نجات فضل سے یا اعمال سے؟
بہت سے مسلمان نیک کام اِس غلط مقصد سے کرتے ہیں کہ اپنی نجات خود حاصل کر سکیں، لیکن قر آن اور حدیث میں مضبوط اشارے پائے جاتے ہیں کہ نجات بنیادی طور پر خدا کی شفقت کا نتیجہ ہے، نہ کہ ہمارے بہت سے نیک اعمال کا نتیجہ:
…مومنو!
بہت سے مسلمان نیک کام اِس غلط مقصد سے کرتے ہیں کہ اپنی نجات خود حاصل کر سکیں، لیکن قر آن اور حدیث میں مضبوط اشارے پائے جاتے ہیں کہ نجات بنیادی طور پر خدا کی شفقت کا نتیجہ ہے، نہ کہ ہمارے بہت سے نیک اعمال کا نتیجہ:
…مومنو!
یسوع کے حقیقی شاگرد دُعا کرنے والے لوگ تھے۔ یسوع نے اپنے شاگردوں کو کوئی رسمی نماز نہیں سکھائی، بلکہ اُس نے خدا کے ساتھ دُعا میں وقت کے طویل دورانیے گزارے۔ دُعا پر یسوع کی بنیادی تعلیم میں اِس بات پر زور دیا گیا ہے کہ دُعا دِل سے کی جانی چاہئے:
میرے شامی دوست، آپ نے ایک اہم سوال پوچھا ہے۔ سب سے پہلے، میں کہنا چاہوں گا کہ میں نے ہمیشہ دُعا میں مسلمانو ں کی سپردگی کو سراہا ہے۔ سچے مسیحی بھی یقیناً دُعا کرنے والے لوگ ہیں۔
عیسیٰ مسیح کے بارے میں انجیل مُقدس جس ایک انتہائی اہم بات کاذکر کرتی ہے وہ اُن کی دعائیہ زندگی ہے۔ اُنہوں نے اکثر اللہ کے ساتھ دُعا کرنے میں طویل وقت گزارا۔ شاگردوں نے اِسے دیکھا۔ اُس کی مثال کی پیروی کرنے کے لئے ایک دن اُنہوں نے اُس سے کہا ”اے خداوند ہمیں دُعا کرنا سکھا۔“
عیسیٰ مسیح نے تب اُنہیں سچی دُعا کرنے کا ایک نمونہ دیا۔
آپ نے فرمایا ”پس تم اِس طرح دُعا کیا کرو کہ اے ہمارے باپ!
لاطینی یا یونانی قدیم ترین ادب میں سے کسی سے بھی کہیں زیادہ کتاب مقدس کے مُستند ہونے کے شاندار اور قلمی نسخوں کے ثبوت موجود ہیں۔ انتہائی قدیم اور شروع کے قلمی نسخے موجود ہیں۔اوسطاً کسی بھی ادبی مصنف کے کام کے قلمی نسخوں کی نسبت انجیل شریف(نئے عہد نامے) کے ایک ہزار سے زیادہ قلمی نسخے موجود ہیں۔دوسرے الفاظ میں،اگر ہم انجیل شریف(نئے عہد نامے)کے مُستند ہونے سے انکار کرتے ہیں تو پھر ہمیں کہیں زیادہ مضبوطی سے قدیم تہذیب کے تاریخی ریکارڈ کا انکار کرنا چاہئے۔آج بھی یونانی میں لکھے گئے نئے عہد نامے کے پانچ ہزار سات سو قلمی نسخے موجود ہیں۔
تصنیف | ابتدائی قلمی نسخوں کے درمیان کا وقت | موجودقلمی نسخوں کی تعداد |
---|---|---|
افلاطون | 1300 سال | 7 |
ہومر کا ایلیڈ | 400 سال | 643 |
قیصر کی گیلک جنگیں | 1000 سال | 10 |
لیوی کی روم کی سوانح عمر ی | 400 سال | 27 |
ٹیکٹس انالز | 1000 سال | 20 |
تھوسی ڈائڈز کی تاریخ | 1300 سال | 8 |
ہیرودوتس کی تاریخ | 1350 سال | 8 |
انجیل شریف | 50 سال | 5700 |
5700 کا اشارہ صرف یونانی زبان میں لکھے گئے اصلی مسودوں کی طرف ہے جب کہ نئے عہد نامے کے سُریانی،قبطی،لاطینی،آرمینی،
جارجین اور گوتھک زبانوں میں 20,000سے لے کر 25,000ابتدائی تراجم کے قدیم قلمی نسخے موجود ہیں۔حضرت محمد کے زمانے سے سینکڑوں سال پہلے نئے عہد نامے کے تین بنیادی یونانی قلمی نسخے موجود ہیں:
کوڈیکس سینا ٹیکس: یہ مسودہ بھی برٹش میوزیم میں نمائش کے لئے رکھا گیا ہے جس کی تاریخ چوتھی صدی عیسوی کے اواخر کی ہے اور جو پوری انجیل شریف (نیا عہد نامہ)پر مشتمل ہے۔
کوڈیکس ویٹیکینس: یہ جلدروم میں ویٹکین لائبریری میں محفوظ ہے جو چوتھی صدی عیسوی میں ہاتھ سے لکھا گیا۔
یہ دو مختلف اقسام کے متن سے مل کر بنے ہیں (اِس کا مطلب ہے کہ جلدوں کے مختلف خاندانوں سے جن کا حقیقی ماخذ ایک ہی ہے)پھر بھی مجموعی طور پر وہ ایک دوسرے کے ساتھ مطابقت رکھتے ہیں۔
اِن مکمل جلدوں کے علاوہ انجیل شریف کے بہت سے حصے ہیں جو انجیل شریف کی کتب کے لکھے جانے کے 60-40سالوں بعد منظر عام پر آئے۔مثلاًپیائرس صفحہ نمبر 52تقریباً 135عیسوی کا لکھا ہوا مقدس یوحنا رسول کی انجیل کے 18ویں باب کا ایک ٹکڑا ہے۔یہ قلمی نسخہ دریائے نیل کے ساحلی کنارے سے دریافت ہوا جو یہ ثبوت فراہم کرتا ہے کہ مقدس یوحنا کی انجیل افسس کے مقام سے جہاں یہ مرتب ہوئی بہت دوردراز کے علاقے میں پائی جاتی تھی۔جہاں ایک اوسط ادبی مصنف کا پہلے پانچ سو سالوں کا کوئی قلمی نسخہ موجود نہیں ہے وہاں نئے عہد نامے کی تکمیل کے پہلے 100سال سے 10سے15 نسخے اور ابتدائی تین سو سالوں کے 99قلمی نسخے موجود ہیں۔3
اناجیل کے چند نقاد یہ الزام لگاتے ہیں کہ ”برنباس کی انجیل“ کا مسودہ حضرت عیسیٰ کی اصلی انجیل ہے اور وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ مسیحیوں نے جان بوجھ کر اُسے چھپایا جب تک یہ 18 ویں صدی میں خود سے اچانک سامنے نہیں آ گئی۔ متی،مرقس،لوقا او ریوحنا کی اناجیل کے سینکڑوں ابتدائی نسخے موجود ہیں، لیکن حضرت عیسیٰ کے ایک ہزار پانچ سو سال بعد تک برنباس کی انجیل کے نسخے کی کوئی نقول موجود نہیں ہیں۔نیچے ہم دیکھیں گے کہ یہ مسودہ جنوبی یورپ میں 1500 اور 1590 کے درمیانی عرصے میں مرتب ہوا۔
بد قسمتی سے جعلساز کی کتاب مقدس،قرآن اور قدیم فلستین کی غیر واضح سمجھ اِس بات کو عیاں کرتی ہے کہ وہ فلستین سے ناوا قف اور قرون لکھنے کی تاریخ وسطیٰ کی ہے۔
”برنباس کی انجیل“میں سولہویں صدی کی تصنیف کی چند ناقابل ِ انکار نشانیاں شامل ہیں۔توریت شریف نے بنی اسرائیل کو حکم دیا کہ وہ
ّآرا م کرنے اور قرض اُتارنے کے لئے ہرپچاسواں سال ”یوبلی“ سال کے طور پر منایا کریں،مگر ”برنباس کی انجیل“کا مصنف اِس وقفے
کے سو سال دیتا ہے۔حضرت عیسیٰ کے زمانے کے کسی بھی یہودی نے ایسی بڑی غلطی نہیں کی ہو گی۔مصنف نے ایک سو کا عدد کہاں سے لیا؟
تقریباً 1300 عیسوی کے قریب پوپ بونیفس ہشتم نے اِس رہائی کے ”جوبلی“ سال کو دوبارہ متعارف کروایاجس پر صدیوں سے عمل نہیں ہو رہا تھالیکن اِسے کلیسیا کو 100 سال کے بعد منا نے کا حکم دیا۔بعد میں پوپ صاحبان نے اِسے واپس 50 سال پر کردیا اور پھر مزید گھٹا کر 25 سال کر دیا۔بظاہر ”برنباس کی انجیل“کے مصنف نے پوپ بونیفس کے حکم کے متعلق سنا ہو گا اور سمجھا ہو گا کہ یہ حضرت عیسیٰ ؑ نے دیا تھا۔
