پولُس رسول نے انجیل شریف چُرا لی؟

”پولُس نے حضرت عیسیٰ مسیح کا پیغام چُرا لیا اور اُسے اپنے مفاد ات کے مطابق بدل ڈالا۔“

کتاب مقدس یا کسی اور مُستند ذریعے سے ایسا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے کہ رسولی جماعت اور پولُس رسول کے درمیان کوئی بڑی کشمکش موجود تھی۔نقاد پولُس رسول اَور برنباس کے درمیان ایک بڑے اختلاف کے طور پر اعما ل39:15کے بارے میں مبالغہ آرائی کرنا پسند کرتے ہیں۔آئیے!…

اناجیل کا مصنف ہونا

”حضرت عیسیٰ مسیح کے حقیقی بارہ شاگردوں نے چاروں اناجیل میں سے ایک بھی انجیل نہیں لکھی۔“

ابتدائی کلیسیا، جس میں بہت سے مقدس متی،مقدس مرقس،مقدس لوقا او رمقدس یوحناکو شخصی طورپر جانتے ہیں،متفق تھی کہ چاروں اناجیل
مقدس متی،مقدس مرقس،مقدس لوقا او رمقدس یوحنانے ہی لکھی ہیں۔مقدس متی او رمقدس یوحنا دونوں حضرت عیسیٰ مسیح کے بارہ شاگردوں میں سے تھے،مقدس مرقس نے تمام واقعات مقدس پطرس (وہ بھی بارہ میں سے ایک تھا)سے سنے،اور مقدس لوقا پہلی نسل کی کلیسیا کا ایک سرگرم رُکن تھا۔ابتدائی کلیسیا کی تحریروں کا تاریخی ریکارڈ یہ بتاتا ہے کہ ابتدائی کلیسیا اِس بارے میں مُتفق الرائے تھی کہ یہ اصلی مصنفین تھے۔یہ محض گذشتہ چند صدیاں ہیں جب مُلحد علماء نے اِن اناجیل کی تاریخ کو نئی شکل دینے کی کوشش کی۔تاریخ کی اِس جھوٹی توضیح و تشریح
کے پیچھے کام کرنے والی بہت سی قوتیں تھیں:

معجزوں کا انکار – کچھ علما ء کا بنیادی مفروضہ یہ ہے کہ معجزات نہیں ہو سکتے اور نہیں ہوئے،اِ س لئے جتنے بھی واقعات میں معجزات درج ہیں وہ شاید خود سے کہانیاں بنائی گئی ہیں جو رفتہ رفتہ فروغ پاتی گئیں۔ اُن کی منطق یہ ہے کہ اگر کوئی متن تاریخی حقیقت کے طور پر کوئی معجزہ پیش کرتا ہے تو تحریر کا وہ پورا حصہ بھی اُسی طرح گھڑا او ربنایا گیا ہوگا۔اِس لئے جب اناجیل حضرت عیسیٰ مسیح کنواری سے پیدایش اور معجزات کو تاریخی حقائق کے طور پر لکھتی ہیں، تو پھر تمام سوانح حیات بتدریج مبالغہ آرائی میں ڈھلنے والی کہانی ہے جو کسی فرض کئے ہوئے مصنف سے نہیں لکھی جا سکتی تھی۔

