چپٹی زمین
دانی ایل 10:4-11 – ”یہ آیت سکھاتی ہے کہ زمین چپٹی ہے کیونکہ ایک درخت کُروی زمین کے تمام حصوں میں نظر نہیں آسکتا۔“
نقاد مکمل طور پر اِس حقیقت کو نظر اندازکرتے (یا چھپاتے) ہیں کہ یہ حوالہ محض اِس بات کو بیان کرتا ہے کہ کس طرح ایک بت پرست بادشاہ نے اُلجھاؤ میں ڈالنے والے خواب کو جو اُس نے دیکھا تھا بیان کرنے کی کوشش کی جو اُس نے دیکھا تھا۔شاید نبوکدنضر بادشاہ نے یہ سوچا ہو کہ زمین چپٹی ہے۔جیسے کہ اکثر خوابوں میں ہوتا ہے،شاید اُس کے خوابوں نے طبعی حقائق کو مروڑ دیا یا اُس نے اپنی وضاحت میں اُس خواب کو غلط طریقے سے سمجھا۔تاہم اِس بادشاہ کی خواب کو بیان کرنے کی خطا پذیر کوشش کو درست بیان کرنے پر صحائف کو مورد ِ الزام نہیں ٹھہرناچاہئے۔
کتاب مقدس کو غلط ثابت کرنے کے لئے بت پرست بادشاہوں کے خوابوں کی طرف رجوع کرنا نقاد کی بے باکی کو ظاہر کرتا ہے۔کوئی بھی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ قرآن یہ سکھاتا ہے کہ ”عزرا اللہ تعالیٰ کا بیٹا ہے“کیونکہ یہ واضح طور پر یہودیوں کے دئیے گئے بیان کا ذِکر کرتاہے (توبہ30:9)۔
قرآن میں بھی ایسی آیات ملتی ہیں جو ظاہر کرتی ہیں کہ زمین چپٹی ہے:
”اورآسمان کی طرف کہ کیسا بلند کیا گیاہے اور پہاڑوں کی طرف کہ کس طرح کھڑے کئے گئے ہیں اورزمین کی طرف کہ کس طرح بچھائی گئی
(سورۃ الغاشیہ 18:88-20)
اِس آیت پر نامور مفسِّر الجلالین کی تفسیر میں لکھا ہے،
جہاں تک کہ اُس کے لفظ سُطِحتَ ہموار بچھا دیا‘کا تعلق ہے اِس کی لغوی قرأت تجویز کرتی ہے کہ زمین چپٹی ہے جو شریعت کے زیادہ تر علمائے کرام کی رائے ہے نہ کہ گول جیسی کہ علم ِ نجوم والے کہتے ہیں …“
اِسی طرح مصر کے علم ِ الہٰی کے ماہر امام سیوطی نے بھی یہ کہا کہ زمین چپٹی ہے۔
…
پاک کرنے کے لئے خون؟
احبار49:14-53 – ”پاک کرنے کے لئے خون استعمال کرنا غیر سائنسی ہے۔“
کوئی بھی شخص درج ذیل بات کے پیچھے سائنسی منطق پوچھ سکتا ہے:
”نبی کریم نے فرمایا،”اگر مکھی آپ میں سے کسی شخص کے مشروب میں گِر جائے تو وہ اُسے (مشروب میں)ڈبوئے،کیونکہ اُس کے پروں میں سے ایک میں بیماری ہے اور دوسرے میں سے اُس بیماری کا علاج موجود ہے۔“(صحیح البخاری:جلد نمبر 4،کتاب 54,، نمبر537)
”مدینہ کی آب و ہوا کچھ لوگوں کو موافق نہیں ہے اِس لئے نبی کریم ؐ نے دوا کے طور پر اُونٹ کا پیشاب پینے کا حکم دیا۔“(صحیح البخاری:
جلد نمبر7،کتاب71، نمبر590)۔
َمیَں نے رسول اللہ کو کہتے ہوئے سنا،”کالے دانے (کلونجی)میں موت کے سوا تمام بیماریوں کی شفا موجود ہے۔“(صحیح البخاری:جلد نمبر7،کتاب
71، نمبر 592)
