کیا ذاکر نائیک کی منطق مُعتبر ہے؟
دارالعلوم دیوبند کے دار الافتاء نے جوبھارت کی سب سے مقبول ترین دینی علوم کی مرکزی درس گاہ ہے،اُس نے ذاکر عبدالکریم نائیک کے خلاف یہ فتویٰ دیا ہے کہ وہ:
”غیر مُقلّد ہے اور اُس کا علم اِتناگہرا نہیں ہے۔اِس لئے وہ معتبر نہیں ہے اور مسلمانو ں کو اُسے ہر گز نہیں سننا چاہئے۔“
ایک اَور فتویٰ یہ کہتا ہے:
ؔ”ہم جانتے ہیں کہ وہ غیر مُقلّدین کا ایک نمائندہ ہے،جو علم اور حکمت سے کوسوں دُور ہے،شرارت کی باتیں پھیلاتا ہے اور سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرتا ہے۔“
بہت سے دیگر علما،سائنس دانوں اور مسلم رہنماؤں نے ذاکر نائیک کے خلاف اِسی قسم کے بیاناتجاری کئے ہیں۔ مسلم علما ٹیلی وژن کے اِس مُبلّغ کے خلاف کیوں ہیں جو ”امن“ او ر”اسلام“کا پرچار کرنے کا دعویٰ کرتا ہے؟یہ مضمون چند ایسی وجوہات کا جائزہ لے گا کہ کیوں ذاکر نائیک غیر تعلیم یافتہ لوگوں کے مجمع میں تو مقبول ہے مگر تعلیم یافتہ علما کے نزدیک حقیر سمجھا جا تا ہے۔
اُس کے مخصوص چاہنے والوں کے نزدیک،اِس ٹیلی وژن کے دل بہلانے والے مُبلّغ نے اپنی بلا رکاوٹ انگریزی بولنے،پُر اعتماد مسکراہٹیں بکھیرنے اور دوسروں کے ایمان کو حقیر جاننے اوراُسے غلط معنی پہنانے کی قابلیت کی وجہ سے تقریباً ایک جدید فنکار کی حیثیت حاصل کر لی ہے۔ہم باقی بچ جانے والوں کے نزدیک وہ زبردست یادداشت کا ایک آلہ ہے مگرایک خراب منطق رکھتا ہے،آدھی سچائیوں کا شوقین،اور خطرناک حدتک انتہا پسندی کے نظریات رکھنے والا شخص ہے۔ سیاق و سباق سے باہر بیان شدہ اقتباسات،جھوٹے اعداد و شمار،اور جان بوجھ کر غلط تشریحات کے لئے ٹیلی وژن اُسے ایک زبردست ذریعہ فراہم کرتا ہے۔اِس کتابچے میں ہم ”ریموٹ کا وقفے کا بٹن دبائیں گے“اور بڑی تنقیدی نگاہ سے ذاکر نائیک کی منطق او راُس کے مواد کا جائزہ لیں گے۔
لیکن ذاکر نائیک کے چند منطقی نکات پر تنقید کرنے سے پہلے چند معاملات میں اُس کی تعریف کرنا اچھا ہے۔وہ اپنے سامعین کوخود سے اپنی مادری زبان میں قرآن مجید پڑھنے کی تحریک دیتا ہے جو بہت ضروری ہے۔وہ نوجوانوں کو مشہور شخصیات کو اپنا رہنما بنانے اور مادی اشیاکی پیروی کرنے سے باز رہنے اور اِس کے بجائے اللہ تعالیٰ کی تلاش کرنے پر اُبھارتا ہے۔وہ شراب نوشی،بے حیائی اور کنجوسی کے خلاف بات کرتا ہے۔اِن باتوں کے لئے اُس کی تعریف ہونی چاہئے۔
خاکہ
کیا ذاکر نائیک اسلام کی درست نمائندگی کرتا ہے؟
نائیک اور اسلامی نظریہ اورعلمیت
سائنس پر
مذاہب کے تقابل پر
نائیک اور دہشت گردی
نائیک کے طریقے
اِرتقا پر:25جملوں میں 25اَغلاط
واضح جھوٹے بیانات
مرد و خواتین کے تناسب کے اعداد و شمار
دنیا کے مذاہب،چیونٹی ”رہنما“
تبدیلی
شہری روایات(دنیا کا نقشہ)
صحائف کی ناخواندگی(بی بی حوّا او رگناہ)
تیزی کے ساتھ نصف سچائیاں بیان کرنا(کیمبل کے ساتھ مناظرہ)
سامعین کے تعصب کوابھارنا(سؤر)
کمپیوٹر کی مانند یاداشت(تیزی سے آیات کے نمبر بتانا)
غیر متحرک سامعین
بڑی تعداد میں اسلام قبول کرنا؟
امریکہ میں خیرات دینا
امریکہ میں ہم جنس پرستی
مغرب میں بدعنوانی اور رشوت ستانی
حجاب او رجنسی چھیڑ چھاڑ
منتخب عالمانہ اقتباسات
سیاق وسباق سے باہر صحائف کی آیات
لسانیاتی بازی گری
صحائف کو غلط پیش کرنا
دوہرے معیار
ٹیلی وژن کا ذریعہ
ناقابل ِ چیلنج مناظر کا افسانوی قصہ
کیا ذاکر نائیک اسلام کی درست نمائندگی کرتا ہے؟
ذاکر نائیک غیر مسلموں کے مسلمانوں کے بارے میں رکھے جانے والے منفی اور گھِسے پِٹے خیالات کو متصعبانہ، سرکش اور بددیانت بناتا ہے۔اِس لئے یہ مسلمانوں او رغیر مسلموں دونوں کے لئے یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ ذاکر نائیک اسلام کے مرکزی علما کی نمائندگی نہیں کرتا۔نائیک کے خیالات اسلام کے ایک ایسے گروہ کی نمائندگی کرتے ہیں جسے وہابی کہا جاتا ہے اور وہ گروہ سعودی عرب سے یہاں پہنچا ہے۔پچھلی چند دہائیوں سے
تیل کی پیداوار سے حاصل کئے گئے کروڑوں ڈالر سعودی عرب سے نچھاور کئے گئے تاکہ اِس قسم کے اسلام کا پرچار کریں اور ذاکر نائیک جیسے لوگوں کی مالی مدد کریں۔
بہت سے تعلیم یافتہ علما کے نزدیک،وہابی فرقہ کو سب سے بڑے سرطان اورمسلم اُمہ میں سب سے بڑے مرض کے طور پر دیکھا گیا ہے۔
مولانا محمود دریا آبادی جو آل انڈیاعلما کونسل کے جنرل سیکرٹری ہیں،وہ ذاکر نائیک کے بارے میں کہتے ہیں:
”وہ نہ تو کوئی عالم ہے او رنہ ہی کوئی مفتی (وہ جو فتویٰ دیتا ہے)۔وہ جیسا چاہتا ہے ویسے اسلام کا پرچار کرتا ہے۔لیکن اُسے عوامی جلسوں میں فتو ے جاری نہیں کرنے چاہئیں۔
عمرانیات کے ماہر امیتاز احمد لکھتے ہیں:
”سعودی لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اُنہیں یہ الہٰی حق ملا ہے کہ وہ پوری دنیا سے لوگوں کو تنگ نظر ی پر مبنی وہابی اسلام کے دائرہ میں لے آئے۔ ذاکر نائیک اُن کا عوامی نمائندہ ہے۔مخصوص وہابی فرقہ بھارت میں عمل میں لائے جانے والے عوامی اور برداشت پر مبنی اسلام کے لئے خطرہ ہے۔میَں نے ایک دو مرتبہ اُسے ٹیلی وژن پر سنا ہے او رمجھے سخت مایوسی ہوئی ہے۔“
بے شک ذاکر نائیک خود وہابی یا سلفی ہونے سے انکار کرے گا(جیسا کہ زیادہ تر وہابی کرتے ہیں)پھربھی اُس کے خیالات مخصوص حد تک وہابی ہیں۔وہابی نظریات شدید حد تک لکیر کے فقیر اور قدامت پسند ہیں جو سعودی عرب سے یہاں آئے ہیں جو بھارت کے بہت سے مسلمانوں کے نظریات کے دشمن ہیں اور وہ مہلک حد تک دوسرے مذاہب کی مخالفت کرتے ہیں۔ذاکر نائیک کے چند مخصوص وہابی نظریات ہیں جو بہت سے بھارتی مسلمانوں سے تضاد رکھتے ہیں:
حضرت محمد ﷺسے اِلتجا کرنا: ذاکر نائیک صوفی مسلمانوں سے انحراف کرتے ہوئے حضوراکرم سے اِلتجا کرنے کی سخت مذمت کرتے ہیں۔
شرعی قانون اور لادینیت پر: ذاکر نائیک دعویٰ کرتا ہے،”بھارت کے مسلمان اسلامی سزا کا قانون (شریعت)کو تمام بھارتیوں پرلاگو کرنے کو ترجیح دیں گے کیونکہ یہ زیادہ قابل ِ عمل ہے۔“
صوفی مُقدسین کا احترام کرنا: نائیک ایسے مسلمانوں کو ملامت کرتا ہے جو صوفی مقدسین کا احترام کرتے ہیں اور اُن کے مزاروں پر بطور
”قبروں کی عبادت کرنے“ والوں کے جاتے ہیں۔
دیگر عقائد پر: 2003ئمیں ٹورنٹومیں اپنی ایک تقریر میں نائیک یہ تسلیم کرتا ہے کہ مسلمانوں کے لئے یہ حرام ہے،منع ہے کہ وہ اپنے مسیحی دوستوں کو کرسمس کی مبارک دیں۔
سعودی عرب تیل کے پیسے یا تیل کی پیداوار سے حاصل کئے گئے ڈالرز سے جارحیت پسندی کی حد تک حرف بہ حرف عمل کرنے والی اسلام کی قسم کو پوری دنیا میں متعارف کروا رہا ہے۔
چند تعلیم یافتہ نامی گرامی مسلم علما نے ماتم کرتے ہوئے کہا کہ اُن کے زیادہ آزاد خیال اور علم و فضل کا نقطہ نظر رکھنے والے چینل نشر کرنے کے لئے تیل کی پیداوار سے حاصل کئے گئے چند ہی ڈالرزمیسر ہیں جو ٹیلی وژن کے ذریعے اِس طرح کی تشہیر کرنے والوں کا مقابلہ کر تے ہیں۔