نئے نظریات اور اشاعت کی ضرورت – حیاتیات اور طب پڑھنے والوں کے نزدیک،تعلیمی اعتبار سے اِس میں تقریباً لامحدود حد تک نامعلوم مواد تازہ تحقیق کا منتظر رہتا ہے۔تاہم،جہاں تک کتاب مقدس کا تعلق ہے، صدیوں سے تقریباًہر ایک آیت اور کتاب پربیش بہا تحقیقی کام موجود ہے۔ایک جدید عالم کو توجہ حاصل کرنے کے لئے کسی نئے نظریے پر مفروضہ قائم کرنا پڑتا ہے جس میں غالباًکچھ نئی آثارِ قدیمہ کی دریافتوں پر مبالغہ آرائی کی گئی ہوتی ہے۔آپ کو اُن باتوں کے لئے کوئی خراج تحسین نہیں ملے گا جو پہلے ہی کئی مرتبہ کہی جا چکی ہیں۔اکثر ”تاریخی حضرت عیسیٰ مسیح“ کی نئی تصاویر محض موجود ہ تعلیمی جنون کو پیش کرتی ہیں۔جب مارکس ازم بہت مشہور تھا تو حضرت عیسیٰ مسیح
کو مارکسی کے طور پر پیش کیاگیا؛جب تصوف مشہور تھا تو جد ید علما نے اُسے ایک صوفی کا رُوپ دے دیا۔جدیدعلمائے کرام کا تاریخی
حضرت عیسیٰ مسیح بھی اکثر محض اُن کی اپنی سوچ اور جنون کی تصویر پیش کرتا ہے۔

تاریخی -تنقیدی طریقے کو زیادہ گراں قدر سمجھنا – کتاب مقدس کے مطالعے کے طریقہ کار تنقید اعلیٰ اور صورت کی تنقید تاریخ کو دوبارہ سے تشکیل دینے کی کوشش ہیں جو ادبی انداز اور موازنے پر مبنی ہیں۔یہ مطالعہ کے لئے گراں قدر طریقہ کار ہیں اور یہ ماضی کے متعلق ہمار ی تصویر کو واضح کرتے ہیں۔مسئلہ تب ہوتا ہے جب علمائے کرام سادہ تاریخی ریکارڈ پر یقین رکھنے کے بجائے ادبی تجزیوں کو بہت مُستند طریقہ کار سمجھتے ہیں اور تکبّر میں آ کر یہ فرض کرتے ہیں کہ وہ دو ہزار سال بعد بھی اُس وقت کے لوگوں کی نسبت قدیم واقعات کو زیادہ جانتے ہیں۔اِس لئے مثال کے طور پر ہمارے پاس نسخہ جات کی شہادت موجود ہے کہ وہ لوگ جو بارہ شاگردوں کو جانتے تھے،اُنہوں نے کہا کہ متی کی انجیل مقدس متی نے ہی لکھی،لیکن دو ہزار سال بعد علماء غرور میں آ کر یہ قیاس کر تے ہیں کہ اِن ابتدائی قائدین کی نسبت زیادہ جانتے ہیں۔

یونانی انجیل

”یونانی انجیل حضرت عیسیٰ مسیح کی اصلی انجیل نہیں ہو سکتی،کیونکہ حضرت عیسیٰ مسیح عبرانی یا ارامی بولا کرتے تھے۔“

ذاکر نائیک نے دعویٰ کیا ہے،

”اگرچہ حضرت عیسیٰ مسیح عبرانی بولا کرتے تھے،لیکن جو اصلی نسخہ جات آپ کے پاس ہیں وہ یونانی میں ہیں“۔1

یہ سچ ہے کہ غالباًحضرت عیسیٰ مسیح عبرانی سمجھتے تھے اگرچہ اُن کی مادری زبان عبرانی نہیں تھی بلکہ گلیل میں بولی جانے والی ارامی زبان تھی۔ یونانی اُس وقت کی بین الاقوامی زبان تھی اِس لئے یہ فلستین میں وسیع پیمانے پر بولی جاتی تھی۔علما ئے کرام کہتے ہیں کہ بڑھئی ہونے کی وجہ سے حضرت عیسیٰ مسیح یونانی بھی جانتے تھے۔کبھی کبھار اُن کی تعلیم ارامی میں ہو گی جبکہ کبھی یہ یونانی میں ہو گی (مثلاً جب وہ سورفینیکی عورت سے بات کر رہے تھے، مرقس 26:7-30 )۔یہ واضح ہے کہ نیا عہد نامہ (انجیل شریف)اصل میں کوئنے یونانی میں لکھی گئی تھی نہ کہ ارامی سے ترجمہ کی گئی تھی۔کوئنے یونانی زبان کتب مقدسہ کے لئے بالکل مناسب زبان تھی کیونکہ یہ اُس وقت دنیا میں زیادہ سمجھی جانے والی زبان تھی۔کتب مقدسہ صرف خاص ”اعلیٰ“سامی زبانوں میں ہی نازل نہیں کی گئی ہیں۔قرآن خود فرماتا ہے کہ یہ اِس لئے ”عربی میں نازل کیا ہے تاکہ تم سمجھ سکو۔“(2:12)

