کیا سیلاب پوری دنیا میں تھا؟
پیدایش7باب-”یہاں کتاب مقدس ہمیں بتاتی ہے کہ سیلاب کے پانیوں نے تمام زمین کو ڈھانپ لیا،مگر سائنس کہتی ہے کہ یہ ناممکن
ہے۔“
کتاب مقدس کے نقاد اکثر اِس بات کو نظر انداز کردیتے ہیں کہ پوری تاریخ میں قرآن کے بہترین علما ئے کرام اِس بات پر بحث کرتے ہیں کہ قرآن ایک عالمگیر سیلاب کے بارے میں بتا تا ہے۔ابن ِ عباس،ابن ِ کثیر،اور الطبری اِن سب نے مانا ہے کہ قرآن میں عالمگیر سیلاب کا ذکر پایا جاتا ہے۔وہ اِن آیات کی دلیل دیتے ہیں:
”اور(پھر)نوح نے (یہ)دعا کی کہ میرے پروردگار کسی کافر کو روئے زمین پر بستا نہ رہنے دے۔اگر تُو اُن کو رہنے دے گا تو تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے اوراُن سے جو اولاد ہو گی وہ بھی بدکار او رناشکر گزار ہوگی۔“(نوح 26:71-27)
”یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آ پہنچا اور تنور جوش مارنے لگا۔ تو ہم نے (نوح کو)حکم دیا کہ ہر قسم (کے جانداروں)میں سے جوڑا جوڑا
(یعنی)دو(دو جانورایک ایک نر اور ایک ایک مادہ)لے لو او رجس شخص کی نسبت حکم ہو چکا ہے (کہ ہلاک ہو جائے گا)اُس کو چھوڑ کر اپنے
گھر والوں کو او رجو ایمان لایا ہو اُس کو کشی میں سوار کر لو اور اُن کے ساتھ ایمان بہت ہی کم لوگ لائے تھے۔“(ھُود40:11)
”اے زمین اپنا پانی نگل جا او راے آسمان تھم جا۔ تو پانی خشک ہو گیا او رکام تمام کر دیا گیا اور کشی کوہ ِ جُودی پر جا ٹھہری۔او رکہہ دیا گیا کہ بے
انصاف لوگوں پر لعنت۔“(ھُود 44:11)
یہ دو آیات واضح کرتی ہے کہ حضرت نوح کی کشتی میں موجود افراد کے علاوہ زمین پر ایک بھی غیر ایمان دار زندہ نہ رہا۔اِن دو آیات کی تشریح
درج ذیل ہے:
”الحارث، ابنِ سعد ہشام، اُن کے والد ابو صالح ابن عباس کے مطابق :اللہ تعالیٰ نے چالیس دن او رچالیس رات تک بارش برسائی۔جب بارش آئی تو تمام جنگلی جانور،گھریلو جانور،اور پرندے حضرت نوح کی کشتی میں چلے گئے اوراُن کے مُطیع تھے (کام کے لئے)۔اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اُنہوں نے اپنے ساتھ ہر قسم کے دو جوڑے لئے۔ اُنہوں حضرت آدم جسدِ خاکی کو بھی لیا اور مردوں اور عورتوں کے درمیان ایک رُکاوٹ بنایا۔وہ دس رجب کو کشتی میں سوار ہوئے اور اُنہوں نے اُسے یوم ِ عاشور(دس محرم الحرم)
کو چھوڑا۔اِس لئے وہ سب لوگ یوم ِ عاشور کو روزہ رکھتے ہیں۔پانی کو دوحصوں میں آگے لایا گیا۔اللہ تعالیٰ کے الفاظ یہ ہیں:
پھر ہم نے کھول دئیے پانی کے لئے (منھر) یعنی مُسبِّن نزول، اور وفجر نا یعنی شفقنا علیحٰدہ کردیا۔ زمین سے چشموں کو۔ پھر دونوں پانی مل گئے ایک مقصد کے لئے جو پہلے سے مقر ر ہوچکا تھا۔
عرض (کیونکہ لفظ،’مل گئے‘ ہے جو آیت میں استعمال ہوا ہے،ایسا لگتا ہے کہ) پانی دو برابر حصوں میں آیا،ایک آسمان سے اور دوسرا زمین سے۔یہ زمین پر بلند ترین پہاڑ سے بھی پندرہ مکعب فٹ اُونچا ہو گیا۔
