عیسیٰ مسیح کی ایک انجیل یا آپ کے شاگردوں کی چار انجیلیں؟
“قرآن صرف ایک انجیل کا ذِکر کرتا ہے جو عیسیٰ کو دی گئی، لیکن آج کی انجیل آپ کے شاگردوں نے لکھی۔”
اگرچہ بہت سے لوگ اِس تصوراتی خیال کو مانتے ہیں تاہم نہ ہی نبی اسلام اور نہ ہی جناب عیسیٰ نے کوئی کتاب تحریر کی۔ اُن کی کتابیں سب سے پہلے اُن کی وفات کے بعد لکھی گئیں۔
مگر دوسری کتابوں کے مقابلہ میں انجیل ایک فرق طرح سے دی گئی۔ اگر زیادہ تر نبیوں کو دیکھا جائے جیسے یسعیاہ ا ور یرمیاہ، تو خدا تعالیٰ نے اُنہیں ایک خاص پیغام عنایت کیا جسے “خدا کا کلام” کہا جاتا ہے ، سو نبی کی کتاب وہ خاص “کلام خدا” تھی۔ تاہم، انجیل اور قرآن دونوں میں یسوع کو لاثانی طور پر “کلمتہ اللہ” کہا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ بذات خود بنیادی کلام ہے۔دوسرے نبی تو ایک تحریری “کلام خدا” لانے کے لئے آئے مگر عیسیٰ مسیح کے معاملہ میں یہ بات بالکل اُلٹ تھی۔ وہ بذات خود خدا کا زندہ کلام تھے،سو تحریری صورت میں موجود انجیل بنیادی مطمع نظر نہیں تھی بلکہ عیسیٰ مسیح مرکز نگاہ ہیں۔ انجیل مقدس تو سادہ طور پر الہامی گواہی پر مشتمل بیان ہے جس میں زندہ کلام خدا کی زندگی اور تعلیمات مرقوم ہیں۔ عیسیٰ مسیح نے اپنے شاگردوں کو یہ کام تفویض کیا کہ وہ دُنیا کے سامنے آپ کی تمام تعلیمات کی گواہی دیں (متی 28: 18-20)۔آپ نے اُن سے یہ بھی وعدہ کیا کہ روح القد س اُنہیں اِن سب باتوں کی یاد دِلائے گا (یوحنا 14: 26)۔خدا کے زندہ کلام کی بابت اِس مقدس پیغام کو محفوظ کرنے کے لئے آپ کے شاگردوں اور اُن کے ساتھیوں نے الہامی تحریک سے عیسیٰ مسیح کے حالات زندگی اور تعلیمات کو انجیل مقدس میں تحریر کیا۔
قرآن میں مذکور انجیل کی بابت کیا کہا جائے؟ قرآنی علما اِس بات پرمتفق ہیں کہ عربی لفظ “انجیل” درحقیقت ایک عربی لفظ نہیں ہے بلکہ یونانی لفظ “εὐαγγέλ” (evangel) کا ترجمہ ہے جیسے کہ انگریزی زبان کا لفظ “gospel” ہے۔ سو، لفظ انجیل کے معنٰی کو جاننے کے لئے ہمیں سب سے پہلے یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اِس لفظ کا اُن لوگوں کے نزدیک کیا مفہوم تھا جنہیں نے اِسے استعمال کیا۔انجیل ایک ایسی اصطلاح ہے جسے عربی، فارسی، اُردو اور ترکی بولنے والے مسیحی اپنے صحائف کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ لفظ “evangel” کے تین متوازی معانی ہیں جنہیں ابتدائی مسیحیوں اور قرآن دونوں نے استعمال کیا ہے:
- عیسیٰ مسیح کا پیغام: لفظی معنٰی کے لحاظ سے “انجیل” کا مطلب “خوشخبری” کا پیغام ہے۔ عیسیٰ مسیح کے تعلق سے اِ س کا مطلب مسیح کی نجات اور خدا کی بادشاہی کے بارے میں تعلیم ہے۔
- عیسیٰ مسیح کی زندگی کا بیان: “evangel” کا مطلب عیسیٰ مسیح کی زندگی کا ایک بیان بھی ہے جیسے متی ، مرقس، لوقا اور یوحنا کی معرفت لکھے گئے انجیلی بیان، جنہیں شروع میں سادہ طور پر اکھٹے “the evangel” کہا جانے لگا۔
- مسیحی صحائف : تیسرا معنٰی یہ ہے کہ عمومی طور پر اِس سے مراد 27 کتابوں پرمشتمل مسیحی صحائف ہیں جنہیں نیا عہدنامہ بھی کہا جاتا ہے۔