8نومبر 2008ئمیں ایک انڈینز پریمئر مسلم سنی تنظیم،رضا اکیڈمی کے اراکین اکٹھے مل کر آئے تاکہ ذاکر نائیک کے پروگراموں پر پابندی لگانے کا مطالبہ کریں۔کولابا(Colaba)میں دارالعلوم حنفیہ رضویہ کے مولانااشرف رضانے بھی ذاکر نائیک کے خلاف ایک فتویٰ جاری کیا۔ اکیڈمی کے ایک رُکن ابراہیم تاہل نے کہا،”پہلے اُس نے مسیحیوں کو اپنا ہدف بنایا اور اب وہ سنی مسلمانوں کے خلاف ہے۔ہم
آر۔آر۔پاٹیل اور کے۔پرشاد سے ملے ہیں اور اُن سے اُس کے پروگرام پر پابندی عائد کرنے کو کہا ہے۔“اُس نے مزید کہا،”ہم جاننا
چاہتے ہیں کہ نائیک کو مالی مدد کہاں سے ملتی ہے؟“نمایاں بھارتی مسلمان جیسے کہ سلمان خورشیداور جاویداخترنے نائیک کے بارے میں جو کچھ محسوس کیا وہ اُس کی بھارتی مسلم برادری کو تبدیل کرنے اور فرقہ وارانہ جد و جہد کی شر انگیز کوششیں تھیں۔بھارتی مسلمانوں نے صوفی
پیروکاروں کو ”قبر کے پجاری“ کہنے پر اُس کو ملامت کی۔اِسی طرح برطانیہ کے مسلمانوں نے اُس کے اسلامی تاریخ،اسلامی علم ِ الہٰی سے بے بہرہ ہونے اور اُس کے متعصب وہابی نظریات پر اُس کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
دوسرے کئی مسلمانوں کے برعکس،ذاکر نائیک کے نزدیک اسلامی تاریخ کی حدود میں جو کچھ بھی ہے وہ بِنا کسی سوال کے مثبت ہے اور دائرہ اسلام سے جو کچھ باہر ہے وہ لازمی طور پربُرا اور بدی ہے۔اُس کے اسلام سے جو کچھ بھی باہر ہے وہ بالکل جہالت ہے جو کچھ بھی اسلامی اُمہ کے اندر ہے وہ مثالی او رکامل ہے۔یہ اچانک ردعمل اُس وقت عیاں ہوا جب اُس نے یہ کہہ کر یزید کو برکت دی،”رضی اللہ تعالیٰ عنہُ“،
جس کا مطلب ہے،”خدا اُس سے خوش ہو۔“یزید اسلام کے ابتدائی دور میں ایک غیر معروف شخص تھا،جسے سنی علما کہتے ہیں کہ وہ ”ایک فاسق تھا جس نے اپنی ماں،بہن اور بیٹیوں کے ساتھ ہم بستری کی،جس نے شراب پی اور جو نماز نہیں پڑھتا تھا۔ اُس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اُس نے مدینہ کے ایک حملے میں تقریبا ًایک ہزار عورتوں کی عصمت دری کروائی اور دس ہزار لوگوں کو اپنا غلام بنایا اور وہ غالباً اسدومی تھا۔تب بھی یہ شخص ذاکر نائیک کے نزدیک جنت میں جانے کے قابل ایمان دار تھا اور اُس کا دفاع اِس لئے کرنا چاہئے کیونکہ وہ اسلامی تاریخ کا ایک حصہ ہے۔
ذاکر نائیک کے نظریات اِس قسم کا وہابی قدامت پسندی،بنیاد پرستی،اور تنگ نظر ی کا اسلامی نظریہ پیش کرتے ہیں جس میں کسی قسم کی خود پر تنقید یا دیگر مذاہب یا ثقافتوں کو کھلے دل سے قبول کرنے کا کوئی بھی نشان نظر نہیں آتا۔اگر ہم اسلامی تاریخ کا مطالعہ کریں تو ایسی بہت سے باتیں ہیں جن پر ہم فخر کر سکتے ہیں جس میں ایک بہت بڑا تعلیمی اور سائنسی کا میابیوں کادَور بھی شامل ہے۔تب بھی اسلامی تاریخ کی چند ابتدائی صدیوں میں اِن کامیابیوں نے بھارتی تہذیب اور یونانی تہذیب جیسی دیگر ثقافتوں کے لئے بہت بڑے کھلے ذہن کے ساتھ مطابقت رکھی۔یہ وہ وقت تھا جب مسلم علما نے دیگر ثقافتوں کے علما کے ساتھ مل کر کام کرتے ہوئے اور اُن کے فلسفو ں کے ساتھ متحد ہوتے ہوئے اُن کے عظیم کاموں کا مطالعہ کیا اور اُس میں ضم ہو گئے۔اسلامی تاریخ کے عظیم ترین علما جیسے کہ ابن ِ سینااور ابن ِ رُشد دیگر ثقافتوں کی روایات کو کھلے دل سے قبول کرتے تھے مگر اُنہیں کافر قرار دیتے ہوئے ملامت کی گئی۔اِس نشا ۃِثانیہ کی تبدیلی، اسلامی عظمت کے زوال سے تب شروع ہوئی جب ذاکر نائیک جیسے تنگ نظرفلسفیانہ نقالوں نے تمام دیگر علم و فضل کو جہالت اور آزمائش قرار دے دیا اور یہ
تقاضا کیا کہ علما صرف”خالص“ اسلامی مضامین کا مطالعہ کریں۔ ذاکر نائیک کے ساتھ سب سے بڑی ستم ظریفی یہ ہے کہ اگرچہ وہ بڑے جوش و خروش سے اسلام کے سنہرے دَور کا ذکر کرتا ہے مگر یہ بالکل اُسی کی طر ح کاذہین ہے جس نے قبولیت کے اِس سنہرے دور کو تباہ کر دیا اور اِسے زوال کا شکار بنادیا۔
کیا ذاکر نائیک بہترین اسلامی علم ِ الہٰی اورعلمیت کی نمائندگی کرتا ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ ذاکر نائیک ایک تربیت یافتہ سرجن اورمنتخب صحائف کے حوالوں کی ایک چلتی پھرتی انسانی یاداشت کی ایک ڈرائیو ہے لیکن وہ کوئی مفکّر یا عالم نہیں ہے۔اسلامی علم ِ الہٰی اور تاریخ میں اُس کی تھوڑی سی عام تعلیم ہے۔اسلام کے چوٹی کے علم ِ الہٰی کے ماہرین اور سائنس دان ذاکر نائیک کے طریقہ کار اور تعلیم کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
مثلا ذاکر نائیک ایک بات کا شوقین ہے جسے ”بکاؤلے ازم“ (Bucailleism)کہا جاتا ہے یعنی ”قرآن مجید کے سائنسی معجزات“ جنہیں وہ اپنے ٹیلی وژن کے پروگرام میں پیش کرتا ہے۔تاہم مشہوربھارتی اسلامی علم ِ الہٰی کے ماہر جناب مولانا اشرف علی تھانوی (بہشتی زیور کے مصنف)اپنی کتاب ”اسلام اور عقلیات“میں اِس طریقہ کار کی مخالفت کرتے ہیں۔اِسی طرح مغرب اور عرب یونیورسٹیوں کے بہت سے نامی گرامی اسلامی سائنس دان ”بکاؤلے ازم“ سے اتفاق نہیں کرتے۔ضیاء اُلدین شاکراپنی کتاب،”Exlporations in Islamic Science“ میں سائنسی معجزات پر مناظرہ کو ”بُری طرز کا مناظرہ“ کہتے ہیں۔پین سٹیٹ یونیورسٹی کے مسلم مؤرّخ نعمان الحق”بیکاؤلے ازم“ کے سب سے بڑے نقاد ہیں جو بیکاؤلے ازم کے آغاز کو مسلمانوں میں ”بہت گہرا احساس کمتری“ قرار دیتے ہیں جن کو آبادیانی نظام نے تضحیک کا نشانہ بنایا اور وہ اسلامی سائنس کی گذشتہ عظمت کو حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ایک اور نقاد مظفر اقبال ہیں جو کینیڈا میں البرٹا میں اسلام اور سائنس کے مرکز میں صدر کے عہدے پر فائز ہیں۔مسلم عملی ماہر طبیعات اورپاکستان کے ایم۔آئی۔ٹی کے گریجویٹ پرویز ہود بائے لکھتے ہیں:
”ایسے دعوے کرنے والوں کا مسئلہ یہ ہے کہ اُن میں اِس بات کی وضاحت کرنے کی کمی ہوتی ہے کہ کیوں حجم کی تکنیک،مالیکیولز کی ساخت
وغیر ہ کو کہیں اَور دریافت ہونے کے لئے انتظار کرناپڑا۔اور نہ ہی کبھی کسی قسم کی مُستند پیشین گوئیاں کی گئیں۔اُن کے پاس اِس بات کی بھی کوئی دلیل موجود نہیں کہ اینٹی بائیٹکس،اسپرین،بھاپ کے انجن،بجلی،ہوائی جہاز،یا کمپیوٹر پہلے مسلمانوں نے کیوں ایجاد نہیں کئے۔بلکہ ایسے سوالات پوچھنا توہین آمیز سمجھا جا تا ہے۔“
ترکی کے فلسفی اور ماہر طبیعات جناب ٹینر ادیس لکھتے ہیں:
”قرآن -سائنس(بیکاؤلے ازم)رقت انگیز ہے لیکن بہت سے مسلمانوں نے بھی اِس بات کو تسلیم کیا ہے۔ جتنی انسٹیٹیوٹ فار کریشین ریسرچ مسیحیت کی ترجمانی کرتا ہے اُسی طرح یہ اُس سے زیادہ اسلام کا اظہار نہیں کرتی۔ تاہم وہ احمقانہ شدت جو میَں نے اُوپر بیان کی ہے وہ سائنس او رقدامت پسند اسلام کے درمیان مبہم تعلق کی وضاحت کرسکتی ہے۔جبکہ بہت سے ایمان دار
اِس مسئلے کے نظر انداز کرنے کو تیار ہیں اور قرآن مجید کے ساتھ مکمل سائنسی ہم آہنگی کا اظہار کرتے ہیں۔کچھ ماہرینِ اَدراکی متعلقہ راستہ اپناتے ہیں،یا اِس بات پر زور دیتے ہیں کہ سائنس کا بیان اسلام کے مطابق ہونا چاہئے،اِس لئے ہمیں فطرت کے اسلامی نظریے کو تسلیم کرنا ہے۔“
