یہوداہ -اُس کی موت کیسے واقع ہوئی اور کھیت کس نے خرید ا؟
اعمال 18:1-19 – ”یہوداہ -اُس کی موت کیسے واقع ہوئی اور کھیت کس نے خرید ا؟“
جب ہم متی 3:27-8 کا موازنہ اعمال 18:1-19 سے کرتے ہیں تو دو پریشان کرنے والے سوالات ہیں جو یہوداہ کی موت سے متعلق ہیں:
یہوداہ کی موت کیسے واقع ہوئی؟
متی کہتا ہے کہ یہوداہ نے ”جا کر اپنے آپ کو پھانسی دی“جبکہ اعما ل کی کتاب کہتی ہے،”کہ وہ سر کے بل گرا او راُس کا پیٹ پھٹ گیا
اور اُس کی سب انتڑیاں نکل پڑیں۔“اِس کی روایتی تشریح یہ ہے کہ یہوداہ نے اپنے آپ کو درخت کی اُونچی شاخ سے لٹکا لیا،اور نتیجتاًشاخ ٹوٹ گئی اور وہ سر کے بل گرا او راُس کا پیٹ پھٹ گیا۔واقعی اعمال کی کسی اور طرح تشریح کرنا مشکل ہو گا،کیونکہ پیٹ تب تک نہیں پھٹ سکتا جب تک وہ اچھی خاصی اُونچائی سے پہاڑی خطے(جو یروشلیم کے اِرد گرد کا خطہ تھا) میں نہ گرے۔ہم یہ قیاس کر سکتے ہیں کہ جسم کچھ وقت
تک لٹکا،کیوں یہوداہ نے سبت سے تھوڑی دیر پہلے اپنے آپ کو پھانسی دی اور سبت سے پہلے لاش کو ہاتھ لگانا منع تھا۔
دیگر مبصّرین نے ذِکر کیا ہے کہ ”اپنے آپ کو پھانسی دی“کے لئے یونانی اصطلاح (اپینگخومائے) کا مطلب جذبات سے بھر جانا یا غم سے نڈھال ہو جانا بھی ہو سکتا ہے،جیسے کہ انگریزی زبان کا جزوِ جملہ ہے، ”All choked up (سب بھر گئے)۔“
چاندی کے سکوں سے کھیت کس نے خریدا؟
ہم درج ذیل طریقے سے دونوں واقعات کو اکٹھا کر سکتے ہیں:یہوداہ نے ہیکل میں کاہنوں کو چاندی (خون کا کھیت) واپس کرنے کی کوشش کی لیکن اُنہوں نے لینے سے انکا رکر دیا،اِس لئے اُ س نے اُسے اُدھر ہی چھوڑا اور چلا گیا اور شہر کے باہر زمین کے ایک خالی خطے میں جا کر اپنے آپ کو پھانسی دے دی۔اب کاہن تذبذب میں مبتلا ہو ئے،اب اُن کے پاس مُردہ یہوداہ اسکریوتی کی رقم تھی جو وہ ہیکل میں نہیں ڈال سکتے تھے۔چونکہ یہ داغ دار خون کا روپیہ تھا،اِس لئے وہ نہیں جانتے تھے کہ اُس کے ساتھ کیا کریں۔اِس وجہ سے،وہ شخص جس کا یہ خطہ تھا جہاں یہوداہ نے اپنے آپ کو پھانسی دی،وہ اِس حقیقت کی وجہ سے خوفزدہ تھا کہ ایک مجرم شخص کی ایسی خوف ناک موت اُس کی شخصی
جائیداد پر ہوئی ہے،اِس لئے شاید وہ اِس جائیداد سے جان چھڑانا چاہتا تھا۔زمین کے مالک اور کاہنوں نے آپس میں سودا کیا جس سے
دونوں فریقوں کو سکون ملا یعنی ’ناپاک‘ روپے سے پردیسیوں کے لئے قبرستان کے طور پر ’ناپاک‘ زمین خریدی گئی،اِس لئے داغ دار روپے سے ناپاک زمین کے ذریعے چھٹکا را پالیا گیا۔چونکہ زمین یہوداہ کے روپے سے خریدی گئی تھی،اِس لئے کاہنوں نے قدرتی طور پر اِسے اُس کے نام کی لکھ دیا ہو گا جیسے کہ وقف یا ٹرسٹ۔یہی وجہ ہے کہ لوقا اعمال میں لکھتا ہے کہ ”اُس نے بدکاری کی کمائی سے یہ کھیت حاصل کیا،“کیونکہ وہ کھیت اُس کے نام سے حاصل کیاگیا۔ لوقا یہ کہتے ہوئے شروع کر تا ہے کہ یہوداہ نے بالآخر روپے سے ایک کھیت حاصل کیا؛پھر وہ بیان کرتا ہے کہ کس طرح اُس نے یہ زمین حاصل کی -اور پھر دہشت ناک خود کشی سے اُسے گندا کیااورزمین کے مالک کے لئے اُسے نفرت انگیز بنا دیا۔
…
کیا کتاب مقدس محض زیادہ تر درست ہے؟
” کتاب مُقدس زیادہ تر درست ہے، صرف کچھ آیات ایسی تھی جن کا اضافہ کیا گیا یا جو نکالی گئیں جنہوں نے اِس کے پیغام کو بگاڑ دیا۔”
چونکہ کتاب مُقدس کی مجموعی صحت سے متعلق بہت زیادہ ثبوت موجود ہے، اِس لئے بہت سے متشکک الزام لگاتے ہیں کہ مجموعی طور پر بائبل قابل اعتبار ہے لیکن کچھ آیات کا اضافہ کیا گیا تھا یا اُنہیں بدل دیا گیا جس سے اِس کا پیغام بگڑ گیا۔ مثلاً کئی مسلمان دعویٰ کرتے ہیں کہ یسوع کی موت اور جی اُٹھنا اور صرف یسوع میں ایمان سے نجات کی تعلیم “معمولی اضافے” تھے جو بعد ازاں شامل کئے گئے۔ اِن نام نہاد “اضافوں” والی تعلیم (جسے مسیحی انجیلی پیغام کے طور پر جانتے ہیں) کا خلاصہ یوں پیش کیا جا سکتا ہے:
انسانیت فقط شریعت کی تعمیل کرنے سے نجات نہیں پا سکتی کیونکہ لوگ اِس کی مکمل طور پر تعمیل نہیں کر سکتے ہیں، لیکن خدا نے اپنے فضل میں نجات کے لئے ایک ذریعہ مہیا کیا، یعنی لاثانی بے گناہ “مسح شدہ نجات دہندہ” یسوع کو بھیجا گیا جس نے صلیب پر ہمارے گناہوں کو سزا کو اپنے اوپر اُٹھا لیااور کفارہ دیا اور یوں خدا سے انسانوں کا میل ملاپ ہو گیا۔نجات کی یہ بخشش جس کے ہم مستحق نہیں، مذہبی وابستگی یا عقیدہ سے ممکن نہیں بلکہ توبہ کرنے اور یسوع کے ایک شاگرد بن جانے سے حاصل ہوتی ہے۔
اِن نقادوں کے مطابق، مندرجہ بالا عقیدہ کا لازماً بعد میں اضافہ کیا گیا ہے کیونکہ یہ ا ُن کے اپنے مذہبی نظریات سے میل نہیں کھاتا۔ اِن نقادوں کے مطابق وہ تمام آیات جن میں غلط سمجھے گئے “بیٹا” اور “خداوند” کے القاب استعمال کئے گئے ہیں بعد کے اضافے ہیں۔
ہر وہ فرد جس نے حقیقت میں پورے نئے عہدنامہ کا مطالعہ کیا ہے، اُس کے نزدیک یہ بات انتہائی مضحکہ خیز ہے کیونکہ یہ پیغام واضح طور پر بار بار نئے عہدنامہ کی تمام ستائیس کتابوں میں پایا جاتا ہے۔ اِس بات کا اشارہ نئے عہدنامہ کی کم از کم آدھی کے قریب تعلیم میں بھی ملتا ہے۔ اِس کے بغیر انجیل مُقدس کی کوئی سمجھ نہیں آ سکتی۔
یہ نظریہ کہ “صرف چند آیات” کا بعد میں اضافہ کیا گیا تھا، ہر اُس فرد کے نزدیک مضحکہ خیز ہے جس نے حقیقت میں پورے نئے عہدنامہ کا مطالعہ کیا ہے، کیونکہ یہ پیغام واضح طور پر بار بار نئے عہدنامہ کی تمام ستائیس کتابوں میں پایا جاتا ہے اور اِس بات کا اشارہ نئے عہدنامہ کی کم از کم آدھی کے قریب تعلیم میں بھی موجود ہے۔ یہی خوشخبری تمام انجیلی بیانات میں موجود ہے جسے یسوع نے کئی مرتبہ بیان کیا: متی 26: 28 ;یوحنا 3: 15 ; متی 20: 28 ;مرقس 10: 45 ; یوحنا 10: 9 ; 14: 6 ;یوحنا6: 44،47، 48، 51 ; 10: 11 ،28 ; 11: 25 ; 17: 1-2 ،3 ;لوقا 4: 43 ; 24: 26 – 27 ;یوحنا 6: 29 ،33،35 ; 4 : 14; 5: 21 ;متی 18: 21-35 ۔ یہ وہی خوشخبری ہے جس کی منادی پطرس رسول نے کی ، یعقوب نے کی اور یوحنا رسول نے کی۔ مزید برآں نئے عہدنامہ کی تمام ستائیس کتابوں میں اِس حقیقت کی گواہی ملتی ہے۔
