہیں۔12 ایک اور نقاد مظفر اقبال ہیں جو کینیڈا میں البرٹا میں اسلام اور سائنس کے مرکز میں صدر کے عہدے پر فائز ہیں۔مسلم عملی ماہر طبیعات اورپاکستان کے ایم۔آئی۔ٹی کے گریجویٹ پرویز ہود بائے لکھتے ہیں:

”ایسے دعوے کرنے والوں کا مسئلہ یہ ہے کہ اُن میں اِس بات کی وضاحت کرنے کی کمی ہوتی ہے کہ کیوں حجم کی تکنیک،مالیکیولز کی ساخت
وغیر ہ کو کہیں اَور دریافت ہونے کے لئے انتظار کرناپڑا۔اور نہ ہی کبھی کسی قسم کی مُستند پیشین گوئیاں کی گئیں۔اُن کے پاس اِس بات کی بھی کوئی دلیل موجود نہیں کہ اینٹی بائیٹکس،اسپرین،بھاپ کے انجن،بجلی،ہوائی جہاز،یا کمپیوٹر پہلے مسلمانوں نے کیوں ایجاد نہیں کئے۔بلکہ ایسے سوالات پوچھنا توہین آمیز سمجھا جا تا ہے۔“ ۱۳؎

ترکی کے فلسفی اور ماہر طبیعات جناب ٹینر ادیس لکھتے ہیں:

”قرآن -سائنس(بیکاؤلے ازم)رقت انگیز ہے لیکن بہت سے مسلمانوں نے بھی اِس بات کو تسلیم کیا ہے۔ جتنی انسٹیٹیوٹ فار کریشین ریسرچ مسیحیت کی ترجمانی کرتا ہے اُسی طرح یہ اُس سے زیادہ اسلام کا اظہار نہیں کرتی۔ تاہم وہ احمقانہ شدت جو میَں نے اُوپر بیان کی ہے وہ سائنس او رقدامت پسند اسلام کے درمیان مبہم تعلق کی وضاحت کرسکتی ہے۔جبکہ بہت سے ایمان دار
اِس مسئلے کے نظر انداز کرنے کو تیار ہیں اور قرآن مجید کے ساتھ مکمل سائنسی ہم آہنگی کا اظہار کرتے ہیں۔کچھ ماہرینِ اَدراکی متعلقہ راستہ اپناتے ہیں،یا اِس بات پر زور دیتے ہیں کہ سائنس کا بیان اسلام کے مطابق ہونا چاہئے،اِس لئے ہمیں فطرت کے اسلامی نظریے کو تسلیم کرنا ہے۔“ ۱۴؎

”اِسلامی سائنس“ کے حوالے سے،پاکستانی نوبل انعام یافتہ اور ماہر طبیعات جناب ڈاکٹر عبدالسلام لکھتے ہیں:

”صرف ایک عالمگیر سائنس ہے؛اِس کے مسائل اور اِس کے طریقے بین الاقوامی ہیں اور اسلامی سائنس جیسی کوئی چیز نہیں ہے جیسے کہ ہندو سائنس یا یہودی سائنس،یا کنفیوشین سائنس اور نہ ہی مسیحی سائنس ہے۔“

مذاہب کے تقابل پر

اپنے قدردانوں کے نزدیک،تقابلی مذاہب میں نائیک سب سے پیش پیش ہے۔جب کہ حقیقی مفکرین جیسے کہ سید حسین نصریا نعمان الحق دیگر مذاہب کے مفکرین کے ساتھ کہیں زیادہ سنجیدہ اورفطین بحث فراہم کرتے ہیں۔

ذاکر نائیک کا موجودہ دَور میں موجود توریت شریف،زبور شریف اور انجیل شریف کو مکمل طور پر ردّ کردینا کسی طرح بھی اسلامی علمیت کو پیش نہیں کرتا۔
سلطنت عمان کے سلطان اور عرب اوراسلامیات کے پروفیسر جناب عبداللہ سعید لکھتے ہیں:

”چونکہ یہودیوں او رمسیحیوں کے مُستندصحائف آج بھی اُسی حالت میں موجود ہیں جیسے وہ نبی اکرم حضر ت محمد ؐ کے دور میں تھے،اِس لئے یہ بحث کرنا قدرے مشکل ہے کہ قرآن مجید میں کیا گیا توریت شریف او رانجیل شریف کا ذکر صرف ”اصلی“زبور شریف او ر
انجیل شریف کی طرف اشارہ ہے جو حضرت موسیٰ او رحضرت عیسیٰ المسیح کے زمانے میں موجود تھی۔اگر یہ متون کم و بیش ویسے ہی ہیں جیسے وہ ساتویں صدی میں تھے،او رقرآن مجید نے اُنہیں تعظیم بخشی تو پھر و ہ تعظیم آج بھی قائم رہنی چاہئے۔قرآن شریف کے بہت سے مفسر، الطبری سے لے کر رازی تک،بلکہ ابن تیمیہ تک اور حتیٰ کہ قطب بھی اِسی خیال کو بیان کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
موجودہ دَور میں بہت سے مسلمانوں کا یہودیت او رمسیحیت کے صحائف کو ردّ کر دینے کا اپنا یا ہوا رویہ خود قرآن مجید اور تفاسیر کرنے والی بڑی شخصیات کی حمایت کرتے ہوئے دکھائی نہیں دیتا ہے۔“ ۱۵؎

ذاکر نائیک اور دہشت گردی

ایک وہابی قدامت پسند ہوتے ہوئے ذاکر نائیک دہشت گردی کی مذمت کرتے ہوئے ہچکچاہٹ محسوس کرتا ہے۔جب اُس پر طالبان اور القاعدہ کی زیادتیوں کی مذمت کرنے کے لئے دباؤ ڈالا گیا تو اُس نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا اور یہ بیان دے کر شہرت کھو بیٹھا،”ہر مسلمان کو دہشت گرد ہونا چاہئے،او راگر اُسامہ امریکہ کے خلاف لڑ رہا ہے تو میں اُس کے ساتھ ہوں۔“

بظاہر ذاکر نائیک کی اُسامہ بن لادن سے کوئی رُوبرو ملاقات نہیں ہوئی،لیکن بکاؤلے ازم کا چمپئین ہونے کے ناطے،ذاکر نائیک کو اُسامہ بن لادن کی طرف سے اُس کے بکاؤلے ازم کے وسائل کے لئے براہ ِ راست مالی مدد ملتی تھی۔ ۶۱؎ برطانیہ میں نائیک کے ایک مخالف نے لکھا کہ کس طرح نائیک کے بڑے بڑے قدر دان خود کش بمبار او ردہشت گرد ہیں۔احمد کفیل جس نے گلاسکو ائیر پورٹ پر خود کش حملہ کیا تھااُس نے ذاکر نائیک کو دعوت دی تھی کہ وہ بنگلور آ کر اُسے او راُس کے دوستوں کو ایک درس دے۔جب کراچی کی لال مسجد میں سے پاکستانی طالبان کو زبردستی نکالا گیا تو ڈان اخبار نے یہ رپورٹ دی کہ وہاں سے ذاکر نائیک کی کئی کیسٹس ملیں۔

نائیک کے طریقے

نائیک نے پروپیگنڈہ(غلط منصوبہ بندی) کو عروج پر پہنچایا ہے۔ یہ مسلسل نصف سچائیوں،متن سے باہر اقتباسات اورجھوٹے اعدادوشمار کے استعمال سے علمیت کی وسعت کو محدود کرتاہے۔اِس میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ اپنے خلاف کسی بھی مدبّر مناظرہ کرنے والے جیسے کہ سیم شمعون اور علی سینا کے ساتھ مناظرہ کرنے سے کتراتا ہے۔
درج ذیل میں اُن طریقوں کا ذکر کروں گا جو ذاکر نائیک استعمال کرتا ہے اور ہر ایک کی مثال بھی پیش کروں گا۔

