سورۃ البقرۃ 79:2

”سورۃ البقرۃ79:2واضح طور پر کہتی ہے کہ یہودیوں او رمسیحیوں نے اپنے صحائف دوبارہ لکھے۔“

قرآن میں ایک آیت (79:2)شامل ہے جو متن کے حوالے سے بگاڑ کو ظاہر کرتی دکھائی دیتی ہے اور وہ لوگ اِس کا زیادہ استعمال
کرتے ہیں جو پچھلے صحائف کی مخالفت کرتے ہیں::

”(مومنو)کیا تم اُمید رکھتے ہو کہ یہ لوگ تمہارے (دین کے)قائل ہو جائیں گے (حالانکہ)اُن میں سے کچھ لوگ کلام ِخدا (یعنی تورات)کو سنتے پھر اُس کے سمجھ لینے کے بعد اُس کوجان بوجھ کر بدل دیتے رہے ہیں … اور بعض اُن میں اَن پڑھ ہیں کہ اپنے خیالات ِ باطل کے سوا (خدا کی)کتاب سے واقف ہی نہیں او روہ صرف ظن سے کام لیتے ہیں،تو اُن لوگوں پر افسوس ہے جو اپنے ہاتھ سے تو کتاب
لکھتے ہیں اورکہتے یہ ہیں کہ یہ خدا کے پاس سے (آئی)ہے تاکہ اِس کے عوض تھوڑی سی قیمت (یعنی دنیوی منفعت)حاصل کریں۔اُن پر
افسوس ہے اِس لئے کہ (بے اصل باتیں)اپنے ہاتھ سے لکھتے ہیں اور (پھر)اُن پر افسوس ہے اِس لئے کہ ایسے کام کرتے ہیں۔
(سورۃ 75:2, 78-79)

75 ویں آیت سے ہم یہ سیکھتے ہیں کہ جو ’کلام‘ زیر بحث ہے وہ قرآن ہے (نہ کہ پچھلے صحائف)جسے یہودیوں نے غلط پیش کیا۔
یہ اقتباس مدینہ منورہ کے یہودیوں کوحضوراکرم ؐ کے الفاظ کو لینے اوراُنہیں اپنے فائدے کے لئے تبدیل کرنے پر ملامت کرتا ہے۔

آیات 78-79کہتی ہیں کہ چند ”اَن پڑھ“لوگ جو یہودیوں کے درمیان رہتے تھے اُنہوں نے جھوٹے صحائف ”لکھے“اور اُنہیں منافع کی خاطر بیچا۔پہلی جھلک میں،یہ براہ ِ راست تضاد دکھائی دیتا ہے،کیونکہ اَن پڑھ کا مطلب ہے،جو لکھنے پڑھنے کے قابل نہ ہو!لیکن…

توریت شریف او رانجیل شریف گُم ہو چکی ہیں؟

”حضرت محمد کے زمانے سے پہلے توریت شریف او رانجیل شریف گُم ہو چکی تھیں۔“

قرآن یہ واضح طور پر بیان کرتا ہے کہ اصلی توریت شریف او رانجیل شریف حضرت محمد کے زمانے میں یہودیوں کے پاس تھیں،
لغوی معنی ہیں، ”اُن کے ہاتھوں میں تھیں“ “( بَيْنَ يَدَيْهِ :

نَزَّلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقاً لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَأَنزَلَ التَّوْرَاةَ وَالإِنجِيلَ
”اُس نے (اے محمد)تم پر سچی کتاب نازل کی جو پہلی (آسمانی)کتابوں کی تصدیق کرتی ہے (لغوی طور پر یہ ہے،”اُن کے ہاتھوں میں“ بَيْنَ يَدَيْهِ) ; اور اُسی نے توریت اور انجیل نازل کی۔(یعنی)لوگوں کی ہدایت کے لئے (توریت او رانجیل اُتاری)اور (پھر قرآن جو حق اور باطل کو)الگ لاگ کر دینے والا ہے نازل کیا۔“ (سورۃ آل عمران3:3)

(111:9)۔سورۃ الاعراف بیان کرتی ہے کہ توریت شریف او راناجیل شریف ”اُن کے ہاں ہیں“ (157:7)۔

”اہل ِانجیل کو چاہئے کہ جو احکام خدا نے اُس میں نازل فرمائے ہیں اُس کے مطابق حکم دیا کریں اور جو خدا کے نازل کئے ہوئے احکام کے مطابق حکم نہ دے گا تو ایسے لوگ نافرمان ہیں“(سورۃ المائدۃ 47:5)

کس طرح اہل ِ انجیل جن سے قرآن مخاطب ہوتا ہے انجیل کے مطابق حکم دیں سکتے اگر اُن کے پاس انجیل ہی نہیں تھی؟اِس لئے قرآن کے مطابق اُس وقت واضح طور پر اُن کے پاس انجیل شریف موجو دتھی۔

”اور جو کتاب میَں نے (اپنے رسول محمد پر)نازل کی ہے جو تمہاری کتاب (تورات)کو سچا کہتی ہے اُس پر ایمان لاؤ …“ (سورۃ البقرۃ41:2)