اُس نے بغیر سوچے سمجھے قرون ِ وسطیٰ کے مصنف دانتے کے چند اقوال او رخیالات بھی شامل کر دئیے جو نہ تو کتاب مقدس میں اور نہ ہی
قرآن میں شامل ہیں۔دانتے 13 ویں صدی کا اٹلی کا رہنے والا ایک شخص تھا جس نے جہنم او رجنت کے بارے میں ایک تخیلاتی
ادب لکھا جسے ”الہٰی مزاح“(The Divine Comedy)کے نام سے جانا جاتا ہے۔دانتے کے بہت سے اقوال نے ”برنباس کی انجیل“میں اپنی جگہ بنالی جیسے کہ یہ ایک جملہ،”dei falsi e lugiadi“(”نقلی اور جھوٹے دیوتا“) (Inferno 1:72, Gospel of Barnabas para 23)جو نہ تو کتاب مقدس میں اور نہ ہی قرآن میں موجود ہے۔
”برنباس کی انجیل“مے کو لکڑی کے مٹکوں میں ذخیرہ کرنے کے بارے میں لکھتی ہے (پیرا 152)،یہ دستور قرون ِوسطیٰ میں عام تھا لیکن
فلستین میں پہلی صدی میں نامعلوم تھا جہاں مے کو مشکوں میں ذخیرہ کرتے تھے۔مزید یہ کہ مصنف یسوع کو یہ فرماتے ہوئے لکھتا ہے کہ
گرمیوں کے موسم میں دنیا کتنی خوبصورت لگتی ہے جب فصل اور پھل وافر مقدار میں ہوتے ہیں (پیرا 169)۔یہ اٹلی میں موسم گرما کا ایک
اچھا تذکرہ ہے،لیکن فلستین کا نہیں جہاں اِس وقت بارش ہوتی ہے اور فصلیں موسم سرما میں اُگتی ہیں لیکن کھیت گرمیوں کے دنوں میں پکتے ہیں۔
مصنف فلستین کے جغرافیہ سے بھی ناواقف تھا کیونکہ وہ ناصرت کو گلیل کی جھیل پر ایک ساحلی شہر قرار دیتا ہے(پیرا 21,20) جبکہ ناصرت کا شہر سطح سمندر سے 1300 فٹ بلند ہے اورسمندر سے 20 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ 99 باب میں صور کو دریائے یردن کے قریب بیان کیا گیا ہے جب کہ حقیقت میں یہ موجود ہ لبنان سے کوئی 50 کلومیٹر دُور ہے۔”برنباس کی انجیل“حضرت عیسیٰ مسیح کو
ہیکل کے کُنگرے سے تعلیم دیتے ہوئے بیان کرتی ہے۔اگر اُس نے ہیکل کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہوتا تو وہ یہ جان گیا ہوتا کہ وہ کُنگرہ 150 فٹ بلند تھا جہاں سے منادی کرنا ناممکن ہے۔مصنف حضرت عیسیٰ مسیح کی الوہیت کے مسئلے پرتین فوجوں کی بھیڑ بھی بیان کرتا ہے اورہر ایک میں 200,000 آدمی جنگ میں شریک تھے۔ یٹینیکا کے انسائیکلوپیڈیا کے مطابق اُس وقت رومیوں کی باقاعدہ فوج کی تعداد
کوئی 300,000 تھی جب کہ اِس کی نصف پیچھے محفوظ تھی۔70عیسوی میں رومیوں کے ہاتھوں یروشلیم کی تباہی تک یہودیہ میں صرف ایک چھوٹی سی چھاؤنی موجود تھی۔1
بہت سی نشاند ہیوں میں سے یہ صرف ایک مختصر سی فہرست ہے کہ یہ مسودہ قرون ِ وسطی کے بُرے یورپی نے لکھا تھا۔اِس کے مزید ثبوت درج ذیل ویب سائٹ پر موجود ہیں: www.unchangingword.com…