جیسے” کُھلنا” ایک شہر، ضلع اور ڈویژن کا نام ہے، ویسے ہی “انجیل” سے ایک ہی وقت میں مراد (1) یسوع کا بنیادی پیغام، (2) اُس پیغام کا بیان یا (3) اُس پیغام سے متعلق صحائف ہیں۔ جب قرآن کہتا ہے کہ عیسیٰ مسیح کو انجیل دی گئی تو یہ بات بالکل درست ہے، کیونکہ آپ کا کام انسانیت کو نجات اور خدا کی بادشاہی کی خوشخبری کا پیغام دینا تھا۔انجیلی پیغام کے اِس عمومی مفہوم میں عیسیٰ مسیح کو انجیل ویسے ہی عطا ہوئی جیسے آپ کو حکمت عطا ہوئی (مائدہ 3: 48)۔ جب قرآن کہتا ہے کہ انجیل ایک کتاب ہے تو یہ”evangel” (انجیل) کے ابتدائی معنٰی کے عین مطابق ہے۔ تاریخی ریکارڈ سے یہ واضح ہے کہ ابتدائی مسلمان انجیل سے مراد موجودمسیحی صحائف لیتے تھے، اور تاریخ کثرت سے ثابت کرتی ہے کہ یہ صحائف کس قدر قابل بھروسا ہیں۔
دوسری صدی عیسوی کے آغاز سے اصطلاح “evangel” کو مسیحیوں نے متی، مرقس، لوقا اور یوحنا کے چاروں انجیلی بیانات کے لئے استعمال کرنا شروع کیا۔ عالم ایف۔ ایف۔ بروس اِس کی وضاحت یوں کرتا ہے:
انتہائی شروع کے وقت سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ چاروں انجیلیں ایک مجموعہ میں اکھٹی موجود تھیں۔ یوحنا کی معرفت لکھی گئی انجیل کے فوراً بعد اُنہیں ایک جگہ اکھٹا کیا گیا۔ اِن چار کتابوں کے مجموعہ کو اصل میں “انجیل” کہا جاتا تھا نہ کہ “انجیلیں”۔اصل میں ایک ہی انجیل تھی جس کو چاروں بیانات میں بیان کیا گیا تھا جس کا اظہار اِن الفاظ سے ہوتا ہے: “متی کی معرفت” ، “مرقس کی معرفت”، “لوقا کی معرفت” اور “یوحنا کی معرفت”۔ تقریباً 115ءمیں انطاکیہ کا بشپ اگنیشئس “انجیل” کو مستند و معتبر تحریر کہتاہے ، اور وہ چاروں انجیلوں سے واقف تھاتو یہ کہا جا سکتا ہے کہ “انجیل” سے صاف کھلے لفظوں میں اُس کی مراد چاروں کتابوں کا ایک مجموعہ تھا جسے اُس وقت اِس نام سے پکارا جاتا تھا۔
سو، نبی اسلام کے زمانے میں رہنے والے ایک فرد کے لئے “انجیل” کا مطلب چاروں انجیلی بیانات (متی، مرقس، لوقا اور یوحنا) یا عمومی طور پر مسیحی صحائف تھے۔ پطرس رسول لکھتے ہیں:
“کیونکہ جب ہم نے تمہیں اپنے خداوند یسوع مسیح کی قدرت اور آمد سے واقف کیا تھا تو دغا بازی کی گھڑی ہوئی کہانیوں کی پیروی نہیں کی تھی بلکہ خود اُس کی عظمت کو دیکھا تھا۔… اور پہلے یہ جان لو کہ کتاب مقدس کی کسی نبوت کی بات کی تاویل کسی کے ذاتی اختیار پر موقوف نہیں۔ کیونکہ نبوت کی کوئی بات آدمی کی خواہش سے کبھی نہیں ہوئی بلکہ آدمی روح القدس کی تحریک کے سبب سے خدا کی طرف سے بولتے تھے۔” (2-پطرس 1: 16 ، 20-21)
نئے عہدنامہ میں یہ بھی لکھا ہے:
“ہر ایک صحیفہ جو خدا کے الہام سے ہے تعلیم اور الزام اور اصلاح اور راستبازی میں تربیت کرنے کے لئے فائدہ مند بھی ہے۔ تا کہ مردِ خدا کامل بنے اور ہر ایک نیک کام کے لئے بالکل تیار ہو جائے۔” (2-تیمتھیس 3: 16-17)
“پس جو نہیں مانتا وہ آدمی کو نہیں بلکہ خدا کو نہیں مانتا جو تم کو اپنا پاک رُوح دیتا ہے۔” (1-تھسلنیکیوں4: 8)
1.