”اِسلامی سائنس“ کے حوالے سے،پاکستانی نوبل انعام یافتہ اور ماہر طبیعات جناب ڈاکٹر عبدالسلام لکھتے ہیں:
”صرف ایک عالمگیر سائنس ہے؛اِس کے مسائل اور اِس کے طریقے بین الاقوامی ہیں اور اسلامی سائنس جیسی کوئی چیز نہیں ہے جیسے کہ ہندو سائنس یا یہودی سائنس،یا کنفیوشین سائنس اور نہ ہی مسیحی سائنس ہے۔“
اپنے قدردانوں کے نزدیک،تقابلی مذاہب میں نائیک سب سے پیش پیش ہے۔جب کہ حقیقی مفکرین جیسے کہ سید حسین نصریا نعمان الحق دیگر مذاہب کے مفکرین کے ساتھ کہیں زیادہ سنجیدہ اورفطین بحث فراہم کرتے ہیں۔
ذاکر نائیک کا موجودہ دَور میں موجود توریت شریف،زبور شریف اور انجیل شریف کو مکمل طور پر ردّ کردینا کسی طرح بھی اسلامی علمیت کو پیش نہیں کرتا۔
سلطنت عمان کے سلطان اور عرب اوراسلامیات کے پروفیسر جناب عبداللہ سعید لکھتے ہیں:
”چونکہ یہودیوں او رمسیحیوں کے مُستندصحائف آج بھی اُسی حالت میں موجود ہیں جیسے وہ نبی اکرم حضر ت محمد ؐ کے دور میں تھے،اِس لئے یہ بحث کرنا قدرے مشکل ہے کہ قرآن مجید میں کیا گیا توریت شریف او رانجیل شریف کا ذکر صرف ”اصلی“زبور شریف او ر
انجیل شریف کی طرف اشارہ ہے جو حضرت موسیٰ او رحضرت عیسیٰ المسیح کے زمانے میں موجود تھی۔اگر یہ متون کم و بیش ویسے ہی ہیں جیسے وہ ساتویں صدی میں تھے،او رقرآن مجید نے اُنہیں تعظیم بخشی تو پھر و ہ تعظیم آج بھی قائم رہنی چاہئے۔قرآن شریف کے بہت سے مفسر، الطبری سے لے کر رازی تک،بلکہ ابن تیمیہ تک اور حتیٰ کہ قطب بھی اِسی خیال کو بیان کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
موجودہ دَور میں بہت سے مسلمانوں کا یہودیت او رمسیحیت کے صحائف کو ردّ کر دینے کا اپنا یا ہوا رویہ خود قرآن مجید اور تفاسیر کرنے والی بڑی شخصیات کی حمایت کرتے ہوئے دکھائی نہیں دیتا ہے۔“
ذاکر نائیک اور دہشت گردی
ایک وہابی قدامت پسند ہوتے ہوئے ذاکر نائیک دہشت گردی کی مذمت کرتے ہوئے ہچکچاہٹ محسوس کرتا ہے۔جب اُس پر طالبان اور القاعدہ کی زیادتیوں کی مذمت کرنے کے لئے دباؤ ڈالا گیا تو اُس نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا اور یہ بیان دے کر شہرت کھو بیٹھا،”ہر مسلمان کو دہشت گرد ہونا چاہئے،او راگر اُسامہ امریکہ کے خلاف لڑ رہا ہے تو میں اُس کے ساتھ ہوں۔“
بظاہر ذاکر نائیک کی اُسامہ بن لادن سے کوئی رُوبرو ملاقات نہیں ہوئی،لیکن بکاؤلے ازم کا چمپئین ہونے کے ناطے،ذاکر نائیک کو اُسامہ بن لادن کی طرف سے اُس کے بکاؤلے ازم کے وسائل کے لئے براہ ِ راست مالی مدد ملتی تھی۔ برطانیہ میں نائیک کے ایک مخالف نے لکھا کہ کس طرح نائیک کے بڑے بڑے قدر دان خود کش بمبار او ردہشت گرد ہیں۔احمد کفیل جس نے گلاسکو ائیر پورٹ پر خود کش حملہ کیا تھااُس نے ذاکر نائیک کو دعوت دی تھی کہ وہ بنگلور آ کر اُسے او راُس کے دوستوں کو ایک درس دے۔جب کراچی کی لال مسجد میں سے پاکستانی طالبان کو زبردستی نکالا گیا تو ڈان اخبار نے یہ رپورٹ دی کہ وہاں سے ذاکر نائیک کی کئی کیسٹس ملیں۔
نائیک کے طریقے
نائیک نے پروپیگنڈہ(غلط منصوبہ بندی) کو عروج پر پہنچایا ہے۔ یہ مسلسل نصف سچائیوں،متن سے باہر اقتباسات اورجھوٹے اعدادوشمار کے استعمال سے علمیت کی وسعت کو محدود کرتاہے۔اِس میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ اپنے خلاف کسی بھی مدبّر مناظرہ کرنے والے جیسے کہ سیم شمعون اور علی سینا کے ساتھ مناظرہ کرنے سے کتراتا ہے۔
درج ذیل میں اُن طریقوں کا ذکر کروں گا جو ذاکر نائیک استعمال کرتا ہے اور ہر ایک کی مثال بھی پیش کروں گا۔
دوٹوک بیان کرتے ہوئے،نائیک کی بہت سی معلومات بالکل جھوٹی ہیں۔آئیے! نائیک کی تقاریر میں سے ایک صفحہ مثال کے طور پر لیتے ہیں۔یہ ارتقا کے موضوع پر ہے،جو یو ٹیوب پر بھی با آسانی دیکھا جا سکتا ہے۔
اِرتقا پر:5منٹ میں 25اَغلاط
(ڈاکٹرنائیک) ”نسلوں کا ارتقا“ میں وہ کہتا ہے کہ چارلس ڈارون ایک جہاز بنام HMS Beagleپر ایک ایسے جزیرے میں گیا جس کا نام (Keletropist) کلوتراپسٹ (1) ہے،وہاں اُس نے ایسی چڑیاں دیکھیں جو چونچوں سے سوراخیں (2) بناتی تھیں۔اپنے ماحول پر انحصار کرنے کی وجہ سے وہ سوراخیں بناتی ہیں،اِس لئے اُن کی چونچیں چھوٹی یا لمبی ہوتی رہیں۔ یہ مشاہد ہ ایک جیسی اقسام میں کیا گیا نہ کہ مختلف اقسام میں (3,4) .
چارلس ڈارون نے اپنے ایک دوست تھامس تھرامٹن کو 1861ء میں ایک خط میں لکھا،”میَں فطری انتخاب پر یقین نہیں رکھتا۔“ (5) وہ لفظ جو تم استعمال کرتے ہو،”ارتقا کا نظریہ“، میں اُس پر یقین نہیں کرتا کیونکہ میرے پاس اِس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔میَں اِس پر صرف اِس لئے یقین رکھتا ہوں کہ اِس سے مجھے عمل ِتولید،علم ِ نباتات،بنیادی اعضا کی تقسیم میں مدد ملتی ہے۔چارلس ڈارون نے خود کہا کہ اِس میں کچھ رابطے غائب تھے، وہ خود اِس سے متفق نہیں تھا،اُس نے خود کہا کہ کچھ رابطے غائب تھے…(6) .
… وجہ یہ ہے کہ اگر آپ کلیسیا کا تجزیہ کریں تو ماضی میں کلیسیا سائنس کے خلاف تھی۔ (7) اور آپ واقعہ سے واقف ہیں کہ اُنہوں نے گلیلیو کو موت کے گھاٹ اُتار دیا (8)؛اُنہوں نے گلیلیو کو موت کے گھاٹ اُتار دیا (8) ، کیوں؟کیونکہ اُس نے علم ِ نجوم سے کچھ ایسے بیانات دیئے تھے جو بائبل کے خلاف تھے، اِس لئے اُنہوں نے اُسے موت کے گھاٹ اُتار دیا(8) ،جس کی وجہ سے آج پوپ معذرت خواہ ہے۔اِس لئے جب چارلس ڈارون نے ایسا نظریہ پیش کیا جو کتاب المقدس کے خلاف تھا تو پھر اُنہیں،تو پھر اُنہیں کسی اَور
ثبوت کی ضرورت نہیں تھی۔میرے دشمن کا دشمن میرا دوست ہے‘، اِس لئے تمام سائنس دانوں نے،تقریباً اُن سب نے،اِس نظریے کی حمایت کی(9) اِس لئے نہیں کہ یہ سچا تھابلکہ اِس لئے کہ یہ کتاب المقدس کے خلاف تھا۔
…تمام مراحل میں …چار ہومونائٹس ”homonites“ (10) ہیں ، آج سائنس ہمیں بتاتی ہے کہ چار”ہومونائٹس“ (11) ہیں، پہلی قسم لوسی (Lucy)ہے اور اُس کے ساتھ اُس کا نر”ڈوسنو فیچسٹ“ (sic] Dosnopytichest, [12) بھی ہے، جو تقریبا ًساڑھے تین ملین سال قبل(برفانی دور) (13) میں مر گیا۔ اُسکے بعد ”ہو مو سیپینز“(Homo sapiens)آتے ہیں جو پانچ ہزار سال قبل مر چکے ہیں۔ (14) ، پھر ”نی انیڈرتھل مین“ “Neanderthal Man,” (15) آتے ہیں، جو سو سے لے کر چالیس ہزار سال قبل مرے (16) ، پھرچوتھا مرحلہ آیا، ”کرومیگنون“(17) ،- اِن تمام مراحل میں کوئی ربط موجود نہیں ہے (18) ۔ ئمیں پی۔پی۔گریس کے مطابق جو Sorbonne University, (18x) میں پیرس میں ارتقائی مطالعہ کا چیئر مین تھا ، اُس نے کہا ”یہ بے ہودہ بات ہے،ہم زمین سے نکالے ہوئے قدیم اجسام(fossils).. کی بنیاد پر نہیں کہہ سکتے کہ ہمارے آباواجداد کون تھے (18xx) ۔۔۔ سر البرٹ جارجی، (19) جسے وٹامن سی ایجاد کرنے پر (20) نوبل انعام ملا، اُ س نے ڈارون کے نظریے کے خلاف ایک کتاب لکھی،”The Crazy Ape and Man“۔ (21) پھر، سر فریڈ ہالے کاکام،اُس نے ڈارون کے نظریے کے خلاف کافی کام کیا. (21x) ۔ اگر آپ جانتے ہیں روپرٹس البرٹ کو –اِس شخص نے ارتقا پر ایک نئی تھیوری لکھی ڈارون کی تھیوری کے خلاف. (21xx) ۔ یہ ناقابلِ تخیل ہے۔ آپ یہ سوچ نہیں سکتے کہ ہم ایک بن مانس سے خلق کئے گئے ہیں (22) ۔ اگر آپ سر فرینک سلسبری، (22x)کو جانتے ہیں (وہ ماہر حیاتیات تھا)،اُس نے کہا،”ڈارون کے نظریے پر یقین کرنا غیر منطقی ہے۔“ سر وائٹ میٹ (23)،اُس نے ڈارون کے نظریے کے خلاف ایک کتاب لکھی،وہ بھی ایک ماہر حیاتیات تھا،… نچلی سطح پر امیبا …امیبا تبدیل ہو سکتا ہے پیر امیشیا (24) ۔ ہینسس کریک کے مطابق جو اِس میدان میں بااختیار ہے (25) ، اُ نہوں نے کہا،”یہ ناقابلِ یقین ہے۔“