باالفاظ دیگر، یہ پیغام مکمل طور پر نئے عہدنامہ سے ناقابل جدا ہے اور انجیل مُقدس کا مرکزی “خوشخبری” کا پیغام ہے۔ یہ تحریر جامع نہیں ہے۔ یہاں ہر عنوان کے تحت حضرت عیسیٰ کے بارے میں قرآن میں پائے جانے والے تمام حوالہ جات کا احاطہ نہیں کیا گیا۔ اور اِس کے لئے ایک بڑی کتاب لکھنے کی ضرورت ہو گی۔ تاہم یہاں حضرت عیسیٰ کے لئے استعمال ہونے والے مختلف ناموں اور بیانوں کی ایک یا دو مثالیں دی گئیں ہیں تا کہ قاری تک اُس نکتہ نظر کو درست طور پر پیش کیا جائے جسے قرآن ہر عنوان کے تحت بیان کرتا ہے۔ اِن میں سے کئی باتیں صرف حضرت عیسیٰ کے لئے ہی استعمال ہوئی ہیں اور کسی دوسرے کے لئے استعمال نہیں ہوئیں۔ ہمیں اُمید ہے کہ اِس مختصر تحریر کو پڑھنے کے بعد قاری کو تحریک ملے گی کہ وہ خود قرآن کا مطالعہ کرے اور دیکھے کہ یہ حضرت عیسیٰ اور کئی اَور اہم موضوعات کے بارے میں کیا بتاتا ہے۔
…
کیا حضرت عیسیٰ کو “خدا کا بیٹا” کہا جا سکتا ہے؟
حضرت عیسیٰ کو “خدا کا بیٹا” نہیں کہا جا سکتا؟
انجیل مُقدس پر سب سے زیادہ عام اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ یہ حضرت عیسیٰ کے لئے بار بار “خدا کے بیٹے” کی اصطلاح استعمال کرتی ہے۔ جیسا کہ ہم مندرجہ ذیل سطور میں دیکھیں گے کہ انجیل مُقدس میں مذکور یہ اصطلاح ایک جسمانی تعلق (نعوذ باللہ) کی طرف نہ اشارہ کرتی ہے اور نہ کر سکتی ہے بلکہ یہ خالص طور پر ایک مجازی بیان ہے۔ اِس مضمون کے اختتام پر ہم دیکھیں گے کہ جب ہم عربی الفاظ کو درست سمجھ جائیں تو کیسے قرآنی تعلیم جو بظاہر حضرت عیسیٰ کے “خدا کے بیٹا” ہونے کا انکار کرتی ہے،حقیقت میں مُقدس انجیل کے ساتھ متفق ہے۔
مجازی علامتی زبان کو نہ سمجھنا
یہودی، مسیحی اور مسلمان سب نے کبھی کبھار اِس انداز میں خدا کے کلام کے کچھ الفاظ کو غلط طور پر سمجھا ہے۔ مثلاً ایک وقت ایسا تھا جب اسلام میں مشبہ اور زاہریہ کا یہ اعتقاد تھا کہ اللہ ایک جسم رکھتا ہے۔ اُنہوں نے محسوس کیا کہ اللہ جسمانی پہلوﺅں کا حامل ہے جیسے ہاتھ اور چہرہ۔ قرآن و حدیث میں سے ایسے حوالہ جات کی جو اللہ کو اپنے تخت پر بیٹھے یا محمد عربی کے کندھے پر اپنے ہاتھ کو رکھنے کو بیان کرتے ہیں لفظی تشریح کی گئی اور اُنہوں اِس اعتقاد کے ثبوت کے لئے پیش کیا گیا۔
تاہم، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ علمائے اسلام نے بتدریج محسوس کیا کہ ایسے حوالہ جات کو لفظی طور پر نہیں لینا چاہئے۔ دیگر واضح تر حوالہ جات کی گواہی سے یہ سمجھا گیا کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی جسم نہیں یا اُس کی کوئی جسمانی محدودیت نہیں ہے۔ تب یہ سمجھ آئی کہ ایسے حوالہ جات جیسے اوپر مذکور حوالہ ہے اِنہیں تشبیہاتی طور پر لینا چاہئے۔ اور ایک بار جب یہ بات سمجھ آ گئی کہ مخصوص حوالہ جات کو لازماً تشبیہاتی طور پر لینا ہے تو یہ واضح ہو گیا کہ کیسے دوسرے مشکل حوالہ جات کی تشریح و توضیح کرنی ہے۔ سو، حدیثوں کو جیسے ذیل میں تین مثالیں موجود ہیں، ایک لفظی تشریح کرتے ہوئے سمجھنا ناممکن تھا۔
نبی اسلام نے کہا:
حدیث 1 : کعبہ کا حجر اسود اللہ کا ہاتھ ہے۔
حدیث2 : ایک مسلمان کے دِل میں اللہ کی انگلیاں موجود ہیں۔
حدیث 3 : مجھے یمن سے اللہ کی خوشبو آتی ہے۔
(اسلامی درشن، ص 169)
لفظی تشریح کے ساتھ مندرجہ بالا حدیث کوسمجھنا مشکل ہے، تاہم اِسے ایک بالواسطہ ، تشبیہاتی تشریح کو مدنظر رکھتے ہوئے سمجھا جا سکتا ہے۔ ایسا کرنے سے دشواریاں ختم ہو جاتی ہیں اور حقیقی معنٰی فوراً سامنے آ جاتے ہیں۔
مندرجہ بالا نوعیت کی مذہبی غلط فہمیاں صرف قرآن اور حدیث تک محدود نہیں ہیں۔ تاریخ میں توریت، زبور اور انجیل کو بھی تشریح کے ایسے کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اور غلط تشریح کی وجہ سے کئی غلط فہمیاں سامنے آئی ہیں۔
“خدا کا بیٹا” کے تشبیہاتی / مجازی معنٰی
بلاشک و شبہ ایسی سب سے زیادہ مشہور اور سنجیدہ غلط فہمی انجیل مُقدس میں اکثر استعمال ہونے والے الفاظ “خدا کا بیٹا” سے متعلقہ ہے۔ کچھ مثالوں میں یہ اصطلاح تمام یہودی قوم کی طرف اشارہ کرتی ہے، جبکہ کچھ مثالوں میں یہ سب ایمانداروں کے لئے استعمال ہوئی ہے، اور کچھ جگہوں پر یہ عیسیٰ مسیح کے لئے مستعمل ہے۔ آئیے کچھ لمحے اِس اصطلاح کا جائزہ لیں اور یہ جاننے کی سعی کریں کہ یہ کیسے استعمال ہوئی ہے اور حقیقت میں اِس سے کیا مراد ہے۔
اِس اصطلاح پر اعتراض کرنے والے افراد نے اِسے اِس کے لفظی معنٰی میں سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ ایسا کرنے سے بہت سی سنجیدہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر اِسے لفظی طور پر لیا جائے تو مطلب یہ ہو گا کہ خدا کی ایک بیوی تھی جو جسمانی طور پر بچے جنتی ہے (نعوذ باللہ)۔ تاہم، ایسی کفرگوئی پر مبنی سوچ انجیل مُقدس کی واضح تعلیم سے تضاد رکھتی ہے۔ انجیل مُقدس میں یسوع مسیح نے سکھایا کہ خدا ایک ہے اور اُس کا کوئی شریک نہیں۔ اِسی طرح انجیل مُقدس میں واضح طور پر سکھایا گیا ہے کہ خدا کا کوئی جسمانی بدن نہیں ہے بلکہ وہ ایک رُوح ہے۔ خدا کا ایک بیٹے کو جسمانی طور پر جنم دینے کا تصور کفرہے اور ناممکن ہے۔ اِس لئے جنہوں نے اِس اصطلاح کو لفظی طور پرسمجھنے کی کوشش کی ہے اُنہیں ویسی ہے ناقابل عبور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے جو اُن لوگوں کو پیش آتی ہیں جو قرآن و حدیث سے مندرجہ بالا حوالہ جات کی لفظی طور پر تشریح کرتے ہیں۔
دراصل، انجیل مُقدس کے پیروکاروں کا عالمگیر ایمان یہ ہے کہ اصطلاح “خدا کا بیٹا” کی تشریح مجازی معنٰی میں کرنی چاہئے۔ نہ صرف ایسی مجازی تشبیہاتی تشریح لفظی سمجھ کے مسائل و مشکلات سے بچاتی ہے، بلکہ اِس کی تائید کئی دوسرے عوامل سے بھی ہوتی ہے۔ آئیے اِس اصطلاح کے تشبیہاتی و علامتی معنٰی کو قبول کرنے کے لئے کچھ عوامل کا جائزہ لیں۔
“خدا کا بیٹا” زبور میں