…
جعلی اناجیل
”ایسی بہت سے ابتدائی اناجیل اور خطوط تھے جو نئے عہد نامے میں شامل نہیں کئے گئے کیونکہ وہ حضرت عیسیٰ المسیح کے متعلق ایک مختلف کہانی بیان کرتے تھے جیسے کہ تھامس کی انجیل،ایبیونائٹ کی انجیل،عبرانیوں کی انجیل اورمصریوں کی کاپٹک انجیل۔
چند ایسی اناجیل بھی ہیں جو متی،مرقس،لوقا او ریوحنا کے بعد مرتب ہوئیں مگر ابتدائی مسیحی جماعت نے اُنہیں رد کر دیا۔ابتدائی کلیسیا نے یہ
جعلی اناجیل رد کردیں،بالکل اُنہی وجوہات کی بنِا پر جن پر آج کوئی بھی مسلمان کرے گا:
یہ اناجیل تقریباً اُس مذہبی تحریک نے لکھی تھیں جنہیں غناسطیت کہا جاتا تھااور جس کی مخالفت ابتدائی رسولوں نے بھی کی تھی۔غناسطیت
مسیحیت سے پہلے بھی موجود تھی اور بے شک یہ ایک الگ تحریک تھی اگر چہ اُنہوں نے حضرت عیسیٰ کو غناسطیت کے ایک اُستاد کے طور پر
دوبارہ اختراع دینے کی کوشش کی۔بنیادی طور پر غناسطیت کی یہ تعلیم ہے کہ خدا نے دنیا کو خلق نہیں کیا مگر ایک نامکمل بدی نے دنیا کو خلق کیا ہے۔وہ ثنویت تعلیم رکھتے تھے،مطلب ہے کہ وہ یہ یقین رکھتے تھے کہ ساری طبعی دنیا بدی ہے۔وہ یہ تعلیم دیتے تھے کہ حضرت عیسیٰ کا کوئی جسمانی رُوپ نہیں تھا جس کی وجہ سے اُن میں سے چند نے یہ فیصلہ کیا کہ پھر حضرت عیسیٰ کی طبعی موت بھی نہیں ہو سکتی تھی۔وہ عبادت گزار تھے اور اکثر سبزیاں کھایا کرتے تھے اورکچھ جنسی طریقے سے عبادت کیا کرتے تھے۔پولُس رسول کے اعمال،تھامس کی انجیل اور مصریوں کی انجیل جیسے کتابوں کی یہ تعلیم تھی کہ شادی کے باوجود جنسی تعلقات ایک غلط بات تھی۔وہ اِس بات پر ایمان رکھتے تھے کہ نجات ایمان یا راست بازی سے حاصل نہیں ہو سکتی بلکہ ایک خاص خفیہ علم کے ذریعے حاصل ہو سکتی تھی جیسے کہ آج کل چند ہندو گروہوں میں بھی یہی تعلیم پائی جاتی ہے۔رسولوں کے خلاف اپنے خیالات کی حمایت کے لئے،وہ حضرت عیسیٰ کی بہت سے واقعات کو دوبارہ گھڑ لیتے تھے۔مثلا ً یہوداہ کی انجیل یہ تعلیم دیتی ہے کہ حضرت عیسیٰ نے یہوداہ سے کہا کہ وہ اُسے دھوکا دے کر صلیب دلوائے جس سے اُس کی روح اِس انسانی جسم کی قید سے رہائی پا سکتی تھی۔یہ خیالات تھامس کی انجیل،مریم کی انجیل،یہوداہ کی انجیل اورمصریوں کی کاپٹک انجیل میں بھی سرایت کر گئے ہیں۔
ماسوائے عبرانیوں کی انجیل کے کیونکہ اُس میں غناسطی تعلیم موجود نہ تھی۔علما یقین رکھتے ہیں کہ یہ متی کی انجیل کی بعد کی تزئین و آرائش ہے
جو بڑے محتاط انداز میں وضاحتیں دیتی ہے جیسے کہ دعائے ربانی میں ”روز کی روٹی“ کی جگہ ”کل کی روٹی“ کو بدل دینا۔تزئین و آرائش عموماً
