کیا کتاب مقدس محض زیادہ تر درست ہے؟
” کتاب مُقدس زیادہ تر درست ہے، صرف کچھ آیات ایسی تھی جن کا اضافہ کیا گیا یا جو نکالی گئیں جنہوں نے اِس کے پیغام کو بگاڑ دیا۔”
چونکہ کتاب مُقدس کی مجموعی صحت سے متعلق بہت زیادہ ثبوت موجود ہے، اِس لئے بہت سے متشکک الزام لگاتے ہیں کہ مجموعی طور پر بائبل قابل اعتبار ہے لیکن کچھ آیات کا اضافہ کیا گیا تھا یا اُنہیں بدل دیا گیا جس سے اِس کا پیغام بگڑ گیا۔ مثلاً کئی مسلمان دعویٰ کرتے ہیں کہ یسوع کی موت اور جی اُٹھنا اور صرف یسوع میں ایمان سے نجات کی تعلیم “معمولی اضافے” تھے جو بعد ازاں شامل کئے گئے۔ اِن نام نہاد “اضافوں” والی تعلیم (جسے مسیحی انجیلی پیغام کے طور پر جانتے ہیں) کا خلاصہ یوں پیش کیا جا سکتا ہے:
انسانیت فقط شریعت کی تعمیل کرنے سے نجات نہیں پا سکتی کیونکہ لوگ اِس کی مکمل طور پر تعمیل نہیں کر سکتے ہیں، لیکن خدا نے اپنے فضل میں نجات کے لئے ایک ذریعہ مہیا کیا، یعنی لاثانی بے گناہ “مسح شدہ نجات دہندہ” یسوع کو بھیجا گیا جس نے صلیب پر ہمارے گناہوں کو سزا کو اپنے اوپر اُٹھا لیااور کفارہ دیا اور یوں خدا سے انسانوں کا میل ملاپ ہو گیا۔نجات کی یہ بخشش جس کے ہم مستحق نہیں، مذہبی وابستگی یا عقیدہ سے ممکن نہیں بلکہ توبہ کرنے اور یسوع کے ایک شاگرد بن جانے سے حاصل ہوتی ہے۔
اِن نقادوں کے مطابق، مندرجہ بالا عقیدہ کا لازماً بعد میں اضافہ کیا گیا ہے کیونکہ یہ ا ُن کے اپنے مذہبی نظریات سے میل نہیں کھاتا۔ اِن نقادوں کے مطابق وہ تمام آیات جن میں غلط سمجھے گئے “بیٹا” اور “خداوند” کے القاب استعمال کئے گئے ہیں بعد کے اضافے ہیں۔
ہر وہ فرد جس نے حقیقت میں پورے نئے عہدنامہ کا مطالعہ کیا ہے، اُس کے نزدیک یہ بات انتہائی مضحکہ خیز ہے کیونکہ یہ پیغام واضح طور پر بار بار نئے عہدنامہ کی تمام ستائیس کتابوں میں پایا جاتا ہے۔ اِس بات کا اشارہ نئے عہدنامہ کی کم از کم آدھی کے قریب تعلیم میں بھی ملتا ہے۔ اِس کے بغیر انجیل مُقدس کی کوئی سمجھ نہیں آ سکتی۔
یہ نظریہ کہ “صرف چند آیات” کا بعد میں اضافہ کیا گیا تھا، ہر اُس فرد کے نزدیک مضحکہ خیز ہے جس نے حقیقت میں پورے نئے عہدنامہ کا مطالعہ کیا ہے، کیونکہ یہ پیغام واضح طور پر بار بار نئے عہدنامہ کی تمام ستائیس کتابوں میں پایا جاتا ہے اور اِس بات کا اشارہ نئے عہدنامہ کی کم از کم آدھی کے قریب تعلیم میں بھی موجود ہے۔ یہی خوشخبری تمام انجیلی بیانات میں موجود ہے جسے یسوع نے کئی مرتبہ بیان کیا: متی 26: 28 ;یوحنا 3: 15 ; متی 20: 28 ;مرقس 10: 45 ; یوحنا 10: 9 ; 14: 6 ;یوحنا6: 44،47، 48، 51 ; 10: 11 ،28 ; 11: 25 ; 17: 1-2 ،3 ;لوقا 4: 43 ; 24: 26 – 27 ;یوحنا 6: 29 ،33،35 ; 4 : 14; 5: 21 ;متی 18: 21-35 ۔ یہ وہی خوشخبری ہے جس کی منادی پطرس رسول نے کی ، یعقوب نے کی اور یوحنا رسول نے کی۔ مزید برآں نئے عہدنامہ کی تمام ستائیس کتابوں میں اِس حقیقت کی گواہی ملتی ہے۔
باالفاظ دیگر، یہ پیغام مکمل طور پر نئے عہدنامہ سے ناقابل جدا ہے اور انجیل مُقدس کا مرکزی “خوشخبری” کا پیغام ہے۔ یہ تحریر جامع نہیں ہے۔ یہاں ہر عنوان کے تحت حضرت عیسیٰ کے بارے میں قرآن میں پائے جانے والے تمام حوالہ جات کا احاطہ نہیں کیا گیا۔ اور اِس کے لئے ایک بڑی کتاب لکھنے کی ضرورت ہو گی۔ تاہم یہاں حضرت عیسیٰ کے لئے استعمال ہونے والے مختلف ناموں اور بیانوں کی ایک یا دو مثالیں دی گئیں ہیں تا کہ قاری تک اُس نکتہ نظر کو درست طور پر پیش کیا جائے جسے قرآن ہر عنوان کے تحت بیان کرتا ہے۔ اِن میں سے کئی باتیں صرف حضرت عیسیٰ کے لئے ہی استعمال ہوئی ہیں اور کسی دوسرے کے لئے استعمال نہیں ہوئیں۔ ہمیں اُمید ہے کہ اِس مختصر تحریر کو پڑھنے کے بعد قاری کو تحریک ملے گی کہ وہ خود قرآن کا مطالعہ کرے اور دیکھے کہ یہ حضرت عیسیٰ اور کئی اَور اہم موضوعات کے بارے میں کیا بتاتا ہے۔
…
قرآن میں حضرت عیسیٰ کے نام
قرآن عربی زبان میں ایک بڑی کتاب ہے۔ یہ زبان دُنیا کے زیادہ تر لوگوں کے لئے ایک اجنبی زبان ہے۔ اِسی وجہ سے بہت کم لوگ قرآن میں بیان کئے گئے مختلف قسم کے موضوعات کا درست فہم رکھتے ہیں۔ اِس کے اہم ترین موضوعات میں سے ایک مختلف نبیوں سے متعلق ہے جنہیں اللہ نے دُنیا میں مختلف زمانوں میں بھیجا۔ اُن نبیوں میں سے ایک کے بارے میں قرآن میں بہت تفصیل سے بتایا گیا ہے جو عیسیٰ ابن مریم ہیں۔ بہت سے لوگوں نے اُن کا نام سُن رکھا ہے اور اُن کی زندگی اور کام کے بارے میں کچھ نہ کچھ جانتے ہیں۔ تاہم جیسے قرآن میں آپ کو بیان کیا گیا ہے اُس کے بارے میں بہت کم لوگ ایسے ہیں جو درست آگہی رکھتے ہیں۔ اِسی وجہ سے اِس مضمون کو لکھا گیا ہے۔ اِس مختصر تحریر کا مقصد قارئین کے سامنے قرآنی بیان کے مطابق حضرت عیسیٰ کی ایک واضح اور درست تصویر کشی کرنی ہے۔ اِ س ضمن میں مختلف قرآنی آیات کوبیان کیا گیا ہے اور مطمع نظر یہ ہے کہ قارئین عیسیٰ نبی کے بارے میں قرآنی بیان کی زیادہ بہتر سمجھ کو حاصل کر سکیں۔