سب سے پہلے، داﺅد کے مزامیر جو یسوع کے زمانے سے سینکڑوں برس پہلے لکھے گئے آنے والے “مسیح” کا اعلان کرتے ہیں اور یسوع مسیح کو “خدا کا بیٹا” بتاتے ہیں جسے خدا قوموں پر اختیار بخشے گا۔ ہم جانتے ہیں کہ عبرانی زبان و ثقافت میں ایک بڑا بادشاہ اپنے نائب یا صوبائی نمائندے کو اپنا “بیٹا” کہہ کر مخاطب کرتا تھا۔ سو، جب یسوع نے اپنے آپ کو خدا کا بیٹا کہا تو جو صحائف مُقدسہ کی درست سمجھ رکھتے تھے اُنہوں نے اِس بات پر اعتراض نہ کیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ مسیح کو “خدا کا بیٹا” کہا جائے گا کیونکہ وہ پہلے ہی اِس کے درست تشبیہاتی معنٰی “نائب” سے واقف تھے۔
“خدا کا بیٹا” یسوع کے لئے استعمال ہونے والا واحد تشبیہاتی لقب نہیں ہے ، بلکہ قرآن اور انجیل دونوں یسوع کو خدا کا “کلمہ” کہتے ہیں۔ یہاں واضح طور پر اِس لقب کو لفظی معنٰی میں ایک آواز، حرف یا لفظ کے طور پر نہیں لیا جا سکتا۔ بلکہ اِس اصطلاح کو لازماً مجازی طور پر سمجھنا چاہئے۔ ایک لفظ لازمی طور پر رابطہ کا ذریعہ یا وسیلہ ہوتا ہے جو ایک فرد کے خیالات و خواہشات کو دوسرے سے پہنچاتا ہے۔ بالکل اِسی طرح یسوع خدا کا کلمہ تھے، نسل انسانی کے لئے خدا کے رابطہ کا ذریعہ۔ یسوع کے وسیلہ سے خدا اپنی سوچیں اور ارادے انسان پر ظاہر کرنے کے قابل تھا۔اب جبکہ یہ واضح ہے کہ یسوع کے ایک نام “خدا کا کلمہ” کو لازماً تشبیہاتی مجازی طور پر سمجھنا چاہئے، تو یہ سوچنا ہرگز غلط نہیں ہے کہ آپ کا ایک اَور نام “خدا کا بیٹا” بھی ویسے ہی لازماً مجازی طور پر سمجھا جانا چاہئے۔ ایسے خیال کی بھرپور تائید اَور جگہوں سے بھی ہوتی ہے۔
“باپ” اور “بیٹا” کے دیگر تشبیہاتی مجازی استعمال
یہ زباندانی کی ایک بنیادی حقیقت ہے کہ کسی کا “بیٹا” اور “باپ” کے الفاظ اکثر بالکل ویسے ہی مجازی معنٰی کے حامل ہوتے ہیں جیسے ہم نے بیان کیا ہے۔آئیں، سب سے پہلے ہم لفظ “باپ” کا جائزہ لیں اور اِس کے مختلف مجازی استعمال پر نگاہ ڈالیں۔ عموماً یہ کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص قوم کا “باپ” ہے۔ اب کوئی بھی شخص اتنا احمق نہیں ہو گا کہ یہ سوچے کہ ایسے فرد کو “باپ” اِس لئے کہا گیا ہے کہ اُ س نے حقیقت میں اُس سرزمین کے ہر ایک شہری کو حقیقت میں جنا ہے۔ نہیں ایسا نہیں ہے ، اِس کے حقیقی و منطقی معنٰی مجازی ہیں۔ قوم کی آزادی و ترقی میں اُس فرد کے ادا کئے گئے نمایاں کردار کی بنا پر اُسے عزت و احترام کا یہ بڑا لقب دیا جاتا ہے کہ قوم کا باپ۔ اِس کا سادہ طور پر اشارہ اُس قریبی تعلق کی طرف ہوتا ہے جو ایسا فرد اپنے ملک کے ساتھ رکھتا ہے۔
اصطلاح “باپ” کا ایسا مجازی استعمال صرف انسانوں تک محدود نہیں ہے۔ ہمیں اِس کا استعمال خدا کے لئے بھی ملتا ہے۔ آخرکار، خدا سب چیزوں کاخالق، پروردگار اور بحال کرنے والا ہے۔ قرآن کی پہلی سورہ، سورہ فاتحہ الفاظ “ٱلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ ٱلْعَلَمِينَ” سے شروع ہوتی ہے۔اِس سورہ کی تفسیر کرتے ہوئے محمد عبدالحکیم اور محمد علی حسین لکھتے ہیں: کچھ مفسروں کا ماننا ہے کہ لفظ “رب” عربی زبان کے لفظ “اب” سے ماخوذ ہے جو لفظ “باپ” کا مادہ ہے۔ سو، “رب” کے حقیقی معنٰی باپ کے ہیں۔ ایک بار پھر یہی حقیقت سامنے آتی ہے کہ کوئی بھی فرد اتنا احمق نہیں ہو گا کہ جیسے لفظ “رب” یہاں خدا کے لئے استعمال ہوا ہے اُسے لفظی و جسمانی طور پر باپ کے معنٰی میں سمجھے۔ جیسا کہ یہ خدا کی طرف اشارہ کرتا ہے تو اِس کے لازماً ایک مجازی روحانی معنٰی ہیں۔ خدا اپنی تمام مخلوق کا جسمانی باپ نہیں ہے۔ تاہم، اُس کی قوت و قدرت کے بغیر کچھ بھی خلق نہیں ہو سکتا تھا۔ اِس دنیا میں پیدا شدہ ہر مخلوق کے پیچھے وہی حقیقی تخلیقی قوت و قدرت ہے۔ وہ تمام دُنیا کا “رب” ، مجازی معنٰی میں باپ اور تخلیق کرنے والی قوت ہے۔
اگر ہم اِس حقیقت کو مزید شخصی سطح پر دیکھیں تو ہم لازمی نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ اِس دُنیا میں پیدا ہونے والا ہر بچہ برا ہ راست خدا کی تخلیقی سرگرمی کا نتیجہ ہے۔ اولاد سے محروم کئی جوڑے ایسے ہیں جو یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہو گئے کہ جب تک خدا اپنی تخلیقی قوت کے ساتھ ہمیں اِس قابل نہیں بناتا بچہ حاصل کرنے کی ہماری اپنی کوششیں بیکار ہیں۔ ہم فخریہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم ایک بچہ کے باپ یا خالق ہیں لیکن آخرکار ہمیں لازماً یہ اقرار کرنا ہے کہ ایسے القاب درست طور پر صرف خدا کو ہی دیئے جا سکتے ہیں۔ یہاں ہم لفظی یا جسمانی پدریت کی بات نہیں کر رہے بلکہ تخلیقی قوت اور قابلیت کی بات کر رہے ہیں۔ یوں جیسے اوپر مذکور قرآنی مفسروں کا نتیجہ ہے ویسے حقیقی طور پر خداتمام مخلوق بشمول انسانوں کا باپ ہے۔
آئیے، اب اصطلاح “بیٹا” کے مجازی و علامتی استعمال کا جائزہ لیں۔ ایسا ہی ایک استعمال قرآن میں سورہ البقرہ 2: 215 میں موجود ہے۔ اِس حوالہ میں ایک مسلسل سفر کرنے والے فرد کو “ابنِ السبیل” (راستہ کا بیٹا) کہا گیا ہے۔ ہم ایک بار پھر دیکھتے ہیں کہ ایک لفظی تشریح منطقی طور پر غلط ہو گی۔ ایک لفظی تشریح واضح طور پر ناممکن ہے۔ اِس کے حقیقی معنٰی مجازی ہیں۔ ایک فرد کا سڑک کے ساتھ اتنا قریبی تعلق ہے کہ اُسے اُس کا بیٹا کہا گیا ہے۔ ہم ایک بار پھر دیکھتے ہیں کہ “بیٹے” یا “باپ” کے مجازی استعمال میں قربت یا نزدیکی بنیادی بات ہے۔
انجیل مُقدس سے علامتی و مجازی معنٰی کا مزید ثبوت
مندرجہ بالا نتیجہ کی گواہی انجیل مُقدس بھی دیتی ہے۔ ایک حوالہ میں ہم پڑھتے ہیں کہ یسوع مسیح کچھ یہودی راہنماﺅں سے بات چیت کر رہے ہیں۔ وہ یہودی راہنما بڑے فخر سے یسوع کے سامنے یہ کہتے ہیں کہ وہ ابرہام کے فرزند ہیں۔ یسوع اُنہیں جھڑکتے ہیں کہ اگر وہ ابرہام کے فرزند ہوتے تو خدا کی مرضی پر ویسے ہی عمل پیرا ہوتے جیسے ابرہام نے اُس کی فرمانبرداری کی تھی۔بلکہ اِس کے برعکس وہ بدی کرنے کی کوشش میں تھے۔ اِس لئے یسوع نے یہ نتیجہ نکالا “تم اپنے باپ ابلیس سے ہو اور اپنے باپ کی خواہشوں کو پورا کرنا چاہتے ہو۔”
