کیا یرمیاہ 8:8بیان کرتاہے کہ توریت شریف تبدیل ہو گئی تھی؟
یرمیاہ 8:8 – ”یہ حوالہ ثابت کرتا ہے کہ توریت شریف بگڑ چکی ہے۔“
”تم کیوں کر کہتے ہو کہ ہم تو دانش مند ہیں اور خدا وند کی شریعت ہمارے پاس ہے؟لیکن دیکھ لکھنے والوں کے باطل قلم نے بطالت پیدا کی ہے۔“(یرمیاہ 8:8)
وہ لوگ جو یرمیاہ کے مرکزی خیال سے واقف ہیں، وہ جانتے ہیں کہ یہ آیت صحائف کی جھوٹی تشریح (تفسیر)کی تعلیم کی بات کر رہی ہے نہ کہ متن کی تبدیلی کی۔یہ بات واضح ہے کہ یرمیاہ نے خُدا تعالیٰ کی شریعت کی پائداری پر شک نہیں کیا،کیونکہ وہ باربار اسرائیل کو شریعت کی پیروی کی تلقین کرتاہے کہ جو خُدا تعالیٰ نے ”تمہارے سامنے رکھی“(یرمیاہ 4:26)۔یہ بات اُس کے لئے تضاد کا باعث ہو گی کہ وہ لوگوں کو ایسی شریعت کی فرمانبرداری کرنے کا کہے جو تبدیل ہو چکی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ یہ آیت یہ تعلیم نہیں دے سکتی کہ توریت شریف تبدیل ہو چکی ہے۔یرمیاہ کے دنوں میں، اسرائیلیوں نے سوچا کہ خُدا اُن کی بت پرستی کو نظر انداز کرے گا اور کبھی سزا نہ دے گا۔یہود ی فقیہوں، کاہنوں اور نبیوں نے گناہ آلودہ اسرائیل کو توریت شریف کے ایسے حصے نہ پہنچاکر جن میں نافرمانی کرنے پر عدالت کرنے کی پیشین گوئی کی گئی تھی، شَہہ دی اور توریت شریف کے صرف ایسے حصے پہنچائے جن میں سلامتی کی پیشین گوئی کی گئی تھی۔یرمیاہ کا اُن کے لئے خُداتعالیٰ کی طرف سے مجموعی پیغام یہ تھا،”تم سب نافرمانی کے سبب ہلاک ہونے والے ہو،جیسے کہ شریعت واضح طور پر کہتی ہے مگر فقیہ ایسے نہیں کہہ رہے۔“جلد ہی یرمیاہ سچا ثابت ہوا کیونکہ فوراً اسرائیل بابلیوں کے ہاتھوں برباد ہو گیا۔
جب ہم اُس کے بعد کا متن دیکھتے ہیں تویہ واضح ہو جاتا ہے کہ یرمیاہ یہاں کیا کہہ رہا ہے۔یرمیاہ فقیہوں (دینی اُستادوں) کی ملامت کررہاتھا جو توریت شریف کی ایسی آیات کو بالکل نہیں پہنچاتے تھے جو واضح طور پر نافرمانی کی عدالت کی پیش گوئی کرتی ہیں، اور چھانٹ چھانٹ کر توریت شریف میں سے ایسی آیات پہنچا رہے تھے جو (فرماں برداری کی اوّلین شرط کو نظر انداز کرتے ہوئے)تسلی اور امن کی پیشین گوئی کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ شریعت کے بالکل برعکس اپنی تقریروں،تبصروں اور تحریروں میں یہ فقیہ پیشین گوئی کر رہے تھے۔
اگر یرمیاہ یہ کہہ رہا تھا کہ فقیہ نے دراصل متن تبدیل کیا تو اِس کا مطلب یہ ہو گا کہ اُنہوں نے نافرمانی کے حوالے سے عدالت کی واضح تنبیہ مٹاڈالیں۔لیکن ہم اب بھی یہ تنبیہ استثنا15:28-68کے متن میں پاتے ہیں۔صاف ظاہر ہے کہ یہ آیت مقدس کلام کے متن کے بگاڑ کے بارے میں بات نہیں کر رہی اور نہ صرف کتاب مقدس بلکہ قرآن بھی یہی تعلیم دیتا ہے کہ اللہ کا کلام تبدیل نہیں ہو سکتا۔,
یرمیاہ کی طرح حضرت مسیح بھی توریت کی شریعت کو نظرا نداز کرنے اور اِس کے بجائے تالمود کی تعلیم دینے کی وجہ سے یہودی فقیہوں کے
مخالف تھے۔آپ نے واضح طور پر کہا،
”میَں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک آسمان اور زمین ٹل نہ جائیں ایک نقطہ ایک شوشہ توریت سے ہر گز نہ ٹلے گاجب تک سب کچھ پورا نہ
ہو جائے۔“(متی 18:5)