عیسیٰ
“پھر جب عیسیٰ نے اُن کی طرف سے انکار اور نافرمانی ہی دیکھی تو کہنے لگے کہ کوئی ہے جو اللہ کا طرفدار اور میرا مددگار ہو۔ حواری بولے کہ ہم اللہ کے طرفدار اور آ پ کے مددگار ہیں ہم اللہ پر ایمان لائے اور آپ گواہ ہیں کہ ہم فرمانبردار ہیں۔” (سورہ آل عمران 3: 52)
“(مسلمانو) کہو کہ ہم اللہ پر ایمان لائے اور جو کتاب ہم پر اُتری اُس پر اور جو صحیفے ابراہیم اور اسمعیل اور اسحق اور یعقوب اور اُن کی اولاد پر نازل ہوئے اُن پر اور جو کتابیں موسیٰ اور عیسیٰ کو عطا ہوئیں اُن پر اور جو دوسرے پیغمبروں کو اُن کے پروردگار کی طرف سے ملیں اُن پر سب پر ایمان لائے، ہم ان پیغمبروں میں سے کسی میں کچھ فرق نہیں کرتے اور ہم اسی معبود واحد کے فرمانبردار ہیں۔” (سورہ البقرہ 2: 136)
“اور جب عیسیٰ نشانیاں لے کر آئے تو فرمایا کہ میں تمہارے پاس دانائی کی کتاب لے کر آیا ہوں۔ نیز اِس لئے کہ بعض جن میں تم اختلاف کرتے ہو تم کو سمجھا دوں۔ سو اللہ سے ڈرو اور میرا کہا مانو۔” (سورہ الزخرف 43: 63)
المسیح
… “مسیح یہود سے یہ کہا کرتے تھے کہ اے بنی اسرائیل اللہ ہی کی عبادت کرو جو میرا بھی پروردگار ہے اور تمہارا بھی اور جان رکھو کہ جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرے گا۔ اللہ اُس پر بہشت کو حرام کر دے گا۔ اور اُس کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں ہو گا۔” (سورہ المائدة 5: 72)
“مسیح اِس بات سے عار نہیں رکھتے کہ اللہ کے بندے ہوں اور نہ مُقرب فرشتے عار رکھتے ہیں اور جو شخص اللہ کا بندہ ہونے کو موجب عار سمجھے اور سرکشی کرے تو اللہ سب لوگوں کو اپنے پاس جمع کر لے گا۔” (سورہ النسا 4: 172)
زکیاً (پاکیزہ)
“فرشتے نے کہا کہ میں تو تمہارے پروردگار کی بھیجا ہوا یعنی فرشتہ ہوں اور اِس لئے آیا ہوں کہ تمہیں پاکیزہ لڑکا بخشوں۔” (سورہ مریم 19: 19)
کلمتہ اللہ
… “مسیح یعنی مریم کے بیٹے عیسیٰ اللہ کے رسول تھے اور اُس کا کلمہ تھا جو اُس نے مریم کی طرف بھیجا اور اُس کی طرف سے ایک روح تھے۔ ” (سورہ النسا 4: 171)
” فرشتوں نے مریم سے کہا کہ مریم اللہ تم کو اپنی طرف سے ایک کلمہ کی بشارت دیتا ہے جس کا نام مسیح اور مشہور عیسیٰ ابن مریم ہو گا اور جو دُنیا اور آخرت میں آبرومند اور مقربین میں سے ہو گا۔” (سورہ آل عمران 3: 45)
روح منہ (اُس کی طرف سے رُوح)
… “مسیح یعنی مریم کے بیٹے عیسیٰ اللہ کے رسول تھے اور اُس کا کلمہ تھا جو اُس نے مریم کی طرف بھیجا اور اُس کی طرف سے ایک روح تھے۔ ” (سورہ النسا 4: 171)
“اور اُن خاتون یعنی مریم کوبھی یاد کرو جنہوں نے اپنی عفت کو محفوظ رکھا۔ تو ہم نے اُن میں اپنی رُوح پھونک دی اور اُن کو اور اُن کے بیٹے کو اہل عالم کے لئے نشانی بنا دیا۔ ” (سورہ الانبیا 21: 91)
“اور دوسری مثال عمران کی بیٹی مریم کی جنہوں نے اپنی عزت و ناموس کو محفوظ رکھا۔ تو ہم نے اُس میں اپنی رُوح پھونک دی اور وہ اپنے پروردگار کے کلام اور اُس کی کتابوں کو برحق سمجھتی تھیں اور وہ فرمانبرداروں میں سے تھیں۔” (سورہ التحریم 66: 12)
ابنِ مریم
“تب عیسیٰ ابن مریم نے دُعا کی کہ اے ہمارے پروردگار ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما کہ ہمارے لئے وہ دِن عید قرار پائے یعنی ہمارے اگلوں اور پچھلوں سب کے لئے۔ اور وہ تیری طرف سے نشانی ہو اور ہمیں رزق دے اور تُو بہترین رزق دینے والا ہے۔” (سورہ المائدہ 5: 114)
“اور اُن پیغمبروں کے بعد اُنہیں کے قدموں پر ہم نے عیسیٰ ابن مریم کو بھیجا جو اپنے سے پہلے کی کتاب تورات کی تصدیق کرتے تھے اور اُن کو انجیل عنایت کی جس میں ہدایت اور نور ہے اور تورات کی جو اِس سے پہلی کتاب ہے تصدیق کرتی ہے اور پرہیزگاروں کی راہ بتاتی اور نصیحت کرتی ہے۔” (سورہ المائدہ 5: 46)
عبد اللہ (اللہ کا بندہ)
“اُس (عیسیٰ) نے کہا کہ میں اللہ کا بندہ ہوں، اُس نے مجھے کتاب دی ہے اور نبی بنایا ہے۔” (سورہ مریم 19: 30)
“مسیح اِس بات سے عار نہیں رکھتے کہ اللہ کے بندے ہوں اور نہ مُقرب فرشتے عار رکھتے ہیں اور جو شخص اللہ کا بندہ ہونے کو موجب عار سمجھے اور سرکشی کرے تو اللہ سب لوگوں کو اپنے پاس جمع کر لے گا۔” (سورہ النسا 4: 172)
نبی
“اُس (عیسیٰ) نے کہا کہ میں اللہ کا بندہ ہوں، اُس نے مجھے کتاب دی ہے اور نبی بنایا ہے۔” (سورہ مریم 19: 30)
رسول اللہ
… “مسیح یعنی مریم کے بیٹے عیسیٰ اللہ کے رسول تھے اور اُس کا کلمہ تھا جو اُس نے مریم کی طرف بھیجا اور اُس کی طرف سے ایک روح تھے۔ ” (سورہ النسا 4: 171)