نقاد مکمل طور پر اِس بات کو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ احبار 49:14-53طہارت کی رسم ہے جو صرف اُس وقت ادا کی جاتی تھی جب ایک گھر کے صاف ہونے کا اعلان کر دیا جاتا تھا۔سابقہ آیت (آیت 48)یہ بیان کرتی ہے کہ کس طرح اگر گھر کی استرکاری کے بعد وہ بیماری نہیں پھیلی،تو پھر وہ بیماری دُور ہو گئی ہے جو سائنسی اعتبار سے بھی ٹھیک ہے۔اگلی چند آیات رسمی ”کفارے“(آیت 52)یا طہارت کو بیان کرتی ہیں جس کا مقصداسرائیلیوں کو اُس گہری سچائی کی یاد دلانا تھا کہ موت کامل طور پر صرف قربانی سے ہی ٹل سکتی ہے۔احبار کے تمام رسمی قوانین
کا مقصد ہر شخص کا تعلق اِس مذہبی سچائی کے ساتھ مربوط کرنا تھا کہ گناہ کا کفارہ ادا کرنے اور موت کو ختم کرنے کے لئے خون کا بہایا جانا ضروری ہے۔یہی نظریہ ہمیں عقیقہ میں بھی ملتاہے جہاں یہ کہتے ہوئے بکرے کو قربان کیا جاتا ہے،
اَللَّهُمَّ هَذِهَ اْقِيِقِةِ اْبِنْى(فُلاَنٍ ) دَمُهَا بِدَمِ ه وَاَحْمُهَا بِلَحْمِ ه وَعِظَمُهَا بِغِظَمِه وَجِلْدُهَا بِجِلْدِ ه وَ ثَعْرُهَا بِثَعْرِه اَالَّهُمَّ اجْعَلْهَا فِدَاًء لاِبْنِىْ مِنَ النَّارِ بسْمِ اللَّهِ اللَّهُ ا كْبَرُ
اے اللہ!یہ
…
زناکاری کی کڑی آزمائش
گنتی 11:5-31 – کیا یہ زناکاری کی کڑی آزمائش کڑوا پانی غیر سائنسی نہیں؟“
جدید اور سائنسی لوگوں کو یہ آزمائش بہت عجیب معلوم ہوتی ہے۔تاہم،وہ جو خُدا تعالیٰ کی قوت کو جانتے ہیں اور وہ یہ جانتے ہیں کہ وہ معجزات کرنے کے قابل ہے،اُن کے لئے اِس اقتباس میں کوئی مشکلات نہیں ہیں۔
دراصل جب زناکاری کے الزامات کے ساتھ نمٹنے کے لئے دوسرے طریقوں کا موازنہ کیا جا تا ہے،تو یہ عمل خُدا تعالیٰ کے رحم کو ظاہر کرتا ہے۔جبکہ یہاں پیش کئے گئے اعمال بہت شدیدمعلوم ہوتے ہیں اور اُس عورت کے لئے بہت سخت ہو ں گے جس پر ایک ناراض شوہر کا زناکاری کا لگایا ہوا الزام تھا اور اُس کے جرم یا معصومیت کی کوئی گنجائش نہیں تھی جس کا اظہار کیا جاتا۔ وہ کاہن کے پاس لے جائی گئی
(آیت 15)جو بالآخر ایک رحم کا عمل ہے،کیونکہ قانون اِس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ شوہرجب اُسے بے وفائی کا شک ہوتو اپنی مرضی سے اپنی بیوی کو پیٹے۔ پورے ایشیا اور مشرق ِ وسطیٰ میں عورتیں محض دوسرے مردسے ناشائستہ تعلق کے شک میں بغیر کسی جانچ پرکھ کے عزت کی خاطر اکثر ماری جاتی ہیں۔
اگلی آیات (آیات 25,21,16) میں خُدا تعالیٰ کے کردار پر باربار یہ دکھانے کے لئے زور دیا گیاہے کہ یہ عمل نہ تو محض جادو کا ایک ہتھیار تھا اور نہ ہی محض دباؤ ڈالنے کا ایک نفسیاتی آلہ تھا۔یہ خدا کا کام تھا۔