اِس سے زیادہ واضح بات نہیں کی جاسکتی۔اَور بھی بہت سی آیات ہیں جو اِسی بات کی تعلیم دیتی ہیں:زبور89:119؛امثال5:30؛
یسعیاہ 8:40؛1 -پطرس23:1؛1 -پطرس25:1؛2 – پطرس 20:1؛2 -تیم 16:3۔یہ بہت دھوکے کی بات ہے کہ اِس طرح کی آیت سیاق و سباق سے باہر لی جائے اور یہ ثابت کیاجائے کہ متن تبدیل ہو چکا ہے جبکہ اِس کے ساتھ سیکڑوں واضح آیات موجود ہیں جو اِس کے برعکس بات کرتی ہیں۔یہ ایسے کہنا ہے کہ جیسے قرآن تعلیم دیتا ہے کہ ”عزرا اللہ تعالیٰ کا بیٹا“ہے،یہ صرف ہم اِس لئے کہتے ہیں کیونکہ یہ الفاظ قرآن میں پائے جاتے ہیں (30:9)۔
…
کیا قرآن کتاب مقدس کا ذِکر کرتا ہے؟
”قرآن ہر گز بائبل مقدس کا ذِکر نہیں کرتا،صرف توریت شریف،زبور شریف او رانجیل شریف کا ذِکر کرتا ہے۔“
دراصل انگریزی کا لفظ ”بائبل“ ایک یونانی اصطلاح ”ببلیا“ کا ترجمہ ہے جس کا مطلب ہے،”کتابیں“۔جب یہودیوں اور مسیحیوں کے صحائف ایک ہی سمجھے گئے، تو اِس کے لئے لاطینی اصطلاح نے ”کتاب“ کا اشارہ دینا شروع کیا۔عربی میں یہ الکتاب یا الکتاب
المقدس ہے کیونکہ بائبل کو ہمیشہ عربی زبان میں یہی کہا گیا ہے۔حضرت محمد سے پہلے او ربعد میں بھی عربی مسیحیوں نے ہمیشہ وہی اصطلاح استعمال کی جو قرآن استعمال کرتا ہے۔قرآن مسیحیوں او ریہودیوں کو اہل ِ کتاب کہتا ہے جس کا مطلب ہے،”کتاب کے لوگ“اوریہ فرماتا ہے کہ وہ الکتاب پڑھتے ہیں۔
”اور یہودی کہتے ہیں کہ عیسائی رستے پر نہیں اور عیسائی کہتے ہیں کہ یہودی رستے پر نہیں۔حالانکہ وہ کتاب (الکتاب)پڑھتے ہیں۔“
(سورۃ البقرۃ 113:2)
”اے اہل ِ کتاب (خدا)تم (علمائے)ربانی ہو جاؤ کیوں کہ تم کتاب ِ (خدا)پڑھتے پڑھاتے رہتے ہو۔“(سورۃ آل عمران79:3)
الکتاب کی نسبت اَور کوئی قریب ترین لفظ عربی میں نہیں ہے جو بائبل کے لئے استعمال کیا جا سکتاہو۔تورات،توراۃ ہے،زبور شریف مزامیر ہے اور انجیل شریف ایونجل(eungel)جو ایک ایسی اصطلاح ہے جو مجموعی طور پرچار اناجیل یا پورے نئے عہد نامے کے لئے استعمال ہوتی ہے۔اگر قرآن کا مطلب کچھ اَور ہوتاتو پھر وہ یقینا اُس کا ذِکر کرتا،اِس لئے اُس وقت اِن عربی الفاظ کامطلب یہی تھا۔
…
چار مختلف اناجیل؟
”اُن کی چار مختلف اناجیل کیوں ہیں؟“
خُدا تعالیٰ اندھا ایمان،غیر تنقیدی،بِنا سوچے سمجھے قبولیت نہیں چاہتا،بلکہ وہ اپنی سچائی کچھ اِس طریقے سے پیش کرتا ہے کہ جو تشکیک پرستوں (skeptics) کو بھی کافی ثبوت پیش کرتی ہے۔چار مختلف چشم دید گواہوں کے بیان حضرت عیسیٰ مسیح کے معجزات، پیغام،موت اورمُردوں میں سے جی اُٹھنے پر مبنی ہیں جن سے انکار کرنا بہت مشکل ہے۔کوئی بھی شخص کسی ایک چشم دید گواہ کے واقعات کی گواہی پر شک کر سکتا ہے اور کوئی سوال اُٹھا سکتا ہے،بلکہ کئی بیانات پر سوال اُٹھانا بہت مشکل ہے۔
توریت شریف نے یہودیوں کے لئے ایک اہم اُصول چھوڑا:”کسی شخص کے خلاف دو گواہوں یا تین گواہوں کے کہنے سے بات پکی سمجھی
جائے“(اِستثنا15:19)۔توریت شریف کے اُصولوں کے مطابق یہودیوں کو قائل کرنے میں،کئی چشم دید گواہوں کے بیانات کی ضرورت تھی۔قرآن اور کتاب مقدس دونوں سے ہم جانتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ مسیح خود ”کلمتہ اللہ“ یعنی خدا کا کلام تھے،اور انجیل شریف کے صحائف محض حضرت عیسیٰ کے متاثر کُن پیغامات او رکاموں کی گواہی ہیں۔