“یہ پیغمبر جو ہم وقتاً فوقتاً بھیجتے رہے ہیں اُن میں سے ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔ بعض ایسے ہیں جن سے اللہ نے گفتگو کی اور بعض کے دوسرے امور میں مرتبے بلند کئے۔ اور عیسیٰ ابن مریم کو ہم نے کھلی نشانیاں عطا کیں۔ اور رُوح القدس سے اُن کو مدد دی۔” (سورہ البقرہ 2: 253)
” اور عیسیٰ بنی اسرائیل کی طرف پیغمبر ہو کر جائیں گے اور کہیں گے کہ میں تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے نشانی لے کر آیا ہوں۔ وہ یہ کہ تمہارے سامنے مٹی سے پرندے کی صورت بناتا ہوں پھر اِس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ اللہ کے حکم سے سچ مچ پرندہ ہو جاتا ہے۔ اور پیدائشی اندھے اور ابرص کو تندرست کر دیتا ہوں۔ اور اللہ کے حکم سے مُردوں کو زندہ کر دیتا ہوں۔ اور جو کچھ تم کھا کر آتے ہو اور جو کچھ اپنے گھروں میں جمع کر رکھتے ہو، سب تم کو بتا دیتا ہوں اگر تم صاحب ایمان ہو تو اِن باتوں میں تمہارے لئے نشانی ہے۔” (سورہ آل عمران 3: 49)
“اے پروردگار جو کتاب تُو نے نازل فرمائی ہے ہم اُس پر ایمان لے آئے اور تیرے پیغمبر کے متبع ہو چکے ، تُو ہم کو ماننے والوں میں لکھ رکھ۔” (سورہ آل عمران 3: 53)
مفضل (فضیلت بخشا ہوا)
“یہ پیغمبر جو ہم وقتاً فوقتاً بھیجتے رہے ہیں اُن میں سے ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔ بعض ایسے ہیں جن سے اللہ نے گفتگو کی اور بعض کے دوسرے امور میں مرتبے بلند کئے۔ اور عیسیٰ ابن مریم کو ہم نے کھلی نشانیاں عطا کیں۔ اور رُوح القدس سے اُن کو مدد دی۔” (سورہ البقرہ 2: 253)
الصالح (نیکوکار)
“اور (عیسیٰ) ماں کی گود میں اور بڑی عمر کا ہو کر دونوں حالتوں میں لوگوں سے یکساں گفتگو کرے گا اور نیکوکاروں میں ہو گا۔ ” (سورہ آل عمران 3: 46)
“اور زکریا اور یحییٰ اور عیسیٰ اور الیاس کوبھی۔ یہ سب نیکوکار تھے۔” (سورہ الانعام 6: 85)
مبارک
“اور میں جہاں ہوں اور جس حال میں ہوں اُس نے مجھے صاحبِ برکت بنایا ہے اور جب تک زندہ ہوں مجھ کونماز اور زکوٰة کا ارشاد فرمایا ہے۔” (سورہ مریم 19: 31)
آیت(ایک معجزہ یا نشان)
“اور اُن خاتون یعنی مریم کوبھی یاد کرو جنہوں نے اپنی عفت کو محفوظ رکھا۔ تو ہم نے اُن میں اپنی رُوح پھونک دی اور اُن کو اور اُن کے بیٹے کو اہل عالم کے لئے نشانی بنا دیا۔ ” (سورہ الانبیا 21: 91)
“فرشتے نے کہا کہ یونہی ہو گا تمہارے پروردگار نے فرمایا کہ یہ مجھے آسان ہے اور میں اِسے اِسی طریق پر پیدا کروں گا تا کہ ہم اِس کو لوگوں کے لئے اپنی طرف سے نشانی اور ذریعہ رحمت بنائیں اور یہ کام مقرر ہو چکا ہے۔ ” (سورہ مریم 19: 21)
مُقرب (خدا کے نزدیک)
” فرشتوں نے مریم سے کہا کہ مریم اللہ تم کو اپنی طرف سے ایک کلمہ کی بشارت دیتا ہے جس کا نام مسیح اور مشہور عیسیٰ ابن مریم ہو گا اور جو دُنیا اور آخرت میں آبرومند اور مقربین میں سے ہو گا۔” (سورہ آل عمران 3: 45)
فِی کَمثَلِ آدَمَ (آدم کی مانند)
“عیسیٰ کا حال اللہ کے نزدیک آدم کا سا ہے کہ اُس نے پہلے مٹی سے اُن کو بنایا پھر فرمایا باشعور انسان ہو جا تو وہ ویسے ہی گئے۔” (سورہ آل عمران 3: 59)
شہید (گواہ)
“میں نے اُن سے کچھ نہیں کہا بجز اِس کے جس کا تُو نے مجھے حکم دیا وہ یہ کہ تم اللہ کی عبادت کرو جو میرا اور تمہارا سب کا پروردگار ہے۔ اور جب تک میں اُن میں رہا اُن کے حالات کی خبر رکھتا رہا پھر جب تُو نے مجھے دُنیا سے اُٹھا لیا تو تُو ہی اُن کا نگران تھا اور تُو ہر چیز سے خبردار ہے۔ ” (سورہ المائدہ 5: 117)
“اور اہل کتاب میں سے کوئی نہیں ہو گا ، مگر اُن کی موت سے پہلے اُن پر ایمان لے آئے گا اور وہ قیامت کے دِن اُن پر گواہ ہوں گے۔ ” (سورہ النسا 4: 159)
مُعیّد بِرُوح القُدُس (روح القدس سے مدد پہنچایا ہوا)
“اور ہم نے موسیٰ کو کتاب عنایت کی اور اُن کے پیچھے یکے بعد دیگرے پیغمبر بھیجتے رہے اور عیسیٰ ابن مریم کو کھلے نشانات بخشے اور رُوح القدس سے اُن کو مدد دی۔ تو کیا ایسا ہے کہ جب کوئی پیغمبر تمہارے پاس ایسی باتیں لے کر آئے جن کو تمہارا جی نہیں چاہتا تھا تو تم سرکش ہو جاتے رہے اور ایک گروہ انبیا کو تو جھٹلاتے رہے اور ایک گروہ کو قتل کرتے رہے۔ ” (سورہ البقرہ 2: 87)
“یہ پیغمبر جو ہم وقتاً فوقتاً بھیجتے رہے ہیں اُن میں سے ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔ بعض ایسے ہیں جن سے اللہ نے گفتگو کی اور بعض کے دوسرے امور میں مرتبے بلند کئے۔ اور عیسیٰ ابن مریم کو ہم نے کھلی نشانیاں عطا کیں۔ اور رُوح القدس سے اُن کو مدد دی۔” (سورہ البقرہ 2: 253)
“جب اللہ عیسیٰ سے فرمائے گا کہ اے عیسیٰ ابن مریم!…
