کیا کتاب مقدس غیر سائنسی نہیں ہے؟”;?>

“کیا کتاب مقدس غیر سائنسی نہیں ہے؟”

کچھ مسلمان اور مسیحی اِس بات پر بحث کرنا پسند کرتے ہیں کہ کون سا کلام جدید سائنس پر پورا اُترتا ہے۔ہم جانتے ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ جس نے فطرت کے قوانین اور ترتیب خلق کی،وہی خُدا تعالیٰ ہے جس نے کلام کو نازل کیا،سو اِن دونوں کے درمیان یکسانیت ہونی چاہئے۔ تاہم،کتاب مقدس او ر قرآن میں چند اقتباسات ایسے ملتے ہیں جن میں عدم استقامت نظر آسکتی ہے۔طنز یہ ہے کہ زیادہ تر سائنسی مسائل والے اقتباسات قرآن او رکتاب مقدس میں ملتے ہیں:

کتاب مقدس اور قرآن میں ملنے والے معجزات:

  1. نوح 950برس زندہ رہا
  2. حضرت عیسیٰ مسیح کی ایک کنواری سے پیدایش
  3. حضرت عیسیٰ مسیح کا مُردوں میں سے زندہ ہونا
  4. حضرت عیسیٰ مسیح کا اندھے کو شفا دینا

مخلص ایمان دار اِن مشکلات کا تنگ نظری سے انکار نہیں کرتے بلکہ اِس کے برعکس دانش مندی کی وضاحتیں تلاش کرتے ہیں اور ب ڑی عاجزی سے اِن پر غور کرتے ہیں۔اگر ہم دیانت دار ہیں تو ہمیں یہ تسلیم کرنا چاہئے کہ یہ پریشان کرنے والے سوالات ہیں۔

اِس سوال کا پورا جواب حاصل کرنے کے لئے اِس ویب سائٹ پر یہ مضمون دیکھئے، کیا سائنس صحائف کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے؟”

کیا حضرت عیسیٰ کو خداوند کہا جا سکتا ہے؟

”جیسے کہ انجیل شریف بیان کرتی ہے،حضرت عیسیٰ کو’خداوند‘ نہیں کہا جا سکتا۔“

جیسے کہ قرآن سکھاتا ہے کہ سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی خداوند (”ربّ“)نہیں ہے،تو بہت سے لوگ انجیل شریف کے حضرت عیسیٰ مسیح کو
”خداوند“ کا لقب دینے پر اعتراض کریں گے۔یہ غلط فہمی پر مبنی ہے،کیونکہ قرآن سورۃ 10:89میں خود فرعون کو ”خداوند“ کہتا ہے –

”اور فرعون کے ساتھ (کیاکیا)جو خیمے اور میخوں کا ملک تھا۔“

”خداوند“محض ایک عزت اور اطاعت کا ایک لقب ہے چاہے وہ کسی آقا،بادشاہ یاحتمی طور پر خُدا تعالیٰ کے لئے ہو۔بے شک،حتمی لحاظ سے خُدا تعالیٰ ہی واحد اور حتمی ”خداوند“ ہے۔

تاہم، جناب عیسیٰ مسیح کے پاس ”خداوند“ کا لقب رکھنے کا خاص دعویٰ ہے۔حضرت عیسیٰ مسیح کی پیدایش سے سیکڑوں سال پہلے،زبور شریف کی تحریروں میں آنے والے مسیحا (مسیح)کو ایک ایسی ہستی کے طور پر بیان کیاگیاہے جسے خُدا تعالیٰ کی طرف سے ”کل زمین کا اختیار“ملا ہے
(زبور شریف 8:2)۔ دوسرے الفاظ میں،آنے والا مسیحا کوکسی خلیفہ یا نائب کی مانند ہو نا تھا،جو مکمل طور پر خُدا تعالیٰ کا فرماں بردار تھا مگر تب بھی خُدا تعالیٰ کی طرف سے بنی نوع ِانسان پر پور ااختیار رکھنے والا تھا۔حضرت عیسیٰ مسیح نے مُردوں میں سے جی اُٹھنے سے شیطان کے کام کو شکست دینے کے بعد اپنے شاگردوں سے کہا،

”آسمان اور زمین کا کُل اختیار مجھے دیا گیا ہے۔“(متی کی انجیل 18:28)

اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنا شاندار اختیار حضرت عیسیٰ مسیح کو عنایت کیا ہے۔وہ انجیل شریف اور قرآن شریف کے مطابق ”کلمتہ اللہ“ کا منفرد لقب بھی رکھتے ہیں۔دوسرے الفاظ میں،حضرت عیسیٰ مسیح تمام بنی نوعِ انسان کے دیکھنے کے لئے خُدا تعالیٰ کی مرضی کا زندہ اظہار یا پیغام ہیں۔ مزید یہ کہ وہی واحد کُلّی طور پر بے گناہ انسان ہیں،اِس لئے وہی وہ واحد شخصیت ہے جس کی کُلّی طور پر پیروی یا تقلید کی جانی چاہئے۔

اِن تمام وجوہات کی بِنا پر یہ حضرت عیسیٰ مسیح کے لئے بالکل درست ہے کہ اُنہیں ”خداوند“ کہا جا ئے کیونکہ انجیل شریف میں اُنہیں باربار یہ کہا گیا ہے۔ہمیں خُدا تعالیٰ کے مقدس صحائف کے مطابق اپنی سمجھ کی تعمیرکرنی چاہیے، اور خُدا کے کلام کو اپنے خیالی تصوارات سے رد نہیں کرنا چاہیے۔

صحائف کے لئے خالص زبان عربی ہے؟

”صحائف کے لئے خالص زبان عربی ہے۔“

چند لوگوں کے نزدیک،صحائف اللہ تعالیٰ کا کلام ہے، جو دُنیا کی تخلیق سے بھی پہلے کی ابدی کتاب کی نقل ہے۔یہی بطور جادوئی تعویذ،منتر
کے عربی میں قرآنی آیات کے استعمال کی بنیاد ہے،کیونکہ یہ یقین کیا جاتا ہے کہ یہ آیات اللہ تعالیٰ کی باتیں ہیں۔ اِس بات کی بنیاد پر موازنہ کیا جاتاہے جو کتاب مقدس کو بدنام کرتا ہے۔پھر بھی بڑی آسانی سے یہ نظر آتا ہے کہ قرآن کے بارے میں یہ نقطہء نظر احمقانہ اور نامعقول ہے۔

قرآن کی عربی مسلسل مرتب اور تبدیل ہونے والی زبان کی فوری تصویرپیش کرتی ہے(تاریخی زبانیں واضح طور پر یہی ثبوت دیتی ہیں کہ زبانیں مسلسل بدلتی ہیں،خاص طور پر زبانی ثقافتوں میں جیسے کہ اسلام سے پہلے کا عرب)۔اِس زبان کو اللہ تعالیٰ کی ابدی زبان سمجھنے کا نقطہء نظر اللہ تعالیٰ کو حقیر سمجھنا ہے (نعوذ بااللہ)؛یہ اُسے کم تر کر دیتا ہے۔اللہ تعالیٰ انسان کی مانند نہیں ہے کہ وہ چند عارضی انسانی زبانوں کے ذریعے اپنے خیالات کو الفاظ،زبان اور دانتوں سے بیان کرے،نعوذ بااللہ!…

انسان کی بنائی ہوئی کہانیاں؟

”قرآن کے علاوہ،کتاب ِ مقدس اور باقی تمام صحائف پڑھنے پر انسان کی بنائی ہوئی کہانیاں لگتے ہیں -’ابتدا میں‘وغیرہ۔“

دراصل زیادہ تر مذاہب کے صحا ئف پڑھنے میں کہانیاں معلوم نہیں ہوتے بلکہ وہ انسانی کہانیوں کی نسبت باطنی اظہارِ خیال سے زیادہ ملتے جلتے ہیں۔