  1. Zakir Naik, The Qur’ān and the Bible in the Light of Science.

عبرانی میں پرانا عہد نامہ ناپید ہے؟

“موجودہ عبرانی پرانا عہد نامہ یونانی ترجمے سے ترجمہ کیا گیا ہے جب کہ اصلی عبرانی متن اب دستیاب نہیں ہے۔”

ذاکر نائیک شرم ناک حد تک دعویٰ کرتا ہے،

“پرانا عہد نامہ جو اصل عبرانی میں ہے اب دستیاب نہیں ہے۔کیا آپ جانتے ہیں؟پرانے عہد نامے کا جو عبرانی ترجمہ موجود ہے وہ یونانی ترجمے سے کیا گیا ہے۔حتیٰ کہ اصلی پرانا عہد نامہ جو عبرانی میں ہے وہ اب عبرانی زبان میں موجود نہیں ہے۔”
1

نائیک کا یہ دعویٰ کہ پرانا عہد نامہ اصل عبرانی میں موجود نہیں ہے،بالکل غلط ہے۔حضرت مسیح سے صدیوں قبل کے عبرانی پرانے عہد نامے کے سینکڑوں طومار موجود ہیں جو بحیرہئ مردار یا قمران کے طومار کہلاتے ہیں۔یہ پرانے عہد نامے کے قدیم ترین نسخہ جات کو پیش کرتے ہیں۔ اِس دریافت سے پہلے عبرانی پرانے عہد نامے کے قدیم ترین نسخہ جات یونانی ترجمہ میں موجود تھے جنہیں سپٹواجینٹ کہا جاتا ہے،جس کے حوالہ جات ابھی تک علماے کرام دیتے ہیں۔ حتیٰ کہ عبرانی پرانے عہد نامے کے سیکڑوں نسخہ جات مسوراتی روایت میں موجود ہیں جو حیران کُن حد تک بالکل ویسے ہی ہیں جیسے قمران کے قدیم نسخہ جات ہیں۔جیسے کہ علمِ آثارِ قدیمہ مزید قدیم عبرانی طومار دریافت کرتا ہے،تو مزید حیران کُن مطابقت ملتی ہے۔یہ کہنابالکل جھوٹ ہے کہ موجودہ عبرانی متن یونانی سے ترجمہ کیا گیا ہے۔


Zakir Naik, The Quran and the Bible in the Light of Science.

کیا ہر مسیحی گروہ کے پاس اپنی کتاب مقدس نہیں ہے؟

”کیا ہر مسیحی گروہ کے پاس اپنی کتاب مقدس نہیں ہے؟“

مسیحیت کی تمام شاخیں -کیتھولک،پروٹسٹنٹ،آرتھوڈو کس،لوتھرن،اینگلیکن،پینتی کاسٹل وغیرہ کے پاس بالکل ایسی ایک جیسی توریت شریف (تورہ)،زبور شریف (مزامیر)،اور انجیل شریف (نیا عہد نامہ)ہیں۔حتیٰ کہ اگر آپ یہودیوں کی توریت شریف یا زبور شریف کا
مسیحیوں کی کتابوں سے موازنہ کریں تو یہ بالکل ویسی ہی ہیں (اگرچہ اُن کی ترتیب مختلف ہے)۔اِس لئے تمام تینوں متون جنہیں قرآن اختیار مانتا ہے،وہ پوری مسیحی اور یہودی دنیا میں بالکل یکساں ہیں۔