چار اناجیل ہونے کی آخری دلیل یہ ہے کہ ایک یکساں کئے جانے والے بیان کے بجائے چار مختلف تناظر زیادہ باروشن /بصارت والے ہیں،کیونکہ ہر ایک چشم دید گواہ کے واقعات حضرت یسوع مسیح کی خدمت کے ایک نئے پہلو پر زور دیتے ہیں یا اُسے سامنے لاتے ہیں۔
180عیسو ی میں اِرینیس نے چاروں اناجیل (مقدس متی،مقدس مرقس،مقدس لوقا،مقدس یوحنا)کے بارے میں لکھا:
”یہ ممکن نہیں ہے کہ اناجیل یا تو زیادہ ہو سکتی یا کم۔چونکہ جس دنیا میں ہم رہتے ہیں اُس کے چار حصے ہیں،اور چار بڑی آندھیاں ہیں،
جب کہ کلیسیا پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے اورکلیسیا کے ”ستون اور زمین“ انجیل شریف او رزندگی کی روح ہے؛یہ مناسب ہے کہ اُس کے چار ستون ہوں تاکہ ہر طرف سے بدی باہر نکل سکے اور آدمیوں کو تازگی ملے …کیو نکہ زندہ جاندار چار صورتیں رکھتے ہیں، اور انجیل چار پہلوی ہے،کیونکہ یہی راستہ ہے جسے خُداوند نے بھی اختیار کیا۔
یہ ا ِرینیس مقدس یوحنا کا ”روحانی پوتا“ تھاکیونکہ پولی کارپ نے اُس کی تربیت کی تھی جسے خود مقدس یوحنا نے تربیت دی تھی،جوحضرت یسوع مسیح کا پیارا شاگرد اور یوحنا کی انجیل کا مصنف تھا۔
…
انجیل شریف نازل کی گئی؟
"قرآن انجیل شریف کو یوں بیان کرتا ہے کہ وہ نازل کی گئی ہے؛لیکن موجود ہ انجیل شریف حضرت عیسیٰ کے پیروکاروں نے لکھی تھی۔"
"نازل کی گئی" کی عربی اصطلاح کا مطلب یہ نہیں کہ آسمان سے گرائی گئی یا نبی کے ذریعے دی گئی۔اِس کا زیادہ تر عام فہم مطلب اللہ کا عطا کردہ انعام ہے۔یہی "نازل کی گئی" کی اصطلاح 25:57میں لوہے کے لئے استعمال کی گئی ہے:"ہم نے لوہا پیدا کیا؛اور اِس میں خطرہ بھی شدید ہے اور لوگوں کے لئے فائدے بھی ہیں اور اِس لئے کہ جو لوگ … خدا اوراُس کے پیغمبروں کی مدد کرتے ہیں خدا اُن کو معلوم کرے۔
…
ابتدائی مبصرّین کی رائے
ذاکر نائیک جیسے نقادوں کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ وہ اُن ابتدائی مبصّرین سے تضاد رکھتا ہے جو یہودیوں او رمسیحیوں کے صحائف کو بڑی قدر سے دیکھتے تھے۔اِس بات کا ذکر سعید عبداللہ نے اپنے اخبار یہودیوں او رمسیحیوں کے صحائف پر تحریف کا الزا م میں کیا ہے۔وہ یہ نتیجہ اَخذ کرتا ہے:
چونکہ یہودیوں اور مسیحیوں کے مُستند صحائف آج بھی بالکل اُسی طرح موجود ہیں جس طرح حضور اکرم کے زمانے میں موجود تھے تو اِس بات پر بحث کرنا مشکل ہے کہ انجیل شریف او رتوریت شریف کے لئے قرآن میں موجود حوالہ جات صرف اُس خالص انجیل شریف یا توریت انجیل کی طرف تھا جو بالترتیب حضرت موسیٰ،حضرت عیسیٰ مسیح کے زمانے میں موجود تھی۔اگر متن کسی حد تک اُسی حالت میں موجود ہے جس طرح ساتویں صدی عیسوی میں تھا،تو اُس وقت جو تعظیم قرآن نے اُنہیں دی وہ آج بھی ویسے ہی قائم رہنی چاہئے۔قرآن کے بہت سے مفسر طبری سے لے کر رازی تک اور ابن تیمیہ،حتیٰ کہ قطب تک یہی نظریہ بیان کرتے نظر آتے ہیں۔
مجموعی طور پر جدید دَور میں بہت سے مسلمانوں کا یہودیت او رمسیحیت کے صحائف کے لئے نفرت انگیز رویہ رکھنے کی نہ تو قرآن اور نہ ہی
