کیا قرآن کتاب مقدس کا ذِکر کرتا ہے؟

”قرآن ہر گز بائبل مقدس کا ذِکر نہیں کرتا،صرف توریت شریف،زبور شریف او رانجیل شریف کا ذِکر کرتا ہے۔“

دراصل انگریزی کا لفظ ”بائبل“ ایک یونانی اصطلاح ”ببلیا“ کا ترجمہ ہے جس کا مطلب ہے،”کتابیں“۔جب یہودیوں اور مسیحیوں کے صحائف ایک ہی سمجھے گئے، تو اِس کے لئے لاطینی اصطلاح نے ”کتاب“ کا اشارہ دینا شروع کیا۔عربی میں یہ الکتاب یا الکتاب
المقدس ہے کیونکہ بائبل کو ہمیشہ عربی زبان میں یہی کہا گیا ہے۔حضرت محمد سے پہلے او ربعد میں بھی عربی مسیحیوں نے ہمیشہ وہی اصطلاح استعمال کی جو قرآن استعمال کرتا ہے۔قرآن مسیحیوں او ریہودیوں کو اہل ِ کتاب کہتا ہے جس کا مطلب ہے،”کتاب کے لوگ“اوریہ فرماتا ہے کہ وہ الکتاب پڑھتے ہیں۔

”اور یہودی کہتے ہیں کہ عیسائی رستے پر نہیں اور عیسائی کہتے ہیں کہ یہودی رستے پر نہیں۔حالانکہ وہ کتاب (الکتاب)پڑھتے ہیں۔“
(سورۃ البقرۃ 113:2)

”اے اہل ِ کتاب (خدا)تم (علمائے)ربانی ہو جاؤ کیوں کہ تم کتاب ِ (خدا)پڑھتے پڑھاتے رہتے ہو۔“(سورۃ آل عمران79:3)

الکتاب کی نسبت اَور کوئی قریب ترین لفظ عربی میں نہیں ہے جو بائبل کے لئے استعمال کیا جا سکتاہو۔تورات،توراۃ ہے،زبور شریف مزامیر ہے اور انجیل شریف ایونجل(eungel)جو ایک ایسی اصطلاح ہے جو مجموعی طور پرچار اناجیل یا پورے نئے عہد نامے کے لئے استعمال ہوتی ہے۔اگر قرآن کا مطلب کچھ اَور ہوتاتو پھر وہ یقینا اُس کا ذِکر کرتا،اِس لئے اُس وقت اِن عربی الفاظ کامطلب یہی تھا۔

انجیل شریف نازل کی گئی؟

"قرآن انجیل شریف کو یوں بیان کرتا ہے کہ وہ نازل کی گئی ہے؛لیکن موجود ہ انجیل شریف حضرت عیسیٰ کے پیروکاروں نے لکھی تھی۔"

"نازل کی گئی" کی عربی اصطلاح کا مطلب یہ نہیں کہ آسمان سے گرائی گئی یا نبی کے ذریعے دی گئی۔اِس کا زیادہ تر عام فہم مطلب اللہ کا عطا کردہ انعام ہے۔یہی "نازل کی گئی" کی اصطلاح 25:57میں لوہے کے لئے استعمال کی گئی ہے:"ہم نے لوہا پیدا کیا؛اور اِس میں خطرہ بھی شدید ہے اور لوگوں کے لئے فائدے بھی ہیں اور اِس لئے کہ جو لوگ … خدا اوراُس کے پیغمبروں کی مدد کرتے ہیں خدا اُن کو معلوم کرے۔

ابتدائی مبصرّین کی رائے

ذاکر نائیک جیسے نقادوں کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ وہ اُن ابتدائی مبصّرین سے تضاد رکھتا ہے جو یہودیوں او رمسیحیوں کے صحائف کو بڑی قدر سے دیکھتے تھے۔اِس بات کا ذکر سعید عبداللہ نے اپنے اخبار یہودیوں او رمسیحیوں کے صحائف پر تحریف کا الزا م میں کیا ہے۔وہ یہ نتیجہ اَخذ کرتا ہے:

چونکہ یہودیوں اور مسیحیوں کے مُستند صحائف آج بھی بالکل اُسی طرح موجود ہیں جس طرح حضور اکرم کے زمانے میں موجود تھے تو اِس بات پر بحث کرنا مشکل ہے کہ انجیل شریف او رتوریت شریف کے لئے قرآن میں موجود حوالہ جات صرف اُس خالص انجیل شریف یا توریت انجیل کی طرف تھا جو بالترتیب حضرت موسیٰ،حضرت عیسیٰ مسیح کے زمانے میں موجود تھی۔اگر متن کسی حد تک اُسی حالت میں موجود ہے جس طرح ساتویں صدی عیسوی میں تھا،تو اُس وقت جو تعظیم قرآن نے اُنہیں دی وہ آج بھی ویسے ہی قائم رہنی چاہئے۔قرآن کے بہت سے مفسر طبری سے لے کر رازی تک اور ابن تیمیہ،حتیٰ کہ قطب تک یہی نظریہ بیان کرتے نظر آتے ہیں۔
مجموعی طور پر جدید دَور میں بہت سے مسلمانوں کا یہودیت او رمسیحیت کے صحائف کے لئے نفرت انگیز رویہ رکھنے کی نہ تو قرآن اور نہ ہی
تفسیر کے بڑے علماء کی تحریروں میں حمایت دکھائی دیتی ہے۔2

عبداللہ ابن ِ عباس

ابن ِ عباس نے کہا کہ،

”لفظ ”تحریف“(بگاڑ)کسی چیز کی اپنی اصلی حالت سے تبدیلی کو ظاہر کرتا ہے؛اور پھر یہ کہ کوئی بھی شخص ایسا نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دئیے گئے کلام میں سے ایک بھی لفظ کو بگاڑ سکے،اِس لئے یہودی او رمسیحی صرف اللہ کے کلام کے الفاظ کے مطلب کو غلط پیش کر سکتے تھے۔“3

ایک دوسری کتاب میں ابن ِ عباس کا بیان دہرایا گیا ہے:

”وہ الفاظ کو بگاڑتے ہیں“ اِس کا مطلب ہے،”وہ اِس کے مطلب کو ختم کر دیتے یا تبدیل کرتے ہیں۔“تاہم کوئی بھی شخص اِس قابل نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے کلام میں ایک بھی لفظ کو تبدیل کرے۔اِس کا مطلب ہے کہ وہ لفظ کی تشریح غلط کرتے ہیں۔4

ابن ِ کثیر نے بھی ابن ِ عباس کے اِس بیان کو لکھا ہے:

”جہاں تک اللہ تعالیٰ کی کُتب کا تعلق ہے،وہ اب تک محفوظ ہیں اور تبدیل نہیں ہو سکتیں۔“5

یہ تفسیر عبداللہ ابن ِ عباس کی ہے جو حضور اکرم کے چچا زاد بھائی اور اُن کے صحابہ کرام میں سے ایک تھے۔چونکہ وہ ایک صحابی ہیں اِس لئے اُن کی آراء دیگراُن تمام اشخاص کی آراء اور تبصروں سے بالا تر ہے جو صحابی نہیں ہیں۔ ذاکر نائیک کیا سوچتا ہے کہ وہ کون ہے جو بڑے اعتمادسے ابن ِ عباس جیسی شخصیت سے تضاد رکھتا ہے؟

طبری (وفات 855عیسوی)

معروف مفسر علی طبری بڑا واضح یقین رکھتے تھے کہ یہودی اور مسیحی اب تک وہی اصلی صحائف رکھتے تھے جو اُنہیں اللہ تعالیٰ نے عطا کئے تھے۔

”..سب

سورۃ المائدہ 46:5 رہنمائی اور روشنی تھی یا ہے؟

"قرآن کی سورۃ المائدۃ 46:5میں فرماتی ہے کہ انجیل شریف میں رہنمائی اور نور تھا(فعل ماضی)۔”