اب غلطیاں یہ ہیں:
- 1. کلوتراپسٹ (Keletropist)جزیرے جیسا دُنیا میں کوئی جزیرہ نہیں ہے۔یہ گلاپاگوس (Galapagos)کے جزیرے تھے
جہاں ایک مرتبہ ڈارون گیا تھا او روہاں اُس نے چڑیاں دیکھی تھیں۔
- 2. جیسے کہ ذاکر نائیک کہتا ہے یہ چڑیاں ”گھونسلوں میں نہیں رہتیں۔وہ اپنی الگ موافق حالات والی جگہوں پر رہتی ہیں“۔ڈاکٹر ذاکر نائیک کو شاید اِس کے بارے میں مبہم سی آگاہی ہے۔
- 3. ایسا نہیں ہے،ڈارون کے نزدیک چونچوں کے مختلف ہونے کا نظریہ چڑیوں کی چودہ مختلف اقسام کی تحقیق پر مبنی ہے نہ کہ ایک چڑیا پر جیسے ذاکر نائیک دعویٰ کرتا ہے۔چونچوں کی لمبائی دراصل اقسام کے اندر مختلف نہیں تھی۔کسی بھی درسی کتاب میں دیکھ لیں۔
- 4. اِن چڑیوں میں ڈارون نے جو فرق دیکھا وہ صرف چونچ کی لمبائی کا ہی نہیں ہے اِس میں اُن کا رنگ،حجم،جنسی رویہ،گیت،اور پسندیدہ خوراک بھی شامل ہے۔درحقیقت،وہ اتنی مختلف تھیں کہ ڈارون کو یہ بھی پتا نہیں چلا کہ وہ سب چڑیا ں ہیں۔
- 5. ڈارون کا سارا کام اب شائع ہو چکا ہے اور کمپیوٹر پر آن لائن بھی موجود ہے اور اُس مواد میں کسی تھامس تھرامٹن نامی شخص کا ذکر نہیں ہے اور
نہ کہیں ایسے خط کا کوئی ذکر پایا جاتا ہے۔ڈارون یہ الفاظ استعمال نہیں کر سکتا تھا،”میَں ارتقا کے نظریے پر یقین نہیں رکھتا کیونکہ اِ س کا میرے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے،“ کیونکہ دو سال قبل اُس کی شائع ہونے والی کتاب میں بھی اِس کا ذکر پایا جاتا ہے،چاہے ہم اُس کے نظریے پر یقین رکھیں یا نہ رکھیں۔کوئی ایسا شخص ہو گا جس کا نام تھامسن ہو گا مگر ڈارون نے کوئی خط تھامسن کو نہیں لکھا۔
- 6. ڈارون نے یہ تسلیم کیا کہ اِس نظریے میں کچھ روابط ناپید ہیں لیکن اِس کا یہ ہر گز مطلب نہیں کہ اُس نے اپنے ہی نظریے سے اختلاف کیا ہے، صرف اُس نے یہ پیشن گوئی کی تھی کہ گمشدہ روابط کہاں سے مل سکتے ہیں۔
- 7. کلیسیاکبھی سائنس کے خلاف نہیں تھی۔ گلیلیو کے وقت کے تقریباً تمام عظیم یورپی سائنسدان کٹّر مسیحی تھے جن میں خود گلیلیو بھی شامل ہے۔ نیوٹن،کوپرنیکس،کیپلر،بوائل، لینیئس،پاسکل جیسے تمام لوگ کتاب مقدس پر ایمان رکھنے والے لوگ تھے۔
- 8. گلیلیو جو ایک کٹّر کیتھولک مسیحی تھا اُسے موت کی سزا نہیں ہوئی تھی بلکہ اُسے 22جون 1633ء میں عمرقید کی سزا دی گئی تھی اور پھر وہی سزا گھر میں قید رکھنے کی سزا میں بدل دی گئی تھی۔اُس قید کے آٹھ سال بعد وہ بڑھاپے کی عمر میں 8 جنوری 1642ء کی ایک شام کو انتقال کر گیا۔
گلیلیو اِس بات پر پختہ ایمان رکھتا تھا کہ اُس کے نظریات کتاب مقدس کے ساتھ مطابقت رکھتے تھے اور اُس نے ایک کتاب بھی لکھی جو
مسیحیوں کے ابتدائی تراجم جیسے آگسٹین نے کئے،اُن پر دیئے گئے دلائل پر مبنی تھی۔ذاکر نائیک اِس کے متعلق دو مرتبہ جھوٹا بیان دیتا ہے
لیکن ہم اِسے ایک غلطی تسلیم کر لیتے ہیں۔
- 9. دراصل زیادہ تر سائنسدان کئی سالوں تک ڈارون کے نظریے سے متفق نہیں تھے اور اِن سائنسدانوں میں سے زیادہ تر نے کتاب مقدس کو عزت اور فوقیت دی۔بنیادی طور پر،ڈاکٹر ذاکر نائیک کا بیان بالکل جھوٹ پر مبنی ہے۔
- 10. ڈاکٹر نائیک نے یہاں جو کچھ کہاہے وہ غلط ہے۔ ”ہو مونائٹس“ (homonites)جیسا کوئی لفظ ہے ہی نہیں،یقینا اُس کا مطلب ”ہومینڈز“(Hominids)ہو گا۔
- 11. صرف چار”ہومینڈز“(hominids)نہیں تھے بلکہ کم از کم چودہ ہیں۔
- 12. ”ڈوسنو فیچسٹ“ جیسا کوئی ”ہومونڈ“ (homonid)ہے ہی نہیں۔ Lucyایک ”آسٹرل فیئیکس عفرنس“ تھا۔
- 13. Ice age سواتین ملین (۳۳لاکھ)سال پہلے نہیں تھی بلکہ ڈیڑھ ملین (۱۵لاکھ)سال اور دس ہزار سال کے درمیانی عرصہ میں موجود تھی۔
- 14. Homo sapiens پانچ لاکھ سال پہلے ختم نہیں ہوئے تھے بلکہ میَں او رآپ او رذاکر نائیک بھی homo sapiens
ہے،اگرچہ اُسے معلوم نہیں ہے کہ وہ ہماری ہی نسل سے ہے۔.
- 15. ٭ نظریہ ِ ارتقاء کے مطابق ”نی اینڈرتھل مین“(Neanderthal man) پتھروں کے دَور کے انسان آج موجود ہ انسان کے رُوپ میں موجود نہیں بلکہ یہ Ice ageکے وقت کی نسل ہے۔
- 16. پتھروں کے دَور کا انسان ۳۰ ہزار سال پہلے ناپید ہو چکا تھا نہ کہ ”ایک سو سے چالیس ہزار سال پہلے“۔
- 17. ”کرو میگنون“ انسان (Cro-Magnon man)بھیHomo Sapiensکی ہی شکل ہے جس کاذکر ذاکر نائیک نے مختلف ابتدائی اقسام کے طور پر کیا تھا۔
- 18. دراصل ارتقاء کے ماہرین نے بہت سی مثالیں تلاش کی ہیں جن کی بدولت وہ اِن اَدوار میں روابط قائم کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں،مثلاً ”آسٹرل فیئیکس عفرنس“ اور”ہو موسیپنیز“ کے درمیان وہ ”ہومو ہیبیلس“، ”ہو مو اِرگیسٹر“ اور”ہومو ہیڈل بر جینسپس“کا دعویٰ کرتے ہیں۔ہم اِس شہادت کے وا ضح ہونے سے تضاد رکھ سکتے ہیں لیکن اِن تمام مراحل میں کسی بھی قسم کے ربط کے ہونے سے مکمل طور پر انکار نہیں کر سکتے۔
- 18x. پیرس میں یا کہیں اور “Sojerion University.” نام کی کوئی یونیورسٹی نہیں۔گریس نے یونیورسٹی آف پیرس میں پڑھایا تھا جو “Sorbonne”بھی کہلاتی ہے۔
- 18xx. تیس سال قبل دیاگیا یہ بیا ن جوسیاق وسباق سے باہر لے کر بیان کیا گیا پی پی گریس کی مجموعی رائے کی غلط تشریح کرتا ہے،جس کی تحقیق نے ارتقا کی مکمل حمایت کی۔وہ اُس وقت محض جلدی میں ڈھانچوں کے ریکارڈپر تبصرہ کر رہا تھا،اور ارتقا کے خلاف کوئی بیان نہیں دے رہا تھا۔لیکن ہم اِسے نائیک کی غلطی نہیں کہیں گے۔
- 19. جھوٹ،سر البرٹ جارجی نامی کسی بھی شخص نے کبھی نوبل انعام نہیں جیتا۔دیکھ لیں۔اُس کا مطلب Albert Szent-Györgyi von Nagyrapolt.ہوگا۔
- 20. Gyorgyiنے وٹامن سی ایجاد نہیں کی تھی بلکہ دریا فت کی تھی۔ وٹامن سی ایک قدرتی عنصر ہے،اُسے ایجاد کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
- 21. Albert Szent Gyogyiکی کتاب ”The Crazy Ape and Man“نہیں کہلاتی بلکہ صرف
The crazy Apeکہلاتی ہے۔اور یہ کتاب ارتقاء کو جھوٹا قرار نہیں دیتی بلکہ یہ صرف ایک معاشرتی تبصرہ ہے۔
- 21x. فریڈ ہالے کوئی ماہرطبیعات نہیں تھا بلکہ وہ ایک ماہر نجوم تھا۔اُس کا اپنے میدان میں ایک بڑا کام یہ تھا کہ اُس نے کائنات کا نظریہ پیش کیا تھا مگر وہ بھی جھوٹا نکلا۔لیکن ہم اِسے واقعی غلطی میں شمار نہیں کریں گے۔
- Ruperts Albert.