جھوٹی معلومات

دوٹوک بیان کرتے ہوئے،نائیک کی بہت سی معلومات بالکل جھوٹی ہیں۔آئیے! نائیک کی تقاریر میں سے ایک صفحہ مثال کے طور پر لیتے ہیں۔یہ ارتقا کے موضوع پر ہے،جو یو ٹیوب پر بھی با آسانی دیکھا جا سکتا ہے۔ 17

اِرتقا پر:5منٹ میں 25اَغلاط

(ڈاکٹرنائیک) ”نسلوں کا ارتقا“ میں وہ کہتا ہے کہ چارلس ڈارون ایک جہاز بنام HMS Beagleپر ایک ایسے جزیرے میں گیا جس کا نام (Keletropist) کلوتراپسٹ (1) ہے،وہاں اُس نے ایسی چڑیاں دیکھیں جو چونچوں سے سوراخیں (2) بناتی تھیں۔اپنے ماحول پر انحصار کرنے کی وجہ سے وہ سوراخیں بناتی ہیں،اِس لئے اُن کی چونچیں چھوٹی یا لمبی ہوتی رہیں۔ یہ مشاہد ہ ایک جیسی اقسام میں کیا گیا نہ کہ مختلف اقسام میں (3,4) .

چارلس ڈارون نے اپنے ایک دوست تھامس تھرامٹن کو 1861ء میں ایک خط میں لکھا،”میَں فطری انتخاب پر یقین نہیں رکھتا۔“ (5) وہ لفظ جو تم استعمال کرتے ہو،”ارتقا کا نظریہ“، میں اُس پر یقین نہیں کرتا کیونکہ میرے پاس اِس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔میَں اِس پر صرف اِس لئے یقین رکھتا ہوں کہ اِس سے مجھے عمل ِتولید،علم ِ نباتات،بنیادی اعضا کی تقسیم میں مدد ملتی ہے۔چارلس ڈارون نے خود کہا کہ اِس میں کچھ رابطے غائب تھے، وہ خود اِس سے متفق نہیں تھا،اُس نے خود کہا کہ کچھ رابطے غائب تھے…(6) .

… وجہ یہ ہے کہ اگر آپ کلیسیا کا تجزیہ کریں تو ماضی میں کلیسیا سائنس کے خلاف تھی۔ (7) اور آپ واقعہ سے واقف ہیں کہ اُنہوں نے گلیلیو کو موت کے گھاٹ اُتار دیا (8)؛اُنہوں نے گلیلیو کو موت کے گھاٹ اُتار دیا (8) ، کیوں؟کیونکہ اُس نے علم ِ نجوم سے کچھ ایسے بیانات دیئے تھے جو بائبل کے خلاف تھے، اِس لئے اُنہوں نے اُسے موت کے گھاٹ اُتار دیا(8) ،جس کی وجہ سے آج پوپ معذرت خواہ ہے۔اِس لئے جب چارلس ڈارون نے ایسا نظریہ پیش کیا جو کتاب المقدس کے خلاف تھا تو پھر اُنہیں،تو پھر اُنہیں کسی اَور
ثبوت کی ضرورت نہیں تھی۔میرے دشمن کا دشمن میرا دوست ہے‘، اِس لئے تمام سائنس دانوں نے،تقریباً اُن سب نے،اِس نظریے کی حمایت کی(9) اِس لئے نہیں کہ یہ سچا تھابلکہ اِس لئے کہ یہ کتاب المقدس کے خلاف تھا۔

