عیسیٰ مسیح کی ایک انجیل یا آپ کے شاگردوں کی چار انجیلیں؟

“قرآن صرف ایک انجیل کا ذِکر کرتا ہے جو عیسیٰ کو دی گئی، لیکن آج کی انجیل آپ کے شاگردوں نے لکھی۔”
اگرچہ بہت سے لوگ اِس تصوراتی خیال کو مانتے ہیں تاہم نہ ہی نبی اسلام اور نہ ہی جناب عیسیٰ نے کوئی کتاب تحریر کی۔ اُن کی کتابیں سب سے پہلے اُن کی وفات کے بعد لکھی گئیں۔
مگر دوسری کتابوں کے مقابلہ میں انجیل ایک فرق طرح سے دی گئی۔ اگر زیادہ تر نبیوں کو دیکھا جائے جیسے یسعیاہ ا ور یرمیاہ، تو خدا تعالیٰ نے اُنہیں ایک خاص پیغام عنایت کیا جسے “خدا کا کلام” کہا جاتا ہے ، سو نبی کی کتاب وہ خاص “کلام خدا” تھی۔ تاہم، انجیل اور قرآن دونوں میں یسوع کو لاثانی طور پر “کلمتہ اللہ”1 کہا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ بذات خود بنیادی کلام ہے۔دوسرے نبی تو ایک تحریری “کلام خدا” لانے کے لئے آئے مگر عیسیٰ مسیح کے معاملہ میں یہ بات بالکل اُلٹ تھی۔ وہ بذات خود خدا کا زندہ کلام تھے،سو تحریری صورت میں موجود انجیل بنیادی مطمع نظر نہیں تھی بلکہ عیسیٰ مسیح مرکز نگاہ ہیں۔ انجیل مقدس تو سادہ طور پر الہامی گواہی پر مشتمل بیان ہے جس میں زندہ کلام خدا کی زندگی اور تعلیمات مرقوم ہیں۔ عیسیٰ مسیح نے اپنے شاگردوں کو یہ کام تفویض کیا کہ وہ دُنیا کے سامنے آپ کی تمام تعلیمات کی گواہی دیں (متی 28: 18-20)۔آپ نے اُن سے یہ بھی وعدہ کیا کہ روح القد س اُنہیں اِن سب باتوں کی یاد دِلائے گا (یوحنا 14: 26)۔خدا کے زندہ کلام کی بابت اِس مقدس پیغام کو محفوظ کرنے کے لئے آپ کے شاگردوں اور اُن کے ساتھیوں نے الہامی تحریک سے عیسیٰ مسیح کے حالات زندگی اور تعلیمات کو انجیل مقدس میں تحریر کیا۔
قرآن میں مذکور انجیل کی بابت کیا کہا جائے؟ قرآنی علما اِس بات پرمتفق ہیں کہ عربی لفظ “انجیل” درحقیقت ایک عربی لفظ نہیں ہے بلکہ یونانی لفظ “εὐαγγέλ” (evangel) کا ترجمہ ہے جیسے کہ انگریزی زبان کا لفظ “gospel” ہے۔ سو، لفظ انجیل کے معنٰی کو جاننے کے لئے ہمیں سب سے پہلے یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اِس لفظ کا اُن لوگوں کے نزدیک کیا مفہوم تھا جنہیں نے اِسے استعمال کیا۔انجیل ایک ایسی اصطلاح ہے جسے عربی، فارسی، اُردو اور ترکی بولنے والے مسیحی اپنے صحائف کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ لفظ “evangel” کے تین متوازی معانی ہیں جنہیں ابتدائی مسیحیوں اور قرآن دونوں نے استعمال کیا ہے:

  • عیسیٰ مسیح کا پیغام: لفظی معنٰی کے لحاظ سے “انجیل” کا مطلب “خوشخبری” کا پیغام ہے۔ عیسیٰ مسیح کے تعلق سے اِ س کا مطلب مسیح کی نجات اور خدا کی بادشاہی کے بارے میں تعلیم ہے۔
  • عیسیٰ مسیح کی زندگی کا بیان: “evangel” کا مطلب عیسیٰ مسیح کی زندگی کا ایک بیان بھی ہے جیسے متی ، مرقس، لوقا اور یوحنا کی معرفت لکھے گئے انجیلی بیان، جنہیں شروع میں سادہ طور پر اکھٹے “the evangel” کہا جانے لگا۔
  • مسیحی صحائف : تیسرا معنٰی یہ ہے کہ عمومی طور پر اِس سے مراد 27 کتابوں پرمشتمل مسیحی صحائف ہیں جنہیں نیا عہدنامہ بھی کہا جاتا ہے۔
    • جیسے” کُھلنا” ایک شہر، ضلع اور ڈویژن کا نام ہے، ویسے ہی “انجیل” سے ایک ہی وقت میں مراد (1) یسوع کا بنیادی پیغام، (2) اُس پیغام کا بیان یا (3) اُس پیغام سے متعلق صحائف ہیں۔ جب قرآن کہتا ہے کہ عیسیٰ مسیح کو انجیل دی گئی تو یہ بات بالکل درست ہے، کیونکہ آپ کا کام انسانیت کو نجات اور خدا کی بادشاہی کی خوشخبری کا پیغام دینا تھا۔انجیلی پیغام کے اِس عمومی مفہوم میں عیسیٰ مسیح کو انجیل ویسے ہی عطا ہوئی جیسے آپ کو حکمت عطا ہوئی (مائدہ 3: 48)۔ جب قرآن کہتا ہے کہ انجیل ایک کتاب ہے تو یہ”evangel” (انجیل) کے ابتدائی معنٰی کے عین مطابق ہے۔ تاریخی ریکارڈ سے یہ واضح ہے کہ ابتدائی مسلمان انجیل سے مراد موجودمسیحی صحائف لیتے تھے، اور تاریخ کثرت سے ثابت کرتی ہے کہ یہ صحائف کس قدر قابل بھروسا ہیں۔
      دوسری صدی عیسوی کے آغاز سے اصطلاح “evangel” کو مسیحیوں نے متی، مرقس، لوقا اور یوحنا کے چاروں انجیلی بیانات کے لئے استعمال کرنا شروع کیا۔ عالم ایف۔ ایف۔ بروس اِس کی وضاحت یوں کرتا ہے:
      انتہائی شروع کے وقت سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ چاروں انجیلیں ایک مجموعہ میں اکھٹی موجود تھیں۔ یوحنا کی معرفت لکھی گئی انجیل کے فوراً بعد اُنہیں ایک جگہ اکھٹا کیا گیا۔ اِن چار کتابوں کے مجموعہ کو اصل میں “انجیل” کہا جاتا تھا نہ کہ “انجیلیں”۔اصل میں ایک ہی انجیل تھی جس کو چاروں بیانات میں بیان کیا گیا تھا جس کا اظہار اِن الفاظ سے ہوتا ہے: “متی کی معرفت” ، “مرقس کی معرفت”، “لوقا کی معرفت” اور “یوحنا کی معرفت”۔ تقریباً 115ءمیں انطاکیہ کا بشپ اگنیشئس “انجیل” کو مستند و معتبر تحریر کہتاہے ، اور وہ چاروں انجیلوں سے واقف تھاتو یہ کہا جا سکتا ہے کہ “انجیل” سے صاف کھلے لفظوں میں اُس کی مراد چاروں کتابوں کا ایک مجموعہ تھا جسے اُس وقت اِس نام سے پکارا جاتا تھا۔
      سو، نبی اسلام کے زمانے میں رہنے والے ایک فرد کے لئے “انجیل” کا مطلب چاروں انجیلی بیانات (متی، مرقس، لوقا اور یوحنا) یا عمومی طور پر مسیحی صحائف تھے۔ پطرس رسول لکھتے ہیں:
      “کیونکہ جب ہم نے تمہیں اپنے خداوند یسوع مسیح کی قدرت اور آمد سے واقف کیا تھا تو دغا بازی کی گھڑی ہوئی کہانیوں کی پیروی نہیں کی تھی بلکہ خود اُس کی عظمت کو دیکھا تھا۔… اور پہلے یہ جان لو کہ کتاب مقدس کی کسی نبوت کی بات کی تاویل کسی کے ذاتی اختیار پر موقوف نہیں۔ کیونکہ نبوت کی کوئی بات آدمی کی خواہش سے کبھی نہیں ہوئی بلکہ آدمی روح القدس کی تحریک کے سبب سے خدا کی طرف سے بولتے تھے۔” (2-پطرس 1: 16 ، 20-21)
      نئے عہدنامہ میں یہ بھی لکھا ہے:
      “ہر ایک صحیفہ جو خدا کے الہام سے ہے تعلیم اور الزام اور اصلاح اور راستبازی میں تربیت کرنے کے لئے فائدہ مند بھی ہے۔ تا کہ مردِ خدا کامل بنے اور ہر ایک نیک کام کے لئے بالکل تیار ہو جائے۔” (2-تیمتھیس 3: 16-17)
      “پس جو نہیں مانتا وہ آدمی کو نہیں بلکہ خدا کو نہیں مانتا جو تم کو اپنا پاک رُوح دیتا ہے۔” (1-تھسلنیکیوں4: 8)
      1.

