یہوداہ -اُس کی موت کیسے واقع ہوئی اور کھیت کس نے خرید ا؟

اعمال 18:1-19 – ”یہوداہ -اُس کی موت کیسے واقع ہوئی اور کھیت کس نے خرید ا؟“

جب ہم متی 3:27-8 کا موازنہ اعمال 18:1-19 سے کرتے ہیں تو دو پریشان کرنے والے سوالات ہیں جو یہوداہ کی موت سے متعلق ہیں:

یہوداہ کی موت کیسے واقع ہوئی؟

متی کہتا ہے کہ یہوداہ نے ”جا کر اپنے آپ کو پھانسی دی“جبکہ اعما ل کی کتاب کہتی ہے،”کہ وہ سر کے بل گرا او راُس کا پیٹ پھٹ گیا
اور اُس کی سب انتڑیاں نکل پڑیں۔“اِس کی روایتی تشریح یہ ہے کہ یہوداہ نے اپنے آپ کو درخت کی اُونچی شاخ سے لٹکا لیا،اور نتیجتاًشاخ ٹوٹ گئی اور وہ سر کے بل گرا او راُس کا پیٹ پھٹ گیا۔واقعی اعمال کی کسی اور طرح تشریح کرنا مشکل ہو گا،کیونکہ پیٹ تب تک نہیں پھٹ سکتا جب تک وہ اچھی خاصی اُونچائی سے پہاڑی خطے(جو یروشلیم کے اِرد گرد کا خطہ تھا) میں نہ گرے۔ہم یہ قیاس کر سکتے ہیں کہ جسم کچھ وقت
تک لٹکا،کیوں یہوداہ نے سبت سے تھوڑی دیر پہلے اپنے آپ کو پھانسی دی اور سبت سے پہلے لاش کو ہاتھ لگانا منع تھا۔

دیگر مبصّرین نے ذِکر کیا ہے کہ ”اپنے آپ کو پھانسی دی“کے لئے یونانی اصطلاح (اپینگخومائے) کا مطلب جذبات سے بھر جانا یا غم سے نڈھال ہو جانا بھی ہو سکتا ہے،جیسے کہ انگریزی زبان کا جزوِ جملہ ہے، ”All choked up (سب بھر گئے)۔“

چاندی کے سکوں سے کھیت کس نے خریدا؟

ہم درج ذیل طریقے سے دونوں واقعات کو اکٹھا کر سکتے ہیں:یہوداہ نے ہیکل میں کاہنوں کو چاندی (خون کا کھیت) واپس کرنے کی کوشش کی لیکن اُنہوں نے لینے سے انکا رکر دیا،اِس لئے اُ س نے اُسے اُدھر ہی چھوڑا اور چلا گیا اور شہر کے باہر زمین کے ایک خالی خطے میں جا کر اپنے آپ کو پھانسی دے دی۔اب کاہن تذبذب میں مبتلا ہو ئے،اب اُن کے پاس مُردہ یہوداہ اسکریوتی کی رقم تھی جو وہ ہیکل میں نہیں ڈال سکتے تھے۔چونکہ یہ داغ دار خون کا روپیہ تھا،اِس لئے وہ نہیں جانتے تھے کہ اُس کے ساتھ کیا کریں۔اِس وجہ سے،وہ شخص جس کا یہ خطہ تھا جہاں یہوداہ نے اپنے آپ کو پھانسی دی،وہ اِس حقیقت کی وجہ سے خوفزدہ تھا کہ ایک مجرم شخص کی ایسی خوف ناک موت اُس کی شخصی
جائیداد پر ہوئی ہے،اِس لئے شاید وہ اِس جائیداد سے جان چھڑانا چاہتا تھا۔زمین کے مالک اور کاہنوں نے آپس میں سودا کیا جس سے
دونوں فریقوں کو سکون ملا یعنی ’ناپاک‘ روپے سے پردیسیوں کے لئے قبرستان کے طور پر ’ناپاک‘ زمین خریدی گئی،اِس لئے داغ دار روپے سے ناپاک زمین کے ذریعے چھٹکا را پالیا گیا۔چونکہ زمین یہوداہ کے روپے سے خریدی گئی تھی،اِس لئے کاہنوں نے قدرتی طور پر اِسے اُس کے نام کی لکھ دیا ہو گا جیسے کہ وقف یا ٹرسٹ۔یہی وجہ ہے کہ لوقا اعمال میں لکھتا ہے کہ ”اُس نے بدکاری کی کمائی سے یہ کھیت حاصل کیا،“کیونکہ وہ کھیت اُس کے نام سے حاصل کیاگیا۔ لوقا یہ کہتے ہوئے شروع کر تا ہے کہ یہوداہ نے بالآخر روپے سے ایک کھیت حاصل کیا؛پھر وہ بیان کرتا ہے کہ کس طرح اُس نے یہ زمین حاصل کی -اور پھر دہشت ناک خود کشی سے اُسے گندا کیااورزمین کے مالک کے لئے اُسے نفرت انگیز بنا دیا۔

  1. یہاں استعمال کی گئی اصطلاح (کٹاما) ترجمہ ”خریدا“ یا ” حاصل کیا گیا“ بھی کیا جا سکتا ہے۔

کیا حضرت عیسیٰ کو “خدا کا بیٹا” کہا جا سکتا ہے؟

حضرت عیسیٰ کو “خدا کا بیٹا” نہیں کہا جا سکتا؟
انجیل مُقدس پر سب سے زیادہ عام اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ یہ حضرت عیسیٰ کے لئے بار بار “خدا کے بیٹے” کی اصطلاح استعمال کرتی ہے۔ جیسا کہ ہم مندرجہ ذیل سطور میں دیکھیں گے کہ انجیل مُقدس میں مذکور یہ اصطلاح ایک جسمانی تعلق (نعوذ باللہ) کی طرف نہ اشارہ کرتی ہے اور نہ کر سکتی ہے بلکہ یہ خالص طور پر ایک مجازی بیان ہے۔ اِس مضمون کے اختتام پر ہم دیکھیں گے کہ جب ہم عربی الفاظ کو درست سمجھ جائیں تو کیسے قرآنی تعلیم جو بظاہر حضرت عیسیٰ کے “خدا کے بیٹا” ہونے کا انکار کرتی ہے،حقیقت میں مُقدس انجیل کے ساتھ متفق ہے۔