21xx کون ہے؟مجھے اِ س نام کو کوئی شخص نہیں ملا۔لیکن نائیک کو شک کا فائدہ پہنچاتے ہوئے،یہ حقیقی غلطی شمار نہیں ہو گی۔
- 22. چاہے ارتقا کا نظریہ درست ہو یا نہ ہو،یہ واضح طور پر قابل ِ تخیل ہے کہ انسان نے بن مانس سے نشوونما پائی کیونکہ زیادہ تر تعلیم یافتہ ماہرین ایسا ہی سوچتے ہیں۔ایک بیان کے طور پر،اِسے جھوٹا قرار دینا بہت آسان ہے۔
- 22x. ذاکر نائیک بار بار گمنام اشخاص کا ذکر کرتا ہے۔سر فرینک سلسبری کون ہے؟ایک مرتبہ پھر بہت جد و جہد کے بعد بھی اِس نام کا شخص نہیں مل سکا،لیکن ذاکر نائیک کو اِس شک کا فائدہ پہنچاتے ہوئے اِسے حقائق پر مبنی غلطی قرار نہیں دیا جائے گا۔
- 23. یہ سروائٹ میٹ کون ہے؟چوتھی مرتبہ تلاش کرنے کے باوجود بھی ایسے کسی شخص کا سراغ نہیں مل سکا۔ایک شخص یہ تصور کر ے گا کہ
نائیک ایسے لوگوں سے اچھی طرح واقف تھاجن کا وہ حوالہ دے رہا تھا۔لیکن ارتقا کی مخالفت کرنے والے چھے افراد کا اُس نے حوالہ دیا ہے جب کہ حقیقت میں وہ اُن میں سے صرف دو کے نام جانتا ہے۔
- 24. paremishia ”پیرا میشیا“ نام کی کوئی چیز موجود نہیں ہے۔شاید اُن کا مطلب paramecium ”پیرامیشیم“ ہو۔لیکن amoebaکا paramecium ”پیرامیشیم“ میں ارتقائی تبدیلی بن مانسوں اور انسانوں کے درمیان ایک معمولی سے حیاتیاتی فرق کے بجائے ڈرامائی حیاتیاتی تبدیلی سے بھی کہیں زیادہ بڑی تبدیلی ہے۔
- 25. Henses Crakeنام کا بھی کوئی شخص موجود نہیں ہے۔ شاید ذاکر نائیک Francis Crickکی بات کرتا ہے،جو DNA دریافت کرنے والے شخص کا اُس دریافت میں ساتھی تھا۔وہ بھی ارتقاء کے نظریے پر پورا یقین رکھتا تھا۔
سو ہم نے دیکھ لیا کہ520الفاظ یا25جملوں میں،ڈاکٹر نائیک نے واضح پچیس غلط بیانات دئیے ہیں۔
جوہر جملے کے حساب سے ایک غلط بیانی بنتی ہے۔ڈاکٹر نائیک ایک بہت ہی کرشماتی شخصیت کا حامل ہے اور بہت زبردست
واعظ بھی ہے۔لیکن اگریہ ردعمل اُس کی تقاریر کے متن کی خصوصیت ہے،تو وہ بہت نااہل مفکر ہے۔اُس کے اقتباسات میں اتنی غلطیاں ہیں کہ پریشانی ہونے لگتی ہے۔ وہ شاید ہی کوئی نام درست لیتا ہو۔جن خیالات پر وہ تنقید کرتا ہے اُن کی بنیادی تفصیلات کو جاننے میں ناکام ہے۔ حتیٰ کہ تاریخ کے سادہ اور مشہور واقعات کوبھی نہیں جانتا،جیسے کہ آیا گلیلیو کو موت کی سزا دی گئی تھی یا نہیں۔
چونکہ اُس کے بہت سے سامعین اُس کے دیئے گئے اعداد و شمار کی جانچ پرکھ نہیں کر تے اِس لئے وہ آزادانہ جھوٹے اعداد و شمار دیتا ہے
چند مثالیں درج ذیل ہیں:
مرد و خواتین کے تناسب کے اعداد و شمار
نائیک اِس حقیقت کی بنیاد پر کثرتِ اَزواج پر اپنی دلیل قائم کرتا ہے کہ مغرب میں مردوں کی نسبت عورتیں زیادہ ہیں،جب کہ بہ
آسانی دیکھے جانے والے اعداد وشمار اِس کے بالکل برعکس ہیں۔ذاکر نائیک کہتا ہے:
”اگر ہر ایک عورت صرف ایک مرد سے شادی کرے تو امریکہ میں تیس ملین عورتیں ہو ں گی،برطانیہ میں چار ملین،جرمنی میں پانچ ملین،اور
روس میں نو ملین ایسی عورتیں ہوں گی جنہیں کوئی شوہر نہیں ملے گا۔تو ایسی عورتیں جن کو شوہر نہیں ملے اُن کے پاس دو باتیں کرنے کو ہوں گی یا تو وہ کسی شادی شدہ مرد سے شادی کر لیں یا پھر لوگوں کی ملکیت بن جائیں۔“
اُس کے قدر دان اُس کی منطق سن کر خوش ہو تے ہیں،مگر اُس کے اعدادوشمار کی جانچ پڑتال نہیں کرتے۔کئی شائع شدہ وسائل،جیسے ”ورلڈ فیکٹ بُک“ (جو بہ آسانی آن لائن دستیاب ہے)بڑے اختصار کے ساتھ اِس کے برعکس بتاتی ہے کہ اِن میں سے ہر ایک ملک میں عورتوں کی نسبت مرد زیادہ ہیں۔
جنس کا تناسب (شادی کے قابل عمر65-16) |
|
مرد |
خواتین |
اضافی مرد |
جرمنی |
104 |
100 |
1.03 ملین |
برطانیہ |
103 |
100 |
527,000 |
دنیا میں کُل تعداد |
102 |
100 |
43 ملین |
وہ اپنی بات جاری رکھتا ہے:
”دنیا میں خواتین کی آبادی مردوں کی آبادی سے زیادہ ہے۔“
ایسا نہیں ہے،اِس وقت زمین پر 3,059,307,647مرداور3,019,466,887خواتین ہیں۔دوسرے الفاظ میں خواتین سے
40ملین مرد دنیامیں زیادہ ہیں۔میَں اپنے قاری کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ یہ اعداد و شمار Wikipedia, یا World Factbook, یا پھر کسی اَور قابل قبولِ عالمگیر ذریعہ پر دیکھ لیں۔
نائیک باربار اِس بات کا دعویٰ کرتا ہے:
”واحد اسلام ایسا غیر مسیحی مذہب ہے جو حضرت عیسٰی المسیح کو خدا کا نبی مانتا ہے۔“
نائیک ’’تقابلِ اَدیان“ کا نام نہاد مفکر کہلاتا ہے، دنیا کے ساتویں بڑے مذہب،بہائی ایمان سے بے خبر ہے۔یہ مذہب جو
حضرت عیسیٰ المسیح او رحضرت محمد ﷺ دونوں کوانبیا مانتا ہے،جین مت یا زرتشت دونوں سے بڑا مذہب ہے۔بریٹینیکا[ 2005 ء] یہ 247ممالک اور علاقوں میں قائم ہے؛جو 2,100، ثقافتی،نسلی اور قبائلی گروہوں کی ترجمانی کرتا ہے اور ایسے صحائف رکھتا ہے جن کا800سے زیادہ زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے اور اِن کے دنیا میں سات ملین پیروکار ہیں۔پھر بھی ذاکر نائیک اپنے سامعین کی جہالت سے کھیلتاہے اور علم و فضل کا دعویٰ کرتا ہے۔
نائیک نے مسیحی صحائف پر یہ کہتے ہوئے تنقید کی ہے کہ سخت محنت کرنے والی اکٹھی چیونٹیوں کا ”نہ کوئی سردار،نہ ناظر نہ حاکم ہے“(امثال 7:6)۔نائیک کہتا ہے کہ یہ چیونٹیوں کے لئے ’غیر سائنسی‘ ہے کیونکہ اُن کی ایک حکمران ملکہ یا نگران ہوتی ہے۔چیونٹیوں کی ثقافت کا بغور مطالعہ آپ کو بتائے گا کہ ’ملکہ‘ کسی طرح بھی حکمران نہیں ہوتی۔اِس کے بارے میں ایک معروف انسائکلوپیڈیا یہ کہتا ہے:
”ملکہ“ کی اصطلاح اکثر گمراہ کرتی ہے کیونکہ مجموعی طور پر ملکہ کا کالونی پر کوئی اختیار نہیں ہوتا۔وہ ایک معروف اور فیصلے کا اختیار رکھنے والی ہستی کے طور پر جانی نہیں جاتی؛اِس کے بجائے اُس کا اپنا کام محض بچے پیدا کرنا ہے۔اِس لئے ملکہ کو کالونی کی حکمران کی بجائے پیداوار میں اضافے کرنے والی سمجھا جائے۔“
تب نائیک یہ کہتے ہوئے ایک بیہودہ جھوٹ بولتا ہے کہ چیونٹیوں کا ایک ’ناظر‘ (کام کرنے والے عملے کا نگران)ہوتا ہے۔جب کہ کچھ چیونٹیاں سپاہیوں کا کام کرتی ہیں جو دوسری چیونٹیوں کی کالونیوں سے لڑتی ہیں۔چیونٹیوں کی ثقافت میں ایسا کچھ نہیں ہوتا جسے کہیں دُور سے بھی ناظر کہا جائے۔
ذاکر نائیک لوگوں کے اپنے مذہب کوتبدیل کر کے دائرہ اسلام میں آنے کی وجہ سے اِسلام کو بڑی باقاعدگی سے تیزی سے پھیلتا ہوا مذہب کہتا ہے۔ یہ سچ نہیں ہے۔ہاں،اسلام اوسط کے لحاظ سے تیزی سے پھیلتا ہوا مذہب ضرور ہے،اور یہ عدم تناسب کے باعث تیزی سے بڑھتی ہوئی شرح ِ پیدائش کی وجہ سے ہے،کسی کے مذہب کی تبدیلی کی وجہ سے نہیں۔آکسفورڈیونیورسٹی پریس کا وہی ذریعہ جو دعویٰ کرتا ہے کہ اسلام سب سے زیادہ پھیلتا ہوا مذہب ہے،وہ یہ بھی بتاتا ہے کہ دنیا کے چھ بڑے مذاہب میں سے جو تیزی سے پھیل رہے ہیں،
اُن میں مسیحیت سب سے اوّل درجے پر ہے۔قاری کو حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ وہ آن لائن اِن اعدادوشمار کو پڑھ لے۔
نائیک افواہیں بنانے کے لئے مشہور ہے جو وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ جھوٹ میں تبدیل ہو گئی ہیں:
”..اورجن لوگوں نے دنیا کا پہلا نقشہ بنایا وہ مسلمان تھے ..“ 24
یوں لگتا ہے کہ نائیک نے ایک مصری مفکر”بطلیموس“ (ptolemy)کے بارے میں نہیں سنا جس نے پہلی بار دنیا کا نقشہ اسلام کی آمد سے پانچ سو سال پہلے بنایا۔شاید نائیک 1513ئمیں بنائے گئے Piri Reisکے نقشے کی طرف اشارہ کر رہاہو گا جو بطلیموس (ptolemy) سے جدید دنیا کے دنیا کے نقشے کی طرف آہستگی سے بڑھنے کے ایک چھوٹے سے قدم کو ظاہر کرتا ہے۔یہ ہمیں ایک افواہ کی یاد دلاتا ہے کہ کس طرح بائر نے بخاری کی مکھی کے پر”Fly-wing“کی دوا ایڈز کا علاج ایجاد کرنے کے لئے استعمال کی تھی یا یہ کہ کس طرح نیل آرمسٹرانگ نے جب چاند پر اذان سنی تو وہ مسلمان ہو گیاجسے برصغیر کے مسلمانوں میں بڑی تیزی سے پھیلایا گیا۔