کشتی نے اُنہیں چھ مہینوں میں پوری زمین کے گرد گھمایا۔ یہ کشتی کہیں پر بھی نہ رُکی جب تک کہ مقدس سرزمین (مکہ اور مدینہ)نہ پہنچ گئی۔ تاہم یہ مقدس سرزمین میں داخل نہیں ہوئی بلکہ ایک ہفتے تک چکر کاٹتی رہی۔جو گھر ابو قبیس پرکالے پتھر کے ساتھ حضرت آدم نے بنایا تھا وہ اُوپر چڑھتا گیا،چڑھتا گیا تاکہ یہ غرق نہ ہو جائے۔مقدس سرزمین پر چکر کاٹنے کے بعد وہ کشتی اپنے مسافروں سمیت زمین کے گرد گھومتی رہی جس کے نتیجے میں یہ الجودی پہنچ گئی …جب یہ الجودی پر ٹھہر ی گیا، تو کہاگیا:زمین اپنا پانی نگل !جس
…
سارہ کی بابت ابراہام کا جھوٹ،
پیدایش 20 – ”کتاب مُقدس کیسے کہہ سکتی ہے کہ ابراہام نبی نے اپنی بیوی کی بابت جھوٹ بولا اور ایک اَور آدمی کو اُسے لے جانے کی اجازت دی؟“
دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ واقعہ نہ صرف بائبل مُقدس میں موجود ہے بلکہ صحیح بخاری میں بھی لکھا ہے:
ابوہریرہ نے بیان کیا کہ ابراہیم علیہ السلام نے تین مرتبہ جھوٹ بولا تھا۔ دو اُن میں سے خالص اللہ عز و جل کی رضا کے لئے تھے۔ ایک تو اُن کا فرمانا کہ ”میں بیمار ہوں“ اور دوسرا اُن کا یہ فرمانا کہ ”بلکہ یہ کام تو اُن کے بڑے (بت) نے کیا ہے۔“ اور بیان کیا کہ ایک مرتبہ ابراہیم علیہ السلام اور سارہ علیہا السلام ایک ظالم بادشاہ کی حدود سلطنت سے گزر رہے تھے۔ بادشاہ کو خبر ملی کہ یہاں ایک شخص آیا ہوا ہے اور اُس کے ساتھ دُنیا کی ایک خوبصورت ترین عورت ہے۔ بادشاہ نے ابراہیم علیہ السلام کے پاس اپنا آدمی بھیج کر اُنہیں بلوایا اور سارہ علیہا السلام کے متعلق پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ میری بہن ہے۔ پھر آپ سارہ علیہا السلام کے پاس آئے اور فرمایا کہ اے سارہ!
…
خرگوش جُگالی کرتا ہے؟
احبار 11:5,6—”خرگوش اور سافان جُگالی نہیں کرتے۔”
یہ محض ترجمے پر مبنی غلط فہمی ہے۔عبرانی اصطلاح גּרה עלה (عا لِہ گرِہ) گائے،بھیڑوں،خرگوش اور سافان کے فرصت میں چارے کو دوبارہ چبانے کے عمل کے لئے استعمال ہوتی تھی۔خرگوش اور سافان دراصل فرصت میں پہلے سے چبائے ہوئے چارے کو دوبارہ چباتے ہیں مگر اِس خوراک کو معدے سے باہر لانے کی بجائے وہ اِسے باہر خارج کرتے ہیں اور غیر ہضم شدہ خوراک کو ہضم کرنے کی غرض سے دوبارہ کھاتے ہیں۔ یہ عمل ہلکا پھُلکا کھاناکہلاتا ہے۔تاہم،گائے،بکریاں اور بھیڑیں اپنے معدے سے براہ ِ راست خوراک منہ میں لے آتی ہیں اور اِسے بالکل اُسی طرح فرصت میں زیادہ بہتر طور پر دوبارہ چباتی ہیں۔ یہ عمل جُگالی کہلاتا ہے۔ .…
احبار-20-11-چار-پاؤں-والے-پردارجاندار
چار پاؤں والے پرندے؟
احبار 20:11 – ”کنگ جیمز ورژن بائبل کہتی ہے ’جتنے چار پاؤں کے بل چلتے ہیں‘وہ مکروہ ہیں -پرندوں کے چار پاؤں نہیں ہوتے!“
عبرانی اصطلاح ”عوف“ جب اکیلے لکھی جاتی ہے تو اِس کا مطلب ہے،’پرندہ‘؛مگر جب یہ عبرانی” شِرتض“