یہ دعویٰ عربی متن کو غلط طور پر سمجھنے کی بنیاد پر کیا گیاہے۔عربی میں یہ جملہ کچھ یوں ہے “الإِنجِيلَ فِيهِ هُدًى وَنُورٌ“; ،جس کا لغوی ترجمہ کچھ یوں ہے "…اِس میں رہنمائی اور نور ہے …"اِس میں کوئی فعل نہیں ہے،یہ محض زمانہ حال ("ہے")استعمال کرتا ہے۔عربی میں زمانہ حال کے جملوں میں فعل"ہونا"("کانا")کی ضرورت نہیں پڑتی۔اِس طرح عربی میں "آدمی بڑا ہے" کے لغوی معنی ہیں "آدمی بڑا۔"یہ زمانہ سیاق و سباق سے اخذ کیا گیا ہے۔مشہور بنگالی مصنف ڈاکٹر لطف الرحمان نے اپنی کتاب دھرما جیون میں اِس آیت پر درج ذیل الفاظ میں تبصرہ کیا ہے:

"کون اللہ تعالیٰ کے تمام صحائف پر حقیقی ایمان رکھتا ہے؟قرآن شریف کے ساتھ میَں نے کبھی کسی کو انجیل شریف (کتاب مقدس)،زبور شریف یا توریت شریف کو پڑھتے نہیں دیکھتا۔بہت سے مسلمان حضرت عیسیٰ کی توہین کرتے ہیں۔قرآن فرماتا ہے رہنمائی اور نور انجیل شریف میں ہے۔میَں نے کسی ایک شخص کو بھی انجیل شریف لینے کی کوشش کرتے نہیں دیکھا!پہلے

کیا حضرت عیسیٰ کو خداوند کہا جا سکتا ہے؟

”جیسے کہ انجیل شریف بیان کرتی ہے،حضرت عیسیٰ کو’خداوند‘ نہیں کہا جا سکتا۔“

جیسے کہ قرآن سکھاتا ہے کہ سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی خداوند (”ربّ“)نہیں ہے،تو بہت سے لوگ انجیل شریف کے حضرت عیسیٰ مسیح کو
”خداوند“ کا لقب دینے پر اعتراض کریں گے۔یہ غلط فہمی پر مبنی ہے،کیونکہ قرآن سورۃ 10:89میں خود فرعون کو ”خداوند“ کہتا ہے –

”اور فرعون کے ساتھ (کیاکیا)جو خیمے اور میخوں کا ملک تھا۔“

”خداوند“محض ایک عزت اور اطاعت کا ایک لقب ہے چاہے وہ کسی آقا،بادشاہ یاحتمی طور پر خُدا تعالیٰ کے لئے ہو۔بے شک،حتمی لحاظ سے خُدا تعالیٰ ہی واحد اور حتمی ”خداوند“ ہے۔

تاہم، جناب عیسیٰ مسیح کے پاس ”خداوند“ کا لقب رکھنے کا خاص دعویٰ ہے۔حضرت عیسیٰ مسیح کی پیدایش سے سیکڑوں سال پہلے،زبور شریف کی تحریروں میں آنے والے مسیحا (مسیح)کو ایک ایسی ہستی کے طور پر بیان کیاگیاہے جسے خُدا تعالیٰ کی طرف سے ”کل زمین کا اختیار“ملا ہے
(زبور شریف 8:2)۔ دوسرے الفاظ میں،آنے والا مسیحا کوکسی خلیفہ یا نائب کی مانند ہو نا تھا،جو مکمل طور پر خُدا تعالیٰ کا فرماں بردار تھا مگر تب بھی خُدا تعالیٰ کی طرف سے بنی نوع ِانسان پر پور ااختیار رکھنے والا تھا۔حضرت عیسیٰ مسیح نے مُردوں میں سے جی اُٹھنے سے شیطان کے کام کو شکست دینے کے بعد اپنے شاگردوں سے کہا،