مجازی علامتی زبان کو نہ سمجھنا
یہودی، مسیحی اور مسلمان سب نے کبھی کبھار اِس انداز میں خدا کے کلام کے کچھ الفاظ کو غلط طور پر سمجھا ہے۔ مثلاً ایک وقت ایسا تھا جب اسلام میں مشبہ اور زاہریہ کا یہ اعتقاد تھا کہ اللہ ایک جسم رکھتا ہے۔ اُنہوں نے محسوس کیا کہ اللہ جسمانی پہلوﺅں کا حامل ہے جیسے ہاتھ اور چہرہ۔ قرآن و حدیث میں سے ایسے حوالہ جات کی جو اللہ کو اپنے تخت پر بیٹھے یا محمد عربی کے کندھے پر اپنے ہاتھ کو رکھنے کو بیان کرتے ہیں لفظی تشریح کی گئی اور اُنہوں اِس اعتقاد کے ثبوت کے لئے پیش کیا گیا۔

تاہم، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ علمائے اسلام نے بتدریج محسوس کیا کہ ایسے حوالہ جات کو لفظی طور پر نہیں لینا چاہئے۔ دیگر واضح تر حوالہ جات کی گواہی سے یہ سمجھا گیا کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی جسم نہیں یا اُس کی کوئی جسمانی محدودیت نہیں ہے۔ تب یہ سمجھ آئی کہ ایسے حوالہ جات جیسے اوپر مذکور حوالہ ہے اِنہیں تشبیہاتی طور پر لینا چاہئے۔ اور ایک بار جب یہ بات سمجھ آ گئی کہ مخصوص حوالہ جات کو لازماً تشبیہاتی طور پر لینا ہے تو یہ واضح ہو گیا کہ کیسے دوسرے مشکل حوالہ جات کی تشریح و توضیح کرنی ہے۔ سو، حدیثوں کو جیسے ذیل میں تین مثالیں موجود ہیں، ایک لفظی تشریح کرتے ہوئے سمجھنا ناممکن تھا۔

نبی اسلام نے کہا:
حدیث 1 : کعبہ کا حجر اسود اللہ کا ہاتھ ہے۔
حدیث2 : ایک مسلمان کے دِل میں اللہ کی انگلیاں موجود ہیں۔
حدیث 3 : مجھے یمن سے اللہ کی خوشبو آتی ہے۔
(اسلامی درشن، ص 169)

لفظی تشریح کے ساتھ مندرجہ بالا حدیث کوسمجھنا مشکل ہے، تاہم اِسے ایک بالواسطہ ، تشبیہاتی تشریح کو مدنظر رکھتے ہوئے سمجھا جا سکتا ہے۔ ایسا کرنے سے دشواریاں ختم ہو جاتی ہیں اور حقیقی معنٰی فوراً سامنے آ جاتے ہیں۔

مندرجہ بالا نوعیت کی مذہبی غلط فہمیاں صرف قرآن اور حدیث تک محدود نہیں ہیں۔ تاریخ میں توریت، زبور اور انجیل کو بھی تشریح کے ایسے کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اور غلط تشریح کی وجہ سے کئی غلط فہمیاں سامنے آئی ہیں۔

“خدا کا بیٹا” کے تشبیہاتی / مجازی معنٰی
بلاشک و شبہ ایسی سب سے زیادہ مشہور اور سنجیدہ غلط فہمی انجیل مُقدس میں اکثر استعمال ہونے والے الفاظ “خدا کا بیٹا” سے متعلقہ ہے۔ کچھ مثالوں میں یہ اصطلاح تمام یہودی قوم کی طرف اشارہ کرتی ہے، جبکہ کچھ مثالوں میں یہ سب ایمانداروں کے لئے استعمال ہوئی ہے، اور کچھ جگہوں پر یہ عیسیٰ مسیح کے لئے مستعمل ہے۔ آئیے کچھ لمحے اِس اصطلاح کا جائزہ لیں اور یہ جاننے کی سعی کریں کہ یہ کیسے استعمال ہوئی ہے اور حقیقت میں اِس سے کیا مراد ہے۔

اِس اصطلاح پر اعتراض کرنے والے افراد نے اِسے اِس کے لفظی معنٰی میں سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ ایسا کرنے سے بہت سی سنجیدہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر اِسے لفظی طور پر لیا جائے تو مطلب یہ ہو گا کہ خدا کی ایک بیوی تھی جو جسمانی طور پر بچے جنتی ہے (نعوذ باللہ)۔ تاہم، ایسی کفرگوئی پر مبنی سوچ انجیل مُقدس کی واضح تعلیم سے تضاد رکھتی ہے۔ انجیل مُقدس میں یسوع مسیح نے سکھایا کہ خدا ایک ہے اور اُس کا کوئی شریک نہیں۔ اِسی طرح انجیل مُقدس میں واضح طور پر سکھایا گیا ہے کہ خدا کا کوئی جسمانی بدن نہیں ہے بلکہ وہ ایک رُوح ہے۔ خدا کا ایک بیٹے کو جسمانی طور پر جنم دینے کا تصور کفرہے اور ناممکن ہے۔ اِس لئے جنہوں نے اِس اصطلاح کو لفظی طور پرسمجھنے کی کوشش کی ہے اُنہیں ویسی ہے ناقابل عبور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے جو اُن لوگوں کو پیش آتی ہیں جو قرآن و حدیث سے مندرجہ بالا حوالہ جات کی لفظی طور پر تشریح کرتے ہیں۔

دراصل، انجیل مُقدس کے پیروکاروں کا عالمگیر ایمان یہ ہے کہ اصطلاح “خدا کا بیٹا” کی تشریح مجازی معنٰی میں کرنی چاہئے۔ نہ صرف ایسی مجازی تشبیہاتی تشریح لفظی سمجھ کے مسائل و مشکلات سے بچاتی ہے، بلکہ اِس کی تائید کئی دوسرے عوامل سے بھی ہوتی ہے۔ آئیے اِس اصطلاح کے تشبیہاتی و علامتی معنٰی کو قبول کرنے کے لئے کچھ عوامل کا جائزہ لیں۔

“خدا کا بیٹا” زبور میں
سب سے پہلے، داﺅد کے مزامیر جو یسوع کے زمانے سے سینکڑوں برس پہلے لکھے گئے آنے والے “مسیح” کا اعلان کرتے ہیں اور یسوع مسیح کو “خدا کا بیٹا” بتاتے ہیں جسے خدا قوموں پر اختیار بخشے گا۔ ہم جانتے ہیں کہ عبرانی زبان و ثقافت میں ایک بڑا بادشاہ اپنے نائب یا صوبائی نمائندے کو اپنا “بیٹا” کہہ کر مخاطب کرتا تھا۔ سو، جب یسوع نے اپنے آپ کو خدا کا بیٹا کہا تو جو صحائف مُقدسہ کی درست سمجھ رکھتے تھے اُنہوں نے اِس بات پر اعتراض نہ کیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ مسیح کو “خدا کا بیٹا” کہا جائے گا کیونکہ وہ پہلے ہی اِس کے درست تشبیہاتی معنٰی “نائب” سے واقف تھے۔