کئی مقامات پر قرآن یہودیوں (مسیحیوں پر نہیں) پر اپنے صحائف غلط استعمال کرنے پر تنقید کرتا ہے اور اُن پر تحریف کرنے ( حُيَرِّفُونَهُ) 75:2، چھپانے (61:6،140:2) ،پڑھتے ہوئے اپنی زبانوں کو مروڑنے ( يَلْؤنَ السِنَتَهُم ) 78:3 ، اور حتیٰ کہ الفاظ کو اُن کی اصلی جگہ سے تبدیل کردینے ( حُيَرِّفُونَ الكَلِمَ عَنْ مَوَاضِعِهِ – 12:5-14) کا الزام لگاتا ہے۔مثلاً
”اور اِن (اہل ِ کتاب) میں بعض ایسے ہیں کہ کتاب (توریت) کو زبان مروڑ مروڑ کر پڑھتے ہیں تاکہ تم سمجھو کہ جو کچھ وہ پڑھتے ہیں کتاب میں سے ہے حالانکہ وہ کتاب سے نہیں ہوتا اور کہتے ہیں کہ وہ خدا کی طرف سے (نازل ہوا) ہے حالانکہ وہ کتاب میں سے نہیں ہوتا او رخدا پر جھوٹ بولتے ہیں اور (یہ بات)جانتے بھی ہیں۔ (آل عمران 78:3)
تاہم،قرآن ایک مرتبہ بھی نہیں کہتا کہ تحریری متن تبدیل ہوا ہے،نہ ہی یہ کہتا ہے کہ اصلی صحائف اُس وقت کی نسبت مختلف ہیں،
بلکہ اِس کی بجائے قرآن یہودیوں او رمسیحی صحائف کے بارے میں بہت سی مثبت باتیں کہتا ہے:
”اہل ِانجیل کو چاہئے کہ جو احکام خدا نے اُس میں نازل فرمائے ہیں اُس کے مطابق حکم دیا کریں اور جو خدا کے نازل کئے ہوئے احکام کے مطابق حکم نہ دے گا تو ایسے لوگ نافرمان ہیں“ (سورۃ المائدۃ 47:5)
”کہو کہ اے اہل ِ کتاب جب تک تم تورات اور انجیل کو اور جو (اور کتابیں) تمہارے پروردگار کی طرف سے تم لوگوں پر نازل ہوئی اُن کو قائم نہ رکھو گے کچھ بھی راہ پر نہیں ہو سکتے۔“ (سورۃ المائدۃ 68:5)
”اگر تم کو اِس کتاب کے بارے میں جو ہم نے تم پر نازل کی ہے،کچھ شک ہو تو جو لوگ تم سے پہلے کی (اُتری ہوئی) کتابیں پڑھتے ہیں اُن سے پوچھ لو۔“ (سورۃ یونس 94:10)
”اُس کی باتوں کو کوئی بدلنے والا نہیں“ (سورۃ الانعام 115:6)
قرآن کے اِن دونوں مختلف رویوں کے درمیان ہم آہنگی کا واحد درست راستہ دراصل قرآن ہی میں موجود ہے،بار بار دہرایا گیا دعویٰ کہ الہٰی کتاب کے دو مختلف فریق یا حصے ہیں،اچھے اور بُرے۔نیک حصہ اپنے مقدس صحائف سنبھال کر رکھتا ہے اور بڑی وفاداری سے اُس کی پیروی کرتا ہے،جب کہ بُرا حصہ غیر الہامی نظریات سکھاتا ہے اور اپنے مفاد کی خاطر اُن کے معنوں کو مروڑتاہے:
”یہ بھی سب ایک جیسے نہیں ہیں اِن اہل ِ کتاب میں کچھ لوگ (حکم خدا پر)قائم بھی ہیں۔“ (سورۃ آل عمران 113:3)
”اور بعض اہل ِ کتاب ایسے بھی ہیں جو خدا پر اور اُس (کتاب)پر جو تم پر نازل ہوئی اور اُس پر جو اُن پر نازل ہوئی ایمان رکھتے ہیں اور خدا کے آگے عاجزی کرتے ہیں اور خدا کی آیتوں کے بدلے تھوڑی سی قیمت نہیں لیتے۔یہی لوگ ہیں جن کا صِلہ اُن کے پروردگار کے ہاں (تیار)ہے۔“ (آل عمران 199:3)
”ہم نے اُن کا اَجر دیا۔او راُن میں سے بہت سے نافرمان ہیں۔“ (27:57)
اِس قرآنی جدول کو استعمال کرتے ہوئے ہم اِن دو گروہوں کی خصوصیات میں فرق کر سکتے ہیں:
-دئیے گئے سونے کے بارے میں قابل بھروسا (74:3)
-انصاف کا ساتھ دیتے ہیں،بُرائی سے منع کرتے ہیں (113:3)
-نیکیاں کرنے میں ایک دوسرے کا مقابلہ کر نا (113:3)