کے ساتھ ایک لفظ کے طورپر ملتی ہے تو ” شِرتض ہاعوف“ بنتی ہے جس کا مطلب عبرانی میں ’اُڑنے والے حشرات ہے۔ایک غلط ترجمہ اصلی متن کو ردّ نہیں کر تا۔نقادوں کی دلیل ایسے ہی احمقانہ ہے جیسے کہ اِس بات پر زور دینا کہ ’لیڈی برڈ‘ کا مطلب مادہ (لیڈی)پرندہ‘ ہونا چاہئے یا ’کیٹ فش‘ کا مطلب ہونا چاہئے،بلّی کی قسم کا آبی جانور جس کے چھلکے اور مونچھیں ہیں۔
…
چار ٹانگوں والے حشرات؟
احبار21:11-23 – ”ٹڈیوں کی حشرات کی چھ ٹانگیں ہوتی ہیں،نہ کہ چار۔“
یہ ایک سادہ سی غلط فہمی ہے جس کا تعلق ترجمہ سے ہے۔اوّل تو یہ کہ جتنے بھی ٹڈوں کا ذکر ہے اُن سب کی عام چار ٹانگیں ہیں جن کے ساتھ مختلف سی پیچھے کی طرف دو بڑی ٹانگیں ہوتی ہیں جوچھلانگیں لگانے کے لئے استعمال ہوتی ہیں۔ قدیم زمانے میں یہ ٹانگیں یقینا چلنے والی ٹانگوں کے طور پر شمار نہیں کی جاتی تھیں اور اِس طرح اُنہیں ”چار ٹانگوں“ والے جانداروں کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔مزید یہ کہ ”چار ٹانگوں پر چلنے“ کی اصطلاح ایک ایسا اظہار ہے جس میں چار یا زیادہ ٹانگوں والی کوئی بھی مخلوق شامل ہے،جیسے ہزار پا اورکنکھجورا۔
یہ پوچھا جا سکتا ہے کہ ایک ”کیڑے“ کو کیسے چار ٹانگوں والا بیان کیا جا سکتا ہے جبکہ اِس کی تعریف چھ پاؤں والے کے طور پر ہوتی ہے۔اِس کا جواب سادہ ہے – عبرانی اصطلاح جس کا ترجمہ ’رینگنے والے جاندار‘کیا گیا ہے ” شِرتض“ہے جس کا محض مطلب ”چھوٹی پر دار رینگنے والی مخلوق،“ہے،بالکل اُسی طرح جیسے ہماری روزمرہ کی اصطلاح میں لفظ ’کیڑا‘ ہے۔”حشرہ“ کے لئے بطور چھ ٹانگوں والے کیڑے کی جدید درجہ بندی جدید تکنیکی انگریزی سے تعلق رکھتی ہے نہ کہ عبرانی روزمرہ کی اصطلاح سے۔
…
مادہ نُطفہ؟
احبار 2:12 – ”یہ اقتباس غلط کہتا ہے کہ عورت نُطفہ پیدا کرتی ہے۔“
نقادوں نے الزام لگایا ہے کہ ”حاملہ ہو“ کا عبرانی فقرہ جب اِس آیت میں عورت کے لئے استعمال ہوا ہے تو اِس کا اشارہ نُطفہ کی پیداوار کی طرف ہے۔سوال میں استعمال شدہ لفظ ” تَزریعا “ہے جس کا لغوی مطلب ”بیج بنانا“ ہے۔یہ بالکل درست ہے کیونکہ جب عورت کا جسم بچہ دانی میں انڈہ بناتا ہے تو یہ ”بیج“ہی ہے جیسے کہ مرد کانُطفہ ہوتا ہے۔اِس اقتباس کو غیر سائنسی سمجھنے کی بالکل کوئی وجہ نہیں ہے کیونکہ مردوں اور عورتوں دونوں میں ایک طرح کا ”بیج“ (تولیدی مادہ اور انڈہ)ہوتا ہے جو حمل میں اپنا اپنا کردار ادا کرتا ہے۔
کوئی بھی شخص یہ سوال کر سکتا ہے کہ کیوں قرآن میں یہ ذِکر آتا ہے کہ انسان ”اُچھلتے ہوئے پانی سے پیدا ہوا ہے جو پیٹھ اور سینے کے بیچ میں سے نکلتا ہے۔“یخرج من بین الصلب والترائب، سورۃ الطارق- 7:86)۔
تمام تسلیم شدہ تراجم اور تفاسیر اِس پریشان کرنے والے تجزیے سے متفق ہیں لیکن حمایتیوں نے جدید سائنس کے ساتھ مطابقت پیدا کرنے کے لئے اِس آیت کے سات مختلف نئی وضاحتیں کی ہیں۔بے شک ہم اِس بات پر اتفاق کر سکتے ہیں کہ ہم صحائف کے پریشان کُن اقتباسات کو دلیری سے پر کھ نہیں سکتے۔