تفسیر کے بڑے علماء کی تحریروں میں حمایت دکھائی دیتی ہے۔
عبداللہ ابن ِ عباس
ابن ِ عباس نے کہا کہ،
”لفظ ”تحریف“(بگاڑ)کسی چیز کی اپنی اصلی حالت سے تبدیلی کو ظاہر کرتا ہے؛اور پھر یہ کہ کوئی بھی شخص ایسا نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دئیے گئے کلام میں سے ایک بھی لفظ کو بگاڑ سکے،اِس لئے یہودی او رمسیحی صرف اللہ کے کلام کے الفاظ کے مطلب کو غلط پیش کر سکتے تھے۔“
ایک دوسری کتاب میں ابن ِ عباس کا بیان دہرایا گیا ہے:
”وہ الفاظ کو بگاڑتے ہیں“ اِس کا مطلب ہے،”وہ اِس کے مطلب کو ختم کر دیتے یا تبدیل کرتے ہیں۔“تاہم کوئی بھی شخص اِس قابل نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے کلام میں ایک بھی لفظ کو تبدیل کرے۔اِس کا مطلب ہے کہ وہ لفظ کی تشریح غلط کرتے ہیں۔
ابن ِ کثیر نے بھی ابن ِ عباس کے اِس بیان کو لکھا ہے:
”جہاں تک اللہ تعالیٰ کی کُتب کا تعلق ہے،وہ اب تک محفوظ ہیں اور تبدیل نہیں ہو سکتیں۔“
یہ تفسیر عبداللہ ابن ِ عباس کی ہے جو حضور اکرم کے چچا زاد بھائی اور اُن کے صحابہ کرام میں سے ایک تھے۔چونکہ وہ ایک صحابی ہیں اِس لئے اُن کی آراء دیگراُن تمام اشخاص کی آراء اور تبصروں سے بالا تر ہے جو صحابی نہیں ہیں۔ ذاکر نائیک کیا سوچتا ہے کہ وہ کون ہے جو بڑے اعتمادسے ابن ِ عباس جیسی شخصیت سے تضاد رکھتا ہے؟
طبری (وفات 855عیسوی)
معروف مفسر علی طبری بڑا واضح یقین رکھتے تھے کہ یہودی اور مسیحی اب تک وہی اصلی صحائف رکھتے تھے جو اُنہیں اللہ تعالیٰ نے عطا کئے تھے۔
”..سب
…
سورۃ المائدہ 46:5 رہنمائی اور روشنی تھی یا ہے؟
"قرآن کی سورۃ المائدۃ 46:5میں فرماتی ہے کہ انجیل شریف میں رہنمائی اور نور تھا(فعل ماضی)۔”
یہ دعویٰ عربی متن کو غلط طور پر سمجھنے کی بنیاد پر کیا گیاہے۔عربی میں یہ جملہ کچھ یوں ہے “الإِنجِيلَ فِيهِ هُدًى وَنُورٌ“; ،جس کا لغوی ترجمہ کچھ یوں ہے "…اِس میں رہنمائی اور نور ہے …"اِس میں کوئی فعل نہیں ہے،یہ محض زمانہ حال ("ہے")استعمال کرتا ہے۔عربی میں زمانہ حال کے جملوں میں فعل"ہونا"("کانا")کی ضرورت نہیں پڑتی۔اِس طرح عربی میں "آدمی بڑا ہے" کے لغوی معنی ہیں "آدمی بڑا۔"یہ زمانہ سیاق و سباق سے اخذ کیا گیا ہے۔مشہور بنگالی مصنف ڈاکٹر لطف الرحمان نے اپنی کتاب دھرما جیون میں اِس آیت پر درج ذیل الفاظ میں تبصرہ کیا ہے:
"کون اللہ تعالیٰ کے تمام صحائف پر حقیقی ایمان رکھتا ہے؟قرآن شریف کے ساتھ میَں نے کبھی کسی کو انجیل شریف (کتاب مقدس)،زبور شریف یا توریت شریف کو پڑھتے نہیں دیکھتا۔بہت سے مسلمان حضرت عیسیٰ کی توہین کرتے ہیں۔قرآن فرماتا ہے رہنمائی اور نور انجیل شریف میں ہے۔میَں نے کسی ایک شخص کو بھی انجیل شریف لینے کی کوشش کرتے نہیں دیکھا!پہلے
…
صحائف کے لئے خالص زبان عربی ہے؟
”صحائف کے لئے خالص زبان عربی ہے۔“
چند لوگوں کے نزدیک،صحائف اللہ تعالیٰ کا کلام ہے، جو دُنیا کی تخلیق سے بھی پہلے کی ابدی کتاب کی نقل ہے۔یہی بطور جادوئی تعویذ،منتر
کے عربی میں قرآنی آیات کے استعمال کی بنیاد ہے،کیونکہ یہ یقین کیا جاتا ہے کہ یہ آیات اللہ تعالیٰ کی باتیں ہیں۔ اِس بات کی بنیاد پر موازنہ کیا جاتاہے جو کتاب مقدس کو بدنام کرتا ہے۔پھر بھی بڑی آسانی سے یہ نظر آتا ہے کہ قرآن کے بارے میں یہ نقطہء نظر احمقانہ اور نامعقول ہے۔