پروٹسٹنٹ اور غیر پروٹسٹنٹ میں واحد فرق یہی ہے کہ کیا اُن میں انبیا کی کتب (کتاب الانبیاء)میں ’اپاکرفا‘ بھی شامل ہیں یا نہیں۔ یہ ’اپاکرفا‘ کتابوں کا ایسا مجموعہ ہے،جسے کیتھولک بھی کتاب مقدس کی فہرست میں ”ثانوی“ درجہ دیتے ہیں۔بالکل ایسا ہی جھگڑا اسلام میں بھی دیکھا جا سکتا ہے،جہاں چند شیعہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ قرآن میں دو اَور سورتیں بھی ہیں جنہیں سُنیوں نے نکال دیا ہے۔ایسے مسائل قبول شدہ کلام اللہ کے مُستند ہونے کو ردّ نہیں کرتے۔

کیا یعقوب اور پولُس ایک دوسرے سے تضاد رکھتے ہیں؟

“متی 9:9 -کیا متی نے متی کی انجیل لکھی؟”

نقادوں نے بحث کی ہے کہ چونکہ متی یہاں اپنی طرف واحد غائب کے طور پر اشارہ کرتا ہے اِس لئے وہ اِس انجیل کا مصنف نہیں ہو سکتا:

”یسوع نے وہاں سے آگے بڑھ کر متی نام ایک شخص کو محصول کی چوکی پر بیٹھے دیکھااور اُس سے کہا میرے پیچھے ہولے۔وہ اُٹھ کر اُس کے پیچھے ہو لیا۔“(متی 9:9)

یہ بہت کھوکھلی سی دلیل ہے۔جب کثیر سامعین و قارئین ایک وسیع سامع کے لئے تاریخی واقعات لکھنا ہو تو مصنفین کے نزدیک یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں کہ وہ اپنے لئے واحد غائب کا صیغہ استعمال کریں۔اِسی کمزور دلیل کی وجہ سے پھر قرآن بھی اللہ تعالیٰ کا کلام نہیں ہونا چاہئے کیونکہ اِس میں اُس کی طرف مسلسل واحد غائب کے صیغہ میں اشارہ کیا گیا ہے:

هُوَ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ
”وہی خدا ہے جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔“(سورۃ22:59)

اگر مقدس متی یا مقدس یوحنا کااپنے لئے صیغہ واحد غائب استعمال کرنا اُنہیں کتابوں کے مصنفین ہونے کا اہل قرار نہیں دیتا تو پھر یہی بات
قرآن کے بارے میں بھی کہنا چاہئے۔ 

ابتدائی تمام مسیحی اندراج اِس بات میں کوئی شک نہیں رکھتے کہ متی کی انجیل مقدس متی رسول ہی نے لکھی ہے۔اِس کے بر عکس کوئی بھی بیان نہیں ملتا۔انجیل شریف کے خلاف یہ بیان بالکل کھوکھلا ہے جو خالص اندازے پر مبنی ہے اور اِس کی منطق قرآن کو بھی کمتر کر دیتی ہے ۔

کلیسیا میں اندرونی کشمکش

"ابتدائی مسیحی کلیسیا کے اندر جھگڑے پھیلے ہوئے تھے اِس لئے ہم یہ نہیں جان سکتے کہ بالآخر کس کی انجیل شامل کی گئی۔"