اِس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ متن اصلی نہیں ہے کیونکہ یہ ویسا نہیں ہے جیسے کہ بعد کا ترجمہ متن کو زیادہ غیر واضح بنا دے گا۔چوتھی صدی کا
کتاب مقدس کے عالم جیروم نے اِس متن میں بہت دلچسپی لی جسے وہ محض متی کی انجیل کا عبرانی ترجمہ سمجھتا تھا۔وہ لکھتا ہے:
”وہ انجیل جو ناضرین اور ا یبیونائٹس استعمال کرتے ہیں جسے ہم نے حال ہی میں عبرانی سے یونانی میں ترجمہ کیا ہے اور جسے زیادہ تر لوگ
مُستند متی کی انجیل سمجھتے ہیں …“
جیروم کے مطابق اِس میں متی کی انجیل سے متن میں صرف چند معمولی اختلافات تھے۔اِس متن میں سے چند اختلافات میں سے ایک بدعتی ہے،کیونکہ یہ روح القدس کو حضر ت عیسیٰ کی ماں سمجھتا ہے(خدا معاف کرے!)۔جیروم…
برنباس کی انجیل کے بارے میں کیا خیال ہے؟
برنباس کی انجیل کے بارے میں کیا خیال ہے؟
اناجیل کے چند نقاد یہ الزام لگاتے ہیں کہ ”برنباس کی انجیل“ کا مسودہ حضرت عیسیٰ کی اصلی انجیل ہے اور وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ مسیحیوں نے جان بوجھ کر اُسے چھپایا جب تک یہ 18 ویں صدی میں خود سے اچانک سامنے نہیں آ گئی۔ متی،مرقس،لوقا او ریوحنا کی اناجیل کے سینکڑوں ابتدائی نسخے موجود ہیں، لیکن حضرت عیسیٰ کے ایک ہزار پانچ سو سال بعد تک برنباس کی انجیل کے نسخے کی کوئی نقول موجود نہیں ہیں۔نیچے ہم دیکھیں گے کہ یہ مسودہ جنوبی یورپ میں 1500 اور 1590 کے درمیانی عرصے میں مرتب ہوا۔
بد قسمتی سے جعلساز کی کتاب مقدس،قرآن اور قدیم فلستین کی غیر واضح سمجھ اِس بات کو عیاں کرتی ہے کہ وہ فلستین سے ناوا قف اور قرون لکھنے کی تاریخ وسطیٰ کی ہے۔
سولہویں صدی کے آغاز کے ثبوت
”برنباس کی انجیل“میں سولہویں صدی کی تصنیف کی چند ناقابل ِ انکار نشانیاں شامل ہیں۔توریت شریف نے بنی اسرائیل کو حکم دیا کہ وہ
ّآرا م کرنے اور قرض اُتارنے کے لئے ہرپچاسواں سال ”یوبلی“ سال کے طور پر منایا کریں،مگر ”برنباس کی انجیل“کا مصنف اِس وقفے
کے سو سال دیتا ہے۔حضرت عیسیٰ کے زمانے کے کسی بھی یہودی نے ایسی بڑی غلطی نہیں کی ہو گی۔مصنف نے ایک سو کا عدد کہاں سے لیا؟
تقریباً 1300 عیسوی کے قریب پوپ بونیفس ہشتم نے اِس رہائی کے ”جوبلی“ سال کو دوبارہ متعارف کروایاجس پر صدیوں سے عمل نہیں ہو رہا تھالیکن اِسے کلیسیا کو 100 سال کے بعد منا نے کا حکم دیا۔بعد میں پوپ صاحبان نے اِسے واپس 50 سال پر کردیا اور پھر مزید گھٹا کر 25 سال کر دیا۔بظاہر ”برنباس کی انجیل“کے مصنف نے پوپ بونیفس کے حکم کے متعلق سنا ہو گا اور سمجھا ہو گا کہ یہ حضرت عیسیٰ ؑ نے دیا تھا۔
اُس نے بغیر سوچے سمجھے قرون ِ وسطیٰ کے مصنف دانتے کے چند اقوال او رخیالات بھی شامل کر دئیے جو نہ تو کتاب مقدس میں اور نہ ہی