قرآن کی عربی مسلسل مرتب اور تبدیل ہونے والی زبان کی فوری تصویرپیش کرتی ہے(تاریخی زبانیں واضح طور پر یہی ثبوت دیتی ہیں کہ زبانیں مسلسل بدلتی ہیں،خاص طور پر زبانی ثقافتوں میں جیسے کہ اسلام سے پہلے کا عرب)۔اِس زبان کو اللہ تعالیٰ کی ابدی زبان سمجھنے کا نقطہء نظر اللہ تعالیٰ کو حقیر سمجھنا ہے (نعوذ بااللہ)؛یہ اُسے کم تر کر دیتا ہے۔اللہ تعالیٰ انسان کی مانند نہیں ہے کہ وہ چند عارضی انسانی زبانوں کے ذریعے اپنے خیالات کو الفاظ،زبان اور دانتوں سے بیان کرے،نعوذ بااللہ!…
آدمیوں کا کلام یا اللہ تعالیٰ کا کلام؟
”قرآن تمام کا تمام اللہ تعالیٰ کا کلام ہے لیکن بائبل اللہ تعالیٰ کا کلام،نبیوں کے اپنے الفاظ،اور مؤرّخین یا بیان کرنے والے کے الفاظ کا مجموعہ ہے۔“
یہ اعتراض کُلّی طور پر اِس بات کی غلط سمجھ پر مبنی ہے کہ دراصل ’اللہ تعالیٰ کا کلام‘(کلمتہ اللہ)ہے کیا۔نقاد سوچتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا کلام اِس کے سوا اَور کچھ نہیں کہ وہ صیغہ واحد حاضر کے بیانات ہیں جو اللہ تعالیٰ سے انسان کو دئیے گئے ہیں،یعنی یہ خُدا تعالیٰ کے زبانی کلمات کا ریکارڈ ہے۔یہ غلط خیال دراصل پھر قرآن کو بھی اللہ تعالیٰ کا کلام ہونے کے لئے ردّ کر دے گاکیونکہ اِس معیار کے مطابق قرآن بھی ویسے ہی اللہ تعالیٰ کے کلام،آدمیوں کے الفاظ،اور حتیٰ کہ حضرت جبرائیل ؑ کے الفاظ پر مشتمل ہے۔قرآن زیادہ تر خُداکے صیغہ واحد حاضرمیں انسانوں سے خطاب پر مشتمل ہے۔تضاد کے طورپر،سورۃ فاتحہ انسان کی خدا سے دعا ہے۔اِسی طرح،سورۃ مریم میں حضرت جبرائیل ؑ کا بیان ہے:”ہم تمہارے پروردگار کے حکم کے سوا اُتر نہیں سکتے“(63:19)۔مسلمان مُبصّرین کے مطابق،یہ مکاشفہ دینے کے عرصے کے درمیان طویل وقفوں کی شکایت کے جواب میں حضرت جبرائیل ؑ فرشتے کے الفاظ ہیں۔
اِس لئے غلطی سے ”اللہ تعالیٰ کے کلام“ کی کی گئی تعریف ایسا ہرگز نہیں کرے گی۔”اللہ تعالیٰ کا کلام“ کازیادہ درست مطلب ”اللہ تعالیٰ کا پیغام“ ہے – ” ہ اُس کا ایک مکمل پیغام ہے جو ہر وہ چیز ظاہر کرتا ہے جو ہماری”زندگی اور دین داری“ کے لئے ضروری ہے۔خدا کی مرضی تاریخی واقعات اور کئی انبیائے کرام کے ذریعے ظاہر کی گئی اور خدا نے چند خاص لوگوں کو بالکل اُسی طرح یہ تاریخ لکھنے کی تحریک بخشی جس
طرح اُس نے چاہا تاکہ یہ درست طریقے سے اُس کی سچائی اور مرضی کو ظاہر کرے۔ درحقیقت،یہ خُدا تعالیٰ کے کلام کی کاملیت کی خوبصورت علامات میں سے ایک ہے کہ خود اِس میں وہ سب کچھ موجود ہے جو ایمان کی زندگی کے لئے ضروری ہے۔اِس بات کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں کہ کون سی حدیث مُستند ہے اور اِس بات کا فیصلہ کرنے کی ضرورت نہیں کہ خُدا تعالیٰ کیا چاہتاہے۔خُدا تعالیٰ کے کلام میں خود ہر وہ چیز موجود ہے جسے ہمیں جاننے کی ضرورت ہے۔یہ بھرپور اور مکمل ہے،انسان کے لئے اللہ تعالیٰ کی کُلّی مشاورت۔