بکاؤلے ازم سے ہٹ کر: سائنس،صحائف اور ایمان
سائنس،صحائف اور ایمان
درج ذیل مضمون اُن مختلف طریقوں کا تجزیہ کرتا ہے جن سے ایمان دار وں نے سائنس او رصحائف کے درمیان تعلق کو سمجھا ہے۔
خاکہ:
حصہ اوّل: ”بکاؤ لے ازم“کو سمجھنا
بکاؤ لے ازم کے لئے مسلم مخالفت
بکاؤ لے ازم کے مسائل
بکاؤ لے ازم کی تاریخ
ویدوں اور دیگر ادب میں ”سائنسی معجزات“
چند دعویٰ کئے گئے معجزات کا تجزیہ
نبوت نمبر۱: چاند کی روشنی منعکس شدہ روشنی ہے
نبوت نمبر۲: جنین (embryo)کے مراحل
نبوت نمبر ۳: چینٹیو ں کا رابطہ
حصہ دوم: کیا سائنس اور صحائف ایک دوسرے سے مربوط ہیں؟
تخلیق او رسائنس
پیدایش کے دنوں کی ترتیب
سورج کی روشنی سے پہلے نباتات؟
کائنات کا علم: چپٹی یا گول زمین؟
کیا زمین چپٹی ہے یا گول؟
آسمان کو تھامے ہوئے ستون
زمین کے نیچے کے ستون
سورج،چاند،ستارے،دمدارتارے اورآسمان
حصہ سوم: سائنس کی تاریخ
سائنس کس نے ’ایجاد‘ کی؟
سنہرا دور کیوں ختم ہوا؟
حصہ اوّل
”بکاو لے ازم“کو سمجھنا
”بکاؤ لے ازم“قرآن مجید میں ”سائنسی معجزات“ کی بنیاد ی کی جستجو ہے یعنی جدید سائنسی دریافتیں جنہیں بڑے مخفی انداز میں قرآن میں بیان کیا گیا ہے۔یہاں ذاکر نائیک سے ایک عام مثال پیش کی گئی ہے:
چاند کی روشنی منعکس روشنی ہے: ابتدائی تہذیبوں کا یہ ایمان تھا کہ چاند خود اپنی روشنی دیتا ہے۔اب سائنس ہمیں بتاتی ہے کہ چاند کی روشنی منعکس روشنی ہے۔تا ہم 1400 سال پہلے قرآن مجید میں اِس حقیقت کا ذکردرج ذیل آیت میں آیا ہے:
”بڑی برکت والا ہے جس نے آسمانوں میں بُرج بنائے اور اُنہیں چراغ او رچمکتا ہوا چاند بھی بنایا۔“(القرآن 61:25)
قرآن میں عربی میں سورج کے لئے لفظ شمس ہے۔اِسے سِرٰجاً بھی کہا گیا ہے … چاند کے لئے عربی لفظ قَمَرً ہے اور قرآن میں اِسے مُنّیراً کہا گیا ہے جو ایک ایسا عنصر ہے جو نور دیتا ہے یعنی منعکس شدہ روشنی … اِس کا مطلب ہے کہ قرآن سورج اور چاند کی روشنی کے درمیان فرق کو بیان کرتا ہے۔
اِسی طرح دعوے کئے گئے ہیں کہ بلیک ہولز،علم حیاتیات،علم ارضیات اور علم نجوم کے بارے میں قرآن میں پیشین گوئیاں موجود ہیں۔
بکاولیازم کے لئے مسلمانوں کی مخالفت
قرآن مجید میں ”سائنس کے معجزات“ کی مخفی جستجو اسلامی تاریخ کاحال ہی میں سامنے آنے والا ایک خبط ہے۔یہ بنیاد پرستوں میں بہت مقبول ہے لیکن اِسے چند مسلم مفکرین کی حمایت حاصل نہیں ہے۔نامور بھارتی اسلامی علم ِ الہٰی کے ماہر جناب مولانا اشرف علی تھانوی
(بہشتی زیور کے مصنف)چار نکات کی وجہ سے اِس طریقہ کار کی مخالفت کرتے ہیں۔ اِسی طرح مغرب اور عرب کی یونیورسٹیوں کے بہت سے نامور اسلامی سائنس دان بکاؤ لے ازم کی وجہ سے پریشان ہیں۔ضیاالدین شاکر اپنے کتاب ”اسلامی سائنس میں دریافتیں
”Exploration in Islamic science“میں سائنسی معجزات کو مناظرہ کا’بُری قسم کااعتزار“ کہتا ہے۔پین سٹیٹ یونیورسٹی کے مسلم مؤرخ نعمان الحق بکاؤ لے ازم کے نقادوں میں سب سے آگے ہیں جو بکاؤ لے ازم کے سامنے آنے کی وجہ مسلمانوں میں پائے جانے والے گہرے احساس ِکمتری کو قرار دیتا ہے جنہیں آبادیا تی نظام نے تضحیک کا نشانہ بنایا اور جو اسلامی سائنس کی کھوئی ہوئی شان و شوکت کو دوبارہ حاصل کرنے کے لئے ہیں۔ایک او رنقاد مظفر اقبال ہیں جو البرٹا کینیڈا میں اسلام اور سائنس کے مرکز کے صدر ہیں۔
پاکستان کے نامور مسلم ماہر طبیعات پرویز ہود بائے لکھتے ہیں:
”ایسے دعوے کرنے والوں کا مسئلہ یہ ہے کہ اُن میں اِس بات کی وضاحت کرنے کی کمی ہوتی ہے کہ کیوں مقداری نظریہ،مالیکیولز کی ساخت وغیر ہ کو کہیں اَور دریافت ہونے کے لئے انتظار کرناپڑا۔اور نہ ہی کبھی کسی قسم کی مُستند پیشین گوئیاں کی گئیں۔اُن کے پاس اِس بات کی بھی کوئی دلیل موجود نہیں کہ اینٹی بائیٹکس،ایسپرین،بھاپ کے انجن،بجلی،ہوائی جہاز،یا کمپیوٹر پہلے مسلمانوں نے کیوں ایجاد نہیں کئے۔بلکہ ایسے سوالات پوچھنا توہین آمیز سمجھا جا تا ہے۔“
ترکی مسلمان فلسفی اور ماہر طبیعات ٹینر ادیس لکھتے ہیں:
”قرآن -سائنس( بکاؤ لے ازم)رقت انگیز ہے لیکن بہت سے مسلمانوں نے بھی اِس بات کو تسلیم کیا ہے۔جتنی انسٹیٹیوٹ فار کریشین ریسرچ مسیحیت کی ترجمانی کرتا ہے اُسی طرح یہ اُس سے زیادہ اسلام کا اظہار نہیں کرتی۔تاہم وہ احمقانہ شدت جو میں نے اُوپر بیان کی ہے وہ سائنس او رقدامت پسند اسلام کے درمیان مبہم تعلق کی وضاحت کرسکتی ہے۔جبکہ بہت سے ایمان دار
اِس مسئلے کے نظر انداز کرنے کو تیار ہیں اور قرآن مجید کے ساتھ مکمل سائنسی ہم آہنگی کا اظہار کرتے ہیں،کچھ ماہرین اَدراکی کا متعلقہ راستہ اپناتے ہیں،یا اِس بات پر زور دیتے ہیں کہ سائنس اسلام کی ساخت کردہ ہے،اِس لئے ہمیں فطر ت کی اسلامی نظریے کو تسلیم کرنا ہے۔“