اُس کے سامعین کی ایک بڑی تعداد نے کبھی بھی پورے قرآن مجید کو اپنی مادری زبان میں نہیں پڑھا ہے اور چند ہی ہیں جنہوں نے کتاب
مقدس کو پڑھا ہے۔ یہ کم افراد جنہوں نے اِن صحائف کو پورے طور پر پڑھا ہے چاہے وہ مسلمان ہوں یا نہ ہوں،دونوں ہی سیاق وسباق سے باہر اقتباسات سے صحائف کو بگاڑنے پر اُسے حقارت سے دیکھتے ہیں۔صحائف کی یہ ناخواندگی اُسے ایسی بے سروپا باتیں کہنے کے قابل بناتی ہے جیسے،” میَں کتاب المقدس سے ثابت کرسکتا ہوں کہ حضرت عیسیٰ المسیح مصلوب نہیں ہوئے تھے“اور”اگر کتاب مقدس میں آپ پڑھیں، پیدایش 3باب تو وہاں صرف بی بی حّوا ہی انسان کے گناہ میں گرنے کی ذمہ دار ہے۔“اگر آپ توریت شریف یا اناجیل سے واقف ہیں تویہ بیانات محض نامعقول ہیں۔
تیزی کے ساتھ نصف سچائیاں بیان کرنا
دوسرے صحائف کو کم تر سمجھتے ہوئے آدھی سچائی بیان کرنے میں پانچ سیکنڈ لگتے ہیں مگر حقائق او ردلائل کا استعمال کرتے ہوئے اُسی نصف سچائی کو بیان کرنے میں تقریباً دس منٹ لگتے ہیں۔نائیک کتاب المقدس،قرآن مجید اور سائنس پر ایک مسیحی مشنری ولیم کیمبل کے ساتھ جسے اُس نے مناظر ے کی دعوت دی تھی،اپنے ایک مناظرے میں اِس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھاتا ہے۔جو کچھ ہوا درج ذیل میں اُس کا ایک خاکہ موجود ہے:
1. کیمبل بڑی احتیاط کے ساتھ قرآن مجید میں موجود دو یا تین معجزات پر تفصیل کے ساتھ تردید کرتے ہوئے آغاز کرتا ہے۔وہ ہر نکتے کو دس منٹ دیتا ہے۔اِس میں اُس کا زیادہ وقت لگ جا تا ہے۔
2. نائیک مختصراً اِن نکات کا جواب دیتا ہے اور جلد ہی کتاب مقدس کو کم ثابت کرنے کے لئے نصف سچائیوں کی ایک فہرست بیان کرنا شروع کر دیتا ہے۔بڑی خوشی سے بڑی تیزی سے کوئی سو آیات بیان کرتا ہے جو سیاق وسباق سے باہر ہوتی ہیں اورجن کی جان بوجھ کرغلط تشریح کی گئی۔کیمبل کو اِن نکات کا جواب دینے کا بالکل مناسب وقت نہیں ملا،اِس لئے وہ مناظرہ ہار گیا۔(اِس ویب سائٹ پر نائیک کے تمام 20نکات کو ردّ کیاگیا ہے)۔ایک فطین مسلمان لڑکی نے سوالات پوچھنے کے وقت میں نائیک سے پوچھا،”مگر آپ نے تو ڈاکٹر کیمبل کے قرآن مجید پر اُٹھائے گئے سوالات کا جواب نہیں دیا“جس کا اُس نے کوئی جواب نہیں دیا۔
یہ بے خبر سامعین کے سامنے ایک مبہم سا مناظرہ تھا۔وہ مناظر جو جان بوجھ کر نصف سچائیاں بیان کرتا ہے وہی جیتتا ہے،جب کہ دوسرا جو سیاق وسباق سے باہر ہٹ کر دی گئی آیات او راعداد وشمار کو قبول کرنے سے انکار کرتا ہے وہ ہار جاتا ہے۔
سامعین کے تعصب کو ابھارنا
جب منطق ناکام ہو جاتی ہے تو نائیک اکثر سادہ لوح سامعین کے تعصب کو بھڑکانے کی کوشش کرتا ہے۔
”امریکہ میں بہت سے لوگ سؤر کھاتے ہیں۔ڈانس کی محفلوں کے بعد بہت مرتبہ وہ اپنی بیویوں کے تبادلے کرتے ہیں،بہت سے لوگ کہتے ہیں،’تم میری بیوی کے ساتھ سو جاؤ اور میَں تمہاری بیوی کے ساتھ سو جاتا ہوں۔‘اگر آپ سؤر کھاتے ہیں تو آپ سؤروں کی طرح
حرکتیں بھی کرتے ہیں۔‘
چونکہ امریکیوں کی نسبت چینی لوگ زیادہ سؤر کھاتے ہیں،کیا وہ بھی اکثر بیویوں کا تبادلہ کرتے ہیں؟کیاذاکر نائیک مرغی کی طرح حرکتیں کرتا ہے کیونکہ وہ زیادہ مرغی کا گوشت کھاتا ہے؟یہ منطق بالکل بیہودہ ہے،لیکن یہ سماجی تعصب کی بات ہے۔ میَں سؤر کا گوشت نہیں کھاتا، میَں نے امریکہ میں دس سال پڑھنے کے بعد بھی کبھی ایک مرتبہ بھی بیوی کے تبادلے کی غیر معمولی حرکت نہیں دیکھی،جس کا نائیک ذکر کرتا ہے،اور میَں جانتا ہوں کہ بہت سے امریکی ایسی حرکت پر چونک جائیں گے۔شاید یہ ملحد ہالی وڈ میں ہوتا ہو،جیساکہ ہم بالی وڈ اور مشرق ِ وسطیٰ کے ہوٹلوں میں ہونے والی جنسی بے راہ روی کے بارے میں سنتے ہیں۔مگر کیا یہ وہ چیز ہے جسے آپ منطق کہتے ہیں؟نائیک صرف حقائق پر بات کرنے کا دعویٰ کرتا ہے،مگر نظریات پر نہیں۔
ایک مشکل دلیل کا سامنا کرتے ہوئے تیزی سے آیات کی فہرست بولنا اُس کے عقیدت مندوں کو متاثر کرنے اور اُنہیں گمراہ کرنے میں ناکام نہیں ہوتا۔اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ مسلسل غلط یا غیر متعلقہ ہیں،کوئی اُن کاجائزہ نہیں لے گا۔ذاکر نائیک نے یہ طریقہ اپنے پانی کے چکر کی دلیل کی ناکامی کے بعد استعمال کیا،اٹھارہ آیات کی ایک فہرست بنائی جو پانی کے چکر کو ”بڑی تفصیل“ کے ساتھ بیان کرتی ہے۔سامعین خوش ہوگئے،لیکن اگر آپ اِن آیات کو دیکھیں تو وہ اپنا ثبوت خود فراہم کرنے والی سچائیاں بیان کرتی ہیں جیسے کہ بادلوں سے بارش بنتی ہے اور یہ کہ ہوا بادلوں کو اُڑا لے جاتی ہے لیکن اِن میں پانی کے چکر کے حوالے سے کوئی سائنسی تفصیلات موجود نہیں ہیں۔
نائیک مغرب کے دو متوازی بنیادی توڑی مروڑی ہوئی باتیں کرتاہے۔ایک یہ کہ وہ ہم جنس پرستی اور زناکاری کے حقیقی حقائق سے ہٹ کر اعدادوشمار پیش کرتا ہے جیسے کہ ”ایک رات کے لئے بیویوں کا تبادلہ“امریکیوں کا ایک عام کام ہے۔یہ ہر اُس شخص کے لئے ناقابل ِ یقین ہے جو مغرب میں رہتا ہے۔لیکن بہت سے ایشیائی مسلمان اِس جھوٹی تصویر کو بڑی خوشی سے قبول کر لیتے ہیں۔
بڑی تعداد میں اسلام قبول کرنا
دوسری طرف وہ یہ فریب کھڑا کرتا ہے کہ مغرب بڑی تیزی سے اسلام قبول کر رہا ہے۔ہر وہ شخص جو مغرب میں رہتا ہے جانتا ہے کہ مغرب میں اسلام کی ترقی وہاں مسلمانوں کے ہجرت کرکے آنے کی وجہ سے اور اسلامی ملکوں سے دُور ہونے کی وجہ سے ہے۔امریکہ میں مسلمانو ں کی تعدادکل آبادی کے حساب سے 0.6فیصد (World Factbook 2007)سے لے کر 1.5فیصد ہے(Encyclopaedia
Britanica 2005)،دو تہائی امریکی غیر ملکوں میں پیدا ہوئے ہیں اور بقیہ کے بنیادی طور پر افریقی امریکی ہیں جوابتدائی طور پر نسلی
اُمت مسلمہ میں داخل ہوئے اور بعد میں قدامت پسند اسلام میں ضم ہو گئے۔قدامت پسند اسلام میں داخل ہونے والے مغربی لوگ انتہائی قلیل ہیں۔یہاں دوبارہ بھارتی مسلمان نائیک کے غلط اعدادوشمار سے خوش ہوتے ہیں لیکن اُن کو مغربی معاشرے کی ذرا بھی سوجھ بوجھ نہیں ہے۔
نائیک یہ ظاہر کرتا ہے کہ امریکی لوگ پیسے کے معاملے میں بہت کنجوس ہوتے ہیں اور وہ یہ دعویٰ بھی کرتا ہے کہ اگر امریکی صرف 2.5فیصد زکوٰۃ دیں تو امریکہ سے جرم اور غربت ختم ہو جائے گی۔واہ! کنجوس امریکہ کے لئے کیا حل نکالا ہے!پھر بھی درحقیقت امریکہ دوسرے ممالک کی نسبت سالانہ زیادہ خیرات دیتا ہے،جس کی شرح گذشتہ چالیس سال سے 2فیصد کے قریب پہنچ چکی ہے۔اوسطاًامریکی بشارتی مسیحی اپنی آمدنی کا 4فیصد خیرات میں دے رہے ہیں جو زکوٰۃ 2.5فیصد کا دُگنا بنتا ہے۔اگر نائیک ایک صحافی ہوتا او روہ کسی نامور اخبار کے لئے ایسی بے تُکی باتیں لکھتا تو اُسے حقائق کو غلط پیش کرنے پر نکال دیا جاتا۔
نائیک لکھتا ہے:
”مجموعی طور پر امریکہ میں پچیس ملین سے زیادہ لوگ ہم جنس پرست ہیں۔اِس کا مطلب ہے کہ یہ لوگ عورتوں سے شادی نہیں کرنا چاہتے۔“
درست اعدادوشمار ظا ہر کرتے ہیں کہ امریکہ کے مردوں کی صرف 2.3 فیصدتعداد اپنے آپ کو ہم جنس پر ست سمجھتی ہے۔ اگر ذاکر نائیک کے اعداد و شمار درست تھے،تو پھر امریکہ میں ہر غیر شادی شدہ مردہم جنس پرست ہو گا۔ اگر ذاکر نائیک اپنی یونیورسٹی کلاس میں مضمون میں اپنی دلیل اِس بنیاد پر رکھے گاتو بلاشبہ اُس کا پروفیسر اُسے فیل کر دے گا۔
مغرب میں بدعنوانی اور رشوت ستانی