“خدا کا بیٹا” یسوع کے لئے استعمال ہونے والا واحد تشبیہاتی لقب نہیں ہے ، بلکہ قرآن اور انجیل دونوں یسوع کو خدا کا “کلمہ” کہتے ہیں۔ یہاں واضح طور پر اِس لقب کو لفظی معنٰی میں ایک آواز، حرف یا لفظ کے طور پر نہیں لیا جا سکتا۔ بلکہ اِس اصطلاح کو لازماً مجازی طور پر سمجھنا چاہئے۔ ایک لفظ لازمی طور پر رابطہ کا ذریعہ یا وسیلہ ہوتا ہے جو ایک فرد کے خیالات و خواہشات کو دوسرے سے پہنچاتا ہے۔ بالکل اِسی طرح یسوع خدا کا کلمہ تھے، نسل انسانی کے لئے خدا کے رابطہ کا ذریعہ۔ یسوع کے وسیلہ سے خدا اپنی سوچیں اور ارادے انسان پر ظاہر کرنے کے قابل تھا۔اب جبکہ یہ واضح ہے کہ یسوع کے ایک نام “خدا کا کلمہ” کو لازماً تشبیہاتی مجازی طور پر سمجھنا چاہئے، تو یہ سوچنا ہرگز غلط نہیں ہے کہ آپ کا ایک اَور نام “خدا کا بیٹا” بھی ویسے ہی لازماً مجازی طور پر سمجھا جانا چاہئے۔ ایسے خیال کی بھرپور تائید اَور جگہوں سے بھی ہوتی ہے۔

“باپ” اور “بیٹا” کے دیگر تشبیہاتی مجازی استعمال
یہ زباندانی کی ایک بنیادی حقیقت ہے کہ کسی کا “بیٹا” اور “باپ” کے الفاظ اکثر بالکل ویسے ہی مجازی معنٰی کے حامل ہوتے ہیں جیسے ہم نے بیان کیا ہے۔آئیں، سب سے پہلے ہم لفظ “باپ” کا جائزہ لیں اور اِس کے مختلف مجازی استعمال پر نگاہ ڈالیں۔ عموماً یہ کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص قوم کا “باپ” ہے۔ اب کوئی بھی شخص اتنا احمق نہیں ہو گا کہ یہ سوچے کہ ایسے فرد کو “باپ” اِس لئے کہا گیا ہے کہ اُ س نے حقیقت میں اُس سرزمین کے ہر ایک شہری کو حقیقت میں جنا ہے۔ نہیں ایسا نہیں ہے ، اِس کے حقیقی و منطقی معنٰی مجازی ہیں۔ قوم کی آزادی و ترقی میں اُس فرد کے ادا کئے گئے نمایاں کردار کی بنا پر اُسے عزت و احترام کا یہ بڑا لقب دیا جاتا ہے کہ قوم کا باپ۔ اِس کا سادہ طور پر اشارہ اُس قریبی تعلق کی طرف ہوتا ہے جو ایسا فرد اپنے ملک کے ساتھ رکھتا ہے۔

اصطلاح “باپ” کا ایسا مجازی استعمال صرف انسانوں تک محدود نہیں ہے۔ ہمیں اِس کا استعمال خدا کے لئے بھی ملتا ہے۔ آخرکار، خدا سب چیزوں کاخالق، پروردگار اور بحال کرنے والا ہے۔ قرآن کی پہلی سورہ، سورہ فاتحہ الفاظ “‏ٱلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ ٱلْعَلَمِينَ” سے شروع ہوتی ہے۔اِس سورہ کی تفسیر کرتے ہوئے محمد عبدالحکیم اور محمد علی حسین لکھتے ہیں: کچھ مفسروں کا ماننا ہے کہ لفظ “رب” عربی زبان کے لفظ “اب” سے ماخوذ ہے جو لفظ “باپ” کا مادہ ہے۔ سو، “رب” کے حقیقی معنٰی باپ کے ہیں۔ ایک بار پھر یہی حقیقت سامنے آتی ہے کہ کوئی بھی فرد اتنا احمق نہیں ہو گا کہ جیسے لفظ “رب” یہاں خدا کے لئے استعمال ہوا ہے اُسے لفظی و جسمانی طور پر باپ کے معنٰی میں سمجھے۔ جیسا کہ یہ خدا کی طرف اشارہ کرتا ہے تو اِس کے لازماً ایک مجازی روحانی معنٰی ہیں۔ خدا اپنی تمام مخلوق کا جسمانی باپ نہیں ہے۔ تاہم، اُس کی قوت و قدرت کے بغیر کچھ بھی خلق نہیں ہو سکتا تھا۔ اِس دنیا میں پیدا شدہ ہر مخلوق کے پیچھے وہی حقیقی تخلیقی قوت و قدرت ہے۔ وہ تمام دُنیا کا “رب” ، مجازی معنٰی میں باپ اور تخلیق کرنے والی قوت ہے۔

اگر ہم اِس حقیقت کو مزید شخصی سطح پر دیکھیں تو ہم لازمی نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ اِس دُنیا میں پیدا ہونے والا ہر بچہ برا ہ راست خدا کی تخلیقی سرگرمی کا نتیجہ ہے۔ اولاد سے محروم کئی جوڑے ایسے ہیں جو یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہو گئے کہ جب تک خدا اپنی تخلیقی قوت کے ساتھ ہمیں اِس قابل نہیں بناتا بچہ حاصل کرنے کی ہماری اپنی کوششیں بیکار ہیں۔ ہم فخریہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم ایک بچہ کے باپ یا خالق ہیں لیکن آخرکار ہمیں لازماً یہ اقرار کرنا ہے کہ ایسے القاب درست طور پر صرف خدا کو ہی دیئے جا سکتے ہیں۔ یہاں ہم لفظی یا جسمانی پدریت کی بات نہیں کر رہے بلکہ تخلیقی قوت اور قابلیت کی بات کر رہے ہیں۔ یوں جیسے اوپر مذکور قرآنی مفسروں کا نتیجہ ہے ویسے حقیقی طور پر خداتمام مخلوق بشمول انسانوں کا باپ ہے۔

آئیے، اب اصطلاح “بیٹا” کے مجازی و علامتی استعمال کا جائزہ لیں۔ ایسا ہی ایک استعمال قرآن میں سورہ البقرہ 2: 215 میں موجود ہے۔ اِس حوالہ میں ایک مسلسل سفر کرنے والے فرد کو “ابنِ السبیل” (راستہ کا بیٹا) کہا گیا ہے۔ ہم ایک بار پھر دیکھتے ہیں کہ ایک لفظی تشریح منطقی طور پر غلط ہو گی۔ ایک لفظی تشریح واضح طور پر ناممکن ہے۔ اِس کے حقیقی معنٰی مجازی ہیں۔ ایک فرد کا سڑک کے ساتھ اتنا قریبی تعلق ہے کہ اُسے اُس کا بیٹا کہا گیا ہے۔ ہم ایک بار پھر دیکھتے ہیں کہ “بیٹے” یا “باپ” کے مجازی استعمال میں قربت یا نزدیکی بنیادی بات ہے۔