ایسی بہت سی احادیث ہیں جو جادو ئی غیر سائنسی توہمات کی حوصلہ افزائی کرتی دکھائی دیتی ہیں۔بخاری فرماتے ہیں کہ نبی کریم پر بالوں اور زرگُل سے جادو کیا گیا تھا (جلد 4،کتاب54،نمبر 490)۔صحیح مسلم 5254.26کے مطابق،نبی کریم نے کہا،”تم میں سے جوعلاج کے لئے خاص الفاظ پڑھ کر اپنے بھائی کو فائدہ پہنچا سکتا ہے تو وہ ایسا کرے۔“صحیح بخاری کے مطابق،کسی شخص کو بھی بُرے خواب کے بعد اپنے آپ کو اِس کی بُرائی سے بچانے کے لئے اپنی بائیں جانب تھوکنا چاہئے۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ اللہ کے پیغمبر نے مجھے حکم دیا کہ مجھے بُری نظر سے بچنے کے لئے خاص الفاظ کا استعمال کرنا چاہئے۔“ نبی کریم نے ایک بچے کو روتے ہوئے دیکھا اور تجویز کیا کہ اُسے بُری نظر سے بچانے کے لئے کسی تعویذکرنے والے کو تلاش کریں۔
…
سورج ٹھہر جاناہے؟
یشوع 13-12:10 – ”یہ کس طرح ممکن ہے کہ سورج کائنات میں بڑی توڑ پھوڑ کے بغیر ساکن ٹھہرا رہے؟“
یہ بہت دلچسپ بات ہے کہ کچھ مسلمان نقاداِس اقتباس پر اعتراض کریں گے لیکن صحیح بخاری اور صحیح مسلم تصدیق کرتے ہیں کہ حضور اکرم بھی بالکل اِسی کہانی پر یقین رکھتے تھے:
رسول اللہ نے فرمایا:”انبیائے کرام میں سے ایک نے جہادکیا۔“… وہ (اللہ کا نبی)آگے بڑھے اور تقریباً عصر(شام)کی نماز کے وقت ایک گاؤں میں پہنچے۔اُنہوں نے سورج سے فرمایا:”تم اللہ تعالیٰ کے تابع ِ فرمان ہو او راِسی طرح میَں بھی ہوں۔اے اللہ!اِسے
…
تخلیق کے چھ دن؟
پیدایش 1باب”جدید سائنس یہ ثابت کرتی ہے کہ زمین لاکھوں سال پرانی ہے، جو پیدایش میں تخلیق کے”چھ دن“ کے واقعہ سے تضاد رکھتی ہے۔“
دو مکتبء فکر ہیں جو پیدایش کے بارے میں ایک پرانی زمین کے ساتھ موافقت پیدا کرتے ہیں۔ دونوں میں سے کوئی بھی پیدایش کوجدید سائنس کے ساتھ مناسبت دینے کے لئے ”دوبارہ شروع“ کی صرف کوشش بھی نہیں کرتے کیونکہ دونوں مکتبہء فکر ایسے مبصرین کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں جو پرانی زمین کی جدید سائنسی دریافت کو اُس کی اصل تاریخ سے پہلے کا بتاتے ہیں۔
پیدایش کا پہلا نظریہ -دن کے دور کی تشریح
The Hebrew word used for day in Genesis 1 is yôm (Hebrew יום), the same as that used by the Qur’ān to describe the six “days” ( يَوْم yaum ) of Creation.…
سورج سے پہلے دن کو خلق کیا گیا؟
پیدایش 1باب-”دن اور رات کس طرح دوسرے دن پر بن سکتے ہیں جب کہ سورج اور چاند چوتھے دن تک خلق نہیں ہوئے تھے؟“
دن یادور کی وضاحت کے بعد پیدایش پہلے باب کی پہلی آیت میں قائم شدہ تناظر یا نقطہء نظر زمین پر پانی کی سطح ہے۔
تخلیق کے مراحل کو یوں یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ کسی بیرونی مفروضاتی مشاہدہ کار کی طرف سے نہیں بلکہ اِس تناظر سے