-راست باز (113:3)
-ناقابلِ بھروسہ، کنجوس(74:3)
-شرم ناک حد تک کمزور ایمان (75:3)
-بُرائی کرنے والے (111:3)
-بغاوت اور ظلم کرنے والے (112:3)
-غصہ کرنے والے (120:3)
-وہ نیک ارادوے سے رہبانی نظام قائم کرتے ہیں،لیکن اُنہوں نے وفاداری سے اِس پر عمل نہیں کیا (27:57)۔
اُنہیں خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں (69:5)
اُنہیں روز ِقیامت اَجر ملے گا (113:3)
وہ تین الگ الگ خدا ؤں پر ایمان رکھتے ہیں:حضرت مریم اور اللہ تعالیٰ پر (116:5)۔وہ کہتے ہیں اللہ تین میں کا تیسرا ہے۔ (73:5)
وہ سمجھتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے فضل کو اپنے قابو میں کر سکتے ہیں (29:57)
وہ حضرت ابراہیم،حضرت اسماعیل،حضرت اسحاق،حضرت یعقوب ،حضرت موسیٰ او ریہودیوں میں امتیاز کرتے ہیں۔
وہ حضرت عیسیٰ کے انسان ہونے کا انکار کرتے ہیں (75:5) اور دعویٰ کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ نے کہا،”خدا کی بجائے میری عبادت کرو“ (79:3) اور”فرشتوں او رپیغمبروں کو خدا بنالو“
خاندانی شجر درج ذیل ہے:
…
2۔سموئیل میں ”بہادر مردوں“(ایش خایل) کی تعداد جنہوں نے تلوار چلائی،800,000تھے لیکن اِس میں 288,000کی پیادہ فوج کا شمار نہیں تھا جو 1 -تواریخ 1:27-15 میں بیان کی گئی ہے یا اُن 12,000کا ذِکر نہیں ہے جو یروشلیم سے خاص طور پر منسلک تھے اور جن کا ذکر 2 -تواریخ 14:1میں کیا گیا ہے۔اگر ہم اِن تینوں اعداد کو جمع کریں تو ہمیں 1,100,000کی تعداد ملتی ہے جو بالکل وہی کُل تعدادہے جو 1 -تواریخ 21:5میں دی گئی ہے۔یہ تعداد زیادہ خاص اصطلاح (ایش خایل)استعمال نہیں کرتی۔
یہوداہ کی فوج کے ساتھ بھی یہی مسئلہ ہے۔1 -تواریخ 21باب میں 470,000کی تعداد میں پیادہ30,000آدمیوں کی وہ فوج شامل نہیں ہے جس کا ذکر 2 -سموئیل 1:6میں کیا گیا ہے۔1 -تواریخ 6:21 کا حوالہ واضح طور پر یہ بیان کرتا ہے کہ مردم شماری کے بارے میں حضرت داؤد کی دوسری سوچ کی وجہ سے یوآب نے گنتی مکمل نہیں کی تھی۔
… 1 -سلاطین میں درج ہے کہ حوض میں عام طور پر 2,000بت پانی ٹھہرتا(کول) تھا جب کہ 2 -تواریخ ہمیں بتاتی ہے کہ اگر اِس میں
لبالب پانی بھر دیا جاتا تو اِس میں 3,000بت پانی سما سکتا تھا (خازیق)۔ یہ گڑ بڑ عبرانی میں دو مختلف افعال کا ایک اَور زبان کے ملتے جلتے افعال سے ترجمہ کرنے کا نتیجہ ہے۔
تواریخ میں دیئے گئے اعداد و شمار زیادہ واضح ہیں جب کہ سلاطین کے اعداد مہینوں کی تعداد پر ختم ہوتے ہیں،یہ تصور کرتے ہوئے کہ اضافی دس دنوں کا ذِکر کرنا کوئی خاص ضروری نہیں۔وقتوں کا اندراج ہمیشہ موزوں طریق پر ہوتا ہے ورنہ ہمیں ہمیشہ گھنٹوں،منٹوں اور سیکنڈوں کو بھی پڑھنے پرزور دینا ہو گا جو ذرا احمقانہ بات ہے۔تین ماہ اور دس دن کے لئے تین ماہ بیان کرنا مکمل طور پر اظہار کا عام طریقہ ہے۔