انجیل مُقدس سے علامتی و مجازی معنٰی کا مزید ثبوت
مندرجہ بالا نتیجہ کی گواہی انجیل مُقدس بھی دیتی ہے۔ ایک حوالہ میں ہم پڑھتے ہیں کہ یسوع مسیح کچھ یہودی راہنماﺅں سے بات چیت کر رہے ہیں۔ وہ یہودی راہنما بڑے فخر سے یسوع کے سامنے یہ کہتے ہیں کہ وہ ابرہام کے فرزند ہیں۔ یسوع اُنہیں جھڑکتے ہیں کہ اگر وہ ابرہام کے فرزند ہوتے تو خدا کی مرضی پر ویسے ہی عمل پیرا ہوتے جیسے ابرہام نے اُس کی فرمانبرداری کی تھی۔بلکہ اِس کے برعکس وہ بدی کرنے کی کوشش میں تھے۔ اِس لئے یسوع نے یہ نتیجہ نکالا “تم اپنے باپ ابلیس سے ہو اور اپنے باپ کی خواہشوں کو پورا کرنا چاہتے ہو۔”

ایک جسمانی اور لفظی معنٰی میں وہ یہود ی یقیناً یہ کہنے میں درست تھے۔ وہ ابرہام کے جسمانی فرزند تھے۔تاہم، یسوع نے لفظی معنٰی سے ہٹ کر اِن الفاظ کے پیچھے چھپی گہری او ر بڑی اہمیت کو دیکھا۔ اُن یہودی لوگوں کے کاموں نے واضح طور پر دکھایا کہ روحانی طور پر وہ یہودی مرد ِ خدا ابرہام کے ساتھ قریبی تعلق اور وفاداری کے حامل نہ تھے بلکہ وہ شیطان اور اُس کی مغرورانہ باغی فطرت سے تعلق رکھتے تھے۔ اِس لئے اُنہیں “شیطان کے فرزند” کہہ کر مخاطب کرنا مکمل طور پر درست اور مناسب تھا۔

“باپ” اور “بیٹے” کی اصطلاحات کے اوپر مذکور عام مجازی و علامتی استعمال کا جائزہ لینے کے بعد ہم ایک ایسے درجہ پر ہیں جہاں ہم “خدا کا بیٹا” کے انجیلی استعمال کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں۔ جیسا کہ اوپر مثالوں میں ہے، بلاشبہ اِس کے ایک علامتی و روحانی معنٰی ہیں۔ یہ ایک فرد کے خدا کے ساتھ قریبی تعلق کو واضح کرنے کے لئے استعمال ہوئی ہے۔ جیسے شیطان کی راہنمائی میں چلنے والے فرد کو “شیطان کافرزند” کہا گیا ہے ویسے ہی جو خدا کے ساتھ ایک قریبی اور گہرا روحانی تعلق رکھتا ہے اور اُس کی راہنمائی میں چلتا ہے اُسے “خدا کا فرزند” یا “خدا کا بیٹا” کہا گیا ہے۔ اِس کی ایک مثال انجیل مُقدس میں موجود یہ حوالہ ہے: “کیونکہ اگر تم جسم کے مطابق زندگی گزارو گے تو ضرور مرو گے اور اگر رُوح سے بدن کے کاموں کو نیست و نابود کرو گے تو جیتے رہو گے۔ اِس لئے کہ جتنے خدا کے روح کی ہدایت سے چلتے ہیں وہی خدا کے بیٹے ہیں” (رومیوں 8: 13-14)۔

اِس لئے، اصطلاح “خدا کا بیٹا” کی انجیل مُقدس میں کوئی بھی جسمانی اہمیت نہیں ہے۔ یہودی قوم کو اُن کے ابتدائی ایام میں تب “خدا کا بیٹا” کہا گیا ہے جب یہ خدا کی فرمانبرداری میں زندگی بسر کر رہی تھی۔ تاہم اِس کے برعکس وہ یہودی جو بعد میں غرور و بغاوت میں خدا کی راہوں سے پھر گئے اُنہیں “ابلیس کے فرزند” کہہ کر مخاطب کیا گیا ہے۔ تاہم ، انجیل مُقدس کے مطابق ایک فرد چاہے وہ یہودی ہے یا غیر یہودی، اگر وہ اپنی اندرونی خود غرض خواہشات کو مصلوب کرتا ہے اور خدا کی پیروی کرتا ہے تو وہ “خدا کا بیٹا” ہے۔

یوں ہم بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں کہ کیوں یہ اصطلاح اکثر یسوع کے لئے استعمال ہوئی ہے، جو خدا کی فرمانبرداری اور اُس پر انحصار اور اُس کے ساتھ قریبی تعلق کے لحاظ سے ہمارے تجربہ سے کہیں بڑھ کر ہے۔ یہ بھی واضح ہے کہ یہ لقب اُن الزمات سے قطعی پاک ہے جو اِس کے خلاف پیش کئے جاتے ہیں۔ یقیناً اِس کا مطلب خدا کے ساتھ کسی بھی طرح کا جسمانی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی اِس سے مراد خدا کی کوئی جسمانی صفات ہیں۔ بلکہ اِس سے مراد سب چیزوں کے واحد خالق اور سنبھالنے والے کے ساتھ ایک گہرے روحانی تعلق میں زندگی بسر کرنا ہے۔

کیا قرآن “خدا کا بیٹا” کا انکار کرتا ہے؟
یہاں، بہت سے لوگ سوال کر سکتے ہیں کہ کیا “خدا کا بیٹا” کے خلاف قرآنی بیانات کی اِس اصطلاح کے انجیلی استعمال کے ساتھ کوئی وضاحت ہو سکتی ہے۔ آئیں، ہم قرآن میں اِن بیانات کا جائزہ لیں۔ لیکن سب سے پہلے ہمیں بیٹے کے لئے دو عربی الفاظ میں تمیز کرنا ہو گی: “ابن” اور “ولد”۔

“ابن” ایک وسیع اصطلاح ہے جو اکثر ایک علامتی، غیر طبعی معنٰی کی حامل ہو سکتی ہے جیسے “ابنِ السبیل” (راستہ کا بیٹا، سورہ بقرہ 2: 215)۔ جیسے بائبل مُقدس میں یسوع کے لئے “بیٹا” (ہُیاس) کا لفظ استعمال ہوا ہے اُس کا درست عربی ترجمہ “ابن” ہے جو عبرانی کے لفظ “بن” سے تعلق رکھتا ہے۔

