سورج سے پہلے نباتات؟

پیدایش 1:11-13—”سورج کے بغیر نباتات کیسے وجود میں آ سکتی ہیں؟”

صحیح مسلم1 میں اور الطبری کے مطابق قرآن کی تخلیقی ترتیب میں بھی ہمیں یہ ملتا ہے کہ نباتات سورج کی تخلیق سے دو دن پہلے بنیں۔مندرجہ بالا تشریخی خاکہ توریت شریف کی تخلیقی ترتیب دکھاتے ہوئے اِس نیم شفاف روشنی (جو پہلے دن ظاہر ہوئی)کو یوں بیان کرتاہے کہ یہ روشنی اِس عرصے کی فضا میں سے گزر کر آرہی تھی اگر چہ کہ سورج یا چاند ابھی تک دکھائی نہ دیتے تھے۔ اِس طرح Photosynthesis کا عمل ہو سکا اور پودے اُگ سکے جس کے بدلے میں آکسیجن پیدا ہوئی اور فضا صاف ہوئی۔ڈاکٹر رابرٹ سی۔نیومین (جنہوں نے کارنل یونیورسٹی سے تھیوریٹیکل آسٹروفزکس میں پی۔ایچ۔ڈی کی)یہ نتیجہ اَخذ کرتے ہیں کہ "نباتات فضا میں آکسیجن کے بننے اوراِس پر سے بھاری بادل کے غلاف کو ہٹانے،دونوں کا فوری نتیجہ تھیں۔" 2


.

پیدایش کے مطابق کیا چاند کی براہ ِ راست روشنی ہے؟

پیدایش 1:14-19—”یہ آیت غلط کہتی ہے کہ چاند ایک روشنی ہے،جب کہ دراصل یہ محض سورج کی منعکس شدہ روشنی ہے”۔

یہ دلیل احمقانہ ہے،کیونکہ کوئی بھی شخص جدید لوگوں کو "چاند کی روشنی" کی اصطلاح استعمال کرنے پر تنقید کر سکتا ہے۔تمام صحائف تخلیق کو بیان کرنے کے لئے مظہر یاتی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔—قرآن بھی چاند کو "روشنی" کہتا ہے (71:15-16).…

اللہ تعالیٰ کو آرام کی ضرورت نہیں

پیدایش 2:2-3 -”اللہ تعالیٰ کو آرام کی ضرورت نہیں؛جیسے کہ قرآن بتاتا ہے (سورۃ 38:50)!“

کتاب مقدس واضح بتاتی ہے کہ خُدا تعالیٰ تھکتا نہیں یا اُسے آرام کی ضرورت نہیں۔”تیرا محافظ اُونگھنے کا نہیں۔دیکھ اسرائیل کا محافظ نہ
اُونگھے گا نہ سوئے گا“(زبور شریف 3:121-4)۔”خداوند خدائے ابدی و تمام زمین کا خالق تھکتا نہیں او رماندہ نہیں ہوتا۔اُس کی حکمت
اِدراک سے باہر ہے“(یسعیاہ 28:40)۔آرام کے لئے عبرانی اصطلاح بھی یہی لغوی معنی رکھتی ہے،”ختم کر نا،”رُکنا۔“

قرآن اللہ تعالیٰ کے ”چہرے‘(سورۃ الرحمن27,26:55)،اُس کے ہاتھ (سورۃالفتح 10:48)،اُس کی آنکھ(سورۃ طہٰ
36:20-39)،اُس کے تخت(سورۃالحدید 4:57)؛وہ”بھولتا ہے“(سورۃ الاعراف51:7)‘ کا ذکر کرتے ہوئے اُس کے لئے بالکل علم الانسانی (انسانوں کی مانند)جیسی زبان استعمال کرتا ہے۔اِس کا یہ مطلب نہیں کہ اُس میں انسانی خصوصیات ہیں بلکہ اِس کے بجائے خُدا تعالیٰ انسانی وضاحتیں استعمال کرتے ہوئے انسانی زبان میں بات کرتا ہے جو محدود انسان کے لئے بعیداز فہم کو سمجھنے کی اجازت دیتا ہے۔