    چار مختلف اناجیل؟

    ”اُن کی چار مختلف اناجیل کیوں ہیں؟“

    خُدا تعالیٰ اندھا ایمان،غیر تنقیدی،بِنا سوچے سمجھے قبولیت نہیں چاہتا،بلکہ وہ اپنی سچائی کچھ اِس طریقے سے پیش کرتا ہے کہ جو تشکیک پرستوں (skeptics) کو بھی کافی ثبوت پیش کرتی ہے۔چار مختلف چشم دید گواہوں کے بیان حضرت عیسیٰ مسیح کے معجزات، پیغام،موت اورمُردوں میں سے جی اُٹھنے پر مبنی ہیں جن سے انکار کرنا بہت مشکل ہے۔کوئی بھی شخص کسی ایک چشم دید گواہ کے واقعات کی گواہی پر شک کر سکتا ہے اور کوئی سوال اُٹھا سکتا ہے،بلکہ کئی بیانات پر سوال اُٹھانا بہت مشکل ہے۔

    توریت شریف نے یہودیوں کے لئے ایک اہم اُصول چھوڑا:”کسی شخص کے خلاف دو گواہوں یا تین گواہوں کے کہنے سے بات پکی سمجھی
    جائے“(اِستثنا15:19)۔توریت شریف کے اُصولوں کے مطابق یہودیوں کو قائل کرنے میں،کئی چشم دید گواہوں کے بیانات کی ضرورت تھی۔قرآن اور کتاب مقدس دونوں سے ہم جانتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ مسیح خود ”کلمتہ اللہ“ یعنی خدا کا کلام تھے،اور انجیل شریف کے صحائف محض حضرت عیسیٰ کے متاثر کُن پیغامات او رکاموں کی گواہی ہیں۔

    چار اناجیل ہونے کی آخری دلیل یہ ہے کہ ایک یکساں کئے جانے والے بیان کے بجائے چار مختلف تناظر زیادہ باروشن /بصارت والے ہیں،کیونکہ ہر ایک چشم دید گواہ کے واقعات حضرت یسوع مسیح کی خدمت کے ایک نئے پہلو پر زور دیتے ہیں یا اُسے سامنے لاتے ہیں۔

    180عیسو ی میں اِرینیس نے چاروں اناجیل (مقدس متی،مقدس مرقس،مقدس لوقا،مقدس یوحنا)کے بارے میں لکھا:

    ”یہ ممکن نہیں ہے کہ اناجیل یا تو زیادہ ہو سکتی یا کم۔چونکہ جس دنیا میں ہم رہتے ہیں اُس کے چار حصے ہیں،اور چار بڑی آندھیاں ہیں،
    جب کہ کلیسیا پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے اورکلیسیا کے ”ستون اور زمین“ انجیل شریف او رزندگی کی روح ہے؛یہ مناسب ہے کہ اُس کے چار ستون ہوں تاکہ ہر طرف سے بدی باہر نکل سکے اور آدمیوں کو تازگی ملے …کیو نکہ زندہ جاندار چار صورتیں رکھتے ہیں، اور انجیل چار پہلوی ہے،کیونکہ یہی راستہ ہے جسے خُداوند نے بھی اختیار کیا۔1

    یہ ا ِرینیس مقدس یوحنا کا ”روحانی پوتا“ تھاکیونکہ پولی کارپ نے اُس کی تربیت کی تھی جسے خود مقدس یوحنا نے تربیت دی تھی،جوحضرت یسوع مسیح کا پیارا شاگرد اور یوحنا کی انجیل کا مصنف تھا۔

    1. Irenaeus, Against Heresies 3.11

    انجیل شریف نازل کی گئی؟

    "قرآن انجیل شریف کو یوں بیان کرتا ہے کہ وہ نازل کی گئی ہے؛لیکن موجود ہ انجیل شریف حضرت عیسیٰ کے پیروکاروں نے لکھی تھی۔"