کیسے سمجھے جائیں گے۔جدید سائنس یہ بتاتی ہے کہ ساڑھے چار کروڑ سال پہلے زمین مختلف سیاروں کے ملبے سے اِس قدر گھِری ہوئی تھی
کہ زمین تاریک اور سُنسان تھی۔اگلے صفحے پر دی گئی شکل اِس بات کو ظاہر کرتی ہے۔
قرآن او رتوریت شریف دونوں میں تخلیق کے واقعات میں چند یکساں پیچیدہ مراحل پائے جاتے ہیں۔سورۃ حَئم اسجدہ 9:41-12میں
قرآن کا بنیادی تخلیقی واقعہ زمین کی تخلیق کے دنوں کے بعد سات آسمانوں کی تخلیق کا ذِکر کرتا ہے۔سورۃ البقرۃ آیت 29 بھی یہی ظاہر کرتی ہے:
”وہی تو ہے جس نے سب چیزیں جو زمین میں ہیں تمہارے لئے پیدا کیں پھر آسمانوں کی طرف متوجہ ہوا۔“
اِس طرح ہم قرآن میں یکساں قسم کی تورایخی ترتیب کی مشکل دیکھتے ہیں۔اِس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ قرآن غلط ہے،بلکہ اِس سے صرف یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہم ہمیشہ آیات کی وضاحت ویسے نہیں کرسکتے جیسے وہ پہلے ہمیں نظر آتی ہیں۔
اگر قاری کو ”نقطہء نظر“کے ساتھ مطابقت میں انصاف کرنے میں دشواری پیش آتی ہے تو ہم یہی ضرورت قرآن کے لئے بھی دیکھ سکتے ہیں۔سورۃ کہف 86:18میں ہم پڑھتے ہیں کہ ذوالقرنین ”نے سفر کا ایک سامان کیا۔ یہاں تک کہ جب سورج کے غروب ہونے کی جگہ پہنچا تو اُسے ایسا پایا کہ ایک کیچڑوالے چشمے میں ڈوب رہاہے۔“یہ بیان اسلام سے پہلے کی سورج کی کہانی سے مطابقت رکھتا دکھائی دیتا ہے کہ سورج ہموار زمین کے اُفق پر موجود مٹی کے تالاب میں غروب ہو تا ہے۔“ پھر بھی ہمیں اِس آیت کو ذوالقرنین کے تناظر میں بیان شدہ آیت کے طور پر سمجھنا چاہئے تاکہ یہ با معنی ہو۔بالکل اِسی طرح،ہم تمام صحائف کی ایک قیاسی ”کائناتی“تناظر سے وضاحت نہیں کر سکتے۔
اعتراض (الف):”لیکن چوتھے دن سورج اور چاند کے لئے جو لفظ استعمال ہوا ہے وہ ”خلق“ہے نہ کہ ”ظاہر کیا“!“
…
سورج سے پہلے نباتات؟
پیدایش 1:11-13—”سورج کے بغیر نباتات کیسے وجود میں آ سکتی ہیں؟”
صحیح مسلم میں اور الطبری کے مطابق قرآن کی تخلیقی ترتیب میں بھی ہمیں یہ ملتا ہے کہ نباتات سورج کی تخلیق سے دو دن پہلے بنیں۔مندرجہ بالا تشریخی خاکہ توریت شریف کی تخلیقی ترتیب دکھاتے ہوئے اِس نیم شفاف روشنی (جو پہلے دن ظاہر ہوئی)کو یوں بیان کرتاہے کہ یہ روشنی اِس عرصے کی فضا میں سے گزر کر آرہی تھی اگر چہ کہ سورج یا چاند ابھی تک دکھائی نہ دیتے تھے۔ اِس طرح Photosynthesis کا عمل ہو سکا اور پودے اُگ سکے جس کے بدلے میں آکسیجن پیدا ہوئی اور فضا صاف ہوئی۔ڈاکٹر رابرٹ سی۔نیومین (جنہوں نے کارنل یونیورسٹی سے تھیوریٹیکل آسٹروفزکس میں پی۔ایچ۔ڈی کی)یہ نتیجہ اَخذ کرتے ہیں کہ "نباتات فضا میں آکسیجن کے بننے اوراِس پر سے بھاری بادل کے غلاف کو ہٹانے،دونوں کا فوری نتیجہ تھیں۔"
.