تمام پودے کھانے کے قابل ہیں؟

پیدایش16:2-17 – ”یہ سکھاتی ہے کہ تمام پودے کھانے کے قابل ہیں۔“

جب خورونوش کے قوانین یہ بتاتے ہیں کہ صرف سؤر،گوشت کھانے والے،مُردہ جانور،خون اور الکوحل مُضر ہیں تو یہ صرف ذاکر نائیک جیسے ہی لوگ ہوں گے جن میں عام شعور کی کمی ہے کہ اُنہوں نے زہریلے پودوں اورگوشت سے باز رہنا ہے۔جب خُدا تعالیٰ نے حضرت آدم کو اجازت دی کہ وہ باغ میں موجود کسی بھی درخت کا پھل کھائے تو وہ کھانے کا حکم نہیں دے رہابلکہ کھانے کے لئے اپنا انتخاب کرنے کی آزادی دے رہا ہے۔

اگرہم آیت کا بغور مطالعہ کریں تو ہم دو باتیں ملتی ہیں۔پہلی یہ کہ ’کسی بھی درخت‘ کے ذِکر کا ہر گز مطلب ’تمام‘ نہیں ہے کیونکہ یہ کہتے ہوئے اِس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ کم از کم ایک درخت ہے کہ جس میں سے حضرت آدم نہیں کھا سکتے تھے اور وہ نیک و بد کی پہچان کا درخت تھا۔

دوسری اور سب سے اہم بات یہ جملہ کہ ’باغ میں سے‘ہے۔خُدا تعالیٰ نے یہ سہولت اُس وقت رکھی تھی کہ جب حضرت آدم ابھی تک اُس کی کامل تخلیقی حیثیت میں تھے،اِس سے پہلے کہ گناہ دنیا میں داخل ہو۔ ابتدا میں ہر چیز اچھی تھی (پیدایش 31:1)- ہر ایک چیز خُدا تعالیٰ نے
کاملیت میں بنائی تھی۔ابتدائی تخلیقی حالت بغیر گناہ کے تھی۔اِس لئے کوئی بھی پودا زہریلا یا نشہ آور نہیں تھا۔ہر وہ چیز جو خُداتعالیٰ نے بنائی وہ انسان کے فائدے کے لئے تھی۔جب حضرت آدم کے وسیلے سے گناہ دنیا میں داخل ہو اتو وہ کامل حیثیت بگڑ گئی۔حضرت آدم کے گناہ کے نتیجے میں پیدایش 17:3-18میں خُداتعالیٰ کی سزا نے خاص طور پر زمین او رپودوں کو متاثر کیا۔

قرآن میں بھی ایسا ہی ہے، ہم آیات کو زیادہ لغوی معنوں میں نہیں لے سکتے۔الانعام 38:6پڑھئے،

”اور زمین میں جو چلنے پھرنے والا (حیوان)یا دو پروں سے اُڑنے والا جانور ہے،اُن کی بھی تم لوگوں کی طرح جماعتیں ہیں۔“

تاہم بہت اقسام موجود ہیں جو انسانوں کی طرح برادریوں میں نہیں رہتیں،جیسے کہ مادہ کالی بیوہ مکڑی،مثلا ً جو اپنی ساتھی کو اُس سے صحبت کرنے کے بعد کھاتی ہے۔یہ قرآن کو ردّ نہیں کرتی بلکہ صرف یہ وضاحت کرتی ہے کہ بعض اوقات کس طرح ہم اقتباس کو اُس کے لغوی معنوں میں نہیں لے سکتے۔

سانپ مٹی کھاتے ہیں؟

پیدایش 3:14—”سانپ مٹی نہیں کھاتے!”

ظاہر ہے کہ سانپ اپنی نشو ونما کے لئے مٹی نہیں کھاتے اگرچہ وہ سونگھنے کے لئے مٹی کے چند ذرات اپنی زبان پر ضرور لیتے ہیں تاکہ ہوا کو “چکھ” سکیں۔تاہم،”مٹی کھانا” یا “مٹی چاٹنا” (عبرانی : ועפר תאכל اور לחכו עפר) (وعافار توکال اور لحکوعافار) محض عبرانی محاورات ہیں جو شرمندگی اور شکست کو ظاہر کرتے ہیں:

"بیابان کے رہنے والے اُس کے آگے جھکیں گے اور اُس کے دُشمن خاک چاٹیں گے۔" (زبور شریف 72:9) "بادشاہ تیرے مربّی ہوں گے اور اُن کی بیویاں تیری دایہ ہوں گی۔وہ تیرے سامنے منہ کے بل گریں گے اور تیرے پاؤں کی خاک چاٹیں گے اور تُو جانے گی کہ میَں ہی خداوند ہوں جس کے مُنتظر شرمندہ نہ ہوں گے۔"(یسعیاہ 49:23)

سانپ کا مٹی کھانا ایک استعارہ ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو زوال پر اُکسانے کی وجہ سے سانپ کو شرمندہ کیا ہے۔