انجیل شریف میں حضرت عیسیٰ مسیح کے رسولوں کی تحریریں شامل ہیں اُس کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔زیادہ تر انبیائے کرام جیسے حضرت یسعیاہ اور حضرت یرمیاہ،اُن کے سلسلے میں خُدا تعالیٰ نے اُنہیں ”کلمتہ اللہ“ کی صورت میں ایک خاص پیغام دیااور اِس طرح انبیاء کرام کا وہ کلام خاص ”کلمتہ اللہ“ تھا۔تاہم،حضرت مسیح دوسرے انبیائے کرام کی نسبت مختلف تھے کیونکہ وہ اپنی ذات میں خود ”کلمتہ اللہ“ تھے،اللہ تعالیٰ کا بھیجا ہوا زندہ پیغام۔اِس وجہ سے اُس کے صحائف بھی مختلف ہیں۔وہ اِس ”کلمتہ اللہ“کے اعمال اور الفاظ کے الہٰی تحریک سے لکھے ہوئے واقعات ہیں جو حضرت مسیح کے شاگردوں نے روح القدس کی تحریک سے لکھے۔
…
انسان کی بنائی ہوئی کہانیاں؟
”قرآن کے علاوہ،کتاب ِ مقدس اور باقی تمام صحائف پڑھنے پر انسان کی بنائی ہوئی کہانیاں لگتے ہیں -’ابتدا میں‘وغیرہ۔“
دراصل زیادہ تر مذاہب کے صحا ئف پڑھنے میں کہانیاں معلوم نہیں ہوتے بلکہ وہ انسانی کہانیوں کی نسبت باطنی اظہارِ خیال سے زیادہ ملتے جلتے ہیں۔
ہم جانتے ہیں کہ خدا تعالیٰ ایک عظیم پیغام رساں ہے۔اِس لئے جب خدا تعالیٰ انسانوں تک اپنی مرضی کو پہنچانے کے لئے انسانی زبان استعمال کرتا ہے تو ہمیں محض یہ توقع رکھنی چاہئے کہ یہ کسی مخفی یا باطنی،بے ربط سے خیال سے مشابہت نہیں رکھتی بلکہ یہ ایک تعارف،سامنے آنے والے مکاشفہ اور نتیجے کے ساتھ اُس کے ایک مکمل اورمنظم منصوبے کی پیش کش ہے۔اور یہی ایک طریقہ ہے جس سے عقلی خبر رسانی ہے۔ یہی وہ کچھ ہے جو ہمیں کتاب ِ مقدس میں ملتا ہے۔ اگر ایک انسانی نصاب کی کتاب یا مضمون میں من مانی کرتے ہوئے،بے ربط طریقے سے ہر 2 – 5 جملوں کے بعد موضوع تبدیل ہو جائے،جیسے کہ چند مذہبی متون میں ہوتا ہے، تو تعلیمی روایت رکھنے والے لوگ اِسے ایک بُری خبر رسانی کے طور پر ردّ کر دیں گے۔
خدا تعالیٰ عظیم ہے اور انسانی زبان سے بالاتر ہے لیکن جب انسانوں پر اپنی کامل مرضی ظاہر کرتا ہے تو وہ ایک اعلیٰ ترین واضح پیغام رساں ہوتا ہے۔اگر اُس کا کلام اُلجھانے والا،بے ربط اور ناکافی،کئی مرتبہ ایک مضمون سے دوسرے مضمون پر چلے جانے والا ہوتا تو اِس ناکافی اور مبہم کلام (نعوذ بااللہ)کی وضاحت کرنے کے لئے عام انسانوں نے دوسری واضح کتابیں مرتب کر لی ہوتیں۔ لیکن پوری تاریخ میں خدا تعالیٰ نے اپنے تمام کاموں کو واضح کر نے کے لئے اپنی حکمت میں ہر قانون،تعلیم اور الہٰی نظریے کے ساتھ جسے ہمیں جاننے کی ضرورت ہے، اپنی آسمانی کتب مکمل طور پر نازل کیں۔
لیکن خداتعالیٰ واضح پیغام رساں ہے،اور اعلیٰ ترین پیغام رساں ہے،جو سہل،ذی عقل،واضح پیغام رسانی کا ماہر ہے۔یہ واقعی ایک معجزہ ہے کہ آسمانی صحائف،جو 40مختلف انبیا ئے کرام کے ذریعے 2000سال کے عرصہ میں لکھئے گئے،اُن میں اتنا واضح اتفاق ہو سکتا ہے،جس میں ایک تعارف(پیدایش1-11)،سامنے آنے والا منصوبہ،اور نتیجہ شامل ہے۔یہ ہر اُس بات کی مکمل پیش کش ہے جسے انسانوں کو خدا کی مرضی کے بارے میں جاننے کی ضرورت ہے اور اِس میں کچھ باقی نہیں چھوڑاگیا۔اِس میں کسی اضافی حدیث،نصابی کتاب یا کسی اَور انسانی اختراع کی ضرورت نہیں۔ایک دور دراز کے جنگل کے قبیلے کا شخص جس کے پاس اُس کی اپنی مادری زبان میں کتاب مقدس موجود ہو،اُس کے پاس خدا تعالیٰ کی سچائی کو سمجھنے کے لئے ہر وہ چیز ہو گی جس کی اُسے ضرورت ہے۔