…
پیدایش کے مطابق کیا چاند کی براہ ِ راست روشنی ہے؟
پیدایش 1:14-19—”یہ آیت غلط کہتی ہے کہ چاند ایک روشنی ہے،جب کہ دراصل یہ محض سورج کی منعکس شدہ روشنی ہے”۔
یہ دلیل احمقانہ ہے،کیونکہ کوئی بھی شخص جدید لوگوں کو "چاند کی روشنی" کی اصطلاح استعمال کرنے پر تنقید کر سکتا ہے۔تمام صحائف تخلیق کو بیان کرنے کے لئے مظہر یاتی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔—قرآن بھی چاند کو "روشنی" کہتا ہے (71:15-16).…
تمام پودے کھانے کے قابل ہیں؟
پیدایش16:2-17 – ”یہ سکھاتی ہے کہ تمام پودے کھانے کے قابل ہیں۔“
جب خورونوش کے قوانین یہ بتاتے ہیں کہ صرف سؤر،گوشت کھانے والے،مُردہ جانور،خون اور الکوحل مُضر ہیں تو یہ صرف ذاکر نائیک جیسے ہی لوگ ہوں گے جن میں عام شعور کی کمی ہے کہ اُنہوں نے زہریلے پودوں اورگوشت سے باز رہنا ہے۔جب خُدا تعالیٰ نے حضرت آدم کو اجازت دی کہ وہ باغ میں موجود کسی بھی درخت کا پھل کھائے تو وہ کھانے کا حکم نہیں دے رہابلکہ کھانے کے لئے اپنا انتخاب کرنے کی آزادی دے رہا ہے۔
اگرہم آیت کا بغور مطالعہ کریں تو ہم دو باتیں ملتی ہیں۔پہلی یہ کہ ’کسی بھی درخت‘ کے ذِکر کا ہر گز مطلب ’تمام‘ نہیں ہے کیونکہ یہ کہتے ہوئے اِس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ کم از کم ایک درخت ہے کہ جس میں سے حضرت آدم نہیں کھا سکتے تھے اور وہ نیک و بد کی پہچان کا درخت تھا۔
دوسری اور سب سے اہم بات یہ جملہ کہ ’باغ میں سے‘ہے۔خُدا تعالیٰ نے یہ سہولت اُس وقت رکھی تھی کہ جب حضرت آدم ابھی تک اُس کی کامل تخلیقی حیثیت میں تھے،اِس سے پہلے کہ گناہ دنیا میں داخل ہو۔ ابتدا میں ہر چیز اچھی تھی (پیدایش 31:1)- ہر ایک چیز خُدا تعالیٰ نے
کاملیت میں بنائی تھی۔ابتدائی تخلیقی حالت بغیر گناہ کے تھی۔اِس لئے کوئی بھی پودا زہریلا یا نشہ آور نہیں تھا۔ہر وہ چیز جو خُداتعالیٰ نے بنائی وہ انسان کے فائدے کے لئے تھی۔جب حضرت آدم کے وسیلے سے گناہ دنیا میں داخل ہو اتو وہ کامل حیثیت بگڑ گئی۔حضرت آدم کے گناہ کے نتیجے میں پیدایش 17:3-18میں خُداتعالیٰ کی سزا نے خاص طور پر زمین او رپودوں کو متاثر کیا۔
قرآن میں بھی ایسا ہی ہے، ہم آیات کو زیادہ لغوی معنوں میں نہیں لے سکتے۔الانعام 38:6پڑھئے،
”اور زمین میں جو چلنے پھرنے والا (حیوان)یا دو پروں سے اُڑنے والا جانور ہے،اُن کی بھی تم لوگوں کی طرح جماعتیں ہیں۔“
تاہم بہت اقسام موجود ہیں جو انسانوں کی طرح برادریوں میں نہیں رہتیں،جیسے کہ مادہ کالی بیوہ مکڑی،مثلا ً جو اپنی ساتھی کو اُس سے صحبت کرنے کے بعد کھاتی ہے۔یہ قرآن کو ردّ نہیں کرتی بلکہ صرف یہ وضاحت کرتی ہے کہ بعض اوقات کس طرح ہم اقتباس کو اُس کے لغوی معنوں میں نہیں لے سکتے۔
…
سانپ مٹی کھاتے ہیں؟
پیدایش 3:14—”سانپ مٹی نہیں کھاتے!”
ظاہر ہے کہ سانپ اپنی نشو ونما کے لئے مٹی نہیں کھاتے اگرچہ وہ سونگھنے کے لئے مٹی کے چند ذرات اپنی زبان پر ضرور لیتے ہیں تاکہ ہوا کو “چکھ” سکیں۔تاہم،”مٹی کھانا” یا “مٹی چاٹنا” (عبرانی : ועפר תאכל اور לחכו עפר) (وعافار توکال اور لحکوعافار) محض عبرانی محاورات ہیں جو شرمندگی اور شکست کو ظاہر کرتے ہیں:
"بیابان کے رہنے والے اُس کے آگے جھکیں گے اور اُس کے دُشمن خاک چاٹیں گے۔" (زبور شریف 72:9) "بادشاہ تیرے مربّی ہوں گے اور اُن کی بیویاں تیری دایہ ہوں گی۔وہ تیرے سامنے منہ کے بل گریں گے اور تیرے پاؤں کی خاک چاٹیں گے اور تُو جانے گی کہ میَں ہی خداوند ہوں جس کے مُنتظر شرمندہ نہ ہوں گے۔"(یسعیاہ 49:23)
سانپ کا مٹی کھانا ایک استعارہ ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو زوال پر اُکسانے کی وجہ سے سانپ کو شرمندہ کیا ہے۔
…