حضرت قابیل کی نبوت

پیدایش 14:4-16 – ”آیت 12غلط نبوت کرتی ہے کہ حضرت قابیل زمین پر خانہ خراب اور آوارہ ہو گاکیونکہ آیت 16کہتی ہے کہ وہ اپنے علاقے میں جا بسا۔“

نبوت دو باتوں کی پیشین گوئی کرتی ہے: کہ حضرت قابیل اپنے وطن سے جلا وطن ہو گا اور یہ کہ وہ مسلسل اپنے دشمنوں کے آگے بھاگتا
پھرے گا۔عبرانی اصطلاحات(نع اور ناد)جن کا ترجمہ ”خانہ خراب“اور ”آوارہ“کیا گیا ہے، یہ دونوں الفاظ تعاقب کرنے والے سے بھاگنے کے معانی رکھتے ہیں۔ پھر بھی نقاد عام طور پر اِن دونوں کے درمیان موجود آیات کو چھوڑ دیتے ہیں جہاں خُدا تعالیٰ حضرت قابیل کے مایوسی کے ساتھ جواب دینے پر اُس کی سزا کا دوسرا حصہ آسان بنادیتے ہیں۔ خُدا تعالیٰ کے رحم کے وسیلے سے حضرت قابیل مزید اب آوارہ نہیں ہونا ہو گاکیونکہ خُدا تعالیٰ کو حضرت قابیل کو حملے سے بچانا تھا۔ ترمیم شدہ نبوت مکمل طور پر پوری ہوئی کیونکہ حضرت قابیل اپنی سرزمین سے دُور دراز علاقے میں جلاوطن ہو گیا۔ایک اَور تشریح یہ ہے کہ چونکہ خُدا تعالیٰ کی لعنت میں حضرت قابیل کے آوارہ ہونے کی کوئی خاص مدت شامل نہیں تھی،شاید وہ کچھ عرصہ خانہ خراب اور آوارہ رہا اور بعد میں کسی علاقے میں جا بسا۔

قرآن ایک اَور زیادہ پیچیدہ نبوت پیش کرتا ہے:

”اہل ِ روم مغلوب ہو گئے،نزدیک کے ملک میں۔اور وہ مغلوب ہونے کے بعد عنقریب غالب آ جائیں گے۔چند ہی سال میں۔“
(سورۃ الر وم 2:30-4)

معروف قرآنی عالم یوسف علی کے مطابق،”کچھ“کے لئے عربی لفظ(بِضع)تین سے نو سال کے عرصے کو ظاہرکرتا ہے؛یا اسلامی فاؤنڈیشن کے قرآن کے ذیلی نوٹ نمبر 1330میں یہ تین سے دس سال کی طرف اشارہ کرتا ہے؛حضرت محمد نے خود ذکر کیا کہ پیشن گوئی کی گئی ’چھوٹی تعداد‘تین سے نو سال کے درمیان ہے ( البیضاوی)۔فارسیوں نے بار نطینیوں کو شکست دی اور 615/614عیسو ی کے قریب یروشلیم کو فتح کر لیا۔تاہم معروف مسلم مؤرخ الطبری اور عالم البیصاوی نے یہ شکست 628عیسوی سے 13-14 سال پہلے رکھی ہے۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ اقتباس کم از کم پیدایش 12:4کی طرح مسئلے والا ہے۔

پیدایش 5باب ناقابلِ یقین زندگی کا دورانیہ

پیدایش 5— "…یہ نسب نامے حضرت ابراہیم اور اُس کی 19نسلوں کو خراج ِ تحسین ہیں جنہوں نے ناقابل ِ یقین حد تک طویل عرصہ گزارا، جس میں متوسلح نے 969برس عمر پائی …" (بیکاؤلے)

ڈاکٹر بیکاؤلے جو اِس انداز میں توریت شریف پر تنقید کرتا ہے،جس کا یہ دعویٰ ہے کہ اُس نے قرآن کو اصلی زبان میں سیکھنے کے لئے عربی سیکھی،پھر بھی وہ اِس بات سے بے خبر ہے کہ قرآن بھی ابتدائی انسانوں کی بڑی عمریں بیان کرتا ہے!سورۃ…

حضرت آدم نے4000 ق م میں زندگی گزاری؟

پیدایش5 – ”نسب ناموں کو جمع کریں تو اُن کے مطابق،حضرت آدم او رحضرت حوّا 4000ق م میں زندہ تھے،جو ناممکن ہے۔“