ذاکر نائیک سے متعلق معلومات


ذاکرعبدالکریم نائیک بھارت میں ٹیلی وژن پر آنے والا ایک مبلغ ہے جو ممبئی انڈیا سے سیٹلائٹ ٹی وی سٹیشن جس کا نام ”Peace TV“ ہے چلاتا ہے اور وہابی پروپیگنڈہ پھیلا رہا ہے۔پوری دنیا میں ذاکر نائیک کے بہت کم سامعین یہ سمجھتے ہیں کہ اُسے اُس کی غلط معلومات،غلط تشریحات او رغیر الہامی نظریات کی وجہ سے مسلم علما او رغیر مسلم علما نے کس قدر بُرا بھلا کہا ہے۔دیوبند (بھارت کی سب سے مقبول ترین دینی علوم کی مرکزی درس گاہ) کے مفتی نے ذاکر نائیک کے خلاف باقاعدہ فتوے دیئے ہیں اور کہا ہے کہ وہ ”غیر مقلدین کا ایک واعظ ہے“او ریہ بھی کہا ہے کہ کسی کو اُس کی تقاریر پر بھروسا نہیں کرنا چاہئے،”1 وہ معتبر نہیں ہے اور مسلمانو ں کو اُسے ہر گز نہیں سننا چاہئے۔“2

نائیک کی منطق،خیالات او رغلط معلومات کا پوری طرح تفصیلی جائزہ لینے کے لئے ہم آپ کویہ مضمون پڑھنے پر خوش آمدید کہتے ہیں

کیا ذاکر نائیک کی منطق مُعتبر ہے؟

سائنس کا غلط استعمال کرنے پر نائیک کے تجزیے کے لئے ہمارا مضمون دیکھئے بکاؤلے از م سے ہٹ کر:سائنس،صحائف اور ایمان۔.…

میسح کی مقابلتا ً واضح نبوتیں

آئیے! اب اِن الزام لگائی گئی نبوتوں کا عبرانی صحائف میں موجود مسیح (المسیح)کے بارے میں نبوتوں کے ساتھ موازنہ کریں۔ ہم بہت مشہور نبوت سے آغاز کریں گے جو یسعیاہ53 باب میں پائی جاتی ہے۔

”ہمارے پیغام پر کون ایمان لایا؟اور خداوند کا بازو کس پر ظاہر ہوا؟پر وہ اُس کے آگے کونپل کی طرح اور خشک زمین سے جڑ کی مانند پھوٹ نکلا ہے۔نہ اُس کی کوئی شکل و صورت ہے نہ خوبصورتی اور جب ہم اُس پر نگاہ کریں تو کچھ حسن و جمال نہیں کہ ہم اُس کے مشتاق ہوں۔

وہ آدمیوں میں حقیر ومردود، مردِ غم ناک او ر رنج کا آشنا تھا۔لوگ اُس سے گویا رُوپوش تھے۔اُس کی تحقیر کی گئی اور ہم نے اُس کی کچھ قدر نہ جانی۔تَوبھی اُس نے ہماری مشقتیں اُٹھالیں اور ہمارے غموں کو برداشت کیا۔پر ہم نے اُسے خدا کا مارا کُوٹا اور ستایا ہوا سمجھا۔حالانکہ وہ ہماری خطاؤں کے سبب سے گھایل کیا گیا اور ہماری بدکرداری کے باعث کُچلا گیا۔ہماری ہی سلامتی کے لئے اُس پر سیاست ہوئی تاکہ اُس کے مار کھانے سے ہم شفا پائیں۔ہم سب بھیڑوں کی مانند بھٹک گئے۔ہم میں سے ہر ایک اپنی راہ کو پھرا پر خدا وند نے ہم سب کی بدکرداری اُس پر لادی۔وہ ستایا گیا تو بھی اُس نے برداشت کی اور منہ نہ کھولا۔جس طرح برّہ جسے ذبح کرنے کو لے جاتے ہیں اور جس طرح بھیڑ اپنے بال کتَرنے والے کے سامنے بے زبان ہے اُسی طرح وہ خاموش رہا۔وہ ظلم کر کے اور فتویٰ لگا کر اُسے لے گئے پر اُس کے زمانے کے لوگوں میں سے کس نے خیال کیا کہ وہ زندوں کی زمین سے کاٹ ڈالا گیا؟میرے لوگوں کی خطاؤں کے سبب سے اُس پر مار پڑی۔اُس کی قبر بھی شریروں کے درمیان ٹھہرائی گئی او روہ اپنی موت میں دولت مندوں کے ساتھ ہوا حالانکہ اُس نے کسی طرح کا ظلم نہ کیا او راُس کے منہ میں ہر گز چھل نہ تھا۔لیکن خداوند کو پسند آیا کہ اُسے کُچلے۔اُس نے اُسے غمگین کیا۔جب اُس کی جان گناہ کی قربانی کے لئے گزرانی جائے گی تو وہ اپنی نسل کو دیکھے گا۔اُس کی عمر دراز ہوگی او رخداوند کی مرضی اُس کے ہاتھ کے وسیلے سے پوری ہو گی۔اپنی جان ہی کا دُکھ اُٹھا کر وہ اُسے دیکھے گا اور سیر ہو گا۔اپنے ہی عرفان سے میرا صادق خادم بہتوں کو راست باز ٹھہرائے گا کیونکہ وہ اُن کی بدکرداری خود اُٹھالے گا۔اِس لئے میَں اُسے بزرگوں کے ساتھ حصہ دوں گا اور وہ لُوٹ کا مال زور آوروں کے ساتھ بانٹ لے گا کیونکہ اُس نے اپنی جان موت کے لئے اُنڈیل دی او وہ خطاکاروں کے ساتھ شمار کیا گیا تَو بھی اُس نے بہتوں کے گناہ اُٹھا لئے اور خطاکاروں کی شفاعت کی۔“ جدید دریافتوں نے حضرت یسوع المسیح کی پیدائش سے 100سال پہلے تعلق رکھنے والے یسعیاہ کے مکمل طُومار(یہ اِقتباس بھی اُس میں شامل ہے) کو لوگوں کے سامنے پیش کیا ہے۔ مسیح کے بارے میں دیگر مختلف نبوتیں ذیل میں نمونے کے طورپر پیش ہیں،جن میں سے زیادہ ترکا تعلق اُس کی گرفتاری،آزمائش اور موت سے ہے۔یہ سب اُن انبیا کی مختلف کتابوں سے لی گئی ہیں جو ابرہام،اضحاق اور یعقوب کی نسل سے تھے اورجوحضرت یسوع المسیح کی پیدائش سے1000سے 500 سال قبل لکھی گئیں۔نبوت اور اِس کی تکمیل دونوں کے لئے صحائف سے حوالہ جات درج ذیل ہیں:

  1. ۔ داؤد کی نسل سے

(-2سمو ئیل 12:7-14؛زکریاہ10:12؛دیکھئے لوقا 31:3)

 

  • ۔ بیت لحم میں پیدایش

    (میکاہ 2:5؛دیکھئے لوقا 4:2-7)

     

  • ۔ ایک کنواری سے پیدا ہوا

    (یسعیاہ 14:7؛دیکھئے لوقا 34:1-38)

     

  • ۔ سب لوگوں کے لئے نجات لے کر آنا

    (یسعیاہ 6:49؛دیکھئے لوقا 30:2-32؛یوحنا 16:3)

     

  • ۔ گدھے پر سوار ہو کر یروشلیم میں داخل ہوگا

    (زکریاہ 9:9؛دیکھئے لوقا 28:19-36)

     

  • ۔ ایک دوست نے دھوکا دیا

    (زبور 9:41؛دیکھئے متی 4:10)

     

  • ۔ چاندی(سونا نہیں) کے تیس سکوں کے عوض بیچا گیا

    (زکریاہ 12:11؛دیکھئے متی 15:26)

     

  • ۔ روپیہ خدا کے گھر میں پھینک دیا (رکھا نہیں) گیا

    (زکریاہ 13:11ب؛دیکھئے متی 5:27الف)

     

  • ۔ پیسہ کمہار کا کھیت خریدنے میں استعمال کیا گیا

    (زکریاہ 13:11ب؛دیکھئے متی 7:27)

     

  • ۔ الزام لگانے والوں کے سامنے خاموش

    (یسعیاہ 7:53؛دیکھئے متی 12:27-19)

     

  • ۔ گھایل کیا گیا اور کُچلا گیا

    (یسعیاہ 5:53؛دیکھئے متی 26:27)

     

  • ۔ پیٹا گیا اوراُس پر تھوکا گیا

    (یسعیاہ 6:50؛دیکھئے متی 67:26)

     

  • ۔ ڈاکوؤں کے ساتھ مصلوب کیا گیا

    (یسعیاہ 12:53؛دیکھئے متی 38:27)

     

  • ۔ اپنے ستانے والوں کے لئے شفاعت کی

    (یسعیاہ 12:53 ؛دیکھئے متی لوقا 34:23)

     

  • ۔ اپنی جان اپنی مرضی سے موت کے حوالے کی

    (یسعیاہ 12:53 ؛دیکھئے یوحنا 18:10)

     

  • ۔ ہماری خطاؤں کے سبب سے گھایل کیا گیا

    (یسعیاہ 5:53 ؛دیکھئے متی 26:27)

     

  • ۔ ایک دولتمند کی قبر میں دفن ہوا

    (یسعیاہ 9:53 ؛دیکھئے متی 57:29-60)

     

 

کیا ذاکر نائیک کی منطق مُعتبر ہے؟

دارالعلوم دیوبند کے دار الافتاء نے جوبھارت کی سب سے مقبول ترین دینی علوم کی مرکزی درس گاہ ہے،اُس نے ذاکر عبدالکریم نائیک کے خلاف یہ فتویٰ دیا ہے کہ وہ:

”غیر مُقلّد ہے اور اُس کا علم اِتناگہرا نہیں ہے۔اِس لئے وہ معتبر نہیں ہے اور مسلمانو ں کو اُسے ہر گز نہیں سننا چاہئے۔“

ایک اَور فتویٰ یہ کہتا ہے:

ؔ”ہم جانتے ہیں کہ وہ غیر مُقلّدین کا ایک نمائندہ ہے،جو علم اور حکمت سے کوسوں دُور ہے،شرارت کی باتیں پھیلاتا ہے اور سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرتا ہے۔“ ۲؎

بہت سے دیگر علما،سائنس دانوں اور مسلم رہنماؤں نے ذاکر نائیک کے خلاف اِسی قسم کے بیانات ۴جاری کئے ہیں۔ مسلم علما ٹیلی وژن کے اِس مُبلّغ کے خلاف کیوں ہیں جو ”امن“ او ر”اسلام“کا پرچار کرنے کا دعویٰ کرتا ہے؟یہ مضمون چند ایسی وجوہات کا جائزہ لے گا کہ کیوں ذاکر نائیک غیر تعلیم یافتہ لوگوں کے مجمع میں تو مقبول ہے مگر تعلیم یافتہ علما کے نزدیک حقیر سمجھا جا تا ہے۔