ایک جسمانی اور لفظی معنٰی میں وہ یہود ی یقیناً یہ کہنے میں درست تھے۔ وہ ابرہام کے جسمانی فرزند تھے۔تاہم، یسوع نے لفظی معنٰی سے ہٹ کر اِن الفاظ کے پیچھے چھپی گہری او ر بڑی اہمیت کو دیکھا۔ اُن یہودی لوگوں کے کاموں نے واضح طور پر دکھایا کہ روحانی طور پر وہ یہودی مرد ِ خدا ابرہام کے ساتھ قریبی تعلق اور وفاداری کے حامل نہ تھے بلکہ وہ شیطان اور اُس کی مغرورانہ باغی فطرت سے تعلق رکھتے تھے۔ اِس لئے اُنہیں “شیطان کے فرزند” کہہ کر مخاطب کرنا مکمل طور پر درست اور مناسب تھا۔
“باپ” اور “بیٹے” کی اصطلاحات کے اوپر مذکور عام مجازی و علامتی استعمال کا جائزہ لینے کے بعد ہم ایک ایسے درجہ پر ہیں جہاں ہم “خدا کا بیٹا” کے انجیلی استعمال کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں۔ جیسا کہ اوپر مثالوں میں ہے، بلاشبہ اِس کے ایک علامتی و روحانی معنٰی ہیں۔ یہ ایک فرد کے خدا کے ساتھ قریبی تعلق کو واضح کرنے کے لئے استعمال ہوئی ہے۔ جیسے شیطان کی راہنمائی میں چلنے والے فرد کو “شیطان کافرزند” کہا گیا ہے ویسے ہی جو خدا کے ساتھ ایک قریبی اور گہرا روحانی تعلق رکھتا ہے اور اُس کی راہنمائی میں چلتا ہے اُسے “خدا کا فرزند” یا “خدا کا بیٹا” کہا گیا ہے۔ اِس کی ایک مثال انجیل مُقدس میں موجود یہ حوالہ ہے: “کیونکہ اگر تم جسم کے مطابق زندگی گزارو گے تو ضرور مرو گے اور اگر رُوح سے بدن کے کاموں کو نیست و نابود کرو گے تو جیتے رہو گے۔ اِس لئے کہ جتنے خدا کے روح کی ہدایت سے چلتے ہیں وہی خدا کے بیٹے ہیں” (رومیوں 8: 13-14)۔
اِس لئے، اصطلاح “خدا کا بیٹا” کی انجیل مُقدس میں کوئی بھی جسمانی اہمیت نہیں ہے۔ یہودی قوم کو اُن کے ابتدائی ایام میں تب “خدا کا بیٹا” کہا گیا ہے جب یہ خدا کی فرمانبرداری میں زندگی بسر کر رہی تھی۔ تاہم اِس کے برعکس وہ یہودی جو بعد میں غرور و بغاوت میں خدا کی راہوں سے پھر گئے اُنہیں “ابلیس کے فرزند” کہہ کر مخاطب کیا گیا ہے۔ تاہم ، انجیل مُقدس کے مطابق ایک فرد چاہے وہ یہودی ہے یا غیر یہودی، اگر وہ اپنی اندرونی خود غرض خواہشات کو مصلوب کرتا ہے اور خدا کی پیروی کرتا ہے تو وہ “خدا کا بیٹا” ہے۔
یوں ہم بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں کہ کیوں یہ اصطلاح اکثر یسوع کے لئے استعمال ہوئی ہے، جو خدا کی فرمانبرداری اور اُس پر انحصار اور اُس کے ساتھ قریبی تعلق کے لحاظ سے ہمارے تجربہ سے کہیں بڑھ کر ہے۔ یہ بھی واضح ہے کہ یہ لقب اُن الزمات سے قطعی پاک ہے جو اِس کے خلاف پیش کئے جاتے ہیں۔ یقیناً اِس کا مطلب خدا کے ساتھ کسی بھی طرح کا جسمانی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی اِس سے مراد خدا کی کوئی جسمانی صفات ہیں۔ بلکہ اِس سے مراد سب چیزوں کے واحد خالق اور سنبھالنے والے کے ساتھ ایک گہرے روحانی تعلق میں زندگی بسر کرنا ہے۔
کیا قرآن “خدا کا بیٹا” کا انکار کرتا ہے؟
یہاں، بہت سے لوگ سوال کر سکتے ہیں کہ کیا “خدا کا بیٹا” کے خلاف قرآنی بیانات کی اِس اصطلاح کے انجیلی استعمال کے ساتھ کوئی وضاحت ہو سکتی ہے۔ آئیں، ہم قرآن میں اِن بیانات کا جائزہ لیں۔ لیکن سب سے پہلے ہمیں بیٹے کے لئے دو عربی الفاظ میں تمیز کرنا ہو گی: “ابن” اور “ولد”۔
“ابن” ایک وسیع اصطلاح ہے جو اکثر ایک علامتی، غیر طبعی معنٰی کی حامل ہو سکتی ہے جیسے “ابنِ السبیل” (راستہ کا بیٹا، سورہ بقرہ 2: 215)۔ جیسے بائبل مُقدس میں یسوع کے لئے “بیٹا” (ہُیاس) کا لفظ استعمال ہوا ہے اُس کا درست عربی ترجمہ “ابن” ہے جو عبرانی کے لفظ “بن” سے تعلق رکھتا ہے۔
“ولد” کی اصطلاح ایک ایسے بیٹے کی طرف اشارہ کرتی ہے جو جنسی تعلق کے نتیجہ میں پیدا ہوا۔ خدا کے ساتھ یسوع کے تعلق کو بیان کرنے کے لئے یہ اصطلاح انتہائی نامناسب ہے۔
اب آئیے اُن قرآنی آیات کو دیکھیں جو اِس موضوع سے متعلق ہیں:
“اور یہ لوگ یوں کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے (فرشتوں کو ) اولاد (ولد)بنا رکھی ہے، وہ (اللہ) اِس سے پاک ہے، بلکہ (وہ فرشتے اُس کے ) بندے ہیں۔” (سورہ الانبیا 21: 26)
“اگر اللہ کسی کو اپنا بیٹا(ولد) بنانا چاہتا تو اپنی مخلوق میں سے جس کو چاہتا منتخب کر لیتا۔ وہ پاک ہے وہی ہے اللہ جو اکیلا ہے بڑا زبردست ہے۔ ” (سورہ الزمر 39: 4)
“اور یہ کہ ہمارے پروردگار کی شان بہت بلند ہے وہ نہ بیوی رکھتا ہے نہ اولاد (ولد)۔ ” (سورہ الجن 72: 3)
“وہی آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے، اُس کے اولاد (ولد)کہاں سے ہو جبکہ اُس کی بیوی ہی نہیں اور اُس نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے اور وہ ہر چیز سے باخبر ہے۔” (سورہ الانعام 6: 101 ; 2: 116 ; 10: 68 ; 17: 11 ; 18: 4 ; 19: 35، 88، 91-92 ; 23: 91 ; 25: 2)
مندرجہ بالا آیات سے واضح ہو جاتا ہے کہ قرآن “بیٹے” کے اُس تصور سے فرق بات کر رہا ہے جسے انجیل مُقدس بیان کرتی ہے۔ قرآ ن “بیٹے” کو لفظی، جسمانی فرزند کے طور پر بیان کرتا ہے جو ایک بیوی سے جسمانی تعلق سے پیدا ہو۔ قرآن لازماً عرب میں رہنے والے اُن بھٹکے ہوئے نام نہاد مسیحیوں کو ملامت کر رہا تھا جوغلط فہمی کا شکار تھے اور کہتے تھے کہ عیسیٰ خدا کا “ولد” تھے جو خدا کے مریم کے ساتھ جسمانی تعلق کی وجہ سے پیدا ہوئے (نعوذ باللہ)۔ ایسے بدعتی خیال کو نقایہ کی کونسل میں یسوع پر ایمان رکھنے والوں سے بڑی سختی سے رد کیا۔ یسوع پر حقیقی ایمان رکھنے والے سب افراد قرآن کے ساتھ متفق ہیں کہ “وہ نہ بیوی رکھتا ہے اور نہ ولد” اور یہ کہ ایسا تصور گمراہ کن تصور ہے۔
بیان کی گئی حقیقت کہ قرآن انجیلی سچائی کی تصدیق کرتا ہے اور انجیل مُقدس بار بار “خدا کا بیٹا” کے علامتی و تشبیہی تصور کو استعمال کرتی ہے،واحد بیان کردہ ایسی یکساں وضاحت ہے جو قرآن و انجیل دونوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اخذ کی گئی ہے۔
…
عیسیٰ مسیح کی ایک انجیل یا آپ کے شاگردوں کی چار انجیلیں؟