“ولد” کی اصطلاح ایک ایسے بیٹے کی طرف اشارہ کرتی ہے جو جنسی تعلق کے نتیجہ میں پیدا ہوا۔ خدا کے ساتھ یسوع کے تعلق کو بیان کرنے کے لئے یہ اصطلاح انتہائی نامناسب ہے۔

اب آئیے اُن قرآنی آیات کو دیکھیں جو اِس موضوع سے متعلق ہیں:

“اور یہ لوگ یوں کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے (فرشتوں کو ) اولاد (ولد)بنا رکھی ہے، وہ (اللہ) اِس سے پاک ہے، بلکہ (وہ فرشتے اُس کے ) بندے ہیں۔” (سورہ الانبیا 21: 26)
“اگر اللہ کسی کو اپنا بیٹا(ولد) بنانا چاہتا تو اپنی مخلوق میں سے جس کو چاہتا منتخب کر لیتا۔ وہ پاک ہے وہی ہے اللہ جو اکیلا ہے بڑا زبردست ہے۔ ” (سورہ الزمر 39: 4)

“اور یہ کہ ہمارے پروردگار کی شان بہت بلند ہے وہ نہ بیوی رکھتا ہے نہ اولاد (ولد)۔ ” (سورہ الجن 72: 3)

“وہی آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے، اُس کے اولاد (ولد)کہاں سے ہو جبکہ اُس کی بیوی ہی نہیں اور اُس نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے اور وہ ہر چیز سے باخبر ہے۔” (سورہ الانعام 6: 101 ; 2: 116 ; 10: 68 ; 17: 11 ; 18: 4 ; 19: 35، 88، 91-92 ; 23: 91 ; 25: 2)

مندرجہ بالا آیات سے واضح ہو جاتا ہے کہ قرآن “بیٹے” کے اُس تصور سے فرق بات کر رہا ہے جسے انجیل مُقدس بیان کرتی ہے۔ قرآ ن “بیٹے” کو لفظی، جسمانی فرزند کے طور پر بیان کرتا ہے جو ایک بیوی سے جسمانی تعلق سے پیدا ہو۔ قرآن لازماً عرب میں رہنے والے اُن بھٹکے ہوئے نام نہاد مسیحیوں کو ملامت کر رہا تھا جوغلط فہمی کا شکار تھے اور کہتے تھے کہ عیسیٰ خدا کا “ولد” تھے جو خدا کے مریم کے ساتھ جسمانی تعلق کی وجہ سے پیدا ہوئے (نعوذ باللہ)۔ ایسے بدعتی خیال کو نقایہ کی کونسل میں یسوع پر ایمان رکھنے والوں سے بڑی سختی سے رد کیا۔ یسوع پر حقیقی ایمان رکھنے والے سب افراد قرآن کے ساتھ متفق ہیں کہ “وہ نہ بیوی رکھتا ہے اور نہ ولد” اور یہ کہ ایسا تصور گمراہ کن تصور ہے۔

بیان کی گئی حقیقت کہ قرآن انجیلی سچائی کی تصدیق کرتا ہے اور انجیل مُقدس بار بار “خدا کا بیٹا” کے علامتی و تشبیہی تصور کو استعمال کرتی ہے،واحد بیان کردہ ایسی یکساں وضاحت ہے جو قرآن و انجیل دونوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اخذ کی گئی ہے۔

بکاؤلے ازم سے ہٹ کر: سائنس،صحائف اور ایمان

سائنس،صحائف اور ایمان

درج ذیل مضمون اُن مختلف طریقوں کا تجزیہ کرتا ہے جن سے ایمان دار وں نے سائنس او رصحائف کے درمیان تعلق کو سمجھا ہے۔

خاکہ:

حصہ اوّل: ”بکاؤ لے ازم“کو سمجھنا
بکاؤ لے ازم کے لئے مسلم مخالفت
بکاؤ لے ازم کے مسائل
بکاؤ لے ازم کی تاریخ
ویدوں اور دیگر ادب میں ”سائنسی معجزات“
چند دعویٰ کئے گئے معجزات کا تجزیہ
نبوت نمبر۱: چاند کی روشنی منعکس شدہ روشنی ہے
نبوت نمبر۲: جنین (embryo)کے مراحل
نبوت نمبر ۳: چینٹیو ں کا رابطہ

حصہ دوم: کیا سائنس اور صحائف ایک دوسرے سے مربوط ہیں؟
تخلیق او رسائنس
پیدایش کے دنوں کی ترتیب
سورج کی روشنی سے پہلے نباتات؟
کائنات کا علم: چپٹی یا گول زمین؟
کیا زمین چپٹی ہے یا گول؟
آسمان کو تھامے ہوئے ستون
زمین کے نیچے کے ستون
سورج،چاند،ستارے،دمدارتارے اورآسمان

حصہ سوم: سائنس کی تاریخ
سائنس کس نے ’ایجاد‘ کی؟
سنہرا دور کیوں ختم ہوا؟


 

حصہ اوّل

”بکاو لے ازم“کو سمجھنا

”بکاؤ لے ازم“قرآن مجید میں ”سائنسی معجزات“ کی بنیاد ی کی جستجو ہے یعنی جدید سائنسی دریافتیں جنہیں بڑے مخفی انداز میں قرآن میں بیان کیا گیا ہے۔یہاں ذاکر نائیک سے ایک عام مثال پیش کی گئی ہے:

چاند کی روشنی منعکس روشنی ہے: ابتدائی تہذیبوں کا یہ ایمان تھا کہ چاند خود اپنی روشنی دیتا ہے۔اب سائنس ہمیں بتاتی ہے کہ چاند کی روشنی منعکس روشنی ہے۔تا ہم 1400 سال پہلے قرآن مجید میں اِس حقیقت کا ذکردرج ذیل آیت میں آیا ہے:

  ”بڑی برکت والا ہے جس نے آسمانوں میں بُرج بنائے اور اُنہیں چراغ او رچمکتا ہوا چاند بھی بنایا۔“(القرآن 61:25)

قرآن میں عربی میں سورج کے لئے لفظ شمس ہے۔اِسے سِرٰجاً بھی کہا گیا ہے … چاند کے لئے عربی لفظ قَمَرً ہے اور قرآن میں اِسے مُنّیراً کہا گیا ہے جو ایک ایسا عنصر ہے جو نور دیتا ہے یعنی منعکس شدہ روشنی … اِس کا مطلب ہے کہ قرآن سورج اور چاند کی روشنی کے درمیان فرق کو بیان کرتا ہے۔ 1

اِسی طرح دعوے کئے گئے ہیں کہ بلیک ہولز،علم حیاتیات،علم ارضیات اور علم نجوم کے بارے میں قرآن میں پیشین گوئیاں موجود ہیں۔