قرآن میں شامل ہیں۔دانتے 13 ویں صدی کا اٹلی کا رہنے والا ایک شخص تھا جس نے جہنم او رجنت کے بارے میں ایک تخیلاتی
ادب لکھا جسے ”الہٰی مزاح“(The Divine Comedy)کے نام سے جانا جاتا ہے۔دانتے کے بہت سے اقوال نے ”برنباس کی انجیل“میں اپنی جگہ بنالی جیسے کہ یہ ایک جملہ،”dei falsi e lugiadi“(”نقلی اور جھوٹے دیوتا“) (Inferno 1:72, Gospel of Barnabas para 23)جو نہ تو کتاب مقدس میں اور نہ ہی قرآن میں موجود ہے۔
”برنباس کی انجیل“مے کو لکڑی کے مٹکوں میں ذخیرہ کرنے کے بارے میں لکھتی ہے (پیرا 152)،یہ دستور قرون ِوسطیٰ میں عام تھا لیکن
فلستین میں پہلی صدی میں نامعلوم تھا جہاں مے کو مشکوں میں ذخیرہ کرتے تھے۔مزید یہ کہ مصنف یسوع کو یہ فرماتے ہوئے لکھتا ہے کہ
گرمیوں کے موسم میں دنیا کتنی خوبصورت لگتی ہے جب فصل اور پھل وافر مقدار میں ہوتے ہیں (پیرا 169)۔یہ اٹلی میں موسم گرما کا ایک
اچھا تذکرہ ہے،لیکن فلستین کا نہیں جہاں اِس وقت بارش ہوتی ہے اور فصلیں موسم سرما میں اُگتی ہیں لیکن کھیت گرمیوں کے دنوں میں پکتے ہیں۔
مصنف فلستین کے جغرافیہ سے بھی ناواقف تھا کیونکہ وہ ناصرت کو گلیل کی جھیل پر ایک ساحلی شہر قرار دیتا ہے(پیرا 21,20) جبکہ ناصرت کا شہر سطح سمندر سے 1300 فٹ بلند ہے اورسمندر سے 20 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ 99 باب میں صور کو دریائے یردن کے قریب بیان کیا گیا ہے جب کہ حقیقت میں یہ موجود ہ لبنان سے کوئی 50 کلومیٹر دُور ہے۔”برنباس کی انجیل“حضرت عیسیٰ مسیح کو
ہیکل کے کُنگرے سے تعلیم دیتے ہوئے بیان کرتی ہے۔اگر اُس نے ہیکل کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہوتا تو وہ یہ جان گیا ہوتا کہ وہ کُنگرہ 150 فٹ بلند تھا جہاں سے منادی کرنا ناممکن ہے۔مصنف حضرت عیسیٰ مسیح کی الوہیت کے مسئلے پرتین فوجوں کی بھیڑ بھی بیان کرتا ہے اورہر ایک میں 200,000 آدمی جنگ میں شریک تھے۔ یٹینیکا کے انسائیکلوپیڈیا کے مطابق اُس وقت رومیوں کی باقاعدہ فوج کی تعداد
کوئی 300,000 تھی جب کہ اِس کی نصف پیچھے محفوظ تھی۔70عیسوی میں رومیوں کے ہاتھوں یروشلیم کی تباہی تک یہودیہ میں صرف ایک چھوٹی سی چھاؤنی موجود تھی۔
بہت سی نشاند ہیوں میں سے یہ صرف ایک مختصر سی فہرست ہے کہ یہ مسودہ قرون ِ وسطی کے بُرے یورپی نے لکھا تھا۔اِس کے مزید ثبوت درج ذیل ویب سائٹ پر موجود ہیں: www.unchangingword.com…
آدمیوں کا کلام یا اللہ تعالیٰ کا کلام؟
”قرآن تمام کا تمام اللہ تعالیٰ کا کلام ہے لیکن بائبل اللہ تعالیٰ کا کلام،نبیوں کے اپنے الفاظ،اور مؤرّخین یا بیان کرنے والے کے الفاظ کا مجموعہ ہے۔“