“قرآن صرف ایک انجیل کا ذِکر کرتا ہے جو عیسیٰ کو دی گئی، لیکن آج کی انجیل آپ کے شاگردوں نے لکھی۔”
اگرچہ بہت سے لوگ اِس تصوراتی خیال کو مانتے ہیں تاہم نہ ہی نبی اسلام اور نہ ہی جناب عیسیٰ نے کوئی کتاب تحریر کی۔ اُن کی کتابیں سب سے پہلے اُن کی وفات کے بعد لکھی گئیں۔
مگر دوسری کتابوں کے مقابلہ میں انجیل ایک فرق طرح سے دی گئی۔ اگر زیادہ تر نبیوں کو دیکھا جائے جیسے یسعیاہ ا ور یرمیاہ، تو خدا تعالیٰ نے اُنہیں ایک خاص پیغام عنایت کیا جسے “خدا کا کلام” کہا جاتا ہے ، سو نبی کی کتاب وہ خاص “کلام خدا” تھی۔ تاہم، انجیل اور قرآن دونوں میں یسوع کو لاثانی طور پر “کلمتہ اللہ” کہا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ بذات خود بنیادی کلام ہے۔دوسرے نبی تو ایک تحریری “کلام خدا” لانے کے لئے آئے مگر عیسیٰ مسیح کے معاملہ میں یہ بات بالکل اُلٹ تھی۔ وہ بذات خود خدا کا زندہ کلام تھے،سو تحریری صورت میں موجود انجیل بنیادی مطمع نظر نہیں تھی بلکہ عیسیٰ مسیح مرکز نگاہ ہیں۔ انجیل مقدس تو سادہ طور پر الہامی گواہی پر مشتمل بیان ہے جس میں زندہ کلام خدا کی زندگی اور تعلیمات مرقوم ہیں۔ عیسیٰ مسیح نے اپنے شاگردوں کو یہ کام تفویض کیا کہ وہ دُنیا کے سامنے آپ کی تمام تعلیمات کی گواہی دیں (متی 28: 18-20)۔آپ نے اُن سے یہ بھی وعدہ کیا کہ روح القد س اُنہیں اِن سب باتوں کی یاد دِلائے گا (یوحنا 14: 26)۔خدا کے زندہ کلام کی بابت اِس مقدس پیغام کو محفوظ کرنے کے لئے آپ کے شاگردوں اور اُن کے ساتھیوں نے الہامی تحریک سے عیسیٰ مسیح کے حالات زندگی اور تعلیمات کو انجیل مقدس میں تحریر کیا۔
قرآن میں مذکور انجیل کی بابت کیا کہا جائے؟ قرآنی علما اِس بات پرمتفق ہیں کہ عربی لفظ “انجیل” درحقیقت ایک عربی لفظ نہیں ہے بلکہ یونانی لفظ “εὐαγγέλ” (evangel) کا ترجمہ ہے جیسے کہ انگریزی زبان کا لفظ “gospel” ہے۔ سو، لفظ انجیل کے معنٰی کو جاننے کے لئے ہمیں سب سے پہلے یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اِس لفظ کا اُن لوگوں کے نزدیک کیا مفہوم تھا جنہیں نے اِسے استعمال کیا۔انجیل ایک ایسی اصطلاح ہے جسے عربی، فارسی، اُردو اور ترکی بولنے والے مسیحی اپنے صحائف کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ لفظ “evangel” کے تین متوازی معانی ہیں جنہیں ابتدائی مسیحیوں اور قرآن دونوں نے استعمال کیا ہے:
- عیسیٰ مسیح کا پیغام: لفظی معنٰی کے لحاظ سے “انجیل” کا مطلب “خوشخبری” کا پیغام ہے۔ عیسیٰ مسیح کے تعلق سے اِ س کا مطلب مسیح کی نجات اور خدا کی بادشاہی کے بارے میں تعلیم ہے۔
- عیسیٰ مسیح کی زندگی کا بیان: “evangel” کا مطلب عیسیٰ مسیح کی زندگی کا ایک بیان بھی ہے جیسے متی ، مرقس، لوقا اور یوحنا کی معرفت لکھے گئے انجیلی بیان، جنہیں شروع میں سادہ طور پر اکھٹے “the evangel” کہا جانے لگا۔
- مسیحی صحائف : تیسرا معنٰی یہ ہے کہ عمومی طور پر اِس سے مراد 27 کتابوں پرمشتمل مسیحی صحائف ہیں جنہیں نیا عہدنامہ بھی کہا جاتا ہے۔
جیسے” کُھلنا” ایک شہر، ضلع اور ڈویژن کا نام ہے، ویسے ہی “انجیل” سے ایک ہی وقت میں مراد (1) یسوع کا بنیادی پیغام، (2) اُس پیغام کا بیان یا (3) اُس پیغام سے متعلق صحائف ہیں۔ جب قرآن کہتا ہے کہ عیسیٰ مسیح کو انجیل دی گئی تو یہ بات بالکل درست ہے، کیونکہ آپ کا کام انسانیت کو نجات اور خدا کی بادشاہی کی خوشخبری کا پیغام دینا تھا۔انجیلی پیغام کے اِس عمومی مفہوم میں عیسیٰ مسیح کو انجیل ویسے ہی عطا ہوئی جیسے آپ کو حکمت عطا ہوئی (مائدہ 3: 48)۔ جب قرآن کہتا ہے کہ انجیل ایک کتاب ہے تو یہ”evangel” (انجیل) کے ابتدائی معنٰی کے عین مطابق ہے۔ تاریخی ریکارڈ سے یہ واضح ہے کہ ابتدائی مسلمان انجیل سے مراد موجودمسیحی صحائف لیتے تھے، اور تاریخ کثرت سے ثابت کرتی ہے کہ یہ صحائف کس قدر قابل بھروسا ہیں۔
دوسری صدی عیسوی کے آغاز سے اصطلاح “evangel” کو مسیحیوں نے متی، مرقس، لوقا اور یوحنا کے چاروں انجیلی بیانات کے لئے استعمال کرنا شروع کیا۔ عالم ایف۔ ایف۔ بروس اِس کی وضاحت یوں کرتا ہے:
انتہائی شروع کے وقت سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ چاروں انجیلیں ایک مجموعہ میں اکھٹی موجود تھیں۔ یوحنا کی معرفت لکھی گئی انجیل کے فوراً بعد اُنہیں ایک جگہ اکھٹا کیا گیا۔ اِن چار کتابوں کے مجموعہ کو اصل میں “انجیل” کہا جاتا تھا نہ کہ “انجیلیں”۔اصل میں ایک ہی انجیل تھی جس کو چاروں بیانات میں بیان کیا گیا تھا جس کا اظہار اِن الفاظ سے ہوتا ہے: “متی کی معرفت” ، “مرقس کی معرفت”، “لوقا کی معرفت” اور “یوحنا کی معرفت”۔ تقریباً 115ءمیں انطاکیہ کا بشپ اگنیشئس “انجیل” کو مستند و معتبر تحریر کہتاہے ، اور وہ چاروں انجیلوں سے واقف تھاتو یہ کہا جا سکتا ہے کہ “انجیل” سے صاف کھلے لفظوں میں اُس کی مراد چاروں کتابوں کا ایک مجموعہ تھا جسے اُس وقت اِس نام سے پکارا جاتا تھا۔
سو، نبی اسلام کے زمانے میں رہنے والے ایک فرد کے لئے “انجیل” کا مطلب چاروں انجیلی بیانات (متی، مرقس، لوقا اور یوحنا) یا عمومی طور پر مسیحی صحائف تھے۔ پطرس رسول لکھتے ہیں:
“کیونکہ جب ہم نے تمہیں اپنے خداوند یسوع مسیح کی قدرت اور آمد سے واقف کیا تھا تو دغا بازی کی گھڑی ہوئی کہانیوں کی پیروی نہیں کی تھی بلکہ خود اُس کی عظمت کو دیکھا تھا۔… اور پہلے یہ جان لو کہ کتاب مقدس کی کسی نبوت کی بات کی تاویل کسی کے ذاتی اختیار پر موقوف نہیں۔ کیونکہ نبوت کی کوئی بات آدمی کی خواہش سے کبھی نہیں ہوئی بلکہ آدمی روح القدس کی تحریک کے سبب سے خدا کی طرف سے بولتے تھے۔” (2-پطرس 1: 16 ، 20-21)
نئے عہدنامہ میں یہ بھی لکھا ہے:
“ہر ایک صحیفہ جو خدا کے الہام سے ہے تعلیم اور الزام اور اصلاح اور راستبازی میں تربیت کرنے کے لئے فائدہ مند بھی ہے۔ تا کہ مردِ خدا کامل بنے اور ہر ایک نیک کام کے لئے بالکل تیار ہو جائے۔” (2-تیمتھیس 3: 16-17)
“پس جو نہیں مانتا وہ آدمی کو نہیں بلکہ خدا کو نہیں مانتا جو تم کو اپنا پاک رُوح دیتا ہے۔” (1-تھسلنیکیوں4: 8)
1.