بکاولیازم کے لئے مسلمانوں کی مخالفت

قرآن مجید میں ”سائنس کے معجزات“ کی مخفی جستجو اسلامی تاریخ کاحال ہی میں سامنے آنے والا ایک خبط ہے۔یہ بنیاد پرستوں میں بہت مقبول ہے لیکن اِسے چند مسلم مفکرین کی حمایت حاصل نہیں ہے۔نامور بھارتی اسلامی علم ِ الہٰی کے ماہر جناب مولانا اشرف علی تھانوی
(بہشتی زیور کے مصنف)چار نکات کی وجہ سے اِس طریقہ کار کی مخالفت کرتے ہیں۔ 2 اِسی طرح مغرب اور عرب کی یونیورسٹیوں کے بہت سے نامور اسلامی سائنس دان بکاؤ لے ازم کی وجہ سے پریشان ہیں۔ضیاالدین شاکر اپنے کتاب ”اسلامی سائنس میں دریافتیں
”Exploration in Islamic science“میں سائنسی معجزات کو مناظرہ کا’بُری قسم کااعتزار“ کہتا ہے۔پین سٹیٹ یونیورسٹی کے مسلم مؤرخ نعمان الحق بکاؤ لے ازم کے نقادوں میں سب سے آگے ہیں جو بکاؤ لے ازم کے سامنے آنے کی وجہ مسلمانوں میں پائے جانے والے گہرے احساس ِکمتری کو قرار دیتا ہے جنہیں آبادیا تی نظام نے تضحیک کا نشانہ بنایا اور جو اسلامی سائنس کی کھوئی ہوئی شان و شوکت کو دوبارہ حاصل کرنے کے لئے ہیں۔ایک او رنقاد مظفر اقبال ہیں جو البرٹا کینیڈا میں اسلام اور سائنس کے مرکز کے صدر ہیں۔


پاکستان کے نامور مسلم ماہر طبیعات پرویز ہود بائے لکھتے ہیں:

”ایسے دعوے کرنے والوں کا مسئلہ یہ ہے کہ اُن میں اِس بات کی وضاحت کرنے کی کمی ہوتی ہے کہ کیوں مقداری نظریہ،مالیکیولز کی ساخت وغیر ہ کو کہیں اَور دریافت ہونے کے لئے انتظار کرناپڑا۔اور نہ ہی کبھی کسی قسم کی مُستند پیشین گوئیاں کی گئیں۔اُن کے پاس اِس بات کی بھی کوئی دلیل موجود نہیں کہ اینٹی بائیٹکس،ایسپرین،بھاپ کے انجن،بجلی،ہوائی جہاز،یا کمپیوٹر پہلے مسلمانوں نے کیوں ایجاد نہیں کئے۔بلکہ ایسے سوالات پوچھنا توہین آمیز سمجھا جا تا ہے۔“ 4

ترکی مسلمان فلسفی اور ماہر طبیعات ٹینر ادیس لکھتے ہیں:

”قرآن -سائنس( بکاؤ لے ازم)رقت انگیز ہے لیکن بہت سے مسلمانوں نے بھی اِس بات کو تسلیم کیا ہے۔جتنی انسٹیٹیوٹ فار کریشین ریسرچ مسیحیت کی ترجمانی کرتا ہے اُسی طرح یہ اُس سے زیادہ اسلام کا اظہار نہیں کرتی۔تاہم وہ احمقانہ شدت جو میں نے اُوپر بیان کی ہے وہ سائنس او رقدامت پسند اسلام کے درمیان مبہم تعلق کی وضاحت کرسکتی ہے۔جبکہ بہت سے ایمان دار
اِس مسئلے کے نظر انداز کرنے کو تیار ہیں اور قرآن مجید کے ساتھ مکمل سائنسی ہم آہنگی کا اظہار کرتے ہیں،کچھ ماہرین اَدراکی کا متعلقہ راستہ اپناتے ہیں،یا اِس بات پر زور دیتے ہیں کہ سائنس اسلام کی ساخت کردہ ہے،اِس لئے ہمیں فطر ت کی اسلامی نظریے کو تسلیم کرنا ہے۔“ 5

ابو عمر یوسف قاضی جو ایک معروف واعظ اور ییل Yaleکے فارغ التحصیل ہیں،اُنہوں نے اپنی کتاب،”An Introduction
to the Sciences of the Quran"میں لکھا:

”دوسرے الفاظ میں قرآن مجید کی ہر تیسری آیت میں کوئی سائنسی سراب موجود نہیں ہیں جو اِس بات کے منتظر ہوں کہ چند پُر جوش،اعلیٰ تصوراتی مسلمان اُنہیں صفحہ ِ ہستی پر لے کر آئیں گے۔“ 6

”اِسلامی سائنس“ کے حوالے سے،پاکستانی نوبل انعام یافتہ اور ماہر طبیعات جناب ڈاکٹر عبدالسلام لکھتے ہیں:

”صرف ایک عالمگیر سائنس ہے؛اِس کے مسائل اور اِس کے طریقے بین الاقوامی ہیں اور اسلامی سائنس جیسی کوئی چیز نہیں ہے جیسے کہ ہندو سائنس یا یہودی سائنس،یاکنفیو شین سائنس اور نہ ہی مسیحی سائنس ہے۔“

بکاؤ لے ازم کے مسائل

بکاؤ لے ازم کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کو کمزور پیش کرتا ہے جو ناقابل اعتراض حد تک واضح ہونے کے قابل نہیں ہے۔مثلاًاگر اللہ تعالیٰ کا ارادہ صرف زمین کی شکل ہی بیان کرنا تھا تو پھر اُس نے ایک ہی آیت کیوں نہ رکھی جو یہ کہتی کہ ”کیا تم نے نہیں دیکھا کہ ہم نے زمین کو چپٹا نہیں بلکہ گول بنایا ہے جو سورج کے گرد گھومتی ہے؟“یا اگر اللہ تعالیٰ کا ارادہ ٹیلی وژن کی پیشین گوئی کرنا ہوتا تو،وہ واضح طور پر یہ کہہ سکتا تھا کہ،”ایک دن لوگ اپنے گھروں میں بیٹھ کر ڈبوں میں تصویریں دیکھیں گے۔“ دوسری جگہوں پر خدا بڑی وضاحت سے بولتا ہے!…

خدا نے ہیرودیس کو معصوم بچوں کو قتل کرنے کی اجازت کیوں دی؟

متی 16:2 – ”جب یسوع بچ گیا اور ہیردویس بادشاہ نے دوسروں کو قتل کروایا، تو خدا نے معصوم بچوں کو کیوں نہ بچایا؟“