…تمام مراحل میں …چار ہومونائٹس ”homonites“ (10) ہیں ، آج سائنس ہمیں بتاتی ہے کہ چار”ہومونائٹس“ (11) ہیں، پہلی قسم لوسی (Lucy)ہے اور اُس کے ساتھ اُس کا نر”ڈوسنو فیچسٹ“ (sic] Dosnopytichest, [12) بھی ہے، جو تقریبا ًساڑھے تین ملین سال قبل(برفانی دور) (13) میں مر گیا۔ اُسکے بعد ”ہو مو سیپینز“(Homo sapiens)آتے ہیں جو پانچ ہزار سال قبل مر چکے ہیں۔ (14) ، پھر ”نی انیڈرتھل مین“ “Neanderthal Man,” (15) آتے ہیں، جو سو سے لے کر چالیس ہزار سال قبل مرے (16) ، پھرچوتھا مرحلہ آیا، ”کرومیگنون“(17) ،- اِن تمام مراحل میں کوئی ربط موجود نہیں ہے (18) ۔ ئمیں پی۔پی۔گریس کے مطابق جو Sorbonne University, (18x) میں پیرس میں ارتقائی مطالعہ کا چیئر مین تھا ، اُس نے کہا ”یہ بے ہودہ بات ہے،ہم زمین سے نکالے ہوئے قدیم اجسام(fossils).. کی بنیاد پر نہیں کہہ سکتے کہ ہمارے آباواجداد کون تھے (18xx) ۔۔۔ سر البرٹ جارجی، (19) جسے وٹامن سی ایجاد کرنے پر (20) نوبل انعام ملا، اُ س نے ڈارون کے نظریے کے خلاف ایک کتاب لکھی،”The Crazy Ape and Man“۔ (21) پھر، سر فریڈ ہالے کاکام،اُس نے ڈارون کے نظریے کے خلاف کافی کام کیا. (21x) ۔ اگر آپ جانتے ہیں روپرٹس البرٹ کو –اِس شخص نے ارتقا پر ایک نئی تھیوری لکھی ڈارون کی تھیوری کے خلاف. (21xx) ۔ یہ ناقابلِ تخیل ہے۔ آپ یہ سوچ نہیں سکتے کہ ہم ایک بن مانس سے خلق کئے گئے ہیں (22) ۔ اگر آپ سر فرینک سلسبری، (22x)کو جانتے ہیں (وہ ماہر حیاتیات تھا)،اُس نے کہا،”ڈارون کے نظریے پر یقین کرنا غیر منطقی ہے۔“ سر وائٹ میٹ (23)،اُس نے ڈارون کے نظریے کے خلاف ایک کتاب لکھی،وہ بھی ایک ماہر حیاتیات تھا،… نچلی سطح پر امیبا …امیبا تبدیل ہو سکتا ہے پیر امیشیا (24) ۔ ہینسس کریک کے مطابق جو اِس میدان میں بااختیار ہے (25) ، اُ نہوں نے کہا،”یہ ناقابلِ یقین ہے۔“

اب غلطیاں یہ ہیں:

  • 1. کلوتراپسٹ (Keletropist)جزیرے جیسا دُنیا میں کوئی جزیرہ نہیں ہے۔یہ گلاپاگوس (Galapagos)کے جزیرے تھے
    جہاں ایک مرتبہ ڈارون گیا تھا او روہاں اُس نے چڑیاں دیکھی تھیں۔
  • 2. جیسے کہ ذاکر نائیک کہتا ہے یہ چڑیاں ”گھونسلوں میں نہیں رہتیں۔وہ اپنی الگ موافق حالات والی جگہوں پر رہتی ہیں“۔ڈاکٹر ذاکر نائیک کو شاید اِس کے بارے میں مبہم سی آگاہی ہے۔
  • 3. ایسا نہیں ہے،ڈارون کے نزدیک چونچوں کے مختلف ہونے کا نظریہ چڑیوں کی چودہ مختلف اقسام کی تحقیق پر مبنی ہے نہ کہ ایک چڑیا پر جیسے ذاکر نائیک دعویٰ کرتا ہے۔چونچوں کی لمبائی دراصل اقسام کے اندر مختلف نہیں تھی۔کسی بھی درسی کتاب میں دیکھ لیں۔
  • 4. اِن چڑیوں میں ڈارون نے جو فرق دیکھا وہ صرف چونچ کی لمبائی کا ہی نہیں ہے اِس میں اُن کا رنگ،حجم،جنسی رویہ،گیت،اور پسندیدہ خوراک بھی شامل ہے۔درحقیقت،وہ اتنی مختلف تھیں کہ ڈارون کو یہ بھی پتا نہیں چلا کہ وہ سب چڑیا ں ہیں۔
  • 5. ڈارون کا سارا کام اب شائع ہو چکا ہے اور کمپیوٹر پر آن لائن بھی موجود ہے اور اُس مواد میں کسی تھامس تھرامٹن نامی شخص کا ذکر نہیں ہے اور
    نہ کہیں ایسے خط کا کوئی ذکر پایا جاتا ہے۔ڈارون یہ الفاظ استعمال نہیں کر سکتا تھا،”میَں ارتقا کے نظریے پر یقین نہیں رکھتا کیونکہ اِ س کا میرے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے،“ کیونکہ دو سال قبل اُس کی شائع ہونے والی کتاب میں بھی اِس کا ذکر پایا جاتا ہے،چاہے ہم اُس کے نظریے پر یقین رکھیں یا نہ رکھیں۔کوئی ایسا شخص ہو گا جس کا نام تھامسن ہو گا مگر ڈارون نے کوئی خط تھامسن کو نہیں لکھا۔
  • 6. ڈارون نے یہ تسلیم کیا کہ اِس نظریے میں کچھ روابط ناپید ہیں لیکن اِس کا یہ ہر گز مطلب نہیں کہ اُس نے اپنے ہی نظریے سے اختلاف کیا ہے، صرف اُس نے یہ پیشن گوئی کی تھی کہ گمشدہ روابط کہاں سے مل سکتے ہیں۔
  • 7. کلیسیاکبھی سائنس کے خلاف نہیں تھی۔ گلیلیو کے وقت کے تقریباً تمام عظیم یورپی سائنسدان کٹّر مسیحی تھے جن میں خود گلیلیو بھی شامل ہے۔ نیوٹن،کوپرنیکس،کیپلر،بوائل، لینیئس،پاسکل جیسے تمام لوگ کتاب مقدس پر ایمان رکھنے والے لوگ تھے۔
  • 8. گلیلیو جو ایک کٹّر کیتھولک مسیحی تھا اُسے موت کی سزا نہیں ہوئی تھی بلکہ اُسے 22جون 1633ء میں عمرقید کی سزا دی گئی تھی اور پھر وہی سزا گھر میں قید رکھنے کی سزا میں بدل دی گئی تھی۔اُس قید کے آٹھ سال بعد وہ بڑھاپے کی عمر میں 8 جنوری 1642ء کی ایک شام کو انتقال کر گیا۔
    گلیلیو اِس بات پر پختہ ایمان رکھتا تھا کہ اُس کے نظریات کتاب مقدس کے ساتھ مطابقت رکھتے تھے اور اُس نے ایک کتاب بھی لکھی جو