…
جعلی اناجیل
”ایسی بہت سے ابتدائی اناجیل اور خطوط تھے جو نئے عہد نامے میں شامل نہیں کئے گئے کیونکہ وہ حضرت عیسیٰ المسیح کے متعلق ایک مختلف کہانی بیان کرتے تھے جیسے کہ تھامس کی انجیل،ایبیونائٹ کی انجیل،عبرانیوں کی انجیل اورمصریوں کی کاپٹک انجیل۔
چند ایسی اناجیل بھی ہیں جو متی،مرقس،لوقا او ریوحنا کے بعد مرتب ہوئیں مگر ابتدائی مسیحی جماعت نے اُنہیں رد کر دیا۔ابتدائی کلیسیا نے یہ
جعلی اناجیل رد کردیں،بالکل اُنہی وجوہات کی بنِا پر جن پر آج کوئی بھی مسلمان کرے گا:
یہ اناجیل تقریباً اُس مذہبی تحریک نے لکھی تھیں جنہیں غناسطیت کہا جاتا تھااور جس کی مخالفت ابتدائی رسولوں نے بھی کی تھی۔غناسطیت
مسیحیت سے پہلے بھی موجود تھی اور بے شک یہ ایک الگ تحریک تھی اگر چہ اُنہوں نے حضرت عیسیٰ کو غناسطیت کے ایک اُستاد کے طور پر
دوبارہ اختراع دینے کی کوشش کی۔بنیادی طور پر غناسطیت کی یہ تعلیم ہے کہ خدا نے دنیا کو خلق نہیں کیا مگر ایک نامکمل بدی نے دنیا کو خلق کیا ہے۔وہ ثنویت تعلیم رکھتے تھے،مطلب ہے کہ وہ یہ یقین رکھتے تھے کہ ساری طبعی دنیا بدی ہے۔وہ یہ تعلیم دیتے تھے کہ حضرت عیسیٰ کا کوئی جسمانی رُوپ نہیں تھا جس کی وجہ سے اُن میں سے چند نے یہ فیصلہ کیا کہ پھر حضرت عیسیٰ کی طبعی موت بھی نہیں ہو سکتی تھی۔وہ عبادت گزار تھے اور اکثر سبزیاں کھایا کرتے تھے اورکچھ جنسی طریقے سے عبادت کیا کرتے تھے۔پولُس رسول کے اعمال،تھامس کی انجیل اور مصریوں کی انجیل جیسے کتابوں کی یہ تعلیم تھی کہ شادی کے باوجود جنسی تعلقات ایک غلط بات تھی۔وہ اِس بات پر ایمان رکھتے تھے کہ نجات ایمان یا راست بازی سے حاصل نہیں ہو سکتی بلکہ ایک خاص خفیہ علم کے ذریعے حاصل ہو سکتی تھی جیسے کہ آج کل چند ہندو گروہوں میں بھی یہی تعلیم پائی جاتی ہے۔رسولوں کے خلاف اپنے خیالات کی حمایت کے لئے،وہ حضرت عیسیٰ کی بہت سے واقعات کو دوبارہ گھڑ لیتے تھے۔مثلا ً یہوداہ کی انجیل یہ تعلیم دیتی ہے کہ حضرت عیسیٰ نے یہوداہ سے کہا کہ وہ اُسے دھوکا دے کر صلیب دلوائے جس سے اُس کی روح اِس انسانی جسم کی قید سے رہائی پا سکتی تھی۔یہ خیالات تھامس کی انجیل،مریم کی انجیل،یہوداہ کی انجیل اورمصریوں کی کاپٹک انجیل میں بھی سرایت کر گئے ہیں۔
ماسوائے عبرانیوں کی انجیل کے کیونکہ اُس میں غناسطی تعلیم موجود نہ تھی۔علما یقین رکھتے ہیں کہ یہ متی کی انجیل کی بعد کی تزئین و آرائش ہے
جو بڑے محتاط انداز میں وضاحتیں دیتی ہے جیسے کہ دعائے ربانی میں ”روز کی روٹی“ کی جگہ ”کل کی روٹی“ کو بدل دینا۔تزئین و آرائش عموماً
اِس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ متن اصلی نہیں ہے کیونکہ یہ ویسا نہیں ہے جیسے کہ بعد کا ترجمہ متن کو زیادہ غیر واضح بنا دے گا۔چوتھی صدی کا
کتاب مقدس کے عالم جیروم نے اِس متن میں بہت دلچسپی لی جسے وہ محض متی کی انجیل کا عبرانی ترجمہ سمجھتا تھا۔وہ لکھتا ہے:
”وہ انجیل جو ناضرین اور ا یبیونائٹس استعمال کرتے ہیں جسے ہم نے حال ہی میں عبرانی سے یونانی میں ترجمہ کیا ہے اور جسے زیادہ تر لوگ
مُستند متی کی انجیل سمجھتے ہیں …“
جیروم کے مطابق اِس میں متی کی انجیل سے متن میں صرف چند معمولی اختلافات تھے۔اِس متن میں سے چند اختلافات میں سے ایک بدعتی ہے،کیونکہ یہ روح القدس کو حضر ت عیسیٰ کی ماں سمجھتا ہے(خدا معاف کرے!)۔جیروم…
قسطنطین اور 325 کی دینی کتب کی مُسلّمہ فہرست
”نئے عہد نامے کی کتب کا تب تک فیصلہ نہیں ہو ا تھا جب تک رومی شہنشاہ قسطنطین نے اپنی تثلیث کی تعلیم کو بچانے کے لئے 325 میں
کتاب مقدس کی مُسلّمہ فہرست مرتب نہ کر لی۔“
325 کی نقایہ کی کونسل یہ فیصلہ کرنے کے لئے منعقد نہیں ہوئی تھی کہ کون سی کتابیں الہامی ہیں بلکہ کچھ ایسی باتوں کی تصدیق کرنے کے لئے تھی جو ہر جگہ مسیحیوں نے طویل عرصہ سے پہلے ہی قبول کر لی تھیں۔نقایہ کی کونسل صرف ایشیا،افریقہ اور یورپ کے مسیحیوں کے لئے پہلا موقع تھا کہ وہ اکٹھے ہوں اور ہم آہنگی سے یہ کہیں،”یہ وہ الہامی کتب ہیں جنہیں ہم نے 150 سالوں سے قبول کیا ہوا ہے۔“پروپیگنڈہ کرنے والوں نے جیسے کہ جمال بیضا وی نے سینکڑوں اناجیل کے چناؤ کے بارے میں احمقانہ کہانیاں گھڑ لیں،ایسی کہانیاں جن کا کوئی ثبوت نہیں تھا اور جن کا بالکل کوئی حوالہ نہیں تھا۔کانفرنس میں موجود تمام بشپ صاحبان نے صرف چار اناجیل (متی،مرقس،لوقا اور یوحنا)کو ہی قبول کیا اور اُ س کے کافی عرصہ پہلے مُسلّمہ فہرست مرتب ہوئی تھی۔نئے عہد نامے سے پورے 125 سال پہلے ایک مسودہ جسے
”میوریتو رین کینن“(Muratorian Canon)کہا جاتا ہے اُس میں الہامی کتب کی مسلمہ فہرست ایک ثبوت کے طور پر موجود ہے۔
اِس کے علاوہ 180 عیسوی میں بھی ارینیس نے چاروں اناجیل (متی،مرقس،لوقا اور یوحنا)کے بارے میں لکھا ہے:
یہ ممکن نہیں ہے کہ اناجیل تعداد میں جتنی ہیں اُس سے کم یا زیادہ ہو سکتی ہیں۔چونکہ جس دنیا میں ہم رہتے ہیں اُس کے چار حصے ہیں اور چار
اہم ہوائیں ہیں،اورجب کہ کلیسیا پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے،اورکلیسیا کے ”ستون او رزمین“ انجیل اور زندگی کا روح ہیں،یہ مناسب بات ہے کہ زمین کے چار ستون ہونے چاہیئں،بداخلاقی ہر سمت سے باہر نکل جائے اور انسانوں میں نئی جان ڈال دے … کیونکہ زندہ جاندار چار رُخوں والے ہیں اور انجیل چار رُخوں والی ہے کیونکہ یہ انداز خداوند نے بھی اپنایا تھا۔
ارینیس کو پولی کارپ نے تربیت دی تھی جسے خود یوحنا نے تربیت دی تھی اِ س طرح ارینیس حضرت عیسیٰ کے پیارے شاگرد او ریوحنا کی انجیل کے مصنف کا ”روحانی بیٹا“ تھا۔