اسلامی تاریخ کے مقابلے میں ابتدائی کلیسیا کہیں زیادہ متحد تھی۔حضرت محمد کی وفات کے بعد مسلم گروہوں کے درمیان مسلسل جنگیں ہوتی ر ہیں۔نبی کریم کی بیوہ حضرت عائشہ نے نبی کریم کی موت کے بعد25سال سے بھی کم عرصے میں حضرت علی سے لڑنے کے لئے ایک فوج تیار کی اور اُنہیں جنگ جمل میں شکست ہوئی۔۳۲ ہجری میں ایک فارسی غلا م فیروز نے خلیفہ حضرت عمر کو قتل کر دیا۔35ہجری میں ناخوش مسلمانوں نے حضرت عثمان کو قتل کر دیا۔خودحضرت علی کو40 ہجری میں ایک دوسرے مسلمان گروہوں نے قتل کر دیا۔61ہجری میں یزید کی قیادت میں مسلم فوجوں نے حضرت محمد کے خاندان کی مزاحمت کرنے والی نمائندہ مسلم فوجوں کو کُچل دیا۔اور بھی بہت سے دوسرے گروہوں کے خلاف جنگیں جاری رہیں جیسے کہ مُسیلمہ جس نے حضرت محمد کے نبی ہونے کو قبول کیا تھا لیکن اُس نے اپنے بھی نئے مکاشفات شامل کر لئے۔کہ مُسیلمہ کے ایک لاکھ مضبوط پیروکاروں نے 633ہجری میں الیمامہ کی جنگ میں حضرت محمد کی فوجوں کو تقریبا ً شکست دے دی تھی۔

مقابلتاًیسوع کے پیروکاروں کے ابتدائی گروہ نے کم از کم ڈھائی صدیوں تک ایک بھی جنگ یا ایک بھی مسلح جھگڑانہ کیا،اور نہ ہی رسولوں کے دَور میں اُن کے درمیان کسی قسم کے گھمبیر جھگڑ ے کا ذکر ملتا ہے۔ جیسے کہ تاریخی اِندارج وسیع پیمانے پر ظاہر کرتا ہے وہ ایک ہی انجیلی پیغام پر متفق تھے۔

کیا کلیسیا کتاب مقدس کو سیاسی مقاصد کے لئے تبدیل نہیں کر سکتی تھی؟

"کیا کلیسیا کتاب مقدس کو سیاسی مقاصد کے لئے تبدیل نہیں کر سکتی تھی؟"

نقاد یہ الزام لگاتے ہیں کہ جب سے یورپی کلیسیا سیاسی قوت کی جدوجہد او رسیاسی مفادات کے ساتھ منسلک ہو ئی ہے،اِنہوں نے اپنی تعلیمات او رصحائف کی بنیاد سیاسی طور پر تحریک یافتہ مسائل پر رکھ دی ہے۔یہ یقینا درست ہے کہ سیاسی قوت مذہبی انتظام کو خراب کرتی ہے مگر یہ الزام سراسرکلیسیا کی تاریخ کی غلط فہمی پر مبنی ہے۔حضر ت یسوع المسیح کے بعد تین صدیوں تک (311عیسوی تک)مسیحیت ایک غیر قانونی مذہب تھا جس پر مشرکانہ سلطنت کی طرف سے پابندی عائد تھی۔یہ ایک زیر زمین ستایا ہوا نیٹ ورک تھا جس کی کوئی سیاسی طاقت نہ تھی۔311عیسوی میں رومی حکمران قسطنطین نے مسیحیت کو قانونی مذہب قرار دے دیا اور رفتہ رفتہ کلیسیا ایک سیاسی طاقت والی تنظیم بن گئی۔325عیسوی میں نقایہ کی کونسل کلیسیا میں سیاسی روابط کا شروعات سمجھی جاتی ہے۔

تب بھی اللہ تعالیٰ کی مرضی سے ہمارے پاس نقایہ سے پہلے اور 311عیسوی کے سیاسی کلیسیا ئی دَور سے پہلے کے لاتعداد نسخوں کے ثبوت موجود ہیں کہ صحائف اور انجیل کا پیغام کلیسیائی سیاست سے پہلے بھی بالکل وہی صحائف اور انجیل شریف تھا جو آج ہمارے پاس ہے۔ مثلاً ہمارے پاس لوقا،یوحنا او ر200عیسوی صدی سے پولُس رسول کے دس خطوط پیائرس پر نقول کی صورت میں موجود ہیں اور ابتدائی افریقی کلیسیا کے رہنما طرطلیان نے اپنی ساری تحریروں میں (200عیسو ی سے)3,800مرتبہ اناجیل کا حوالہ دیا ہے۔