مورس بیکاؤلے نے الزام لگایا ہے کہ خوشخبری رولینڈ کے گیت کی مانند ہے،”جو غیر حقیقی روشنی میں ایک حقیقی واقعہ کو مربوط کرتا ہے۔“دلیل یہ ہے کہ اناجیل کے لکھنے کا مطمع نظر تخلیقی تھا کہ تاریخی۔آکسفورڈ کا جانا پہچاناماہر سی۔ایس۔ لوئیس جو بیکاؤلے کے برعکس طویل عرصے تک رومانی ادب کا عالم تھا،وہ درج ذیل الفاظ میں گواہی دیتاہے:
مجھے (نیا عہد نامہ کے)نقادوں پر بھروسا نہیں۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اُن میں ادبی پرکھ کی کمی ہے اور جو متن وہ پڑھ رہے ہیں اُس کو سمجھنے سے قاصر ہیں …اگر وہ مجھے بتائے کہ انجیل شریف میں کچھ کہانی ہے یا رومان ہے،تو میَں اُس شخص سے پوچھتا ہوں کہ اُس نے کتنی کہانیاں اور کتنی رومانی داستانیں پڑھی ہیں …میَں اپنی ساری زندگی نظمیں،رومانی داستانیں،رویائی ادب،کہانیاں،تصوراتی کہانیاں پڑھتا رہا ہوں۔میں جانتا ہوں کہ وہ کس طرح کی ہوتی ہیں۔میں جانتا ہوں کہ اُن میں سے کوئی بھی اِس (انجیل شریف)کی مانند نہیں ہیں۔
بہت سے نامور مؤرّخین کے مطابق،عبرانی صحائف انسانی تاریخ میں پہلی اصلی تاریخی تحریریں ہیں،کیونکہ وہ اپنے آباواجداد کے نام کو اُونچا نہیں کرتے بلکہ اُن کی کمزوریاں بھی بتاتے ہیں۔رسولوں نے اِس روایت کی پیروی کی:
”ہم نے دغا بازی کی گھڑی ہوئی کہانیوں کی پیروی نہیں کی تھی بلکہ خود اُس کی عظمت کو دیکھا تھا۔“(2 -پطرس 16:1)
”اِس لئے اے معزز تھیفلُس میں نے مناسب جانا کہ سب باتوں کا سلسلہ شروع سے ٹھیک ٹھیک دریافت کر کے اُن کو تیرے لئے ترتیب سے لکھوں۔تاکہ جن باتوں کی تُو نے تعلیم پائی ہے اُن کی پختگی تجھے معلوم ہو جائے۔“(لوقا3:1-4)
…
صحائف پرانے ہو چکے ہیں؟
”قرآن کے آنے سے اُسے توریت شریف اور انجیل پر سبقت مل گئی ہے اور وہ غیر متعلقہ ہو گئی ہیں۔“
مسلمانوں کے درمیان یہ ایک وسیع خیال موجود ہے کہ”قرآن کے آنے سے اُسے توریت شریف اور انجیل پر سبقت مل گئی ہے اور وہ غیرمتعلقہ ہو گئی ہیں“۔یہ شاندار الزام قرآن یا حدیث میں کوئی بنیاد نہیں رکھتا یہ محض ایک رائے ہے جو قرآن سے تضاد رکھتی ہے۔
اگر یہ الزامات درست ہوتے تو پھر قرآن یہودیوں او رمسیحیوں کو یہ ہدایت نہ کر رہا ہوتا:”جب تک تم تورات اور انجیل کو اور جو (اَور کتابیں)تمہارے پروردگار کی طرف سے تم لوگوں پر نازل ہوئیں اُن کو قائم نہ رکھو گے کچھ بھی راہ پر نہیں ہو سکتے۔“(سورۃالما ئدہ 68:5)،
اِس کی بجائے یہ بھی کہا جا سکتا تھا،”تمہاری کوئی بنیاد نہیں ہو سکتی جب تک تم توریت شریف اور انجیل شریف کو قرآن ِ کے حق میں ختم نہیں کر دیتے۔“قرآن یہ نہیں کہتا:”اور اہل ِ انجیل کو چاہئے کہ جو احکام خدا نے اِس میں نازل فرمائے ہیں اُس کے مطابق حکم دیا کریں۔“(سورۃ المائدہ 47:5)بلکہ یہ کہتا کہ،”اہل ِ انجیل کو انجیل کو بھول جانا چاہئے اور قرآن کے مطابق حکم دیں۔“
اِس سے یہ بات واضح ہے کہ قرآن نے کبھی بھی پچھلے مکاشفات کی تبدیلی کا الزام نہیں لگایابلکہ اِس کے بجائے ”صاف عربی زبان“