یہ اعتراض کُلّی طور پر اِس بات کی غلط سمجھ پر مبنی ہے کہ دراصل ’اللہ تعالیٰ کا کلام‘(کلمتہ اللہ)ہے کیا۔نقاد سوچتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا کلام اِس کے سوا اَور کچھ نہیں کہ وہ صیغہ واحد حاضر کے بیانات ہیں جو اللہ تعالیٰ سے انسان کو دئیے گئے ہیں،یعنی یہ خُدا تعالیٰ کے زبانی کلمات کا ریکارڈ ہے۔یہ غلط خیال دراصل پھر قرآن کو بھی اللہ تعالیٰ کا کلام ہونے کے لئے ردّ کر دے گاکیونکہ اِس معیار کے مطابق قرآن بھی ویسے ہی اللہ تعالیٰ کے کلام،آدمیوں کے الفاظ،اور حتیٰ کہ حضرت جبرائیل ؑ کے الفاظ پر مشتمل ہے۔قرآن زیادہ تر خُداکے صیغہ واحد حاضرمیں انسانوں سے خطاب پر مشتمل ہے۔تضاد کے طورپر،سورۃ فاتحہ انسان کی خدا سے دعا ہے۔اِسی طرح،سورۃ مریم میں حضرت جبرائیل ؑ کا بیان ہے:”ہم تمہارے پروردگار کے حکم کے سوا اُتر نہیں سکتے“(63:19)۔مسلمان مُبصّرین کے مطابق،یہ مکاشفہ دینے کے عرصے کے درمیان طویل وقفوں کی شکایت کے جواب میں حضرت جبرائیل ؑ فرشتے کے الفاظ ہیں۔
اِس لئے غلطی سے ”اللہ تعالیٰ کے کلام“ کی کی گئی تعریف ایسا ہرگز نہیں کرے گی۔”اللہ تعالیٰ کا کلام“ کازیادہ درست مطلب ”اللہ تعالیٰ کا پیغام“ ہے – ” ہ اُس کا ایک مکمل پیغام ہے جو ہر وہ چیز ظاہر کرتا ہے جو ہماری”زندگی اور دین داری“ کے لئے ضروری ہے۔خدا کی مرضی تاریخی واقعات اور کئی انبیائے کرام کے ذریعے ظاہر کی گئی اور خدا نے چند خاص لوگوں کو بالکل اُسی طرح یہ تاریخ لکھنے کی تحریک بخشی جس
طرح اُس نے چاہا تاکہ یہ درست طریقے سے اُس کی سچائی اور مرضی کو ظاہر کرے۔ درحقیقت،یہ خُدا تعالیٰ کے کلام کی کاملیت کی خوبصورت علامات میں سے ایک ہے کہ خود اِس میں وہ سب کچھ موجود ہے جو ایمان کی زندگی کے لئے ضروری ہے۔اِس بات کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں کہ کون سی حدیث مُستند ہے اور اِس بات کا فیصلہ کرنے کی ضرورت نہیں کہ خُدا تعالیٰ کیا چاہتاہے۔خُدا تعالیٰ کے کلام میں خود ہر وہ چیز موجود ہے جسے ہمیں جاننے کی ضرورت ہے۔یہ بھرپور اور مکمل ہے،انسان کے لئے اللہ تعالیٰ کی کُلّی مشاورت۔
انجیل شریف میں حضرت عیسیٰ مسیح کے رسولوں کی تحریریں شامل ہیں اُس کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔زیادہ تر انبیائے کرام جیسے حضرت یسعیاہ اور حضرت یرمیاہ،اُن کے سلسلے میں خُدا تعالیٰ نے اُنہیں ”کلمتہ اللہ“ کی صورت میں ایک خاص پیغام دیااور اِس طرح انبیاء کرام کا وہ کلام خاص ”کلمتہ اللہ“ تھا۔تاہم،حضرت مسیح دوسرے انبیائے کرام کی نسبت مختلف تھے کیونکہ وہ اپنی ذات میں خود ”کلمتہ اللہ“ تھے،اللہ تعالیٰ کا بھیجا ہوا زندہ پیغام۔اِس وجہ سے اُس کے صحائف بھی مختلف ہیں۔وہ اِس ”کلمتہ اللہ“کے اعمال اور الفاظ کے الہٰی تحریک سے لکھے ہوئے واقعات ہیں جو حضرت مسیح کے شاگردوں نے روح القدس کی تحریک سے لکھے۔