اِسی طرح 311عیسوی سے پہلے کی بے شمار فہرستوں کو بھی ہم جانتے ہیں جب اِس بات پر کوئی جھگڑا نہیں تھا کہ نئے عہد نامے میں کتنی اناجیل تھیں۔311عیسوی سے پہلے اور بعد میں ہر فہرست میں چار اناجیل شامل ہیں اوراِس کے علاوہ کوئی اَور نہیں ہے۔اِس لئے اِس بات کے بے شمار ثبوت موجود ہیں کہ کلیسیا کے سیاسی ہونے سے پہلے انجیل اور نیا عہد نامہ وہی تھا جو آج ہمارے پاس ہے۔ابتدائی ایذا رسانی کے دور میں یہ یقین کرنا احمقانہ بات ہے کہ ایمان داروں نے اپنی الہٰی رہنمائی کو تبدیل کرنے سے خود کو دھوکا دیا ہو گا جب کہ اُن کے عقائد کے بدلے دنیاوی فائدہ کچھ بھی نہیں تھا۔اُنہیں جو فائدہ مل سکتا تھا وہ خدا تعالیٰ کے کلام کی وفاداری سے پیروی کرنے پر موت کے بعد اُس کی طرف سے ابدی اَجر ملنے کی اُمید تھی۔

حضرت عیسیٰ مسیح کے ابتدائی شاگردوں کی جماعت مکمل طور پر اسلامی تاریخ کی پہلی دو صدیوں سے تضاد رکھتی ہے جب خلیفہ کے اعلیٰ ترین مذہبی اختیار نے بڑی سیاسی مملکت پر بھی حکمرانی کی۔اِس دور میں لڑی جانے والی زیادہ تر جنگیں مذہبی معاملات پر لڑی گئیں (جیسے کہ ردا(Ridda)کی جنگیں)۔اِس مرحلے پر "بہت سی" جھوٹی احادیث خاص سیاسی گروہ یا بادشاہ کی حمایت میں ارادتاً لکھی گئی تھیں۔ ۲؎ ایک وقت میں حضرت محمد کے قریب ترین رشتے داروں اور ساتھیوں نے اپنا اقتدار سیاسی مذہبی حکومت کے ہاتھوں کھو دیا، کہ جب حضرت محمد کے جائز خونی رشتے دار نے کربلا کے میدان میں غیرمذہبی خلیفہ یزید کے خلاف جنگ ہار دی،یا جب حضرت عثمان ؓ کے سرکاری قرآن مجید نے اورابنِ مسعود اور أ بی ابن ِ کعب جنہیں حضرت محمد نے بہترین قاری قرار دیا تھا ۴؎ اور جنہوں نے حضرت عثمان ؓ کی قرآن کی جلد کی مخالفت کی تھی،کے قرآن کو ختم کر ڈالا۔ ۵؎ ابن ِ مسعودکا قرآن مجید حضرت عثمان ؓ نے زبردستی لے لیا اور حضرت عثمان ؓ نے اپنے ایک خادم سے کہا کہ وہ ابن ِ مسعود کو اُس کی پسلیاں توڑتے ہوئے مسجد سے باہر نکال دے۔ ۶؎ ہم یہ الزام نہیں لگاتے کہ قر آن کو خاص طور پر تبدیل کیا گیا تھا۔بلکہ یہ اُس موازنہ کو پیش کرتی ہے جو ابتدائی مسیحیت میں سیاسی اثرات کی معاون عدم موجودگی وضاحت سے بیان کرتی ہے۔ عیسیٰ مسیح کے شاگردوں کے پاس پہلی تین صدیوں میں کوئی طاقتور سیاسی قائدین نہیں تھے جو نقایہ کی کونسل سے پہلے اپنے نظریات دوسروں تک زبردستی یا دباؤ دے کر پہنچاتے۔دراصل اِس عرصے کے دوران ایمان داروں کی بنیادی توقعات حد درجہ تک بڑھتا ہوا تشدد اور ظلم وستم تھا۔


  • For example the canon of Origen (A.D.185–254),