اُس کے مخصوص چاہنے والوں کے نزدیک،اِس ٹیلی وژن کے دل بہلانے والے مُبلّغ نے اپنی بلا رکاوٹ انگریزی بولنے،پُر اعتماد مسکراہٹیں بکھیرنے اور دوسروں کے ایمان کو حقیر جاننے اوراُسے غلط معنی پہنانے کی قابلیت کی وجہ سے تقریباً ایک جدید فنکار کی حیثیت حاصل کر لی ہے۔ہم باقی بچ جانے والوں کے نزدیک وہ زبردست یادداشت کا ایک آلہ ہے مگرایک خراب منطق رکھتا ہے،آدھی سچائیوں کا شوقین،اور خطرناک حدتک انتہا پسندی کے نظریات رکھنے والا شخص ہے۔ سیاق و سباق سے باہر بیان شدہ اقتباسات،جھوٹے اعداد و شمار،اور جان بوجھ کر غلط تشریحات کے لئے ٹیلی وژن اُسے ایک زبردست ذریعہ فراہم کرتا ہے۔اِس کتابچے میں ہم ”ریموٹ کا وقفے کا بٹن دبائیں گے“اور بڑی تنقیدی نگاہ سے ذاکر نائیک کی منطق او راُس کے مواد کا جائزہ لیں گے۔

لیکن ذاکر نائیک کے چند منطقی نکات پر تنقید کرنے سے پہلے چند معاملات میں اُس کی تعریف کرنا اچھا ہے۔وہ اپنے سامعین کوخود سے اپنی مادری زبان میں قرآن مجید پڑھنے کی تحریک دیتا ہے جو بہت ضروری ہے۔وہ نوجوانوں کو مشہور شخصیات کو اپنا رہنما بنانے اور مادی اشیاکی پیروی کرنے سے باز رہنے اور اِس کے بجائے اللہ تعالیٰ کی تلاش کرنے پر اُبھارتا ہے۔وہ شراب نوشی،بے حیائی اور کنجوسی کے خلاف بات کرتا ہے۔اِن باتوں کے لئے اُس کی تعریف ہونی چاہئے۔

خاکہ

کیا ذاکر نائیک اسلام کی درست نمائندگی کرتا ہے؟

نائیک اور اسلامی نظریہ اورعلمیت

سائنس پر

مذاہب کے تقابل پر

نائیک اور دہشت گردی

نائیک کے طریقے

اِرتقا پر:25جملوں میں 25اَغلاط

واضح جھوٹے بیانات

مرد و خواتین کے تناسب کے اعداد و شمار

دنیا کے مذاہب،چیونٹی ”رہنما“

تبدیلی

شہری روایات(دنیا کا نقشہ)

صحائف کی ناخواندگی(بی بی حوّا او رگناہ)

تیزی کے ساتھ نصف سچائیاں بیان کرنا(کیمبل کے ساتھ مناظرہ)

سامعین کے تعصب کوابھارنا(سؤر)

کمپیوٹر کی مانند یاداشت(تیزی سے آیات کے نمبر بتانا)

غیر متحرک سامعین

بڑی تعداد میں اسلام قبول کرنا؟

امریکہ میں خیرات دینا

امریکہ میں ہم جنس پرستی

مغرب میں بدعنوانی اور رشوت ستانی

حجاب او رجنسی چھیڑ چھاڑ

منتخب عالمانہ اقتباسات

سیاق وسباق سے باہر صحائف کی آیات

لسانیاتی بازی گری

صحائف کو غلط پیش کرنا

دوہرے معیار

ٹیلی وژن کا ذریعہ

ناقابل ِ چیلنج مناظر کا افسانوی قصہ


کیا ذاکر نائیک اسلام کی درست نمائندگی کرتا ہے؟

ذاکر نائیک غیر مسلموں کے مسلمانوں کے بارے میں رکھے جانے والے منفی اور گھِسے پِٹے خیالات کو متصعبانہ، سرکش اور بددیانت بناتا ہے۔اِس لئے یہ مسلمانوں او رغیر مسلموں دونوں کے لئے یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ ذاکر نائیک اسلام کے مرکزی علما کی نمائندگی نہیں کرتا۔نائیک کے خیالات اسلام کے ایک ایسے گروہ کی نمائندگی کرتے ہیں جسے وہابی کہا جاتا ہے اور وہ گروہ سعودی عرب سے یہاں پہنچا ہے۔پچھلی چند دہائیوں سے
تیل کی پیداوار سے حاصل کئے گئے کروڑوں ڈالر سعودی عرب سے نچھاور کئے گئے تاکہ اِس قسم کے اسلام کا پرچار کریں اور ذاکر نائیک جیسے لوگوں کی مالی مدد کریں۔

بہت سے تعلیم یافتہ علما کے نزدیک،وہابی فرقہ کو سب سے بڑے سرطان اورمسلم اُمہ میں سب سے بڑے مرض کے طور پر دیکھا گیا ہے۔

مولانا محمود دریا آبادی جو آل انڈیاعلما کونسل کے جنرل سیکرٹری ہیں،وہ ذاکر نائیک کے بارے میں کہتے ہیں:

”وہ نہ تو کوئی عالم ہے او رنہ ہی کوئی مفتی (وہ جو فتویٰ دیتا ہے)۔وہ جیسا چاہتا ہے ویسے اسلام کا پرچار کرتا ہے۔لیکن اُسے عوامی جلسوں میں فتو ے جاری نہیں کرنے چاہئیں۔“ ۵؎

عمرانیات کے ماہر امیتاز احمد لکھتے ہیں:

”سعودی لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اُنہیں یہ الہٰی حق ملا ہے کہ وہ پوری دنیا سے لوگوں کو تنگ نظر ی پر مبنی وہابی اسلام کے دائرہ میں لے آئے۔ ذاکر نائیک اُن کا عوامی نمائندہ ہے۔مخصوص وہابی فرقہ بھارت میں عمل میں لائے جانے والے عوامی اور برداشت پر مبنی اسلام کے لئے خطرہ ہے۔میَں نے ایک دو مرتبہ اُسے ٹیلی وژن پر سنا ہے او رمجھے سخت مایوسی ہوئی ہے۔“ ۶؎

بے شک ذاکر نائیک خود وہابی یا سلفی ہونے سے انکار کرے گا(جیسا کہ زیادہ تر وہابی کرتے ہیں)پھربھی اُس کے خیالات مخصوص حد تک وہابی ہیں۔وہابی نظریات شدید حد تک لکیر کے فقیر اور قدامت پسند ہیں جو سعودی عرب سے یہاں آئے ہیں جو بھارت کے بہت سے مسلمانوں کے نظریات کے دشمن ہیں اور وہ مہلک حد تک دوسرے مذاہب کی مخالفت کرتے ہیں۔ذاکر نائیک کے چند مخصوص وہابی نظریات ہیں جو بہت سے بھارتی مسلمانوں سے تضاد رکھتے ہیں:

حضرت محمد ﷺسے اِلتجا کرنا: ذاکر نائیک صوفی مسلمانوں سے انحراف کرتے ہوئے حضوراکرم سے اِلتجا کرنے کی سخت مذمت کرتے ہیں۔

شرعی قانون اور لادینیت پر: ذاکر نائیک دعویٰ کرتا ہے،”بھارت کے مسلمان اسلامی سزا کا قانون (شریعت)کو تمام بھارتیوں پرلاگو کرنے کو ترجیح دیں گے کیونکہ یہ زیادہ قابل ِ عمل ہے۔“

صوفی مُقدسین کا احترام کرنا: نائیک ایسے مسلمانوں کو ملامت کرتا ہے جو صوفی مقدسین کا احترام کرتے ہیں اور اُن کے مزاروں پر بطور
”قبروں کی عبادت کرنے“ والوں کے جاتے ہیں۔

دیگر عقائد پر: 2003ئمیں ٹورنٹومیں اپنی ایک تقریر میں نائیک یہ تسلیم کرتا ہے کہ مسلمانوں کے لئے یہ حرام ہے،منع ہے کہ وہ اپنے مسیحی دوستوں کو کرسمس کی مبارک دیں۔

سعودی عرب تیل کے پیسے یا تیل کی پیداوار سے حاصل کئے گئے ڈالرز سے جارحیت پسندی کی حد تک حرف بہ حرف عمل کرنے والی اسلام کی قسم کو پوری دنیا میں متعارف کروا رہا ہے۔
چند تعلیم یافتہ نامی گرامی مسلم علما نے ماتم کرتے ہوئے کہا کہ اُن کے زیادہ آزاد خیال اور علم و فضل کا نقطہ نظر رکھنے والے چینل نشر کرنے کے لئے تیل کی پیداوار سے حاصل کئے گئے چند ہی ڈالرزمیسر ہیں جو ٹیلی وژن کے ذریعے اِس طرح کی تشہیر کرنے والوں کا مقابلہ کر تے ہیں۔

8نومبر 2008ئمیں ایک انڈینز پریمئر مسلم سنی تنظیم،رضا اکیڈمی کے اراکین اکٹھے مل کر آئے تاکہ ذاکر نائیک کے پروگراموں پر پابندی لگانے کا مطالبہ کریں۔کولابا(Colaba)میں دارالعلوم حنفیہ رضویہ کے مولانااشرف رضانے بھی ذاکر نائیک کے خلاف ایک فتویٰ جاری کیا۔7 اکیڈمی کے ایک رُکن ابراہیم تاہل نے کہا،”پہلے اُس نے مسیحیوں کو اپنا ہدف بنایا اور اب وہ سنی مسلمانوں کے خلاف ہے۔ہم
آر۔آر۔پاٹیل اور کے۔پرشاد سے ملے ہیں اور اُن سے اُس کے پروگرام پر پابندی عائد کرنے کو کہا ہے۔“اُس نے مزید کہا،”ہم جاننا
چاہتے ہیں کہ نائیک کو مالی مدد کہاں سے ملتی ہے؟“نمایاں بھارتی مسلمان جیسے کہ سلمان خورشیداور جاویداخترنے نائیک کے بارے میں جو کچھ محسوس کیا وہ اُس کی بھارتی مسلم برادری کو تبدیل کرنے اور فرقہ وارانہ جد و جہد کی شر انگیز کوششیں تھیں۔بھارتی مسلمانوں نے صوفی
پیروکاروں کو ”قبر کے پجاری“ کہنے پر اُس کو ملامت کی۔اِسی طرح برطانیہ کے مسلمانوں نے اُس کے اسلامی تاریخ،اسلامی علم ِ الہٰی سے بے بہرہ ہونے اور اُس کے متعصب وہابی نظریات پر اُس کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