اپنی ویڈیو،”مغرب کیوں دائرہ اِ سلام میں داخل ہو رہا ہے“ میں نائیک بڑی وضاحت سے یہ بیان کرتا ہے کہ کس طرح مغرب کوبد عنوانی اور رشوت ستانی کے لئے قرآن مجید کے حل کی ضرورت ہے۔ اچھا ہے اگر آپ کرپشن کے بارے میں ٹرانس پرینسی انٹرنیشنل کے نقشے کو دیکھیں جو اِس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ دراصل دُنیا کے اُنہی علاقوں نے بدعنوانی سے رہائی پائی ہے جنہوں نے اصلاح ِ کلیسیا کے وقت سے بڑی سنجیدگی سے کتاب مقدس کو اپنایا ہے۔حضرت یسوع المسیح کی تعلیمات بدعنوانی کو جڑ سے اُکھاڑنے کے لئے ناگزیرہیں۔
(ڈائیگرام 1)
ٹرانس پرینسی انٹرنیشنل میپ 2005ء CPI ٗٓ پرو ٹسٹینٹ اصلاح ِکلیسیا کے ساتھ نشاندہی کیا گیا
سکور
[گہرے علاقے زیادہ کرپشن کی نشاندہی کرتے ہیں، جبکہ ہلکے علاقے کم کرپشن کی]
نائیک یہ سمجھتا ہے کہ حجاب نما پردہ عصمت دری یا جنسی چھیڑ چھاڑ کو روکتا ہے۔وہ یہ دعویٰ کرتے ہوئے امریکہ میں عصمت دری کی بہت بلند شرح کا ذکر کرتا ہے کہ اگر امریکہ میں شریعت نافذ ہوتی تو عصمت دری کی شرح گر جاتی۔ اعداد و شمار بہت قابل ِ قبول معلوم ہوتے ہیں۔تاہم اگر کوئی ایشیا اور مغرب کی ثقافتوں سے واقف ہے تو وہ جلد ہی یہ تسلیم کر لے گا کہ اعلیٰ ایشیائی لوگ اپنے خاندانوں کی ساکھ کو قائم رکھنے پر زور دیتے ہیں جس کی وجہ سے ایشیا میں عصمت دری کے زیادہ تر واقعات کی رپورٹ درج نہیں کروائی جاتی اور اِس طرح وہ جائزے کے عمل سے بھی نکل جاتے ہیں۔مصر جہاں حجاب کا استعمال کثرت سے کیا جاتا ہے وہاں جنسی چھیڑ چھاڑ کا مسئلہ بہت زیادہ ہے۔”مصری مرکز برائے حقوق ِ نسواں“کے تحت حال ہی میں کئے گئے ایک جائزے نے حیرت انگیز انکشافات سے پردہ اُٹھایا ہے۔2000خواتین سے کئے گئے سوالات کے جوابات میں 83فیصد مصری خواتین نے کہا کہ اُنہیں کسی نہ کسی شکل میں ہراساں کیا گیا تھا۔رپورٹ کے مصنف جناب نہاد عبدالقمسان کہتے ہیں،یہ عورت ہی ہے جسے اکثر اشتعال انگیز لباس پہننے کا الزام لگایا جاتا ہے:
”جب ہم نے خواتین سے سوال کیا کہ جب اُنہیں جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا تو اُنہوں نے کون سے لباس پہنا ہوا تھا تو 70فیصد خواتین نے کہا کہ اُنہوں نے سر پر سکارف یا رومال پہنا ہوا تھا۔ تقریباً دو تہائی مردوں کا جنہوں نے اُن کا جائزہ لیا اُنہوں نے آزادانہ تسلیم کیا کہ
اُنہوں نے ایک یا دو مرتبہ خواتین کو اپنی ہوس کا نشانہ بنایا تھا۔“
اِس طرح ہم جان گئے کہ اعدادوشمار ایک برعکس تصویر پیش کرتے ہیں۔مصر میں زیادہ تر خواتین جن کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا اُنہوں نے حجاب پہنا ہوا تھا۔بنیادی شرم وحیا بہت اہم ہے،مگر زیادتی کانشانہ بننے والوں پر الزام لگانا ناانصافی ہے۔
نائیک اُن مغربی مفکرین کی چھوٹی خبروں کا حوالہ دیتا ہے جنہوں نے اسلام کے بارے میں مثبت تاثرات دیئے ہیں۔طنزاً،اِنہی مفکرین میں سے زیادہ ترسائنس،قرآن مجید،اسلامی علم ِ الہٰی،کتاب مقدس اور سائنس کے بارے میں ذاکر نائیک کے نظریات سے سخت اختلاف کریں گے۔دنیا کے زیادہ تر مفکرین،مسلم او رغیر مسلم دونوں نائیک کے وہابی قسم کے اسلام کے سخت مخالف ہیں۔
Oسیاق و سباق سے باہر صحائف کی آیات
نائیک کتاب مقدس میں حضرت محمد ؐ کے بارے میں نبوت کے طور پربڑی باقاعدگی سے یسعیاہ 29:12کا حوالہ دیتا ہے (جو درحقیقت 12:29ہے):”کتاب کسی ناخواندہ کو دیں اور کہیں اِس کو پڑھ“ اور وہ کہے”میں تو پڑھ نہیں سکتا“،یہ ایک اَن پڑھ نبی کے بارے میں بالکل مناسب نبوت معلوم ہوتی ہے۔اب اگر ہم متن کو وسیع النظری سے دیکھیں تو یہ آیت یسعیاہ کے مکاشفہ کے جواب میں اسرائیل کے رَدِّعمل کی بات کرتی ہے،اور سیاق و سباق کے حوالے سے پوری آیت درج ذیل ہے:
”(آیت 11)اور ساری رُوٗیا تمہارے نزدیک سر بمُہر کتاب کے مضمون کی مانند ہو گی جسے لوگ کسی پڑھے لکھے کو دیں اور کہیں اِس کو پڑھ اور وہ کہے کہ میَں پڑھ نہیں سکتا کیونکہ یہ سر بمُہر ہے۔“(آیت 12)”اور پھر وہ کتاب کسی ناخواندہ کو دیں اور کہیں ”اِس کو پڑھ“ اور وہ کہے میَں تو پڑھنا نہیں جانتا۔“(یسعیاہ 11:29-12)
اِس لئے اگر یہ نبوت تھی (جسے وسیع سیاق و سباق خارج قرار دیتا ہے)،ساری تاریخ میں زمین پر اِسے کوئی بھی پڑھا لکھا آدمی(آیت 11)اور اَن پڑھ آدمی(آیت 12) پورا کر سکتا تھا۔کوئی نبوت!یہ نائیک کی دیانت داری کو بہت بُری طرح سے ظاہر کرتی ہے کہ وہ اِس طرح اپنے سامعین کو جان بوجھ کر دھوکا دے گا۔
چونکہ اُس کے سامعین کی زیادہ تر تعداد قدیم زبانوں جیسے کہ یونانی،عبرانی یا عربی سے نا واقف ہوتی ہے،اِس لئے ذاکر نائیک بڑی آزادی سے الفاظ کے نئے معانی تخلیق کرتا ہے جو علما کے نزدیک کسی طرح بھی قابل ِ قبول نہیں ہو ں گے۔
نائیک جن سائنسی معجزات پر بحث کرتا ہے اُن میں سے ایک یہ ہے کہ قرآن یہ بتاتا کہ چاند روشنی منعکس کرتا ہے جب کہ روشنی کا منبع سورج ہے:
”خدا… نے چاند کو اُن میں (زمین کا)نور(نُورً) بنایا ہے اور سورج کو چراغ (سِرَاجاً)ٹھہرایا ہے“(سورۃ15:71-16)
وہ اِس پر بحث کرتے ہوئے دعویٰ کرتا ہے کہ نُورً کا مطلب ہے’منعکس روشنی‘ جب کہ سِرَاجاً کا مطلب ہے ’روشنی کا منبع۔‘تاہم اُس کی اِسی منطق کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ”اَلنور“کا لقب رکھتے ہوئے اُس کا مطلب ’منعکس روشنی‘ہونا چاہئے جب کہ سورۃ 46:33میں روشنی کا حقیقی منبع حضرت محمد کو ”چراغ،(سِرَاجاً)روشنی پھیلانے والا“کہا گیا ہے۔ یہ سب کچھ تو کفر لگتا ہے۔
عربی # 2: ”شُتر مُرغ کا اَنڈا“
گذشتہ چودہ سو سال سے سورۃ 30:79کاترجمہ عام لحاظ سے بغیر کسی اعتراض کے ”پھیلا ہوا“ کیا گیا ہے:
”اور اِس کے بعد زمین کو پھیلا دیا“(سورۃ30:79)
تاہم نائیک یہ دلیل دیتا ہے کہ حتمی لفظ دَحٰہَا کا مطلب ’پھیلا ہوا“نہیں ہے،بلکہ ’شُتر مُرغ کا اَنڈا“ ہے،اِس لئے وہ اِس کا ترجمہ کچھ یوں کرتا ہے،”اور زمین اُس نے مزید انڈے کی شکل کی بنائی۔“
عربی کی کوئی بھی ایسی مُستند لُغت نہیں ہے جہاں دَحٰہَا کا مطلب ”شُتر مُرغ کا اَنڈا“دیا گیا ہو۔ بکاؤلے ازم کی دو دہائیوں سے پہلے،کسی بھی عربی عالم نے اِس آیت کا اِس طرح سے ترجمہ نہیں کیا؛جن میں یوسف علی، پِکتھال،شاکر،اسداور داؤد جیسے علما شامل ہیں جنہوں نے اِن آیات کے درست ترجمے کے لئے اپنی زندگیاں وقف کر دی تھیں۔ہمیں کس کی بات سننی چاہئے؟ لسانی ماہرین اورقرآن مجید کی عربی کے سنجیدہ علما کی،یا سعودیہ کے تعاون سے چلنے والے ٹیلی وژن کے مُبلّغ ذاکر نائیک کی، جیسے کہ عبدالرحمان اشارہ کرتا ہے،
”یہ دوبارہ سے کیا گیا انڈے کا ترجمہ فضول بات ہے کیونکہ زمین انڈے کی شکل کے بالکل برعکس ہے۔وہ دونوں سروں سے پچکی ہوئی ہے نہ کہ اُبھری ہوئی ہے۔“
نئے عبرانی مطالب
نائیک ایسے عبرانی حروف تلاش کرتا ہے جن کے ملانے سے محمد کا لفظ بنتا ہے اورپھریہ دعویٰ کرتا ہے کہ یہ حضرت محمد کی آمد کے بارے میں نبوت ہے۔وہ کتاب مقدس کی ایک کتاب غزل الغزلات 16:5 میں سے ایک ایسا لفظ تلاش کر لیتا ہے۔
”اُس کا مُنہ ازبس شیرین ہے۔ہاں وہ سراپا عشق انگیز(Hebrew) ہے۔
اے یروشلیم کی بیٹیو! یہ ہے میرا محبوب۔یہ ہے میرا پیارا۔“
مندرجہ بالا سیاق و سباق کو بڑی احتیاط سے نظرانداز کرتے ہوئے وہ دلیل دیتا ہے کہ چونکہ ”محبوب“ کے لئے عبرانی لفظ (مَخمَد) ہے اِس لئے یہ حضرت محمدؐ کے لئے پیشین گوئی ہے۔تاہم مندرجہ بالا آیت ایک ایسے باب کا ایک حصہ ہے جس میں ایک دُلہن اپنے محبوب کی مکمل تفصیلا ت دے رہی ہے۔مزید یہ کہ نائیک کا ترجمہ ایک اسم ِصفت کی جگہ پر اسم لگا رہا ہے جو بالکل نامناسب ہے۔
”اُس کا مُنہ ازبس شیرین ہے۔ہاں وہ سراپا محمد ؐہے۔
اے یروشلیم کی بیٹیو!