    مسیحیوں کے ابتدائی تراجم جیسے آگسٹین نے کئے،اُن پر دیئے گئے دلائل پر مبنی تھی۔ذاکر نائیک اِس کے متعلق دو مرتبہ جھوٹا بیان دیتا ہے
    لیکن ہم اِسے ایک غلطی تسلیم کر لیتے ہیں۔
  • 9. دراصل زیادہ تر سائنسدان کئی سالوں تک ڈارون کے نظریے سے متفق نہیں تھے اور اِن سائنسدانوں میں سے زیادہ تر نے کتاب مقدس کو عزت اور فوقیت دی۔بنیادی طور پر،ڈاکٹر ذاکر نائیک کا بیان بالکل جھوٹ پر مبنی ہے۔
  • 10. ڈاکٹر نائیک نے یہاں جو کچھ کہاہے وہ غلط ہے۔ ”ہو مونائٹس“ (homonites)جیسا کوئی لفظ ہے ہی نہیں،یقینا اُس کا مطلب ”ہومینڈز“(Hominids)ہو گا۔
  • 11. صرف چار”ہومینڈز“(hominids)نہیں تھے بلکہ کم از کم چودہ ہیں۔
  • 12. ”ڈوسنو فیچسٹ“ جیسا کوئی ”ہومونڈ“ (homonid)ہے ہی نہیں۔ Lucyایک ”آسٹرل فیئیکس عفرنس“ تھا۔
  • 13. Ice age سواتین ملین (۳۳لاکھ)سال پہلے نہیں تھی بلکہ ڈیڑھ ملین (۱۵لاکھ)سال اور دس ہزار سال کے درمیانی عرصہ میں موجود تھی۔
  • 14. Homo sapiens پانچ لاکھ سال پہلے ختم نہیں ہوئے تھے بلکہ میَں او رآپ او رذاکر نائیک بھی homo sapiens
    ہے،اگرچہ اُسے معلوم نہیں ہے کہ وہ ہماری ہی نسل سے ہے۔.
  • 15. ٭ نظریہ ِ ارتقاء کے مطابق ”نی اینڈرتھل مین“(Neanderthal man) پتھروں کے دَور کے انسان آج موجود ہ انسان کے رُوپ میں موجود نہیں بلکہ یہ Ice ageکے وقت کی نسل ہے۔
  • 16. پتھروں کے دَور کا انسان ۳۰ ہزار سال پہلے ناپید ہو چکا تھا نہ کہ ”ایک سو سے چالیس ہزار سال پہلے“۔
  • 17. ”کرو میگنون“ انسان (Cro-Magnon man)بھیHomo Sapiensکی ہی شکل ہے جس کاذکر ذاکر نائیک نے مختلف ابتدائی اقسام کے طور پر کیا تھا۔
  • 18. دراصل ارتقاء کے ماہرین نے بہت سی مثالیں تلاش کی ہیں جن کی بدولت وہ اِن اَدوار میں روابط قائم کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں،مثلاً ”آسٹرل فیئیکس عفرنس“ اور”ہو موسیپنیز“ کے درمیان وہ ”ہومو ہیبیلس“، ”ہو مو اِرگیسٹر“ اور”ہومو ہیڈل بر جینسپس“کا دعویٰ کرتے ہیں۔ہم اِس شہادت کے وا ضح ہونے سے تضاد رکھ سکتے ہیں لیکن اِن تمام مراحل میں کسی بھی قسم کے ربط کے ہونے سے مکمل طور پر انکار نہیں کر سکتے۔
  • 18x. پیرس میں یا کہیں اور “Sojerion University.” نام کی کوئی یونیورسٹی نہیں۔گریس نے یونیورسٹی آف پیرس میں پڑھایا تھا جو “Sorbonne”بھی کہلاتی ہے۔
  • 18xx. تیس سال قبل دیاگیا یہ بیا ن جوسیاق وسباق سے باہر لے کر بیان کیا گیا پی پی گریس کی مجموعی رائے کی غلط تشریح کرتا ہے،جس کی تحقیق نے ارتقا کی مکمل حمایت کی۔وہ اُس وقت محض جلدی میں ڈھانچوں کے ریکارڈپر تبصرہ کر رہا تھا،اور ارتقا کے خلاف کوئی بیان نہیں دے رہا تھا۔لیکن ہم اِسے نائیک کی غلطی نہیں کہیں گے۔