دوسرے کئی مسلمانوں کے برعکس،ذاکر نائیک کے نزدیک اسلامی تاریخ کی حدود میں جو کچھ بھی ہے وہ بِنا کسی سوال کے مثبت ہے اور دائرہ اسلام سے جو کچھ باہر ہے وہ لازمی طور پربُرا اور بدی ہے۔اُس کے اسلام سے جو کچھ بھی باہر ہے وہ بالکل جہالت ہے جو کچھ بھی اسلامی اُمہ کے اندر ہے وہ مثالی او رکامل ہے۔یہ اچانک ردعمل اُس وقت عیاں ہوا جب اُس نے یہ کہہ کر یزید کو برکت دی،”رضی اللہ تعالیٰ عنہُ“،
جس کا مطلب ہے،”خدا اُس سے خوش ہو۔“یزید اسلام کے ابتدائی دور میں ایک غیر معروف شخص تھا،جسے سنی علما کہتے ہیں کہ وہ ”ایک فاسق تھا جس نے اپنی ماں،بہن اور بیٹیوں کے ساتھ ہم بستری کی،جس نے شراب پی اور جو نماز نہیں پڑھتا تھا۔“ ۸؎ اُس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اُس نے مدینہ کے ایک حملے میں تقریبا ًایک ہزار عورتوں کی عصمت دری کروائی اور دس ہزار لوگوں کو اپنا غلام بنایا ۹؎ اور وہ غالباً اسدومی تھا۔تب بھی یہ شخص ذاکر نائیک کے نزدیک جنت میں جانے کے قابل ایمان دار تھا اور اُس کا دفاع اِس لئے کرنا چاہئے کیونکہ وہ اسلامی تاریخ کا ایک حصہ ہے۔

ذاکر نائیک کے نظریات اِس قسم کا وہابی قدامت پسندی،بنیاد پرستی،اور تنگ نظر ی کا اسلامی نظریہ پیش کرتے ہیں جس میں کسی قسم کی خود پر تنقید یا دیگر مذاہب یا ثقافتوں کو کھلے دل سے قبول کرنے کا کوئی بھی نشان نظر نہیں آتا۔اگر ہم اسلامی تاریخ کا مطالعہ کریں تو ایسی بہت سے باتیں ہیں جن پر ہم فخر کر سکتے ہیں جس میں ایک بہت بڑا تعلیمی اور سائنسی کا میابیوں کادَور بھی شامل ہے۔تب بھی اسلامی تاریخ کی چند ابتدائی صدیوں میں اِن کامیابیوں نے بھارتی تہذیب اور یونانی تہذیب جیسی دیگر ثقافتوں کے لئے بہت بڑے کھلے ذہن کے ساتھ مطابقت رکھی۔یہ وہ وقت تھا جب مسلم علما نے دیگر ثقافتوں کے علما کے ساتھ مل کر کام کرتے ہوئے اور اُن کے فلسفو ں کے ساتھ متحد ہوتے ہوئے اُن کے عظیم کاموں کا مطالعہ کیا اور اُس میں ضم ہو گئے۔اسلامی تاریخ کے عظیم ترین علما جیسے کہ ابن ِ سینااور ابن ِ رُشد دیگر ثقافتوں کی روایات کو کھلے دل سے قبول کرتے تھے مگر اُنہیں کافر قرار دیتے ہوئے ملامت کی گئی۔اِس نشا ۃِثانیہ کی تبدیلی، اسلامی عظمت کے زوال سے تب شروع ہوئی جب ذاکر نائیک جیسے تنگ نظرفلسفیانہ نقالوں نے تمام دیگر علم و فضل کو جہالت اور آزمائش قرار دے دیا اور یہ
تقاضا کیا کہ علما صرف”خالص“ اسلامی مضامین کا مطالعہ کریں۔ ۰۱؎ ذاکر نائیک کے ساتھ سب سے بڑی ستم ظریفی یہ ہے کہ اگرچہ وہ بڑے جوش و خروش سے اسلام کے سنہرے دَور کا ذکر کرتا ہے مگر یہ بالکل اُسی کی طر ح کاذہین ہے جس نے قبولیت کے اِس سنہرے دور کو تباہ کر دیا اور اِسے زوال کا شکار بنادیا۔

کیا ذاکر نائیک بہترین اسلامی علم ِ الہٰی اورعلمیت کی نمائندگی کرتا ہے؟

حقیقت یہ ہے کہ ذاکر نائیک ایک تربیت یافتہ سرجن اورمنتخب صحائف کے حوالوں کی ایک چلتی پھرتی انسانی یاداشت کی ایک ڈرائیو ہے لیکن وہ کوئی مفکّر یا عالم نہیں ہے۔اسلامی علم ِ الہٰی اور تاریخ میں اُس کی تھوڑی سی عام تعلیم ہے۔اسلام کے چوٹی کے علم ِ الہٰی کے ماہرین اور سائنس دان ذاکر نائیک کے طریقہ کار اور تعلیم کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