…
کیا قرآن کتاب مقدس کا ذِکر کرتا ہے؟
”قرآن ہر گز بائبل مقدس کا ذِکر نہیں کرتا،صرف توریت شریف،زبور شریف او رانجیل شریف کا ذِکر کرتا ہے۔“
دراصل انگریزی کا لفظ ”بائبل“ ایک یونانی اصطلاح ”ببلیا“ کا ترجمہ ہے جس کا مطلب ہے،”کتابیں“۔جب یہودیوں اور مسیحیوں کے صحائف ایک ہی سمجھے گئے، تو اِس کے لئے لاطینی اصطلاح نے ”کتاب“ کا اشارہ دینا شروع کیا۔عربی میں یہ الکتاب یا الکتاب
المقدس ہے کیونکہ بائبل کو ہمیشہ عربی زبان میں یہی کہا گیا ہے۔حضرت محمد سے پہلے او ربعد میں بھی عربی مسیحیوں نے ہمیشہ وہی اصطلاح استعمال کی جو قرآن استعمال کرتا ہے۔قرآن مسیحیوں او ریہودیوں کو اہل ِ کتاب کہتا ہے جس کا مطلب ہے،”کتاب کے لوگ“اوریہ فرماتا ہے کہ وہ الکتاب پڑھتے ہیں۔
”اور یہودی کہتے ہیں کہ عیسائی رستے پر نہیں اور عیسائی کہتے ہیں کہ یہودی رستے پر نہیں۔حالانکہ وہ کتاب (الکتاب)پڑھتے ہیں۔“
(سورۃ البقرۃ 113:2)
”اے اہل ِ کتاب (خدا)تم (علمائے)ربانی ہو جاؤ کیوں کہ تم کتاب ِ (خدا)پڑھتے پڑھاتے رہتے ہو۔“(سورۃ آل عمران79:3)
الکتاب کی نسبت اَور کوئی قریب ترین لفظ عربی میں نہیں ہے جو بائبل کے لئے استعمال کیا جا سکتاہو۔تورات،توراۃ ہے،زبور شریف مزامیر ہے اور انجیل شریف ایونجل(eungel)جو ایک ایسی اصطلاح ہے جو مجموعی طور پرچار اناجیل یا پورے نئے عہد نامے کے لئے استعمال ہوتی ہے۔اگر قرآن کا مطلب کچھ اَور ہوتاتو پھر وہ یقینا اُس کا ذِکر کرتا،اِس لئے اُس وقت اِن عربی الفاظ کامطلب یہی تھا۔
…
چار مختلف اناجیل؟
”اُن کی چار مختلف اناجیل کیوں ہیں؟“
خُدا تعالیٰ اندھا ایمان،غیر تنقیدی،بِنا سوچے سمجھے قبولیت نہیں چاہتا،بلکہ وہ اپنی سچائی کچھ اِس طریقے سے پیش کرتا ہے کہ جو تشکیک پرستوں (skeptics) کو بھی کافی ثبوت پیش کرتی ہے۔چار مختلف چشم دید گواہوں کے بیان حضرت عیسیٰ مسیح کے معجزات، پیغام،موت اورمُردوں میں سے جی اُٹھنے پر مبنی ہیں جن سے انکار کرنا بہت مشکل ہے۔کوئی بھی شخص کسی ایک چشم دید گواہ کے واقعات کی گواہی پر شک کر سکتا ہے اور کوئی سوال اُٹھا سکتا ہے،بلکہ کئی بیانات پر سوال اُٹھانا بہت مشکل ہے۔
توریت شریف نے یہودیوں کے لئے ایک اہم اُصول چھوڑا:”کسی شخص کے خلاف دو گواہوں یا تین گواہوں کے کہنے سے بات پکی سمجھی
جائے“(اِستثنا15:19)۔توریت شریف کے اُصولوں کے مطابق یہودیوں کو قائل کرنے میں،کئی چشم دید گواہوں کے بیانات کی ضرورت تھی۔قرآن اور کتاب مقدس دونوں سے ہم جانتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ مسیح خود ”کلمتہ اللہ“ یعنی خدا کا کلام تھے،اور انجیل شریف کے صحائف محض حضرت عیسیٰ کے متاثر کُن پیغامات او رکاموں کی گواہی ہیں۔