    "نازل کی گئی" کی عربی اصطلاح کا مطلب یہ نہیں کہ آسمان سے گرائی گئی یا نبی کے ذریعے دی گئی۔اِس کا زیادہ تر عام فہم مطلب اللہ کا عطا کردہ انعام ہے۔یہی "نازل کی گئی" کی اصطلاح 25:57میں لوہے کے لئے استعمال کی گئی ہے:"ہم نے لوہا پیدا کیا؛اور اِس میں خطرہ بھی شدید ہے اور لوگوں کے لئے فائدے بھی ہیں اور اِس لئے کہ جو لوگ … خدا اوراُس کے پیغمبروں کی مدد کرتے ہیں خدا اُن کو معلوم کرے۔

    آدمیوں کا کلام یا اللہ تعالیٰ کا کلام؟

    ”قرآن تمام کا تمام اللہ تعالیٰ کا کلام ہے لیکن بائبل اللہ تعالیٰ کا کلام،نبیوں کے اپنے الفاظ،اور مؤرّخین یا بیان کرنے والے کے الفاظ کا مجموعہ ہے۔“

    یہ اعتراض کُلّی طور پر اِس بات کی غلط سمجھ پر مبنی ہے کہ دراصل ’اللہ تعالیٰ کا کلام‘(کلمتہ اللہ)ہے کیا۔نقاد سوچتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا کلام اِس کے سوا اَور کچھ نہیں کہ وہ صیغہ واحد حاضر کے بیانات ہیں جو اللہ تعالیٰ سے انسان کو دئیے گئے ہیں،یعنی یہ خُدا تعالیٰ کے زبانی کلمات کا ریکارڈ ہے۔یہ غلط خیال دراصل پھر قرآن کو بھی اللہ تعالیٰ کا کلام ہونے کے لئے ردّ کر دے گاکیونکہ اِس معیار کے مطابق قرآن بھی ویسے ہی اللہ تعالیٰ کے کلام،آدمیوں کے الفاظ،اور حتیٰ کہ حضرت جبرائیل ؑ کے الفاظ پر مشتمل ہے۔قرآن زیادہ تر خُداکے صیغہ واحد حاضرمیں انسانوں سے خطاب پر مشتمل ہے۔تضاد کے طورپر،سورۃ فاتحہ انسان کی خدا سے دعا ہے۔اِسی طرح،سورۃ مریم میں حضرت جبرائیل ؑ کا بیان ہے:”ہم تمہارے پروردگار کے حکم کے سوا اُتر نہیں سکتے“(63:19)۔مسلمان مُبصّرین کے مطابق،یہ مکاشفہ دینے کے عرصے کے درمیان طویل وقفوں کی شکایت کے جواب میں حضرت جبرائیل ؑ فرشتے کے الفاظ ہیں۔
    اِس لئے غلطی سے ”اللہ تعالیٰ کے کلام“ کی کی گئی تعریف ایسا ہرگز نہیں کرے گی۔”اللہ تعالیٰ کا کلام“ کازیادہ درست مطلب ”اللہ تعالیٰ کا پیغام“ ہے – ”2  ہ اُس کا ایک مکمل پیغام ہے جو ہر وہ چیز ظاہر کرتا ہے جو ہماری”زندگی اور دین داری“ کے لئے ضروری ہے۔خدا کی مرضی تاریخی واقعات اور کئی انبیائے کرام کے ذریعے ظاہر کی گئی اور خدا نے چند خاص لوگوں کو بالکل اُسی طرح یہ تاریخ لکھنے کی تحریک بخشی جس
    طرح اُس نے چاہا تاکہ یہ درست طریقے سے اُس کی سچائی اور مرضی کو ظاہر کرے۔ درحقیقت،یہ خُدا تعالیٰ کے کلام کی کاملیت کی خوبصورت علامات میں سے ایک ہے کہ خود اِس میں وہ سب کچھ موجود ہے جو ایمان کی زندگی کے لئے ضروری ہے۔اِس بات کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں کہ کون سی حدیث مُستند ہے اور اِس بات کا فیصلہ کرنے کی ضرورت نہیں کہ خُدا تعالیٰ کیا چاہتاہے۔خُدا تعالیٰ کے کلام میں خود ہر وہ چیز موجود ہے جسے ہمیں جاننے کی ضرورت ہے۔یہ بھرپور اور مکمل ہے،انسان کے لئے اللہ تعالیٰ کی کُلّی مشاورت۔
    انجیل شریف میں حضرت عیسیٰ مسیح کے رسولوں کی تحریریں شامل ہیں اُس کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔زیادہ تر انبیائے کرام جیسے حضرت یسعیاہ اور حضرت یرمیاہ،اُن کے سلسلے میں خُدا تعالیٰ نے اُنہیں ”کلمتہ اللہ“ کی صورت میں ایک خاص پیغام دیااور اِس طرح انبیاء کرام کا وہ کلام خاص ”کلمتہ اللہ“ تھا۔تاہم،حضرت مسیح دوسرے انبیائے کرام کی نسبت مختلف تھے کیونکہ وہ اپنی ذات میں خود ”کلمتہ اللہ“ تھے،اللہ تعالیٰ کا بھیجا ہوا زندہ پیغام۔اِس وجہ سے اُس کے صحائف بھی مختلف ہیں۔وہ اِس ”کلمتہ اللہ“کے اعمال اور الفاظ کے الہٰی تحریک سے لکھے ہوئے واقعات ہیں جو حضرت مسیح کے شاگردوں نے روح القدس کی تحریک سے لکھے۔