…
اناجیل کا مصنف ہونا
”حضرت عیسیٰ مسیح کے حقیقی بارہ شاگردوں نے چاروں اناجیل میں سے ایک بھی انجیل نہیں لکھی۔“
ابتدائی کلیسیا، جس میں بہت سے مقدس متی،مقدس مرقس،مقدس لوقا او رمقدس یوحناکو شخصی طورپر جانتے ہیں،متفق تھی کہ چاروں اناجیل
مقدس متی،مقدس مرقس،مقدس لوقا او رمقدس یوحنانے ہی لکھی ہیں۔مقدس متی او رمقدس یوحنا دونوں حضرت عیسیٰ مسیح کے بارہ شاگردوں میں سے تھے،مقدس مرقس نے تمام واقعات مقدس پطرس (وہ بھی بارہ میں سے ایک تھا)سے سنے،اور مقدس لوقا پہلی نسل کی کلیسیا کا ایک سرگرم رُکن تھا۔ابتدائی کلیسیا کی تحریروں کا تاریخی ریکارڈ یہ بتاتا ہے کہ ابتدائی کلیسیا اِس بارے میں مُتفق الرائے تھی کہ یہ اصلی مصنفین تھے۔یہ محض گذشتہ چند صدیاں ہیں جب مُلحد علماء نے اِن اناجیل کی تاریخ کو نئی شکل دینے کی کوشش کی۔تاریخ کی اِس جھوٹی توضیح و تشریح
کے پیچھے کام کرنے والی بہت سی قوتیں تھیں:
معجزوں کا انکار – کچھ علما ء کا بنیادی مفروضہ یہ ہے کہ معجزات نہیں ہو سکتے اور نہیں ہوئے،اِ س لئے جتنے بھی واقعات میں معجزات درج ہیں وہ شاید خود سے کہانیاں بنائی گئی ہیں جو رفتہ رفتہ فروغ پاتی گئیں۔ اُن کی منطق یہ ہے کہ اگر کوئی متن تاریخی حقیقت کے طور پر کوئی معجزہ پیش کرتا ہے تو تحریر کا وہ پورا حصہ بھی اُسی طرح گھڑا او ربنایا گیا ہوگا۔اِس لئے جب اناجیل حضرت عیسیٰ مسیح کنواری سے پیدایش اور معجزات کو تاریخی حقائق کے طور پر لکھتی ہیں، تو پھر تمام سوانح حیات بتدریج مبالغہ آرائی میں ڈھلنے والی کہانی ہے جو کسی فرض کئے ہوئے مصنف سے نہیں لکھی جا سکتی تھی۔
نئے نظریات اور اشاعت کی ضرورت – حیاتیات اور طب پڑھنے والوں کے نزدیک،تعلیمی اعتبار سے اِس میں تقریباً لامحدود حد تک نامعلوم مواد تازہ تحقیق کا منتظر رہتا ہے۔تاہم،جہاں تک کتاب مقدس کا تعلق ہے، صدیوں سے تقریباًہر ایک آیت اور کتاب پربیش بہا تحقیقی کام موجود ہے۔ایک جدید عالم کو توجہ حاصل کرنے کے لئے کسی نئے نظریے پر مفروضہ قائم کرنا پڑتا ہے جس میں غالباًکچھ نئی آثارِ قدیمہ کی دریافتوں پر مبالغہ آرائی کی گئی ہوتی ہے۔آپ کو اُن باتوں کے لئے کوئی خراج تحسین نہیں ملے گا جو پہلے ہی کئی مرتبہ کہی جا چکی ہیں۔اکثر ”تاریخی حضرت عیسیٰ مسیح“ کی نئی تصاویر محض موجود ہ تعلیمی جنون کو پیش کرتی ہیں۔جب مارکس ازم بہت مشہور تھا تو حضرت عیسیٰ مسیح