درحقیقت مسلمہ فہرست کی تصدیق کرنا کونسل کا ایک معمولی سا کام تھا جب اُن کو زیادہ فکرآریوسی کا مباحثہ تھا جوآریوس کے اِس غیر معمولی خیال کے گرد گھومتا تھا کہ حضرت عیسیٰ کون تھے۔بنیادی طور پر جھگڑا اِس بات پر تھا کہ ”خدا کا بیٹا“ کی تشریح استعاراتی طور پر کی جائے یا لفظی (جیسے کہ آریوس نے کیا)۔آریوس نے اپنی دلیل کی بنیاد یہ کہتے ہوئے مقدس یوحنا رسول کی انجیل 16:3 پر رکھی کہ چونکہ یہ آیت حضرت عیسیٰ کو ”خدا کا اکلوتابیٹا“ کہتی ہے اِس لئے وہ حقیقت میں کہیں تخلیق سے پہلے خدا باپ سے ایک بچے کی طرح ”پیدا ہوا“(نعوذ باللہ)۔آریوس نے سب سے پہلے یہ مباحثہ تب شروع کیا جب اُس نے مندرجہ ذیل نتیجہ اَخذ کیا جسے قسطنطینہ کے مؤرخ سقراط نے درج کیا:
”اگر ایک باپ اپنے بیٹے کو جنتا ہے تو اِس کا مطلب ہے کہ اُس متولّد کی موجودگی کا کوئی آغاز بھی تھا۔“
یا پھر آریوس اپنی نظم تھیلیا میں حضرت عیسیٰ کے متعلق بیان کرتا ہے:
اُس (خدا)نے اُسے (حضرت عیسیٰ)اپنے لئے بیٹے کے طور پر جنم دے کر پیدا کیا۔
یہ کافرانہ خیال 99 فیصد بشپ صاحبان نے رد کر دیا۔چونکہ یہ تعلیم واضح طور پر صحائف کی تعلیم کے برعکس تھی اورنفرت انگیز ہے۔باپ بیٹے کے رشتے کو لفظی معنوں میں نہیں لینا چاہئے۔یہ فرماں برداری اور حضرت عیسیٰ کے خدا کے ماتحت ہونے کا ایک مجازی اِستعارہ ہے۔
یوحنا 16:3 میں موجود ”اکلوتے“(مونو گینی) کی اصطلاح کا مطلب واحد (انوکھا،منفرد)بھی ہو سکتا ہے کیونکہ حضرت عیسیٰ کا بطور ”خدا کا کلام“دوسروں لوگوں سے ہٹ کر خدا کے ساتھ ایک مختلف خاص رشتہ ہے۔
اِس بحث میں آریوس اور اُس کے مخالفین دونوں نے ایک جیسے صحائف کو ایک جیسے بنیادی پیغام کو قبول کیا کہ یسوع زمانے سے پہلے وجود رکھتا ہے،جسے اللہ تعالیٰ نے انسان او رخدا کے درمیان ایک منفرد درمیانی بنا کر بھیجا تاکہ صلیب پر اپنی موت کے وسیلے سے لوگوں کو اُن گناہوں سے بچائے۔
بالآخر آریوس نے اپنے مخالفین کے اعتراضات کے جواب میں یسوع مسیح کے بارے میں اپنے خیالات تبدیل کر لئے۔
مسلمان مبلغین قسطنطین کو ایک جابر راہنما کے طور پر پیش کرنا پسند کرتے ہیں جس نے بشپ صاحبان کو آریوس کے بارے میں اپنی مرضی تبدیل کرنے پر دباؤ ڈالا۔دراصل جب آریوس نے اپنے مخالفین کو مطمئن کرنے کے لئے اپنے خیالات پر نظر ثانی کی
تو قسطنطین نے بشپ اتھنیسیسAthanasiusکو آریوس کو کلیسیا میں دوبارہ شامل کرنے کی ہدایت کی۔اتھنیسیس نے انکار کر دیا
او راِس لئے قسطنطین نے اُسے Trierجلاوطن کر دیا۔پھر قسطنطین نے بشپ الیگزنڈر کو ہدایت کی کہ وہ آریوس کو اُس کے اعتراضات کے باوجود کلیسیا میں دوبارہ شامل کرے لیکن اِس سے پہلے کہ آریوس کلیسیا میں شامل کیا جاتا اُس کی اچانک موت واقع ہو گئی۔اِس تمام کارروائی سے پتا چلتا ہے کہ قسطنطین بشپ صاحبان کی نسبت آریوس کے حق میں زیادہ تھا۔
…
مسیحی علما اور کتاب مقدس کا معتبر ہونا
”حتیٰ کہ مسیحی علما بھی کہتے ہیں کہ کتاب مقدس معتبر نہیں ہے“
توریت شریف اور انجیل شریف کے بارے میں اپنے کم تر نظریے کا دفاع کرنے کے لئے حضرت عیسیٰ کی ”Abysmal failure theory“یورپین سکالرز آف ہائر کرٹیسزم کا حوالہ دینا پسند کرتی ہے۔پچھلی صدی کے اِن مادہ پرست مکتبہ فکر نے یہ رائے قائم کی کہ
کتاب مقدس غلط او ردیومالائی ہے کیونکہ یہ معجزات کی کہانیوں پر مشتمل ہے۔حتیٰ کہ اِن علما میں سے بہت سے مسیحی ہونے کا لیبل لگائے ہوئے تھے مگر پھر بھی اُن کا دنیا کے بارے میں نظریہ مادہ پرستی کی بنیادی روشن خیالی تھا۔
وہ یہ قیاس کرتے تھے کہ کائنات ایک بند
مشین ہے اِس لئے معجزات ناممکن تھے،نبوتی پیشین گوئیاں ناممکن تھیں اور اِس لئے کتاب مقدس کو خیالی کتاب ہونا چاہئے۔اِس قسم کے علما میں سے ایک نے اپنے تعصب کو کھلم کھلا تسلیم کیا:
ایک تاریخی حقیقت جس میں مُردوں میں سے جی اُٹھنا شامل ہے،یہ بالکل ناقابل ِ یقین ہے۔
تمام سچے مسلمان او رمسیحی اِس مقدمے سے اتفاق نہیں کرتے کیونکہ ہم یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مُردوں میں سے زندہ کرنے اور کنواری سے جنم دلانے کے معجزات کئے ہیں۔ اِس نے لچک بنیادی قیاس کی بنیاد پر اُنہوں نے کتاب مقدس کے دَور کا دوبارہ تعین کیا اورمسوداتی مفروضے اور بیئت پر تنقید کے ساتھ اِس کی تاریخ کی دوبارہ تشریح کی۔اُن کے بہت سے نتائج نے تعلیمی حلقوں میں مقبولیت کھو دی۔اِس لئے یہ ایک المیہ ہے کہ نائیک او ردیدات کتاب مقدس پر اُن کی تاریخوں اور نظر ثانی کی گئی تاریخ کا استعمال کر سکتے ہیں (جو مکمل طور پر معجزات اور نبوتوں کی ممانعت پر مبنی ہیں)اور وہ اُسی تشریحی طریقہ کار کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں جو قرآن پر لاگو ہوتا ہے۔
چلئے!…
قرآن مجید او رکتاب مقدس کی تاریخ مقرر کرنا
”مسیحی صحائف حضرت عیسیٰ کے ایک صدی بعد مرتب ہوئے،جب قرآن کے حوالے سے ایسا نہیں ہے وہ حضر ت محمدؐ کی زندگی میں لکھا گیا۔“
دراصل قرآن مجید اور کتاب مقدس کی ترسیل کسی حد تک ملتی جلتی تاریخ ہے جیسا کہ ہم دیکھیں گے۔جیسے کہ بہت سے لوگ اِس بات پر یقین رکھتے ہیں،اِن میں سے کوئی بھی کتاب کی شکل میں براہ ِراست آسمان سے نازل نہیں کی گئی،بلکہ دونوں صحائف کی زبانی مرحلے سے لے کر آج تک کے اصلی نسخوں کے مرحلے تک مرحلہ وار ترقی کرنے کی تاریخ موجود ہے جو جزوی نسخوں کے ثبوت سے لے کر موجود مکمل تحریری مجموعوں پر مشتمل ہے جو دیئے جانے کے سو سال بعد سے تعلق رکھتے ہیں۔
1.