قرآن میں دو اقتباسات میں ہم آہنگی پیدا کرنے کے لئے ہمیں موزوں طریق پر اعداد وشمار کو قبول کرنا چاہئے۔سورۃ لقمان 14اور
سورۃ البقرہ 233ہمیں بتاتی ہے کہ دو سال کے عرصے میں دودھ چھڑایا جاتا ہے جب کہ سورۃ الاحقاف15:46ہمیں بتاتی ہے کہ رحم میں بچے کو رکھنے(زمانہء حمل) اور دودھ چھڑانے کا کُل عرصہ تیس ماہ بنتا ہے۔اگر ہم تیس میں سے 24ماہ نکال دیں تو ہمارے پاس زمانہء حمل کے صرف چھ ماہ بچ جاتے ہیں جو دراصل دس قمری مہینے بنتے ہیں۔
بالکل اِسی طرح ابن ِ عباس نے مکہ میں حضور اکرم کے سالوں کو موزوں طریق(round figure)میں کیا،جس میں وہ ایک جگہ 13سال1 اور دوسری جگہ 10سال بیان کرتے ہیں۔ 2 قرآن میں بھی ایسے ہی اعداد و شمارکے اختلافات پائے جاتے ہیں۔سورۃ آل عمران
حضرت مریم کوحضرت عیسیٰ کی پیدایش کا بتانے میں بہت سے فرشتوں کا ذِکر کرتی ہے،جب کہ سورۃ مریم21:19-17میں صرف ایک فرشتے کا ذِکر کیا گیا ہے۔سورۃ قمر19:54فرماتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک ہی دن میں عاد کے لوگوں کو نیست کر دیا لیکن سورۃ حآقہ 6:69-7میں لکھا ہے کہ وہ آٹھ طویل دن تھے۔
یہ ایک بھیا نک واقعے کا اندراج ہے۔جیسے ہی ہم یہ واقعے پڑھتے ہیں ہم اِن اعمال کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے جو پریشان کرنے والے ہیں۔یہ واقعے پڑھ کر ہم پریشان ہو جاتے ہیں،پھر بھی ہمیں اِ س واقعے پر بڑا غور کرنے کی ضرور ت ہے تاکہ ہم سمجھ سکیں کہ حقیقت میں کیا ہوا تھا۔
سب سے پہلا سوال جو ہمیں پوچھنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے:حضرت لُوط کا گناہ کس حد تک تھا؟سب سے پہلے اُن پر شراب نوشی کا الزام ہو سکتا تھا۔یہ الزام لگاتے ہوئے ہمیں یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ حضرت لُوط کے زمانے میں الکوحل کے استعمال سے منع کرنے کے قوانین موجود نہ تھے۔یہ قانون بہت بعد میں آیا۔
دوسرا یہ کہ حضر ت لُوط کس حد تک مباشرت میں ملوث تھے۔یہ ثابت کرنا مشکل ہے کہ اُنہوں نے یہ سارا فعل کسی بدی کے تحت کیا۔اوّل یہ کہ آیت33یہ درج کرتی ہے کہ وہ اِن تمام واقعات سے بے خبر تھے،چاہے وہ سور ہے تھے یا پھر بے ہوش تھے۔دوم یہ کہ اُن کی بیٹیوں نے یہ سوچا کہ اِس سارے عمل کے ہونے سے پہلے ضروری تھا کہ وہ اپنے باپ کو بے ہوش کریں کیونکہ وہ جانتی تھیں کہ اگر وہ باہوش ہوئے تو اُنہیں اِس بُرے منصوبے میں شامل کرنا مشکل ہو گا۔
بہت سے لوگوں میں یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ تمام انبیا ئے کرام بے گناہ تھے،اور راست بازی کا ایک اعلیٰ نمونہ تھے۔تاہم قرآن او ر
کتاب مقدس سے ہم یہ جانتے ہیں کہ حتیٰ کہ حضرت داؤد،حضرت موسیٰ اور حضرت سلیمان گناہ ِ کبیرہ کے مرتکب ہوئے تھے۔
توریت شریف کہیں پر بھی یہ اشارہ نہیں دیتی کہ حضر ت لُوط ایک راست بازی کی مثال تھے بلکہ اِس کی بجائے یہ واضح کرتی ہے کہ اُن کی شراب نوشی اور مباشرت غلط اقدام تھے۔
…