کو مارکسی کے طور پر پیش کیاگیا؛جب تصوف مشہور تھا تو جد ید علما نے اُسے ایک صوفی کا رُوپ دے دیا۔جدیدعلمائے کرام کا تاریخی
حضرت عیسیٰ مسیح بھی اکثر محض اُن کی اپنی سوچ اور جنون کی تصویر پیش کرتا ہے۔
تاریخی -تنقیدی طریقے کو زیادہ گراں قدر سمجھنا – کتاب مقدس کے مطالعے کے طریقہ کار تنقید اعلیٰ اور صورت کی تنقید تاریخ کو دوبارہ سے تشکیل دینے کی کوشش ہیں جو ادبی انداز اور موازنے پر مبنی ہیں۔یہ مطالعہ کے لئے گراں قدر طریقہ کار ہیں اور یہ ماضی کے متعلق ہمار ی تصویر کو واضح کرتے ہیں۔مسئلہ تب ہوتا ہے جب علمائے کرام سادہ تاریخی ریکارڈ پر یقین رکھنے کے بجائے ادبی تجزیوں کو بہت مُستند طریقہ کار سمجھتے ہیں اور تکبّر میں آ کر یہ فرض کرتے ہیں کہ وہ دو ہزار سال بعد بھی اُس وقت کے لوگوں کی نسبت قدیم واقعات کو زیادہ جانتے ہیں۔اِس لئے مثال کے طور پر ہمارے پاس نسخہ جات کی شہادت موجود ہے کہ وہ لوگ جو بارہ شاگردوں کو جانتے تھے،اُنہوں نے کہا کہ متی کی انجیل مقدس متی نے ہی لکھی،لیکن دو ہزار سال بعد علماء غرور میں آ کر یہ قیاس کر تے ہیں کہ اِن ابتدائی قائدین کی نسبت زیادہ جانتے ہیں۔
…
کیا یعقوب اور پولُس ایک دوسرے سے تضاد رکھتے ہیں؟
“متی 9:9 -کیا متی نے متی کی انجیل لکھی؟”
نقادوں نے بحث کی ہے کہ چونکہ متی یہاں اپنی طرف واحد غائب کے طور پر اشارہ کرتا ہے اِس لئے وہ اِس انجیل کا مصنف نہیں ہو سکتا:
”یسوع نے وہاں سے آگے بڑھ کر متی نام ایک شخص کو محصول کی چوکی پر بیٹھے دیکھااور اُس سے کہا میرے پیچھے ہولے۔وہ اُٹھ کر اُس کے پیچھے ہو لیا۔“(متی 9:9)
یہ بہت کھوکھلی سی دلیل ہے۔جب کثیر سامعین و قارئین ایک وسیع سامع کے لئے تاریخی واقعات لکھنا ہو تو مصنفین کے نزدیک یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں کہ وہ اپنے لئے واحد غائب کا صیغہ استعمال کریں۔اِسی کمزور دلیل کی وجہ سے پھر قرآن بھی اللہ تعالیٰ کا کلام نہیں ہونا چاہئے کیونکہ اِس میں اُس کی طرف مسلسل واحد غائب کے صیغہ میں اشارہ کیا گیا ہے:
هُوَ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ
”وہی خدا ہے جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔“(سورۃ22:59)
اگر مقدس متی یا مقدس یوحنا کااپنے لئے صیغہ واحد غائب استعمال کرنا اُنہیں کتابوں کے مصنفین ہونے کا اہل قرار نہیں دیتا تو پھر یہی بات
قرآن کے بارے میں بھی کہنا چاہئے۔
ابتدائی تمام مسیحی اندراج اِس بات میں کوئی شک نہیں رکھتے کہ متی کی انجیل مقدس متی رسول ہی نے لکھی ہے۔اِس کے بر عکس کوئی بھی بیان نہیں ملتا۔انجیل شریف کے خلاف یہ بیان بالکل کھوکھلا ہے جو خالص اندازے پر مبنی ہے اور اِس کی منطق قرآن کو بھی کمتر کر دیتی ہے ۔
…