ابو عمر یوسف قاضی جو ایک معروف واعظ اور ییل Yaleکے فارغ التحصیل ہیں،اُنہوں نے اپنی کتاب،”An Introduction
to the Sciences of the Quran"میں لکھا:
”دوسرے الفاظ میں قرآن مجید کی ہر تیسری آیت میں کوئی سائنسی سراب موجود نہیں ہیں جو اِس بات کے منتظر ہوں کہ چند پُر جوش،اعلیٰ تصوراتی مسلمان اُنہیں صفحہ ِ ہستی پر لے کر آئیں گے۔“
”اِسلامی سائنس“ کے حوالے سے،پاکستانی نوبل انعام یافتہ اور ماہر طبیعات جناب ڈاکٹر عبدالسلام لکھتے ہیں:
”صرف ایک عالمگیر سائنس ہے؛اِس کے مسائل اور اِس کے طریقے بین الاقوامی ہیں اور اسلامی سائنس جیسی کوئی چیز نہیں ہے جیسے کہ ہندو سائنس یا یہودی سائنس،یاکنفیو شین سائنس اور نہ ہی مسیحی سائنس ہے۔“
بکاؤ لے ازم کے مسائل
بکاؤ لے ازم کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کو کمزور پیش کرتا ہے جو ناقابل اعتراض حد تک واضح ہونے کے قابل نہیں ہے۔مثلاًاگر اللہ تعالیٰ کا ارادہ صرف زمین کی شکل ہی بیان کرنا تھا تو پھر اُس نے ایک ہی آیت کیوں نہ رکھی جو یہ کہتی کہ ”کیا تم نے نہیں دیکھا کہ ہم نے زمین کو چپٹا نہیں بلکہ گول بنایا ہے جو سورج کے گرد گھومتی ہے؟“یا اگر اللہ تعالیٰ کا ارادہ ٹیلی وژن کی پیشین گوئی کرنا ہوتا تو،وہ واضح طور پر یہ کہہ سکتا تھا کہ،”ایک دن لوگ اپنے گھروں میں بیٹھ کر ڈبوں میں تصویریں دیکھیں گے۔“ دوسری جگہوں پر خدا بڑی وضاحت سے بولتا ہے!…
کسی اَور کا بوجھ اُٹھانا؟
”حضرت عیسیٰ ہمارے گناہوں کا بوجھ نہیں اُٹھا سکتے،کیونکہ قرآن فرماتا ہے:’کوئی شخص دوسرے کے گناہ کا بوجھ نہیں اُٹھائے گا،
(38:53)“
ْْْقرآن کو اکثر اُن لوگوں نے جو اِس کے معنی سے واقف نہیں ہیں حضرت عیسیٰ مسیح کے عوضی کفارے کا اِنکار کرنے کیلئے غلط اِستعمال کیا ہے،
”جو باتیں موسیٰ کے صحیفوں میں ہیں اُن کی اس کو خبر نہیں پہنچی اور ابراہیم کی جنہوں نے (حق طاعت و رسالت)پورا کیا،’کوئی شخص دوسرے (کے گناہ)کا بوجھ نہیں اُٹھائے گا‘(36:53)“
جو کوئی بُرا کام کرتا ہے تو اُس کا ضرر اُسی کو ہوتا ہے اور کوئی شخص کسی دوسرے کا گناہ کا بوجھ نہیں اُٹھائے گا،(قرآن 164:6)
جیسے کہ قرآن یہ فرماتا ہے تو یہ توریت شریف (عبرانی صحائف)سے ہی اقتباس کرتا ہے:
”بیٹا باپ کے گناہ کا بوجھ نہ اُٹھائے گا اور نہ باپ بیٹے کے گناہ کا بوجھ۔صادق کی صداقت اُسی کے لئے ہو گی اور شریر کی شرارت شریر کے لئے۔“(حزقی ایل،20:18)
جب ہم اِس آیت کے سیاق و سباق کا جائزہ لیتے ہیں تو اِس بیان کا مقصد واضح ہو تا ہیں – یہ براہ ِ راست فرزندانہ ذمہ داری سے منع کرتا ہے،جو کہ ایک قدیم قانونی نظریہ ہے کہ ایک شخص کواپنے باپ یا بیٹے کے گناہ کی خاطر سزا دی جا سکتی ہے۔وسیع النظری میں یہ کسی شخص کو زبردستی کسی اَور شخص کے گناہ کے نتائج بھگتنے سے بھی منع کرتا ہے (حضرت عیسیٰ مسیح کے رضاکارانہ عوضی ہونے کے برعکس)۔
واقعی،ہم اِسے ایک عالمگیر اور حتمی اُصول کے طور پر نہیں لے سکتے:
1۔ قرآن خود اِس خاص اُصول کے عالمگیرانہ اطلاق سے تضاد رکھتا ہے۔ایسے شریر لوگوں کی بات کرتے ہوئے جو ناواقف لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں،قرآن فرماتا ہے:
”یہ قیامت کے دن اپنے (اعمال کے)پورے بوجھ بھی اُٹھائیں گے اور جن کو یہ بے تحقیق گمراہ کرتے ہیں اُن کے بوجھ بھی (اُٹھائیں گے) سن رکھو کہ جو بوجھ یہ اُٹھا رہے ہیں بُرے ہیں۔“(25:16)
اگر ہم (جھوٹ موٹ)اُصول کوعام اُصول کی بجائے حتمی قرار دیں تویہ براہ ِ راست 13:17-15 اور 38:53-42 سے تضاد رکھتا ہے
اِسی طرح تنویر المقباس من تفسیرابن عباس میں سورۃ 24:8-25 کی تفسیر میں لکھاہے:
(اور اس فتنہ سے ڈرو)کسی بھی فتنہ سے جو واقع ہو سکتا ہے (جو خصوصیت کے ساتھ اُنہی لوگوں پر واقع نہ ہو گا جو تم میں گناہ گار ہیں)بلکہ اِس کی بجائے وہ گناہ گاروں او رجس کے ساتھ بے اِنصافی ہوئی دونوں پر واقع ہو گا (او رجان رکھو کہ خدا سخت عذاب دینے والا ہے)جب وہ سزا دیتا ہے۔
اگر ہم اِس اُصول کی پیروی کرتے ہیں کہ قرآن کے مختلف حصے ایک دوسرے کی وضاحت کرتے ہیں،تو ہمیں اِس نتیجے پر پہنچنا ہو گا کہ یہ اُصول حتمی نہیں ہے لیکن وسعت میں محدود ضرور ہے۔
2۔ مزید یہ کہ یہ اُصول حضرت آدم پہلے ہی توڑ چکے ہیں۔ قرآن اور کتاب مقدس دونوں یہ بتاتے ہیں کہ حضرت آدم کے گناہ کے نتیجے میں پوری نسل ِ انسانی اب مزید کامل جنت میں نہیں رہ سکتی تھی مگر زمین پر زندگی بسر کرنے اور مرنے کے لئے سزاوار ٹھہری۔دوسرے الفاظ میں،ہم سب کو بھی کسی اَور کے گناہ کے نتائج بھگتنے تھے جسے ہم جنت سے بے دخل کئے جانے اور موت کا نام دیتے ہیں۔