  • 19. جھوٹ،سر البرٹ جارجی نامی کسی بھی شخص نے کبھی نوبل انعام نہیں جیتا۔دیکھ لیں۔اُس کا مطلب Albert Szent-Györgyi von Nagyrapolt.ہوگا۔
  • 20. Gyorgyiنے وٹامن سی ایجاد نہیں کی تھی بلکہ دریا فت کی تھی۔ وٹامن سی ایک قدرتی عنصر ہے،اُسے ایجاد کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
  • 21. Albert Szent Gyogyiکی کتاب ”The Crazy Ape and Man“نہیں کہلاتی بلکہ صرف
    The crazy Apeکہلاتی ہے۔اور یہ کتاب ارتقاء کو جھوٹا قرار نہیں دیتی بلکہ یہ صرف ایک معاشرتی تبصرہ ہے۔18
  • 21x. فریڈ ہالے کوئی ماہرطبیعات نہیں تھا بلکہ وہ ایک ماہر نجوم تھا۔اُس کا اپنے میدان میں ایک بڑا کام یہ تھا کہ اُس نے کائنات کا نظریہ پیش کیا تھا مگر وہ بھی جھوٹا نکلا۔لیکن ہم اِسے واقعی غلطی میں شمار نہیں کریں گے۔
  • Ruperts Albert.
    21xx کون ہے؟مجھے اِ س نام کو کوئی شخص نہیں ملا۔لیکن نائیک کو شک کا فائدہ پہنچاتے ہوئے،یہ حقیقی غلطی شمار نہیں ہو گی۔
  • 22. چاہے ارتقا کا نظریہ درست ہو یا نہ ہو،یہ واضح طور پر قابل ِ تخیل ہے کہ انسان نے بن مانس سے نشوونما پائی کیونکہ زیادہ تر تعلیم یافتہ ماہرین ایسا ہی سوچتے ہیں۔ایک بیان کے طور پر،اِسے جھوٹا قرار دینا بہت آسان ہے۔
  • 22x. ذاکر نائیک بار بار گمنام اشخاص کا ذکر کرتا ہے۔سر فرینک سلسبری کون ہے؟ایک مرتبہ پھر بہت جد و جہد کے بعد بھی اِس نام کا شخص نہیں مل سکا،لیکن ذاکر نائیک کو اِس شک کا فائدہ پہنچاتے ہوئے اِسے حقائق پر مبنی غلطی قرار نہیں دیا جائے گا۔
  • 23. یہ سروائٹ میٹ کون ہے؟چوتھی مرتبہ تلاش کرنے کے باوجود بھی ایسے کسی شخص کا سراغ نہیں مل سکا۔ایک شخص یہ تصور کر ے گا کہ
    نائیک ایسے لوگوں سے اچھی طرح واقف تھاجن کا وہ حوالہ دے رہا تھا۔لیکن ارتقا کی مخالفت کرنے والے چھے افراد کا اُس نے حوالہ دیا ہے جب کہ حقیقت میں وہ اُن میں سے صرف دو کے نام جانتا ہے۔
  • 24. paremishia ”پیرا میشیا“ نام کی کوئی چیز موجود نہیں ہے۔شاید اُن کا مطلب paramecium ”پیرامیشیم“ ہو۔لیکن amoebaکا paramecium ”پیرامیشیم“ میں ارتقائی تبدیلی بن مانسوں اور انسانوں کے درمیان ایک معمولی سے حیاتیاتی فرق کے بجائے ڈرامائی حیاتیاتی تبدیلی سے بھی کہیں زیادہ بڑی تبدیلی ہے۔
  • 25. Henses Crakeنام کا بھی کوئی شخص موجود نہیں ہے۔ شاید ذاکر نائیک Francis Crickکی بات کرتا ہے،جو DNA دریافت کرنے والے شخص کا اُس دریافت میں ساتھی تھا۔وہ بھی ارتقاء کے نظریے پر پورا یقین رکھتا تھا۔