…
انجیل شریف اور قرآن کے نسخوں میں اختلافات
”کتاب مقدس کے ابتدائی نسخوں میں اختلافات ہیں،جبکہ قرآن کے تمام ابتدائی نسخے مماثل ہیں۔“
یہ ایک آسان نظریہ ہے لیکن یہ سب خیالی ہے اورجیسے کہ ہم درج ذیل باتوں میں دیکھیں گے یہ تاریخی اور متنی اندراج کے ساتھ مناسبت نہیں رکھتا۔
توریت شریف،زبور شریف،انجیل شریف
اور قرآن میں نقل نویسی کی معمولی اغلاط اور اختلافات
ہم سب اِس بات سے متفق ہیں کہ خدا کا کلام تبدیل نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ کتاب مقدس او رقرآن دونوں کی واضح گواہی ہے۔لیکن جب ہم کسی نسخے میں اختلاف دیکھتے ہیں تو کیا یہ بات اُس صحیفہ کو ردّ کرتی ہے؟یقینا نہیں،کیونکہ قرآن اور کتاب مقدس دونوں میں ایسی سینکڑوں نقل نویسی کی اغلاط موجود ہیں۔ پچھلے ہی ماہ میں اپنے اسلامی فاؤنڈیشن بنگالی قرآن میں یہ پڑھ کر حیران رہ تھا کہ ”ایمان دار او رراست باز اپنے لئے ”جہنم“ کمائیں گے“(”دوزخ“جو جنت،آسمان کی جگہ چھپ گیا)!…
کسی اَور کا بوجھ اُٹھانا؟
”حضرت عیسیٰ ہمارے گناہوں کا بوجھ نہیں اُٹھا سکتے،کیونکہ قرآن فرماتا ہے:’کوئی شخص دوسرے کے گناہ کا بوجھ نہیں اُٹھائے گا،
(38:53)“
ْْْقرآن کو اکثر اُن لوگوں نے جو اِس کے معنی سے واقف نہیں ہیں حضرت عیسیٰ مسیح کے عوضی کفارے کا اِنکار کرنے کیلئے غلط اِستعمال کیا ہے،
”جو باتیں موسیٰ کے صحیفوں میں ہیں اُن کی اس کو خبر نہیں پہنچی اور ابراہیم کی جنہوں نے (حق طاعت و رسالت)پورا کیا،’کوئی شخص دوسرے (کے گناہ)کا بوجھ نہیں اُٹھائے گا‘(36:53)“
جو کوئی بُرا کام کرتا ہے تو اُس کا ضرر اُسی کو ہوتا ہے اور کوئی شخص کسی دوسرے کا گناہ کا بوجھ نہیں اُٹھائے گا،(قرآن 164:6)
جیسے کہ قرآن یہ فرماتا ہے تو یہ توریت شریف (عبرانی صحائف)سے ہی اقتباس کرتا ہے:
”بیٹا باپ کے گناہ کا بوجھ نہ اُٹھائے گا اور نہ باپ بیٹے کے گناہ کا بوجھ۔صادق کی صداقت اُسی کے لئے ہو گی اور شریر کی شرارت شریر کے لئے۔“(حزقی ایل،20:18)
جب ہم اِس آیت کے سیاق و سباق کا جائزہ لیتے ہیں تو اِس بیان کا مقصد واضح ہو تا ہیں – یہ براہ ِ راست فرزندانہ ذمہ داری سے منع کرتا ہے،جو کہ ایک قدیم قانونی نظریہ ہے کہ ایک شخص کواپنے باپ یا بیٹے کے گناہ کی خاطر سزا دی جا سکتی ہے۔وسیع النظری میں یہ کسی شخص کو زبردستی کسی اَور شخص کے گناہ کے نتائج بھگتنے سے بھی منع کرتا ہے (حضرت عیسیٰ مسیح کے رضاکارانہ عوضی ہونے کے برعکس)۔
واقعی،ہم اِسے ایک عالمگیر اور حتمی اُصول کے طور پر نہیں لے سکتے:
1۔ قرآن خود اِس خاص اُصول کے عالمگیرانہ اطلاق سے تضاد رکھتا ہے۔ایسے شریر لوگوں کی بات کرتے ہوئے جو ناواقف لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں،قرآن فرماتا ہے:
”یہ قیامت کے دن اپنے (اعمال کے)پورے بوجھ بھی اُٹھائیں گے اور جن کو یہ بے تحقیق گمراہ کرتے ہیں اُن کے بوجھ بھی (اُٹھائیں گے) سن رکھو کہ جو بوجھ یہ اُٹھا رہے ہیں بُرے ہیں۔“(25:16)
اگر ہم (جھوٹ موٹ)اُصول کوعام اُصول کی بجائے حتمی قرار دیں تویہ براہ ِ راست 13:17-15 اور 38:53-42 سے تضاد رکھتا ہے
اِسی طرح تنویر المقباس من تفسیرابن عباس میں سورۃ 24:8-25 کی تفسیر میں لکھاہے:
(اور اس فتنہ سے ڈرو)کسی بھی فتنہ سے جو واقع ہو سکتا ہے (جو خصوصیت کے ساتھ اُنہی لوگوں پر واقع نہ ہو گا جو تم میں گناہ گار ہیں)بلکہ اِس کی بجائے وہ گناہ گاروں او رجس کے ساتھ بے اِنصافی ہوئی دونوں پر واقع ہو گا (او رجان رکھو کہ خدا سخت عذاب دینے والا ہے)جب وہ سزا دیتا ہے۔
اگر ہم اِس اُصول کی پیروی کرتے ہیں کہ قرآن کے مختلف حصے ایک دوسرے کی وضاحت کرتے ہیں،تو ہمیں اِس نتیجے پر پہنچنا ہو گا کہ یہ اُصول حتمی نہیں ہے لیکن وسعت میں محدود ضرور ہے۔
2۔ مزید یہ کہ یہ اُصول حضرت آدم پہلے ہی توڑ چکے ہیں۔ قرآن اور کتاب مقدس دونوں یہ بتاتے ہیں کہ حضرت آدم کے گناہ کے نتیجے میں پوری نسل ِ انسانی اب مزید کامل جنت میں نہیں رہ سکتی تھی مگر زمین پر زندگی بسر کرنے اور مرنے کے لئے سزاوار ٹھہری۔دوسرے الفاظ میں،ہم سب کو بھی کسی اَور کے گناہ کے نتائج بھگتنے تھے جسے ہم جنت سے بے دخل کئے جانے اور موت کا نام دیتے ہیں۔
حضرت آدم کے خدا کے اِس عام اُصول سے مُستشنیٰ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ خدا تعالیٰ نے حضرت آدم کو مقرر کیا کہ اِنسانیت کے تعلق سے ایک منفرد کردار رکھیں۔ حضرت آدم کی مانند حضرت عیسیٰ خدا تعالیٰ کی مرضی سے انسانیت سے ایک منفرد تعلق رکھتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ جیسے قرآن بیان کرتا ہے، کتاب مقدس بھی اُسے دوسرا آدم کہتی ہے (”عیسیٰ کا حال خدا کے نزدیک آدم کا سا ہے“(قرآن 59:3)۔
انجیل شریف کچھ یو ں بیان کرتی ہے:
”جیسے آدم میں سب مرتے ہیں ویسے ہی مسیح میں سب زندہ کئے جائیں گے“(۱-کر نتھیوں 22:15 اور 45:15 بھی دیکھئے)۔
جیسا کہ ہمارا حضرت آدم کے ساتھ ایک منفرد تعلق ہے،اُسی طرح ہم حضرت عیسیٰ مسیح کے ساتھ بھی ایک منفرد تعلق رکھ سکتے ہیں۔
اِس بات کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد کے لئے کہ کس طرح انصاف کے ایک اچھے اُصول کو محض نظر انداز کیا جا سکتا ہے،ہم اِس کا ایک اَور الہٰی اُصول کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں -”قتل نہ کرنا“۔یہ حکم کہ قتل نہ کرنا ایسے نظر انداز ہوسکتا ہے کہ جب ایک اعلیٰ ترین منصف کسی شخص (جلاّد) کو موت کی سزا دینے کے لئے مقرر کرے۔یہی بات کسی اَو رکا بوجھ نہ اُٹھانے کے اُصول پر صادق آتی ہے –
یہ صرف اُسی وقت مُستشنیٰ قرار دیا جا سکتا ہے جب اعلیٰ منصف (خدا تعالیٰ)کسی کو اُس خاص کام کے لئے مقرر کرے(عیسیٰ مسیح)
ایک اَور وجہ کہ حضرت عیسیٰ یہ عام طریقہ کار کیوں توڑتے یہ ہیں کہ تمام نسل ِ انسانی میں صرف و ہی بے گناہ ہیں۔خدا کے انصاف میں گناہ
دوسرے گناہ گار پیروں،مقدسین یا پاک لوگوں سے دعا کرنے سے معاف نہیں ہوسکتے،چاہے وہ کتنے ہی پاک باز اشخاص کیوں نہ ہوں،وہ تب بھی گناہ سے داغ دار ہیں۔چونکہ صرف حضرت عیسیٰ مسیح ہی کامل طور پر گناہ سے مبّرا ہیں اِس لئے صرف وہی خدا کی مرضی سے رضاکارانہ طورپر دوسرے کے گناہ کا بوجھ اُٹھانے کا حق رکھتے ہیں۔
آخر ی بات یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ مسیح کا عوضی کفارہ کتابِ مقدس کی نا قابل ِ انکارگواہی ہے جو باربار نہ صرف انجیل شریف میں بلکہ توریت شریف میں بھی دہرائی گئی ہے۔ہم اِس بات کا انکار کرنے کا چناؤکر سکتے ہیں کہ کوئی بھی دوسرے شخص کے گناہ کا بوجھ اُٹھا سکتا ہے لیکن اِس سے ہم جہنم کے سزاوار اور خدا کے رحم اورمعافی کے ذریعے کو ردّ کرنے والے ٹھہرتے ہیں۔ ہمیں خدا کے نجات کے انعام کو اچھے طریقے سے قبول کرنا ہو گا۔
…