”آسمان اور زمین کا کُل اختیار مجھے دیا گیا ہے۔“(متی کی انجیل 18:28)

اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنا شاندار اختیار حضرت عیسیٰ مسیح کو عنایت کیا ہے۔وہ انجیل شریف اور قرآن شریف کے مطابق ”کلمتہ اللہ“ کا منفرد لقب بھی رکھتے ہیں۔دوسرے الفاظ میں،حضرت عیسیٰ مسیح تمام بنی نوعِ انسان کے دیکھنے کے لئے خُدا تعالیٰ کی مرضی کا زندہ اظہار یا پیغام ہیں۔ مزید یہ کہ وہی واحد کُلّی طور پر بے گناہ انسان ہیں،اِس لئے وہی وہ واحد شخصیت ہے جس کی کُلّی طور پر پیروی یا تقلید کی جانی چاہئے۔

اِن تمام وجوہات کی بِنا پر یہ حضرت عیسیٰ مسیح کے لئے بالکل درست ہے کہ اُنہیں ”خداوند“ کہا جا ئے کیونکہ انجیل شریف میں اُنہیں باربار یہ کہا گیا ہے۔ہمیں خُدا تعالیٰ کے مقدس صحائف کے مطابق اپنی سمجھ کی تعمیرکرنی چاہیے، اور خُدا کے کلام کو اپنے خیالی تصوارات سے رد نہیں کرنا چاہیے۔

پولُس رسول نے انجیل شریف چُرا لی؟

”پولُس نے حضرت عیسیٰ مسیح کا پیغام چُرا لیا اور اُسے اپنے مفاد ات کے مطابق بدل ڈالا۔“

کتاب مقدس یا کسی اور مُستند ذریعے سے ایسا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے کہ رسولی جماعت اور پولُس رسول کے درمیان کوئی بڑی کشمکش موجود تھی۔نقاد پولُس رسول اَور برنباس کے درمیان ایک بڑے اختلاف کے طور پر اعما ل39:15کے بارے میں مبالغہ آرائی کرنا پسند کرتے ہیں۔آئیے!…

اوریاہ کی بیوی بت سبع کے خلاف داؤد نبی کا گناہ

2- سموئیل 12،11 – بائبل مُقدس کیسے کہہ سکتی ہے کہ داؤد نبی نے اوریاہ کی بیوی بت سبع کے خلاف زنا کیا اور پھر اُسے چھپایا؟

دلچسپ امر یہ ہے کہ اِس واقعہ کا کچھ حصہ قرآن میں بھی ہے (21:38-24، 30)، اور بہترین مسلمان مفسر ہمیں بتاتے ہیں کہ اِن قرآنی آیات کی درست تشریح داؤد کا اوریاہ کی بیوی کو ناروا طور پر لے لینا تھا۔ مثلاً ابن عباس سورہ 23:38-24، 26 کے بارے میں لکھتے ہیں:

(ایک دُنبی) یعنی ایک بیوی، (سو یہ کہتا ہے کہ وہ بھی مجھے دے دے اور بات چیت میں دباتا ہے) یہ ایک تشبیہ ہے جس کی وجہ یہ تھی کہ داؤد کو سمجھ آ جائے اُنہوں نے اوریاہ کے ساتھ کیا کیا تھا (تنویر المقباس من تفسیر ابن عباس)۔ source)

اسلامی ذرائع سے مزید ثبوت کے لئے یہاں کلک کریں

گو کہ یہ واقعہ واضح طور پر ایک بھیانک گناہ تھا، خدا تعالیٰ نے داؤد کی توبہ کو ہم تک انتہائی خوبصورت بائبلی حوالہ جات پہنچانے کے لئے استعمال کیا جو حقیقی توبہ اور ندامت کا اظہار کرتے ہیں:

میر مغنی کے لئے داؤد کا مزمور۔ اُس کے بت سبع کے پاس جانے کے بعد جب ناتن نبی اُس کے پاس آیا۔

اے خدا!