حضرت آدم کے خدا کے اِس عام اُصول سے مُستشنیٰ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ خدا تعالیٰ نے حضرت آدم کو مقرر کیا کہ اِنسانیت کے تعلق سے ایک منفرد کردار رکھیں۔ حضرت آدم کی مانند حضرت عیسیٰ خدا تعالیٰ کی مرضی سے انسانیت سے ایک منفرد تعلق رکھتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ جیسے قرآن بیان کرتا ہے، کتاب مقدس بھی اُسے دوسرا آدم کہتی ہے (”عیسیٰ کا حال خدا کے نزدیک آدم کا سا ہے“(قرآن 59:3)۔
انجیل شریف کچھ یو ں بیان کرتی ہے:
”جیسے آدم میں سب مرتے ہیں ویسے ہی مسیح میں سب زندہ کئے جائیں گے“(۱-کر نتھیوں 22:15 اور 45:15 بھی دیکھئے)۔
جیسا کہ ہمارا حضرت آدم کے ساتھ ایک منفرد تعلق ہے،اُسی طرح ہم حضرت عیسیٰ مسیح کے ساتھ بھی ایک منفرد تعلق رکھ سکتے ہیں۔
اِس بات کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد کے لئے کہ کس طرح انصاف کے ایک اچھے اُصول کو محض نظر انداز کیا جا سکتا ہے،ہم اِس کا ایک اَور الہٰی اُصول کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں -”قتل نہ کرنا“۔یہ حکم کہ قتل نہ کرنا ایسے نظر انداز ہوسکتا ہے کہ جب ایک اعلیٰ ترین منصف کسی شخص (جلاّد) کو موت کی سزا دینے کے لئے مقرر کرے۔یہی بات کسی اَو رکا بوجھ نہ اُٹھانے کے اُصول پر صادق آتی ہے –
یہ صرف اُسی وقت مُستشنیٰ قرار دیا جا سکتا ہے جب اعلیٰ منصف (خدا تعالیٰ)کسی کو اُس خاص کام کے لئے مقرر کرے(عیسیٰ مسیح)
ایک اَور وجہ کہ حضرت عیسیٰ یہ عام طریقہ کار کیوں توڑتے یہ ہیں کہ تمام نسل ِ انسانی میں صرف و ہی بے گناہ ہیں۔خدا کے انصاف میں گناہ
دوسرے گناہ گار پیروں،مقدسین یا پاک لوگوں سے دعا کرنے سے معاف نہیں ہوسکتے،چاہے وہ کتنے ہی پاک باز اشخاص کیوں نہ ہوں،وہ تب بھی گناہ سے داغ دار ہیں۔چونکہ صرف حضرت عیسیٰ مسیح ہی کامل طور پر گناہ سے مبّرا ہیں اِس لئے صرف وہی خدا کی مرضی سے رضاکارانہ طورپر دوسرے کے گناہ کا بوجھ اُٹھانے کا حق رکھتے ہیں۔
آخر ی بات یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ مسیح کا عوضی کفارہ کتابِ مقدس کی نا قابل ِ انکارگواہی ہے جو باربار نہ صرف انجیل شریف میں بلکہ توریت شریف میں بھی دہرائی گئی ہے۔ہم اِس بات کا انکار کرنے کا چناؤکر سکتے ہیں کہ کوئی بھی دوسرے شخص کے گناہ کا بوجھ اُٹھا سکتا ہے لیکن اِس سے ہم جہنم کے سزاوار اور خدا کے رحم اورمعافی کے ذریعے کو ردّ کرنے والے ٹھہرتے ہیں۔ ہمیں خدا کے نجات کے انعام کو اچھے طریقے سے قبول کرنا ہو گا۔
…
کیا یعقوب او رپولُس ایک دوسرے سے تضاد رکھتے ہیں؟
کیا ایمان او راعمال کے بارے میں یعقوب اور پولُس ایک دوسرے کے ساتھ تضاد نہیں رکھتے؟“
بہت سے نقادیہ ظاہر کرنے کے لئے پولُس اور یعقوب کی تحریروں میں سے مخصوص آیات کا انتخاب کرنا پسند کرتے ہیں کہ یہ ابتدائی مسیحی قائدین آپس میں اختلاف رکھتے تھے۔تاہم،اگر آپ پورے نئے عہد نامے سے واقف ہیں تو یہ دلیل ردّ ہوجاتی ہے۔یعقوب اور پولُس
ایک سی انجیل پر ایمان رکھتے تھے اور اُسی کا اُنہوں نے پرچار کیا،اُنہوں نے محض اُن لوگوں کی ضرورت کے مطابق مختلف حصوں پر زوردیا جنہیں وہ لکھ رہے تھے۔ یہ وہ باتیں ہیں جن پر وہ دونوں ایمان رکھتے تھے:
شریعت اچھی ہے مگر اِس سے ہم نجات حاصل نہیں کر سکتے کیونکہ لوگ کُلّی طور پر اِس کی فرماں برداری نہیں کر سکتے۔تاہم،خدا نے نجات کے اپنے ذریعے کو ظاہر کیا جو یسوع کے وسیلے کفارے اور صلح صفائی ہے۔ ہمیں ایمان اور توبہ کے ذریعے اور ایک شاگرد بننے سے خُدا کی طرف سے نجات کی بخشش کو قبول کرنا ہے۔ بھلائی کے کام حقیقی ایمان کی ایک ضروری علامت یا نشان ہیں۔اگر کسی شخص کا ایمان بھلائی کے کام پیدا نہیں کرتا تو اِس کا مطلب یہ ہے
کہ وہ ایک حقیقی ایمان نہیں تھا(اور اُسے نہیں بچائے گا)۔اِس لئے ایمان او رکام دونوں ضروری ہیں مگر ایمان بنیادی چیز ہے۔چونکہ نجات
حضرت عیسیٰ مسیح کی ہماری خاطر کفارے سے ملتی ہے،اِس لئے نجات کو شریعت کے ذریعے سے حاصل کرنے کی کوشش کرنا بنیادی طور پر حضرت عیسیٰ مسیح کی مفت بخشش کا اِنکار کرناہے۔
پولُس اور یعقوب دونوں کی تحریریں اِس بات سے مطابقت رکھتی ہیں۔جس طرح نقاد الزام لگاتے ہیں کیا واقعی پولُس شریعت سے نفرت کرتا ہے؟آئیے!…
قربانی
قربانی
سُنی شریعت کے مطابق قربانی دینا واجب ہے فرض یا لازمی نہیں ہے۔جبکہ شعیہ فرقے میں قربانی صرف اُن لوگوں پر واجب ہے جو
مکہ میں حج کرتے ہیں اور محض چند لوگ اِس کی سے کر اِس کی مشق کرتے ہیں۔سو قربانی سے متعلق مختلف آراء پائی جاتی ہیں:
قرآن میں ہم کچھ یوں پڑھتے ہیں:
”ہم نے اُن کو(حضرت ابراہیم)ایک نرم دل لڑکے کی خوشخبری دی جب وہ اُن کے ساتھ دوڑنے کی (عمر)کو پہنچا تو ابراہیم نے کہا کہ بیٹا میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ (گویا)تم کو ذبح کر رہا ہوں تو تم سوچو کہ تمہارا کیا خیال ہے۔اُنہوں نے کہا کہ ابّاجو آپ کو حکم ہوا ہے وہی کیجیے
خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابروں میں پائیے گا۔جب دونوں نے حکم مان لیا اور باپ نے بیٹے کو ماتھے کے بل لٹا دیا تو ہم نے اُن کو پکارا کہ
اے ابراہیم تم نے خوا ب کو سچا کر دکھایا۔ہم نیکو کاروں کو ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں۔بلا شبہ یہ صریح آزمایش تھی اور ہم نے ایک بڑی قربانی کو اُن کا فدیہ دیا۔“(سورۃ الصّفّت 101:37-107)
اب اگر آپ کا بھتیجا سنے کہ اُس کا باپ کہتا ہے،”میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ مجھے تمہیں ذبح کرنا ہے“،تو اُس کا بیٹا کیا کہے گا۔اُسے اپنی ماں کو کہنا چاہئے کہ ابو جان پاگل ہو گئے ہیں،اُن کے سر پر ٹھنڈا پانی ڈالیں!آئیے!…
خدا کس سے محبت کرتا ہے؟
قرآن: خدا کس سے محبت کرتا ہے؟
خدا کی برکات سب کے لئے ہیں، اُس کی محبت اُن کے لئے ہے جنہیں اُس نے پہلے ہی سے نیک اعمال کے لئے مقرر کیا ہے:
”…اللہ تو انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔“ (8:60)
”اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔“ (9:49)
”اور جو ایمان لائے اور عمل نیک کئے رحمن اُن کی محبت مخلوقات کے دل میں پیدا کر دے گا۔“ (96:19)
”اللہ پاک رہنے والوں کو پسند کرتا ہے۔“ (108:9)
”بیشک اللہ بھروسہ رکھنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔“ (159:3)
اِسی طرح، قرآن کے مطابق خدا بے ایمانوں سے محبت نہیں کرتا:
”کہدو کہ اللہ اور اُس کے رسول کا حکم مانو۔ پس اگر وہ نہ مانیں تو اللہ بھی کافروں کو دوست نہیں رکھتا“(32:3)
”اللہ کسی ناشکرے گناہگار کو دوست نہیں رکھتا۔“ (276:2)
”اللہ کسی خیانت کرنے والے ناشکرے کو دوست نہیں رکھتا۔“ (38:22)
”اللہ ظالموں کو دوست نہیں رکھتا۔“ (57:3)
”اللہ تکبر کرنے والے بڑائی مارنے والے کو دوست نہیں رکھتا۔“ (36:3)
”اللہ حد سے بڑھنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔“ (87:5)
”اللہ بیجا اُڑانے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔“ (141:6)
”اللہ دغا بازوں کو دوست نہیں رکھتا۔“ (58:8)
”کافروں کا اللہ دشمن ہے۔“ (98:2)
”جن لوگوں نے ہماری آیتوں سے کفر کیا اُن کو ہم عنقریب آگ میں داخل کریں گے۔ جب کبھی اُن کی کھالیں گل جائیں گی تو ہم اُن کو اور کھالیں بدل کر دیں گے تا کہ ہمیشہ عذاب کا مزہ چکھتے رہیں۔ بیشک اللہ غالب ہے حکمت والا ہے۔“ (56:4)
بائبل: خدا کی غیر مشروط محبت
خدا کی محبت صرف متقی یا ایمانداروں کے لئے نہیں بلکہ سب لوگوں کے لئے ہے –یہ ایک سرگرم، ڈھونڈنے والی، پاس آنے والی محبت ہے جو گناہگاروں کو گناہ کے قبضے سے چھڑانے کی کوشش کرتی ہے اور اُنہیں توبہ اور ایمان کی طرف لے کر آتی ہے تا کہ خدا کے ساتھ اُن کی صلح صفائی ہو سکے:
”خدا …تحمل کرتا ہے اِس لئے کہ کسی ہلاکت نہیں چاہتا بلکہ یہ چاہتا ہے کہ سب کی توبہ تک نوبت پہنچے“ ( 2-پطرس 9:3)
”خدا اپنی محبت کی خوبی ہم پر یوں ظاہر کرتا ہے کہ جب ہم گنہگار ہی تھے تو مسیح ہماری خاطر موا۔“ (رومیوں 8:5)
”…یسوع مسیح راستباز۔ اور وہی ہمارے گناہوں کا کفارہ ہے اور نہ صرف ہمارے ہی گناہوں کا بلکہ تمام دُنیا کے گناہوں کا بھی۔“ (1-یوحنا 2:1-2)
”…خداکسی کی جان نہیں لیتا بلکہ ایسے وسائل نکالتا ہے کہ جلاوطن اُس کے ہاں سے نکالا ہوا نہ رہے۔“ (2-سموئیل 14:14)
”فریسی اور فقیہ اُس کے شاگردوں سے یہ کہہ کر بڑبڑانے لگے کہ تم کیوں محصول لینے والوں اور گنہگاروں کے ساتھ کھاتے پیتے ہو؟ یسوع نے جواب میں اُن سے کہا کہ تندرستوں کو طبیب کی ضرورت نہیں بلکہ بیماروں کو۔ میں راستبازوں کو نہیں بلکہ گنہگاروں کو توبہ کے لئے بلانے آیا ہوں۔“ (لوقا 30:5-32)
”پس ہم اِن باتوں کی بابت کیا کہیں؟ اگر خدا ہماری طرف ہے تو کون ہمارا مخالف ہے؟ …کون ہم کو مسیح کی محبت سے جدا کرے گا؟ مصیبت یا ننگی یا ظلم یا کال یا ننگاپن یا خطرہ یا تلوار؟“ (رومیوں 35،31:8)
خدا کی یہ محبت اُس کی فطرت کے مطابق ہے:
”جو محبت نہیں رکھتا وہ خدا کو نہیں جانتا کیونکہ خدا محبت ہے۔… محبت اِس میں نہیں کہ ہم نے خدا سے محبت کی بلکہ اِس میں ہے کہ اُس نے ہم سے محبت کی“ (1-یوحنا 10،8:4)
”میر حکم یہ ہے کہ جیسے میں نے تم سے محبت رکھی تم بھی ایک دوسرے سے محبت رکھو۔ اِس سے زیادہ محبت کوئی شخص نہیں کرتا کہ اپنی جان اپنے دوستوں کے لئے دیدے۔“ (یوحنا 13،12:15)
…
کیا حضرت عیسیٰ مسیح نے سؤر چُرائے؟
متی 28:8-34 – ”حضرت عیسیٰ مسیح نے سؤروں کا ایک غول چُرایا اور اُنہیں ہلاک کر دیا اِس لئے وہ ایک چور ہیں۔“