ہم یہ بھی پوچھ سکتے ہیں کہ کیوں خدا نے ہٹلر، پول پاٹ، سٹالن یا دوسروں کو کیوں نہ روکاجنہوں نے بہت سے معصوم لوگوں کو جن میں بچے بھی شامل تھیقتل کیا؟ دُنیا ہماری ثقافت کے گناہ کے اثرات منعکس کر رہی ہیں، اور ہم میں سے کوئی بھی گناہ سے مبرا نہیں۔ خدا گناہ کے فطری اثرات کی اجازت دیتا ہے تا کہ ہم اُنہیں محسوس کر کے اِس بات سے آگاہی حاصل کر سکیں کہ انسانیت کے ساتھ بنیادی طور پر کچھ غلط ہے، اور ہم اپنی غلط راہ کا احساس کر سکیں، توبہ کریں، اور خدا کو اجازت دیں کہ وہ ہمیں بدلے۔ اگر خدا سادہ طور پر تمام تکلیف(گناہ کا نتیجہ) کو مٹا دیتا، تو ہم کبھی بھی یہ احساس نہ کر سکتے کہ گناہ کس قدر بھیانک ہے اور کبھی بھی اُس کے حل کے طالب نہ ہوتے۔

کیا حضرت یحییٰ بپتسمہ سے پہلے حضرت عیسیٰ کو جانتے تھے؟

متی 13:3-14 – ”کیاحضرت یحییٰ حضر ت عیسیٰ کے بپتسمہ سے پہلے اُنہیں جانتے تھے یا نہیں (یوحنا 33:1)؟“

جناب مسیح کے بپتسمہ تک،حضرت یحییٰ، مسیح کو ایک دُور کے رشتہ دار کے طور پر جانتے تھے جو ایک اَور شہر میں پلے بڑھے تھے۔
اُن کے دل میں اِس بات کے چند شکوک ہو سکتے تھے کہ آیا حضرت عیسیٰ مسیحا ہیں یا نہیں لیکن جب رُوح القدس کبوتر کی مانند اُن پر اُترا تو یہ واضح تصدیق تھی کہ اس سے حضرت یحییٰ کو یقین ہو گیا کہ واقعی حضر ت عیسیٰ ہی خُدا تعالیٰ کے موعودہ مسیحا ہیں۔

چپٹی زمین؟

متی 8:4 -”یہاں لکھا ہے کہ زمین چپٹی ہے جو کہ درست نہیں ہے۔“

اگر نقاد نے غور سے پڑھا ہوتا تو وہ دیکھتا کہ یہ ایک معجزانہ اورفوری رویا تھی جسے لوقا 5:4واضح کرتی ہے:”پھر ابلیس نے اُسے اُونچے پر لے جا کر دُنیا کی سب سلطنتیں پل بھر میں دکھائیں۔“یہ سمجھ لینا احمقانہ بات ہے کہ لوقا ا ورمتی نے روم کے بارے میں یہ تصور دیا کہ اُسے ایک اُونچے پہاڑ پر سے دیکھا جا سکتاتھا۔وہ ایک معجزانہ رویا درج کر رہے تھے۔کوئی معراج کے بارے میں سوال پوچھ سکتا ہے،کہ کوئی نبی کس طرح ایک ہی رات میں پروں والے گھوڑے پر سوار ہو کر یروشلیم تک اور آسمان تک گیا ہو اور پھر واپس آیا ہو۔

قرآن میں بھی ایسی آیات ملتی ہیں جو ظاہر کرتی ہیں کہ زمین چپٹی ہے:

”اورآسمان کی طرف کہ کیسا بلند کیا گیاہے اور پہاڑوں کی طرف کہ کس طرح کھڑے کئے گئے ہیں اورزمین کی طرف کہ کس طرح بچھائی گئی
(سورۃ الغاشیہ 18:88-20)

اِس آیت پر نامور مفسِّر الجلالین کی تفسیرمیں لکھا ہے،

جہاں تک اُس کے لفظ سُطِحتَ ہموار بچھا دیا‘ کا تعلق ہے اِس کی لغوی قرأت تجویز کرتی ہے کہ زمین چپٹی ہے جو شریعت کے زیادہ تر علمائے کرام کی رائے ہے نہ کہ گول جیسی کہ علم ِ نجوم والے کہتے ہیں …“1

اِسی طرح مصر کے علم ِ الہٰی کے ماہر امام سیوطی نے بھی یہ کہا کہ زمین چپٹی ہے۔

  1. Available online from http://altafsir.com

یردن یا گلیل؟

متی 18:4-22 – ”کیا حضرت عیسیٰ پطرس اور اندریاس کوپہلے گلیل کی جھیل کے کنارے ملے یا دریائے یردن کے کنارے (یوحنا42:1-43)؟“

کوئی بھی حوالہ یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ یہ پہلا موقع تھا کہ حضرت عیسیٰ شمعون او راندریاس سے ملے،مگر ہم یہ نتیجہ اَخذ کر سکتے ہیں کہ یوحنا
اُن کی پہلی ملاقات حضرت یحییٰ کے علاقے میں لکھتے ہیں اور متی دوسری ملاقات واپس گلیل میں بیت صیدا میں گھر پر بیان کرتا ہے۔ ورنہ شمعون او راندریاس کے لئے یہ واقعی حیرت کی بات ہوتی کہ ایک مکمل اجنبی شخص کے محض یہ کہنے پر کہ ”میرے پیچھے ہو لے“ اُس کی پیروی کرتے، جب تک کہ اُن کا اُس کے ساتھ ماضی میں کوئی تجربہ نہ ہوا ہوتا۔حضرت عیسیٰ پہلے ہی اُن پر اپنے معصوم کردار،معجزات اور تعلیم کو یردن میں ثابت کر چکے تھے۔یہی وجہ ہے کہ وہ بغیر کوئی سوال کئے گلیل میں اُن کے پیچھے ہو لئے۔

دوسرا گال پھیرنا

متی 38:5-39 -”بے انصافی کے سامنے دوسرا گا ل پھیرنا حماقت اور غیر منصفانہ عمل ہے۔“

کچھ نے یہ بحث کی کہ وہ امن پسندی جس کا حضرت عیسیٰ مسیح دعویٰ کرتے ہیں وہ قابل ِ مذمت ہے۔یہ ایک دلچسپ دعویٰ ہے،خاص طور پرجیسے کہ پچھلے چند سالوں میں دنیانے جنگ او ردہشت گردی کے تباہ کُن نتائج کو دیکھا ہے۔ہم اِس حقیقت کے گواہ رہ چکے ہیں کہ مذہب کے نام پر جنگ،عسکری قوت،دہشت گردی اور بڑھتی ہوئی قومیت نے صرف دنیا کو دُکھ اور تکلیف،غم اور مصیبت ہی دی ہے۔جو مسائل دنیا کو درپیش ہیں جنگ اُن کا حل نہیں نکالتی۔اگر جنگ دنیا کے حالات کو بہتر نہیں بنا رہی تو کیا ہم دوسرے متبادل ذرائع پر غور نہیں کر سکتے؟