    1. شاید یہی وجہ ہے کہ کیوں ابی بن کعب (جنہیں صحیح بخاری میں قرآن کے بہترین قاریوں میں سے ایک کہا گیا ہے)نے قرآن کی اپنی جلد میں سورۃ فاتحہ شامل نہیں کی،کیونکہ سورۃ الحجر بڑی وضاحت سے سورۃ فاتحہ کو”قرآن“سے الگ مقام دیتی ہے:”اور ہم نے تم کو سات
      (آیتیں)جو (نمازمیں)دہرا کر پڑھی جاتی ہیں (یعنی سورۃ الحمد)اور عظمت والا قرآن عطا فرمایاہے۔“(87:15)۔
      انجیل شریف،2 -پطرس 3:1۔

    انسان کی بنائی ہوئی کہانیاں؟

    ”قرآن کے علاوہ،کتاب ِ مقدس اور باقی تمام صحائف پڑھنے پر انسان کی بنائی ہوئی کہانیاں لگتے ہیں -’ابتدا میں‘وغیرہ۔“

    دراصل زیادہ تر مذاہب کے صحا ئف پڑھنے میں کہانیاں معلوم نہیں ہوتے بلکہ وہ انسانی کہانیوں کی نسبت باطنی اظہارِ خیال سے زیادہ ملتے جلتے ہیں۔

    ہم جانتے ہیں کہ خدا تعالیٰ ایک عظیم پیغام رساں ہے۔اِس لئے جب خدا تعالیٰ انسانوں تک اپنی مرضی کو پہنچانے کے لئے انسانی زبان استعمال کرتا ہے تو ہمیں محض یہ توقع رکھنی چاہئے کہ یہ کسی مخفی یا باطنی،بے ربط سے خیال سے مشابہت نہیں رکھتی بلکہ یہ ایک تعارف،سامنے آنے والے مکاشفہ اور نتیجے کے ساتھ اُس کے ایک مکمل اورمنظم منصوبے کی پیش کش ہے۔اور یہی ایک طریقہ ہے جس سے عقلی خبر رسانی ہے۔ یہی وہ کچھ ہے جو ہمیں کتاب ِ مقدس میں ملتا ہے۔ اگر ایک انسانی نصاب کی کتاب یا مضمون میں من مانی کرتے ہوئے،بے ربط طریقے سے ہر 2 – 5 جملوں کے بعد موضوع تبدیل ہو جائے،جیسے کہ چند مذہبی متون میں ہوتا ہے، تو تعلیمی روایت رکھنے والے لوگ اِسے ایک بُری خبر رسانی کے طور پر ردّ کر دیں گے۔

    خدا تعالیٰ عظیم ہے اور انسانی زبان سے بالاتر ہے لیکن جب انسانوں پر اپنی کامل مرضی ظاہر کرتا ہے تو وہ ایک اعلیٰ ترین واضح پیغام رساں ہوتا ہے۔اگر اُس کا کلام اُلجھانے والا،بے ربط اور ناکافی،کئی مرتبہ ایک مضمون سے دوسرے مضمون پر چلے جانے والا ہوتا تو اِس ناکافی اور مبہم کلام (نعوذ بااللہ)کی وضاحت کرنے کے لئے عام انسانوں نے دوسری واضح کتابیں مرتب کر لی ہوتیں۔ لیکن پوری تاریخ میں خدا تعالیٰ نے اپنے تمام کاموں کو واضح کر نے کے لئے اپنی حکمت میں ہر قانون،تعلیم اور الہٰی نظریے کے ساتھ جسے ہمیں جاننے کی ضرورت ہے، اپنی آسمانی کتب مکمل طور پر نازل کیں۔