اگر آ پ جدید خیالات توریت شریف کے نسب ناموں پر لاگو کریں، توحضرت آدم او رحضرت حوّا کی تخلیق تقریباً 4000ق م اور حضرت نوح تقریباً2100کے قریب تھے۔جیسے کہ کوئی بھی کتاب مقدس کا سنجیدہ عالم یہ جانتا ہے،یہ کُلّی طور پر عبرانی نسب ناموں کی غلط تشریح ہے، جن میں کئی نسلوں کو چھوڑ دیا گیا ہے۔اِس طرح،حضرت عیسیٰ کو بالکل صحیح ”داؤد کا بیٹا‘ اورداؤد کو ”ابرہام کا بیٹا“ کہا گیا ہے (متی 1باب)۔بنیادی طورپر عبرانی نسب ناموں کا مقصد نسلوں اور آباؤ اجداد کا پتا لگانا ہوتاتھا،نہ کہ کئی نسلوں کے دورانیہ کا تعین کرنا۔کتاب مقدس اِن اعداد کو اِس مقصد کے لئے کبھی بھی استعمال نہیں کرتی

کہ حضرت آدم اور حضرت نوح کب زندہ تھے جس کو تلاش کرنے کی ہم توقع کریں گے کہ اگر ہم جدید لحاظ سے نسب ناموں کو پڑھنے کا ارادہ رکھتے۔

اگر کوئی توریت شریف کے طریقے پر متی 1:1کو رکھے تو اِسے یوں پڑھا جائے گا:”اور ابرہام 100برس کا تھا (جب اُس سے اضحاق پیدا ہوا جس کے ذریعے سے نسل داؤد تک گئی)،اور اُس سے داؤد پیدا ہوا۔اور داؤد 40برس کا تھا (تقریباًوہ تاریخ جب
سلیمان پیدا ہوا،جس سے یسوع مسیح نے پیدا ہونا تھا)،اور اُس کے وسیلے سے یسوع مسیح پیدا ہوئے۔

کوئی شخص یہ بھی پوچھ سکتا ہے کہ پھر کیوں یہ تمام اعداد وشمار اِتنی احتیاط سے درج ہیں؟اِس کی وجہ 960سالہ آدم کے زمانے سے 70سالہ عمر تک کم ہوتے ہوئے زندگی کے دورانیہ کو ظاہر کرنا ہے۔

ہم نسب ناموں کے اس فہم کو کتاب مقدس کے دوسرے حصوں میں بھی اظہار پاتے ہیں -متی 8:1 یورام او رعُزیاہ کے درمیان تین نام حذف کر دیتا ہے۔جب آپ عزرا 7باب اور 1 -تواریخ 6باب میں نسب ناموں کا موازنہ کرتے ہیں تو یہ صاف ظاہر ہے کہ عزرا جان بوجھ کر آٹھویں نام سے پندرھویں نام تک حذف کرتا ہے،اِس طرح وہ اپنی فہرست مختصر بناتا ہے لیکن کچھ اِس طرح سے کہ وہ صحائف کی روایات کے مطابق قانونی تھا۔ہم پیدایش میں تارح کی عمر کا تعین اُس وقت تک نہیں کر سکتے جب تک کہ ہم قدیم شعور میں 26:11کو نہیں سمجھتے۔1

نسب ناموں میں چند کو چھوڑنے اور صرف اہم آباو اجداد کو رکھنے کا روا ج آج بھی افریقہ کے چند معاشروں میں استعمال کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے قدیم نسب ناموں کی سوجھ بوجھ قائم ہے۔

قرآن میں،ہم نسب ناموں کا زیادہ پیچیدہ معاملہ دیکھتے ہیں،جہاں ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ کی ماں کو حضرت ہارون کی بہن بیان
کہا گیا ہے:

”پھر وہ اُس (بچے)کو اُٹھا کر اپنی قوم کے لوگوں کے پاس لے آئیں۔وہ کہنے لگے کہ مریم یہ تو تُو نے بُرا کام کیا۔اے ہارون کی بہن، (ياُخْتَ هَرُونَ) نہ تو تیرا باپ ہی بداطوار آدمی تھا اور نہ تیری ماں ہی بدکار تھی۔“[القرآن 27:19-28 ]

عرب مسیحیوں کے لئے یہ نہایت حیرانی کی بات تھی کیونکہ حضرت عیسیٰ کی ماں حضرت ہارون اور حضرت موسیٰ کی بہن حضرت مریم ہزاروں سال بعد ہو گزری تھیں۔اِس پیچیدہ اقتباس کے ساتھ نمٹنے کے کم از کم تین نظریات موجود ہیں:

1.