یہ آیات جن کا ذِکر اوپر کیا گیا ہے اِن سے پہلے،حضرت عیسیٰ مسیح نے فرمایا،”مبارک ہیں وہ جو صُلح کراتے ہیں کیو نکہ وہ خدا کے بیٹے کہلائیں گے“(متی 9:5)۔صلح کرانے والوں کو ”خدا کے بیٹے“ کیوں کہا گیا ہے؟کیوں کہ خُدا تعالیٰ ہی تمام امن کا وسیلہ ہیں اور وہ جو امن لانے کے لئے کام کرتے ہیں وہ اپنے کردار میں خُدا تعالیٰ کی مانند ہیں۔

انجیل مقدس یہ تعلیم دیتی ہے کہ عدالت کے روز خُدا تعالیٰ واقعی بے انصافی کا بدلہ لے گا لیکن گناہ آلودہ،خطا کار بنی نوعِ انسان ہوتے ہوئے،ہمیں بدلے کو خُدا تعالیٰ کے ہاتھ میں چھوڑ دینا چاہئے۔ انصاف کو یقینی بنانا حکومت کا کام ہے لیکن ایمان داروں کو بِنا تشددکے مزاحمت،سچائی اور مضبوط دلیری سے بُرائی کی مخالفت کرنے کو کہا گیا ہے نہ کہ بم دھماکوں اور دہشت گردی سے۔ہم آدمیوں کے ضمیر سے اپنے مضبوط اور بے خوف ایمان کے ساتھ درخواست کرتے ہیں کہ طاقت سے زیادہ مضبوط سچائی ہے،جوبدی کے آگے، موت کے سامنے بے خوف رہنا ہے۔حضرت عیسیٰ مسیح کے پیروکاروں میں امن پسند شہادت کی روایت قائم ہے جو اپنے دشمنوں کی محبت سے بھری ہوئی ہے جس نے بے شمار لاکھوں زندگیوں کو مسیح کی راہ اختیار کرنے کی جانب مائل کیا۔

حضرت عیسیٰ مسیح نے فرمایا،”اپنا اطمینان تمہیں دیتا ہوں۔جس طرح دنیا دیتی ہے مَیں تمہیں اُس طرح نہیں دیتا۔“انسانوں کے قائدین نے طاقت کے ایک خونریز انقلاب کے بعدایک پُرامن ریاست قائم کرنے کا وعدہ کیا مگر اُنہوں نے خونریزی کے علاوہ کچھ حاصل نہ کیا۔حضرت عیسیٰ مسیح یہاں او رابھی ایک مختلف قسم کا امن پیش کرتے ہیں۔موت اور تباہی فتح تو لاسکتی ہیں مگر وہ انصاف یا امن کبھی نہیں لائیں گی۔

یہ دُنیا جس نے مذہب کے نام پر جنگ کا پھل دیکھا ہے؛ہم جانتے ہیں کہ صرف حضرت عیسیٰ مسیح کی باتیں ہی بے انصافی اور تباہی کے سلسلے کو ختم کرنے کا مناسب جواب ہیں۔ حضرت عیسیٰ مسیح کی قیمتی تعلیمات نے بے شمار لوگوں کو آپ کا شاگرد بننے کی طرف مائل کیا۔

کُتے اور سؤر؟

متی 6:7 – ”انجیل شریف کس طرح غیر ایمان داروں کے لئے ”کتوں“اور ”سؤروں“ کے ناشائستہ الفاظ استعمال کر سکتی ہے؟انبیا کو
دوسروں کے لئے ایسی اصطلاحات استعمال نہیں کرنی چاہیے تھیں۔“

یہ حوالہ بتا رہا ہے کہ حقیقی ایمان داروں کو اُن کو انجیل کی منادی غیر معینہ مدت تک جاری نہیں رکھنی چاہئے جو سختی سے اِسے ردّ کرتے ہیں
تاکہ وہ آگے بڑھ سکیں اور زیادہ قبول کرنے والوں میں انجیل کی منادی کرسکیں (دیکھئے 14:10)۔یہ آیت براہ ِ راست کسی شخص کو بھی کتا یا سؤر نہیں کہتی،یہ روزمرہ زندگی میں سے یہ بیان کرنے کے لئے صرف ایک استعارہ استعمال کرتی ہے کہ کسی شخص کو اُن لوگوں پر قیمتی باتیں ضائع نہیں کرنی چاہئیں جن کو اُن کی قدر نہیں ہے۔

قرآن نے خود شریروں کو بیان کرنے کے لئے ایسے ہی استعارے استعمال کئے ہیں۔ہمیں قرآن میں ملتا ہے کہ بدکاروں کو کتے (175:7-177)،جانور(25,22:8)،گدھے(5:62)اورحتیٰ کہ سؤروں میں تبدیل ہونے کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔یہ اصطلاحات یہ دکھانے کے لئے مجازی معنوں میں استعمال ہوئی ہیں کہ لوگ کس طرح خُدا تعالیٰ کے فضل و کرم کے بغیر تباہ اور بگڑے ہوئے ہیں۔خُدا تعالیٰ کی راہنمائی کے بغیر،آدمی مکمل طور پر بگڑا ہوا ہے اور ایسے کام کرتا ہے جو جانور بھی نہیں کرتے ہوں گے۔

کیا حضرت عیسیٰ مسیح نے سؤر چُرائے؟

متی 28:8-34 – ”حضرت عیسیٰ مسیح نے سؤروں کا ایک غول چُرایا اور اُنہیں ہلاک کر دیا اِس لئے وہ ایک چور ہیں۔“

صاف ظاہر ہے کہ حضرت عیسیٰ مسیح نے سؤروں کا غول نہیں ”چُرایا“ حتیٰ کہ اُنہوں نے ہاتھ بھی نہیں لگایا؛سؤروں کو کسی چیز میں بھیج دینا مشکل ہی سے ”چوری“ سمجھا جا سکتا ہے۔

حقیقت میں کھوئے ہوئے سؤروں پر دھیان دینابالکل گناہ آلودہ سوچ ہے جو حضرت عیسیٰ مسیح اِس واقعہ کے ساتھ دکھانے کی کوشش کررہے تھے۔دنیاوی سوچ لالچ کے ساتھ املاک اور ملکیت کے حقوق پر لگی رہتی ہے جو کہ بدروح گرفتہ آدمی کی طرح کے لوگوں کے دُکھوں کو نظر انداز کرتی ہے۔حضرت عیسیٰ مسیح گاؤں والوں کی اِس ڈرامائی واقعہ کے ساتھ غلط ترجیحات کو چیلنج کرتے ہیں اور اِ س رُوح میں کہتے ہیں،”یہ آدمی جو دُکھ اور مصیبت سے آزاد کیا گیا وہ اُ س بات سے کہیں زیادہ اہم ہے جس پر آپ توجہ دیتے ہیں اور وہ ہے آپ کا مال و اسباب۔“