یہ ہے میرا محبوب۔یہ ہے میرا پیارا۔“
لفظ کا سیاق و سباق یہ واضح طور پر یہ بتاتا ہے کہ یہ نہ تو کوئی نبوت ہے اور نہ ہی حضرت محمد کے بارے میں ایک حوالہ ہے او رایسا دعویٰ کرنا دھوکا دہی کے زُمرے میں آتا ہے۔اِس طرح تو ہم دوسرے اشخاص کے بارے میں بھی ملتی جلتی نبوتیں ایجاد کر سکتے ہیں۔حضرت محمد ؐ سے پہلے اور بعد میں بھی دو ایسے غیر مسلم انبیا بنام مانی اورمرزا حسین علی (بہاء ُاللہ)دونوں نے صحائف کے حوالے سے یہ دعویٰ کیا تھاکہ وہ دیگر انبیا کے نسب نامے میں سے انبیا ہیں۔نائیک کا یہ معتبر طریقہ استعمال کرتے ہوئے ہم زبور 8:89میں بہاء ُاللہ(حَسِین) کے نام کی نبوت پاتے ہیں اورمانی(منی) کا نام خاص طور پر اٹھارہ مقامات پر پایا جاتا ہے!کیا ہمیں یہ یقین رکھنا ہے کہ وہ حوالہ جات دراصل اُن دو جھوٹے انبیا کے بارے میں نبوتیں ہیں؟
نائیک نے احمد دیدات کی ”ٹانتھیوس“(tontheos)اور”ہوتھیوس“(hotheos)کے موضوع پر بحث کی ایک یونانی دلیل کی ایک اُلجھے ہوئے طریقے سے غلط نقل کی ہے۔
HOTHEOS — THE GOD; TONTHEOS — A GOD
نیا عہد نامہ یونانی زبان میں لکھا گیا ہے۔جس حوالے میں پہلی مرتبہ خدا”ہوتھیوس“ کا ذکر آیا ہے،اُ س کا مطلب،”the God“ ہے،یعنی ”کلام خدا کے ساتھ تھا۔“لیکن جب حوالے میں دوسری مرتبہ خدا کا لفظ آتا ہے،تو وہاں یونانی لفظ”ٹانتھیوس“استعمال ہوا ہے جس کا مطلب ”دیوتا“ ہے،یعنی ”یہی ابتدا میں خدا کے ساتھ تھا۔“عبرانی زبان میں انگریزی حروف کی طرح بڑا ’G‘ یا چھوٹا ’g‘ جیسے حروف نہیں ہیں۔اِس لئے ہوتھیوس تو انگریزی زبان میں بڑے Gکے ساتھ ہے اور ٹانتھیوس چھوٹے gکے ساتھ ہے۔“
یہ غلط ہے؛لفظ ”ہوتھیوس“مقدس یوحنا رسول کی انجیل شریف میں کبھی نہیں آتااور ”ٹانتھیوس“یونانی قواعد کی رُو سے غلط ہے۔ یہ دراصل ”ton theon“لفظ ہے جو مقدس یوحنا رسول کی انجیل شریف میں خدا کے لئے باربار استعمال ہوا ہے۔بحث کے درمیان میں ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے نائیک یہ بھول جاتا ہے کہ وہ اُوپر کس زبان کے بارے میں بات کر رہا ہے۔جب وہ اچانک عبرانی کے بارے میں بات کرتا ہے اور پھر یونانی کے بارے میں۔اگر کوئی شخص جو یونانی زبان جانتا ہے (نائیک کی طرح نہیں)
اور اُسے خود معلوم نہیں کہ وہ کس زبان کے بارے میں بات کر رہا ہے تو پھر اُسے اکیلے ہی اِس نکتے پر اتفاق کر نے دیجیے۔
خاص طور پر کتاب مقدس کے حوالے سے ذاکر نائیک تصو راتی ”مسیحی“تعلیمات کو تخلیق کرنا نہایت آسان سمجھتا ہے اور پھر اُسے حقیقی مسیحی تعلیم کے طور پر پیش کرتا ہے۔مثلاً نائیک کہتا ہے:
”اگر کتاب مقدس میں پیدایش 3باب کا آپ مطالعہ کریں تو صرف بی بی حوّا انسانیت کی گراوٹ کی ذمہ دار ہیں“۔
یوں لگتا ہے کہ ذاکر نائیک نے پیدایش 3باب نہیں پڑھا کیونکہ ہر کسی کو وہاں یہ واضح لکھا ہوا ملتاہے کہ اللہ تعالیٰ بی بی حوّا کو ملامت کا صرف ایک جملہ کہتے ہوئے الزام دیتے ہیں،جب کہ حضرت آدم ؑ کو تین گُنازیادہ ملامت اور سزا دیتے ہیں۔کتاب مقدس کے بقیہ حصے میں،حقیقی گناہ کا الزام اکثر صرف حضرت آدم ؑ کے کندھوں پر رکھا گیا ہے (-1کرنتھیوں 22:15؛رومیوں 14:5؛12:5؛ہوسیع
7:6وغیرہ)۔نائیک کا یہ اعتراض بے معنی اور فریب پر مبنی ہے۔
نائیک مغربی مسیحیوں کی بڑی تعریف کرتا ہے کہ وہ اپنے ارکان کوبغیر کسی تشدد کے آزادانہ اسلام قبول کرنے کی اجازت دیتے ہیں، لیکن وہ بڑے اعتماد سے ایسے مسلمانوں کو قتل کرنے کو جائز اور درست قرار دیتا ہے جو کسی اَور ایمان میں داخل ہونے کی جرأت کرتے ہیں۔
جہاں تک کُتب اور مضامین تنقیدی خیالات اور نسل پرستی کو اُبھارتے ہیں،اُسی طرح ٹیلی وژن کمزور اور غیر واضح منطق اورپُر فریب سحر کی عظمت بیان کرنے میں بدنام ہے۔کوئی بھی وقفے کا بٹن نہیں دباتا اور اعدادوشمار یا آیات کی جانچ پڑتال نہیں کرتا۔ٹیلی وژن تفریحِ طبع مہیا کرتا ہے،جب کہ ذاکر نائیک ایک مشہور شخصیت ہونے،اپنے اندر ایک بدعت رکھنے کے لئے،مکمل ڈرامائی جذباتی حملوں سے مغربی شہروں کی گلیاں تباہ و برباد کرتے ہوئے ہالی وڈ کے طریقے اپناتا ہے۔
ناقابل ِ چیلنج مناظر کا افسانوی قصہ
نائیک کے کتابچے اِس فریب کو زندہ جاوید رکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ مسیحی برادری کے اندر ناقابلِ چیلنج ہے۔اُس کے کتابچے مسلسل
غیر جواب دہ مناظرے کے چیلنج کے بارے میں بھی لکھتے ہیں جو اُس نے پوپ بینڈکٹ کو پچھلے دنوں میں دیا۔یہ ذرا حیرانی کی بات ہے کہ
کہ پوپ نے اُ س کا جواب نہیں دیاکیونکہ یہ پوری دنیا کے مذہبی راہنماؤں جیسے کہ پوپ یا مفتی اعظم کا کردار نہیں ہے کہ وہ ٹیلی وژن کے مبلغین کے ساتھ مناظرے کریں۔دنیا کے دینی راہنما دوسرے دینی راہنماؤں کے ساتھ بات چیت کرتے ہیں جیسے کہ دیوبند کے علما یا مفتی صاحبان،نہ کہ ایک ٹیلی وژن کے مبلغ کے ساتھ جسے غیر مقلدین کے طور پر ردّ کیا گیا اور اپنے ہی دینی اختیار والوں کی طرف سے غیر معتبر کہا گیا ہے۔ ذاکر نائیک کی خصوصیت صرف بین المذاہب مناظر ہ ہے،لیکن اُس نے ابھی تک کسی بھی نامور بین المذاہب کا مناظرہ کرنے والے کے ساتھ بات چیت نہیں کی،جیسے جے سمتھ،ڈاکٹر جیمس وائٹ،ڈیوڈ ووڈ،سیم شمعون، دی عریبک کرسچن پرسپکٹو،ساکشی انڈین اپا لوجیٹک نیٹ ورک یا پھر جنہوں نے بڑے عرصے سے نائیک کو مناظرے کا چیلنج کیا ہے۔اُن کے جواب میں یا تو بہانے بنائے گئے ہیں یا پھر خاموشی اختیار کی گئی ہے۔اِس کے بجائے،نائیک اپنے انتخاب میں صرف کیمبل کے ساتھ بات چیت کرتا ہے جو بزرگ ہے اور جسے مناظرے میں مہارت حاصل نہیں ہے یا پھر اُن لوگوں سے بات چیت کرتا ہے جنہیں اسلام کے بارے میں بہت کم معلوم ہے۔ ذاکر نائیک اور جدید مسلمان علما جیسے کے ایڈ حسین کے درمیان مناظرہ سننا دلچسپی سے خالی نہ ہو گاجو اُس کے وہابی قدامت پسندی کے خیالات کی مخالفت کرتا ہے۔
اغلاط کی اِس فہرست کو مرتب کرتے ہوئے میرا مقصد ذاکر نائیک کو ہراساں کرنا نہیں ہے بلکہ اُس کے سامعین کی یہ مدد کرنی ہے کہ وہ اُس کے بارے میں بڑے تنقیدی ذہن سے سوچیں جو کچھ وہ ٹیلی وژن پر سنتے ہیں۔کوئی شخص ایسے جھوٹے اعداد وشمار،غلط معلومات،غلط منظر کشی اوردہرے معیار کا استعمال ایسے باربار کیوں کرے گااگر وہ محض سچائی ہی پیش کر رہا ہو۔
ٹائمز آف انڈیا لکھتا ہے:”لکھنؤ کے ایک مفتی کے نائیک کے خلاف فتویٰ جاری ہونے کے ایک دن بعد،بروز ہفتہ،ممبئی کے علما کے ایک وفد نے اُس پر الزام لگایا کہ وہ سعودی عرب کے وہابیوں او ردیوبندیوں کے لئے کام کرتا ہے۔اُس وفد نے نائیک کی فوری گرفتاری اور اُس کی 14سے23نومبر کو سیون کے سومایہ گراؤنڈ میں ہونے والی کانفرنس کے شیڈول پر پابندی لگانے کا بھی مطالبہ کیا۔اُس وفد نے یہ دھمکی بھی دی کہ اگر مقامی حکومت نے اُس پر پابندی نہ لگائی تو وہ خود اُس کی اسلامی کانفرنس کو ناکام بنادیں گے۔“
(محمد وجیہ الدین،ٹائمز آف انڈیا،8نومبر2008ء)۔
Shahnawaz Warsi, November 13, 2008, www.sunninews.wordpress.com
Ibn Sa’d, Tabaqat Al-Kubra vol.5 pg.66, quoted from Abdullah bin Hanzala the Sahaba.
Shaykh al-hadith Muhammad Zakaria, Au Khanar al Masalik vol.3 pg.450.
For more on this see Iqbal Latif, “Why the clergy has made our heroes our heretics?” http://www.globalpolitician.com/22333-islam
Islam awr “Aqliyyat, ed., Muhammad Mustafa Bijnauri, Lahore: Idarah Islamyat, 1994, 403-421
Strange Bedfellows: Western Scholars Play Key Role in Touting `Science’ of the Quran Wall Street Journal, Jan 23, 2002. pg. A.1.
When Science Teaching Becomes A Subversive Activity By Pervez Hoodbhoy
“Quran-science”: Scientific miracles from the 7th century? By Taner Edis, retrieved from http://www2.truman.edu/~edis/writings/articles/quran-science.html
Abdullah Saeed, ‘The Charge of Distortion of Jewish and Christian Scriptures’, in The Muslim World, Vol 92, Fall 2002, p. 434.
The primary research done on Bucailleism is that of Mr Zindani, who was a friend and mentor of Osama bin Laden and received generous funding from Laden for his Bucailleist research (Daniel Golden, Western Scholars Play Key Role In Touting ‘Science’ of the Quran, in The Wall Street Journal, Jan 23, 2002).
See http://www.youtube.com/watch?v=y-_BDLNfcOc&feature=related
Szent-Györgyi, Albert. 1970. The Crazy Ape. New York: Philosophical Library.
http://www.irf.net/irf/dtp/dawah_tech/mcqnm1.htm, see also Zakir Naik, Answer to Non-Muslims’ Common Questions about Islam, Islamic Bookstore: Kolkata.
Dr Zakir Naik, Similarities between Islam and Christianity, and Concept of God in Major Religions.
“queen ant”, Wikipedia.org, September 29, 2009 (http://en.wikipedia.org/wiki/Queen_ant)
Dr Zakir Naik, Why is the West Coming to Islam?
http://en.wikipedia.org/wiki/Fastest-growing_religion
Dr Zakir Naik, Universal Brotherhood, p.12.
Malaysia’s biggest English Newspaper interviewed Neil Armstrong about this hoax and published his answer. (see online version at http://www.thestar.com.my/news/story.asp?file=/2005/9/7/nation/11971532&sec=nation)
Dr. Zakir Naik, Answers to Non-Muslims’ Common Questions about Islam (Islamic Bookstore, Kolkata), p.44.
http://www.generousgiving.org/
Zakir Naik, Most Common Questions Asked by Non-Muslims. http://www.irf.net/irf/dtp/dawah_tech/mcqnm1.htm
The statistics come from a 2002 National Survey of Family Growth and are based on 12,571 interviews with men and women ages 15-44 years of age> (The findings were reported in WorldNetDaily, September 16, 2005).
See for example, Naik, Answers to Non-Muslims’ Common Questions About Islam, (Islamic Bookstore, Kolkata)
http://www.irf.net/irf/dtp/dawah_tech/t22/pg1.htm
Zakir Naik, ‘Why The West is Coming to Islam’
.
Leave a Reply