حضرت نوح کی کشتی میں ہر نسل کی قسم

پیدایش 15:6 – ”حضرت نوح کی کشتی میں ہر نسل کی قسم کس طرح سما سکتی ہے جب کہ لاکھوں اقسام موجود ہیں؟“

نقاد کو یہ یاد دلانا چاہئے کہ قرآن بھی یہ بتاتا ہے کہ کشتی میں ہر قسم موجود تھی:

”تو سب (قسم کے حیوانات)میں سے جوڑا جوڑا (یعنی نر اور مادہ)دو دو کشتی میں بٹھالو او راپنے گھر والوں کو بھی۔سوا اُن کے جن کی نسبت اُن میں سے (ہلاک ہونے کا)حکم پہلے (صادر)ہو چکا ہے اور ظالموں کے بارے میں ہم سے کچھ نہ کہنا۔وہ ضرور ڈبو دئیے جائیں گے۔“
(المومنون27:23)

بیشک یہ درست ہے کہ لاکھوں اقسام موجود ہیں مگر بہت سی اقسام سمندروں میں رہتی ہے او رجنہیں کشی میں سوار ہونے کی ضرورت نہیں تھی۔مزید یہ کہ زمین کے جانوروں کی اقسام میں سے 290صرف بھیڑ سے بڑی ہیں؛بہت سے چھوٹے حشرات ہیں۔کتاب مقدس کے ایک عالم کے الفا ظ میں:

کشتی کا حدو د اربعہ مضبوطی اور گنجائش کے لحاظ سے بڑا مثالی بنایا گیا تھا۔پانی کے حجم کے اعتبار سے یہ بتایا گیا ہے کہ عملی طور پرکشتی کے لئے ڈوبنا ناممکن ہو گا اور حتیٰ کہ پانی کی تیز موجوں او رہواؤں میں بھی مناسب حد تک آرام دِہ ہو گی۔قدیم مربع فٹ کو صرف
17.5(بااختیار افراد کی رائے میں سب سے مختصر)انچ تصور کرتے ہوئے ہم یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کشتی بھیڑ کی جسامت کے 125،000جانور اپنے اندر سما سکتی تھی۔جبکہ زمین کے جانوروں (دودھ پلانے والے جانور،پرندے،رینگنے والے جاندار،پانی اور خشکی دونوں کے جانور) کی 000، 25 اقسام سے زیادہ نہیں ہیں،چاہے وہ موجود ہوں یا ختم ہو گئے ہوں اور چونکہ ایسے جانوروں کی جسامت یقینا بھیڑ کی جسامت سے بھی کم ہے اِس سے یہ ظاہر ہے کہ تمام جانوریعنی ہر جوڑا اپنے مناسب ”کمروں“(لفظی طور پر، گھونسلے) میں حضرت نوح کی کشتی کے نصف حصے سے بھی کم جگہ میں بڑی آسانی سے آ سکتا تھا۔

..تمام

دو جوڑے یا سات جوڑے؟

پیدایش 19:6-20 – ”کیا حضرت نوح کو تمام جانداروں کے دو جوڑے لانے تھے (پیدایش 19:6-20)یا اُنہیں پاک جانوروں کے سات جوڑے لانے تھے (پیدایش 2:7؛پیدایش 9,8:7بھی دیکھئے)؟“

پیدایش کا چھٹا باب ’پاک‘جانوروں کا کوئی ذِکر نہیں کرتا جب کہ ساتواں باب خاص طور پر پاک او رناپاک جانوروں کا نقشہ کھینچتا ہے۔
پیدایش 2:7 کے مطابق حضرت نوح کو ’پاک‘جانوروں کے سات جوڑے اور ہر ’ناپاک‘ جانوروں کے دو جوڑے لانے تھے۔یہ صاف ظاہر ہے کہ دونوں باتوں میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔

سات پاک اقسام کو شامل کرنے کی وجہ بالکل واضح ہے،سیلاب کے ختم ہوجانے کے بعد اُنہیں قربانی کے لئے چڑھایا جانا تھا(جیسا کہ پیدایش 20:8کے مطابق اُنہیں قربانی کے لئے چڑھایا گیا)۔صاف ظاہر ہے کہ اگر اِن پاک اقسام میں سے دو سے زیاد ہ نہ ہوتے تو پھر وہ مذبح پر قربان ہونے کے بعد ختم ہو جاتے۔ لیکن ناپاک جانوروں اور پرندوں کا ایک ایک جوڑا کافی ہو گا کیونکہ وہ خون کی قربانی کے لئے ضروری نہیں تھے۔