(195:26)میں اُن کے اب تک مُستند ہونے (48:5)کی تصدیق کرتا ہے۔اگر ہر ایک صحیفہ حقیقت میں اپنے پچھلے صحیفے کو ترک کرتا ہے تو پھر ہم حضرت مسیح سے توقع کریں گے کہ اُنہوں نے توریت شریف کو ردّ کیا ہو گامگر اِس کے برعکس اُنہوں نے اِس کی اب تک قائم اور مُستند ہونے کی تصدیق کی اور خدا تعالیٰ کی اگلی کہانی انجیل شریف کا اضافہ کیا۔
منسوخ؟ ”ہم جس آیت کو منسوخ کر دیتے یا اُسے فراموش کرا دیتے ہیں تو اُس سے بہتر یا ویسی ہی اَو رآیت بھیج دیتے ہیں۔ کیا تم نہیں جانتے کہ خدا ہر بات پر قادر ہے؟“(سورۃ البقرۃ 106:2)
تاہم یہ آیت بالکل واضح ہے کہ منسوخ کا اشارہ کس طرح ہے یعنی انفرادی طورپر لکھی گئی قرآنی آیات نہ کہ کتابیں۔جب ہم تمام سیکڑوں احادیث کا جائزہ لیتے ہیں جو اِس منسوخ کے نظریے کی طرف اشارہ کرتی ہیں تو یہ بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ یہ آیت قرآنی آیات کی طرف اشارہ کر رہی ہے نہ کہ کسی کتاب کی طرف۔
غلَط مماثلتیں – وہ جو توریت شریف او رانجیل شریف کو متروک سمجھتے ہیں وہ اکثر مشابہتوں سے بحث کرتے ہیں جیسے کس طرح پرانے کمپیوٹر پروسیسرز کی جگہ نئے کمپیوٹرز نے لے لی ہے، یا نئی حکومتیں نئے آئین لے کر آتی ہیں۔تاہم،ایسی مشابہتیں اِس لئے پیش نہیں کی جا سکتیں کیونکہ پروسیسرز اور آئین اِس لئے بدلے جاتے ہیں کیونکہ وہ کامل نہیں ہوتے۔یہ خدا تعالیٰ کی توہین ہے کہ یہ کہا جائے کہ اُس باری تعالیٰ کا کلام نامکمل ہے۔کیا خدا ایسا پیغام دے گا جو غیر مناسب یا عیب والا ہو؟یہ کہنا کہ صحائف یا کلام غیر مناسب ہیں، خدا تعالیٰ کی توہین ہو گی،کیونکہ یہ اُس کے ساتھ انسانی حدود منسوب کرناہے۔جب خدا تعالیٰ کوئی کلام دیتا ہے تو یہ کامل ہوتا ہے اُس کے ”بدلنے“ کی کبھی ضرورت نہیں پڑتی۔
درست مماثلتیں – ایک ایسی مماثلت جو خدا تعالیٰ کے کلام کی بالکل مناسب عزت و تعظیم کرتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ بعد کا آنے والا صحیفہ کسی اَن کہی کہانی کے ابواب یا جلدوں کی صورت میں کام کرتا ہے جن کا ہر ایک حصہ خدا تعالیٰ کے سارے منصوبے کو سمجھنے کے لئے بہت اہم ہے۔
کلام کے صحائف کو کسی عمارت کی منزلوں یا درجوں کے ساتھ بھی مماثلت دی جا سکتی ہے۔اگر آپ بنیاد کی عمارت کو ہٹا دیں تو باقی تمام منزلیں بھی گِر جائیں گی۔اس کا ذکر سورۃ المائدۃ 68:5میں کیا گیا ہے:
”کہو کہ اے اہل ِ کتاب جب تک تم تورات اور انجیل کو اور جو (اور کتابیں)تمہارے پروردگار کی طرف سے تم لوگوں پر نازل ہوئی اُن کو قائم نہ رکھو گے کچھ بھی راہ پر نہیں ہو سکتے۔“(سورۃ المائدۃ 68:5)
صحائف یا کلام متضاد نہیں ہو سکتے– یہ ممکن ہو سکتا ہے کہ ایک زمانے میں خدا تعالیٰ نے ایک قبیلے کوایک خاص قانون کی پیروی کرنی کی ہدایت کی ہے اور بعد میں ایک اَور قوم کو ایک مختلف قانون کی پیروی کی ہدایت کی ہو،یہ دلیل قابل ِ قبول ہے۔لیکن اگر ایک صحیفہ یہ سکھاتا ہے کہ
نجات شریعت کے وسیلے سے حاصل نہیں کی جاسکتی بلکہ خدا تعالیٰ کے واحد اور ایک ہی نجات کے ابدی انتظام کے وسیلے سے حاصل ہوسکتی ہے تو خدا تعالیٰ کا کلام ہوتے ہوئے یہ بیان کبھی بھی تبدیل نہیں ہو سکتا۔ہر صحیفے کی اپنی اہمیت ہے۔ انجیل شریف کا مرکزی نکتہ یہ بات ہے کہ نجات کیسے حاصل کی جائے جبکہ قرآن کا بنیادی نکتہ بت پرستوں کو روزِعدالت کی تنبیہ ہے۔
…