چار اناجیل ہونے کی آخری دلیل یہ ہے کہ ایک یکساں کئے جانے والے بیان کے بجائے چار مختلف تناظر زیادہ باروشن /بصارت والے ہیں،کیونکہ ہر ایک چشم دید گواہ کے واقعات حضرت یسوع مسیح کی خدمت کے ایک نئے پہلو پر زور دیتے ہیں یا اُسے سامنے لاتے ہیں۔
180عیسو ی میں اِرینیس نے چاروں اناجیل (مقدس متی،مقدس مرقس،مقدس لوقا،مقدس یوحنا)کے بارے میں لکھا:
”یہ ممکن نہیں ہے کہ اناجیل یا تو زیادہ ہو سکتی یا کم۔چونکہ جس دنیا میں ہم رہتے ہیں اُس کے چار حصے ہیں،اور چار بڑی آندھیاں ہیں،
جب کہ کلیسیا پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے اورکلیسیا کے ”ستون اور زمین“ انجیل شریف او رزندگی کی روح ہے؛یہ مناسب ہے کہ اُس کے چار ستون ہوں تاکہ ہر طرف سے بدی باہر نکل سکے اور آدمیوں کو تازگی ملے …کیو نکہ زندہ جاندار چار صورتیں رکھتے ہیں، اور انجیل چار پہلوی ہے،کیونکہ یہی راستہ ہے جسے خُداوند نے بھی اختیار کیا۔
یہ ا ِرینیس مقدس یوحنا کا ”روحانی پوتا“ تھاکیونکہ پولی کارپ نے اُس کی تربیت کی تھی جسے خود مقدس یوحنا نے تربیت دی تھی،جوحضرت یسوع مسیح کا پیارا شاگرد اور یوحنا کی انجیل کا مصنف تھا۔
…
انجیل شریف نازل کی گئی؟
"قرآن انجیل شریف کو یوں بیان کرتا ہے کہ وہ نازل کی گئی ہے؛لیکن موجود ہ انجیل شریف حضرت عیسیٰ کے پیروکاروں نے لکھی تھی۔"
"نازل کی گئی" کی عربی اصطلاح کا مطلب یہ نہیں کہ آسمان سے گرائی گئی یا نبی کے ذریعے دی گئی۔اِس کا زیادہ تر عام فہم مطلب اللہ کا عطا کردہ انعام ہے۔یہی "نازل کی گئی" کی اصطلاح 25:57میں لوہے کے لئے استعمال کی گئی ہے:"ہم نے لوہا پیدا کیا؛اور اِس میں خطرہ بھی شدید ہے اور لوگوں کے لئے فائدے بھی ہیں اور اِس لئے کہ جو لوگ … خدا اوراُس کے پیغمبروں کی مدد کرتے ہیں خدا اُن کو معلوم کرے۔
…
سورۃ المائدہ 46:5 رہنمائی اور روشنی تھی یا ہے؟
"قرآن کی سورۃ المائدۃ 46:5میں فرماتی ہے کہ انجیل شریف میں رہنمائی اور نور تھا(فعل ماضی)۔”
یہ دعویٰ عربی متن کو غلط طور پر سمجھنے کی بنیاد پر کیا گیاہے۔عربی میں یہ جملہ کچھ یوں ہے “الإِنجِيلَ فِيهِ هُدًى وَنُورٌ“; ،جس کا لغوی ترجمہ کچھ یوں ہے "…اِس میں رہنمائی اور نور ہے …"اِس میں کوئی فعل نہیں ہے،یہ محض زمانہ حال ("ہے")استعمال کرتا ہے۔عربی میں زمانہ حال کے جملوں میں فعل"ہونا"("کانا")کی ضرورت نہیں پڑتی۔اِس طرح عربی میں "آدمی بڑا ہے" کے لغوی معنی ہیں "آدمی بڑا۔"یہ زمانہ سیاق و سباق سے اخذ کیا گیا ہے۔مشہور بنگالی مصنف ڈاکٹر لطف الرحمان نے اپنی کتاب دھرما جیون میں اِس آیت پر درج ذیل الفاظ میں تبصرہ کیا ہے:
"کون اللہ تعالیٰ کے تمام صحائف پر حقیقی ایمان رکھتا ہے؟قرآن شریف کے ساتھ میَں نے کبھی کسی کو انجیل شریف (کتاب مقدس)،زبور شریف یا توریت شریف کو پڑھتے نہیں دیکھتا۔بہت سے مسلمان حضرت عیسیٰ کی توہین کرتے ہیں۔قرآن فرماتا ہے رہنمائی اور نور انجیل شریف میں ہے۔میَں نے کسی ایک شخص کو بھی انجیل شریف لینے کی کوشش کرتے نہیں دیکھا!پہلے
…