    لیکن خداتعالیٰ واضح پیغام رساں ہے،اور اعلیٰ ترین پیغام رساں ہے،جو سہل،ذی عقل،واضح پیغام رسانی کا ماہر ہے۔یہ واقعی ایک معجزہ ہے کہ آسمانی صحائف،جو 40مختلف انبیا ئے کرام کے ذریعے 2000سال کے عرصہ میں لکھئے گئے،اُن میں اتنا واضح اتفاق ہو سکتا ہے،جس میں ایک تعارف(پیدایش1-11)،سامنے آنے والا منصوبہ،اور نتیجہ شامل ہے۔یہ ہر اُس بات کی مکمل پیش کش ہے جسے انسانوں کو خدا کی مرضی کے بارے میں جاننے کی ضرورت ہے اور اِس میں کچھ باقی نہیں چھوڑاگیا۔اِس میں کسی اضافی حدیث،نصابی کتاب یا کسی اَور انسانی اختراع کی ضرورت نہیں۔ایک دور دراز کے جنگل کے قبیلے کا شخص جس کے پاس اُس کی اپنی مادری زبان میں کتاب مقدس موجود ہو،اُس کے پاس خدا تعالیٰ کی سچائی کو سمجھنے کے لئے ہر وہ چیز ہو گی جس کی اُسے ضرورت ہے۔

    مورس بیکاؤلے نے الزام لگایا ہے کہ خوشخبری رولینڈ کے گیت کی مانند ہے،”جو غیر حقیقی روشنی میں ایک حقیقی واقعہ کو مربوط کرتا ہے۔“دلیل یہ ہے کہ اناجیل کے لکھنے کا مطمع نظر تخلیقی تھا کہ تاریخی۔آکسفورڈ کا جانا پہچاناماہر سی۔ایس۔ لوئیس جو بیکاؤلے کے برعکس طویل عرصے تک رومانی ادب کا عالم تھا،وہ درج ذیل الفاظ میں گواہی دیتاہے:

    مجھے (نیا عہد نامہ کے)نقادوں پر بھروسا نہیں۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اُن میں ادبی پرکھ کی کمی ہے اور جو متن وہ پڑھ رہے ہیں اُس کو سمجھنے سے قاصر ہیں …اگر وہ مجھے بتائے کہ انجیل شریف میں کچھ کہانی ہے یا رومان ہے،تو میَں اُس شخص سے پوچھتا ہوں کہ اُس نے کتنی کہانیاں اور کتنی رومانی داستانیں پڑھی ہیں …میَں اپنی ساری زندگی نظمیں،رومانی داستانیں،رویائی ادب،کہانیاں،تصوراتی کہانیاں پڑھتا رہا ہوں۔میں جانتا ہوں کہ وہ کس طرح کی ہوتی ہیں۔میں جانتا ہوں کہ اُن میں سے کوئی بھی اِس (انجیل شریف)کی مانند نہیں ہیں۔2

    بہت سے نامور مؤرّخین کے مطابق،عبرانی صحائف انسانی تاریخ میں پہلی اصلی تاریخی تحریریں ہیں،کیونکہ وہ اپنے آباواجداد کے نام کو اُونچا نہیں کرتے بلکہ اُن کی کمزوریاں بھی بتاتے ہیں۔رسولوں نے اِس روایت کی پیروی کی:

    ”ہم نے دغا بازی کی گھڑی ہوئی کہانیوں کی پیروی نہیں کی تھی بلکہ خود اُس کی عظمت کو دیکھا تھا۔“(2 -پطرس 16:1)

    ”اِس لئے اے معزز تھیفلُس میں نے مناسب جانا کہ سب باتوں کا سلسلہ شروع سے ٹھیک ٹھیک دریافت کر کے اُن کو تیرے لئے ترتیب سے لکھوں۔تاکہ جن باتوں کی تُو نے تعلیم پائی ہے اُن کی پختگی تجھے معلوم ہو جائے۔“(لوقا3:1-4)

    1. Maurice Bucaille, The Bible, the Qur’ān and Science, (American Trust Publications: Indianapolis, 1979), p viii.