سائنس پر

مثلا ذاکر نائیک ایک بات کا شوقین ہے جسے ”بکاؤلے ازم“ (Bucailleism)کہا جاتا ہے یعنی ”قرآن مجید کے سائنسی معجزات“ جنہیں وہ اپنے ٹیلی وژن کے پروگرام میں پیش کرتا ہے۔تاہم مشہوربھارتی اسلامی علم ِ الہٰی کے ماہر جناب مولانا اشرف علی تھانوی (بہشتی زیور کے مصنف)اپنی کتاب ”اسلام اور عقلیات“ ۱۱ ؎میں اِس طریقہ کار کی مخالفت کرتے ہیں۔اِسی طرح مغرب اور عرب یونیورسٹیوں کے بہت سے نامی گرامی اسلامی سائنس دان ”بکاؤلے ازم“ سے اتفاق نہیں کرتے۔ضیاء اُلدین شاکراپنی کتاب،”Exlporations in Islamic Science“ میں سائنسی معجزات پر مناظرہ کو ”بُری طرز کا مناظرہ“ کہتے ہیں۔پین سٹیٹ یونیورسٹی کے مسلم مؤرّخ نعمان الحق”بیکاؤلے ازم“ کے سب سے بڑے نقاد ہیں جو بیکاؤلے ازم کے آغاز کو مسلمانوں میں ”بہت گہرا احساس کمتری“ قرار دیتے ہیں جن کو آبادیانی نظام نے تضحیک کا نشانہ بنایا اور وہ اسلامی سائنس کی گذشتہ عظمت کو حاصل کرنا چاہتے ہیں۔12 ایک اور نقاد مظفر اقبال ہیں جو کینیڈا میں البرٹا میں اسلام اور سائنس کے مرکز میں صدر کے عہدے پر فائز ہیں۔مسلم عملی ماہر طبیعات اورپاکستان کے ایم۔آئی۔ٹی کے گریجویٹ پرویز ہود بائے لکھتے ہیں:

”ایسے دعوے کرنے والوں کا مسئلہ یہ ہے کہ اُن میں اِس بات کی وضاحت کرنے کی کمی ہوتی ہے کہ کیوں حجم کی تکنیک،مالیکیولز کی ساخت
وغیر ہ کو کہیں اَور دریافت ہونے کے لئے انتظار کرناپڑا۔اور نہ ہی کبھی کسی قسم کی مُستند پیشین گوئیاں کی گئیں۔اُن کے پاس اِس بات کی بھی کوئی دلیل موجود نہیں کہ اینٹی بائیٹکس،اسپرین،بھاپ کے انجن،بجلی،ہوائی جہاز،یا کمپیوٹر پہلے مسلمانوں نے کیوں ایجاد نہیں کئے۔بلکہ ایسے سوالات پوچھنا توہین آمیز سمجھا جا تا ہے۔“ ۱۳؎

ترکی کے فلسفی اور ماہر طبیعات جناب ٹینر ادیس لکھتے ہیں:

”قرآن -سائنس(بیکاؤلے ازم)رقت انگیز ہے لیکن بہت سے مسلمانوں نے بھی اِس بات کو تسلیم کیا ہے۔ جتنی انسٹیٹیوٹ فار کریشین ریسرچ مسیحیت کی ترجمانی کرتا ہے اُسی طرح یہ اُس سے زیادہ اسلام کا اظہار نہیں کرتی۔ تاہم وہ احمقانہ شدت جو میَں نے اُوپر بیان کی ہے وہ سائنس او رقدامت پسند اسلام کے درمیان مبہم تعلق کی وضاحت کرسکتی ہے۔جبکہ بہت سے ایمان دار
اِس مسئلے کے نظر انداز کرنے کو تیار ہیں اور قرآن مجید کے ساتھ مکمل سائنسی ہم آہنگی کا اظہار کرتے ہیں۔کچھ ماہرینِ اَدراکی متعلقہ راستہ اپناتے ہیں،یا اِس بات پر زور دیتے ہیں کہ سائنس کا بیان اسلام کے مطابق ہونا چاہئے،اِس لئے ہمیں فطرت کے اسلامی نظریے کو تسلیم کرنا ہے۔“ ۱۴؎

”اِسلامی سائنس“ کے حوالے سے،پاکستانی نوبل انعام یافتہ اور ماہر طبیعات جناب ڈاکٹر عبدالسلام لکھتے ہیں:

”صرف ایک عالمگیر سائنس ہے؛اِس کے مسائل اور اِس کے طریقے بین الاقوامی ہیں اور اسلامی سائنس جیسی کوئی چیز نہیں ہے جیسے کہ ہندو سائنس یا یہودی سائنس،یا کنفیوشین سائنس اور نہ ہی مسیحی سائنس ہے۔“

مذاہب کے تقابل پر

اپنے قدردانوں کے نزدیک،تقابلی مذاہب میں نائیک سب سے پیش پیش ہے۔جب کہ حقیقی مفکرین جیسے کہ سید حسین نصریا نعمان الحق دیگر مذاہب کے مفکرین کے ساتھ کہیں زیادہ سنجیدہ اورفطین بحث فراہم کرتے ہیں۔

ذاکر نائیک کا موجودہ دَور میں موجود توریت شریف،زبور شریف اور انجیل شریف کو مکمل طور پر ردّ کردینا کسی طرح بھی اسلامی علمیت کو پیش نہیں کرتا۔
سلطنت عمان کے سلطان اور عرب اوراسلامیات کے پروفیسر جناب عبداللہ سعید لکھتے ہیں:

”چونکہ یہودیوں او رمسیحیوں کے مُستندصحائف آج بھی اُسی حالت میں موجود ہیں جیسے وہ نبی اکرم حضر ت محمد ؐ کے دور میں تھے،اِس لئے یہ بحث کرنا قدرے مشکل ہے کہ قرآن مجید میں کیا گیا توریت شریف او رانجیل شریف کا ذکر صرف ”اصلی“زبور شریف او ر
انجیل شریف کی طرف اشارہ ہے جو حضرت موسیٰ او رحضرت عیسیٰ المسیح کے زمانے میں موجود تھی۔اگر یہ متون کم و بیش ویسے ہی ہیں جیسے وہ ساتویں صدی میں تھے،او رقرآن مجید نے اُنہیں تعظیم بخشی تو پھر و ہ تعظیم آج بھی قائم رہنی چاہئے۔قرآن شریف کے بہت سے مفسر، الطبری سے لے کر رازی تک،بلکہ ابن تیمیہ تک اور حتیٰ کہ قطب بھی اِسی خیال کو بیان کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
موجودہ دَور میں بہت سے مسلمانوں کا یہودیت او رمسیحیت کے صحائف کو ردّ کر دینے کا اپنا یا ہوا رویہ خود قرآن مجید اور تفاسیر کرنے والی بڑی شخصیات کی حمایت کرتے ہوئے دکھائی نہیں دیتا ہے۔“ ۱۵؎

ذاکر نائیک اور دہشت گردی

ایک وہابی قدامت پسند ہوتے ہوئے ذاکر نائیک دہشت گردی کی مذمت کرتے ہوئے ہچکچاہٹ محسوس کرتا ہے۔جب اُس پر طالبان اور القاعدہ کی زیادتیوں کی مذمت کرنے کے لئے دباؤ ڈالا گیا تو اُس نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا اور یہ بیان دے کر شہرت کھو بیٹھا،”ہر مسلمان کو دہشت گرد ہونا چاہئے،او راگر اُسامہ امریکہ کے خلاف لڑ رہا ہے تو میں اُس کے ساتھ ہوں۔“

بظاہر ذاکر نائیک کی اُسامہ بن لادن سے کوئی رُوبرو ملاقات نہیں ہوئی،لیکن بکاؤلے ازم کا چمپئین ہونے کے ناطے،ذاکر نائیک کو اُسامہ بن لادن کی طرف سے اُس کے بکاؤلے ازم کے وسائل کے لئے براہ ِ راست مالی مدد ملتی تھی۔ ۶۱؎ برطانیہ میں نائیک کے ایک مخالف نے لکھا کہ کس طرح نائیک کے بڑے بڑے قدر دان خود کش بمبار او ردہشت گرد ہیں۔احمد کفیل جس نے گلاسکو ائیر پورٹ پر خود کش حملہ کیا تھااُس نے ذاکر نائیک کو دعوت دی تھی کہ وہ بنگلور آ کر اُسے او راُس کے دوستوں کو ایک درس دے۔جب کراچی کی لال مسجد میں سے پاکستانی طالبان کو زبردستی نکالا گیا تو ڈان اخبار نے یہ رپورٹ دی کہ وہاں سے ذاکر نائیک کی کئی کیسٹس ملیں۔

نائیک کے طریقے

نائیک نے پروپیگنڈہ(غلط منصوبہ بندی) کو عروج پر پہنچایا ہے۔ یہ مسلسل نصف سچائیوں،متن سے باہر اقتباسات اورجھوٹے اعدادوشمار کے استعمال سے علمیت کی وسعت کو محدود کرتاہے۔اِس میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ اپنے خلاف کسی بھی مدبّر مناظرہ کرنے والے جیسے کہ سیم شمعون اور علی سینا کے ساتھ مناظرہ کرنے سے کتراتا ہے۔
درج ذیل میں اُن طریقوں کا ذکر کروں گا جو ذاکر نائیک استعمال کرتا ہے اور ہر ایک کی مثال بھی پیش کروں گا۔

جھوٹی معلومات

دوٹوک بیان کرتے ہوئے،نائیک کی بہت سی معلومات بالکل جھوٹی ہیں۔آئیے!…

بسم اللہ کا مطلب

یہ خوبصورت فقرہ خدا کی بنیادی صفت- اُس کے عظیم رحم یا فضل کا اعلان کرتا ہے۔خدا کا رحم انسانیت کے لئے خود اُس کی راست بازی کے ذریعے نجات مہیا کرنے سے ظاہر ہوتا ہے۔

مندرجہ بالا جملہ عام طور پر بسم اللہ کے نام سے جانا جاتا ہے کیونکہ عربی میں یہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھا جاتا ہے۔ماسوائے نویں سورہ کے قرآن مجید کی ہر سورہ کی تمہید اِس سے شروع ہوتی ہے۔تاہم،اللہ کے نام کے بطور پُر فضل اور رحیم ہونے کا اِعلان قرآن مجید کے نزو ل کے وقت سے نہیں تھا۔دراصل،بسم اللہ عربی مسیحی اور مسلمان دونوں استعمال کرتے ہیں۔پچھلے صحائف جیسے کہ توریت شریف،زبور شریف، او رانجیل شریف اللہ تعالیٰ کے بارے میں بطور پُر فضل اور رحیم یا ترس کھانے والے کے بات کرتے ہیں۔

ہر میں سے ایک مثال دی گئی ہے:

توریت شریف –“خداوند، خداوند خدایِ رحیم اور مہربان قہر کرنے میں دھیما او رشفقت او روفا میں غنی…”(خروج 6:34) زبور شریف –“لیکن تُو یارب!