صاف ظاہر ہے کہ حضرت عیسیٰ مسیح نے سؤروں کا غول نہیں ”چُرایا“ حتیٰ کہ اُنہوں نے ہاتھ بھی نہیں لگایا؛سؤروں کو کسی چیز میں بھیج دینا مشکل ہی سے ”چوری“ سمجھا جا سکتا ہے۔
حقیقت میں کھوئے ہوئے سؤروں پر دھیان دینابالکل گناہ آلودہ سوچ ہے جو حضرت عیسیٰ مسیح اِس واقعہ کے ساتھ دکھانے کی کوشش کررہے تھے۔دنیاوی سوچ لالچ کے ساتھ املاک اور ملکیت کے حقوق پر لگی رہتی ہے جو کہ بدروح گرفتہ آدمی کی طرح کے لوگوں کے دُکھوں کو نظر انداز کرتی ہے۔حضرت عیسیٰ مسیح گاؤں والوں کی اِس ڈرامائی واقعہ کے ساتھ غلط ترجیحات کو چیلنج کرتے ہیں اور اِ س رُوح میں کہتے ہیں،”یہ آدمی جو دُکھ اور مصیبت سے آزاد کیا گیا وہ اُ س بات سے کہیں زیادہ اہم ہے جس پر آپ توجہ دیتے ہیں اور وہ ہے آپ کا مال و اسباب۔“
…
کیا حضرت عیسیٰ مسیح صرف یہودیوں کے لئے ہیں؟
بہت سے نقادیہ ظاہر کرنے کے لئے کہ حضرت عیسیٰ مسیح کو صرف یہودیوں کے لئے بھیجا گیا تھا،دو اقتباسات کی طرف نشان دہی کرنا پسند کرتے ہیں۔یہ تو ایسے کہنا ہے جیسے کہ محمدؐ صرف عرب لوگوں کے لئے بھیجے گئے تھے کیونکہ وہ عرب سے باہر کبھی نہیں گئے اور ایک جگہ قرآن فرماتا ہے،”ہم نے تم کو ایک عربی قرآن نازل فرمایا تاکہ تم مکہ او راِس کے اِرد گرد رہنے والوں کو خبردار کرو۔“ایسے غیر متوازی دعوے کرنے کے لئے آپ کو دوسری آیات کو چھپا نا یا نظر انداز کرنا ہوگا۔نیچے ہم اُن دو اقتباسات کا جائزہ لیں گے اور مجموعی طور پر ثبوت کا جائزہ لیں گے۔
متی 5:10 – ”صرف یہودیوں کو؟“
متی 10باب میں حضرت عیسیٰ مسیح اپنے شاگردوں کو عارضی سفر کے لئے بھیج رہے ہیں مگر اِس مرتبہ صرف یہودیوں کے پاس۔ہم جانتے ہیں کہ یہ ہدایات عارضی تھیں،جب کہ لوقا9باب اِس دئیے گئے کام کا خاتمہ درج کرتا ہے اور بعد میں حضرت عیسیٰ مسیح اُن چندابتدائی ہدایات میں خاص طور پر تبدیلی کی (لوقا35:22-36)۔
متی 21:15-28 – ”صرف یہودیوں کے لئے؟“
متی 21:15-28(مرقس23:7-30بھی)میں حضرت عیسیٰ مسیح ایک کنعانی عورت کو واضح کر رہے ہیں کہ کس طرح اُن کی بنیادی زمینی خدمت بنی اسرائیل کے لئے تھی۔اِس حوالہ او رمتی 10باب میں حضرت عیسیٰ مسیح کی اپنے شاگردوں کو ہدایات کویہ تجویز کرنے کے لئے کئی نقادوں نے بگاڑا کہ وہ صرف بنی اسرائیل کے لئے بھیجا گیا تھا۔اِس کے برعکس توریت شریف،زبور شریف او راناجیل میں دس مرتبہ سے زیادہ واضح اقتباسات موجود ہیں۔ صرف پولُس کے خطوط ہی کو دیکھیں جو انکار کئے بغیر یہ کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ مسیح کے پیغام کا مقصد پوری دنیا کے لئے تھا۔یہ سچ ہے کہ اُ ن کی زمینی خدمت یہودیوں کے لئے تھی کیونکہ حضر ت ابراہیم کے وقت سے بنی اسرائیل خُدا کے پیغام کے خادم تھے۔ اِس لئے حضرت عیسیٰ مسیح سب سے پہلے اسرائیل کے لئے پیغام لے کر آئے!…
حضرت عیسیٰ مسیح کبھی بھی نہیں مرے؟
متی 40:12 -(سوال نمبر2):”چونکہ حضرت یونس مچھلی کے پیٹ میں زندہ رہے،حضرت عیسیٰ مسیح بھی قبر میں زندہ ہو ں گے،اِس لئے درحقیقت حضر ت عیسیٰ مسیح صلیب پر نہیں مرے۔“
[see here for the related question of duration; 3 days & 3 nights]
دیدات نے آیت کے چند خاص حصے چُن چُن کر پیش کرنے اور دوسری آیات کو چھپانے سے صرف یہ دلیل قابل ِ یقین بنائی ہے۔اِس لئے پوری آیت یہ ہے جو حضر ت عیسیٰ مسیح نے فرمائی:
”کیونکہ جیسے یونا ہ تین رات دن مچھلی کے پیٹ میں رہا ویسے ہی ابن ِ داؤد تین رات دن زمین کے اندر رہے گا۔“(متی 40:12)
دیدات اِ س آیت کو یوں کاٹتا ہے، ”جیسے یوناہ …ویسے ہی ابن ِ آدم بھی“اِس آیت کے مرکزی خیال کو کاٹ دینا جو واضح طور پر(۱) آیت کا پہلا حصہ ہے (یعنی دورانیہ،تین دن اور تین راتیں)اور (۲) اُس وقت ایک بند جگہ پر رہے گا۔یہاں ایسا کوئی ذِکر موجود نہیں کہ آیا حضرت عیسیٰ مسیح یا حضرت یونس زندہ تھے یا نہیں کیونکہ یہ پیغام کا مرکزی نکتہ نہیں ہے۔اگر ہم دیدات کی منطق کو قبول کرتے ہیں تو آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ بات کس طرح حضر ت عیسیٰ مسیح کی مو ت کے بارے میں ایک ملتی جلتی نبوت پر لاگو ہوتی ہے:
”اور جس طرح موسیٰ نے سانپ کو بیابان میں اُونچے پر چڑھایا اُسی طرح ضرور ہے کہ ابن ِ آدم بھی اُونچے پر چڑھایا جائے تاکہ جو کوئی ایمان لائے اُس میں ہمیشہ کی زندگی پائے۔“(یوحنا 15,14:3)
یہاں موسیٰ کے بنائے ہوئے پیتل کے سانپ(دیکھئے گنتی 9:21) اور حضرت عیسیٰ مسیح کے درمیان ایک مماثلت پیدا کی گئی ہے،جن میں سے دونوں دوسروں کی نجات کا وسیلہ بننے کے لئے اُونچے پر چڑھائے گئے۔اِس لئے اگر ہم دیدات کی منطق کی پیروی کریں تو یہ آیت ثابت کرتی ہے کہ پیتل کے سانپ کی طرح حضرت عیسیٰ مسیح بھی صلیب سے پہلے،اُس کے دوران اور اُس کے بعد زندگی سے عاری تھے!…