ہم جانتے ہیں کہ خدا تعالیٰ ایک عظیم پیغام رساں ہے۔اِس لئے جب خدا تعالیٰ انسانوں تک اپنی مرضی کو پہنچانے کے لئے انسانی زبان استعمال کرتا ہے تو ہمیں محض یہ توقع رکھنی چاہئے کہ یہ کسی مخفی یا باطنی،بے ربط سے خیال سے مشابہت نہیں رکھتی بلکہ یہ ایک تعارف،سامنے آنے والے مکاشفہ اور نتیجے کے ساتھ اُس کے ایک مکمل اورمنظم منصوبے کی پیش کش ہے۔اور یہی ایک طریقہ ہے جس سے عقلی خبر رسانی ہے۔ یہی وہ کچھ ہے جو ہمیں کتاب ِ مقدس میں ملتا ہے۔ اگر ایک انسانی نصاب کی کتاب یا مضمون میں من مانی کرتے ہوئے،بے ربط طریقے سے ہر 2 – 5 جملوں کے بعد موضوع تبدیل ہو جائے،جیسے کہ چند مذہبی متون میں ہوتا ہے، تو تعلیمی روایت رکھنے والے لوگ اِسے ایک بُری خبر رسانی کے طور پر ردّ کر دیں گے۔

خدا تعالیٰ عظیم ہے اور انسانی زبان سے بالاتر ہے لیکن جب انسانوں پر اپنی کامل مرضی ظاہر کرتا ہے تو وہ ایک اعلیٰ ترین واضح پیغام رساں ہوتا ہے۔اگر اُس کا کلام اُلجھانے والا،بے ربط اور ناکافی،کئی مرتبہ ایک مضمون سے دوسرے مضمون پر چلے جانے والا ہوتا تو اِس ناکافی اور مبہم کلام (نعوذ بااللہ)کی وضاحت کرنے کے لئے عام انسانوں نے دوسری واضح کتابیں مرتب کر لی ہوتیں۔ لیکن پوری تاریخ میں خدا تعالیٰ نے اپنے تمام کاموں کو واضح کر نے کے لئے اپنی حکمت میں ہر قانون،تعلیم اور الہٰی نظریے کے ساتھ جسے ہمیں جاننے کی ضرورت ہے، اپنی آسمانی کتب مکمل طور پر نازل کیں۔

لیکن خداتعالیٰ واضح پیغام رساں ہے،اور اعلیٰ ترین پیغام رساں ہے،جو سہل،ذی عقل،واضح پیغام رسانی کا ماہر ہے۔یہ واقعی ایک معجزہ ہے کہ آسمانی صحائف،جو 40مختلف انبیا ئے کرام کے ذریعے 2000سال کے عرصہ میں لکھئے گئے،اُن میں اتنا واضح اتفاق ہو سکتا ہے،جس میں ایک تعارف(پیدایش1-11)،سامنے آنے والا منصوبہ،اور نتیجہ شامل ہے۔یہ ہر اُس بات کی مکمل پیش کش ہے جسے انسانوں کو خدا کی مرضی کے بارے میں جاننے کی ضرورت ہے اور اِس میں کچھ باقی نہیں چھوڑاگیا۔اِس میں کسی اضافی حدیث،نصابی کتاب یا کسی اَور انسانی اختراع کی ضرورت نہیں۔ایک دور دراز کے جنگل کے قبیلے کا شخص جس کے پاس اُس کی اپنی مادری زبان میں کتاب مقدس موجود ہو،اُس کے پاس خدا تعالیٰ کی سچائی کو سمجھنے کے لئے ہر وہ چیز ہو گی جس کی اُسے ضرورت ہے۔

مورس بیکاؤلے نے الزام لگایا ہے کہ خوشخبری رولینڈ کے گیت کی مانند ہے،”جو غیر حقیقی روشنی میں ایک حقیقی واقعہ کو مربوط کرتا ہے۔“دلیل یہ ہے کہ اناجیل کے لکھنے کا مطمع نظر تخلیقی تھا کہ تاریخی۔آکسفورڈ کا جانا پہچاناماہر سی۔ایس۔ لوئیس جو بیکاؤلے کے برعکس طویل عرصے تک رومانی ادب کا عالم تھا،وہ درج ذیل الفاظ میں گواہی دیتاہے:

مجھے (نیا عہد نامہ کے)نقادوں پر بھروسا نہیں۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اُن میں ادبی پرکھ کی کمی ہے اور جو متن وہ پڑھ رہے ہیں اُس کو سمجھنے سے قاصر ہیں …اگر وہ مجھے بتائے کہ انجیل شریف میں کچھ کہانی ہے یا رومان ہے،تو میَں اُس شخص سے پوچھتا ہوں کہ اُس نے کتنی کہانیاں اور کتنی رومانی داستانیں پڑھی ہیں …میَں اپنی ساری زندگی نظمیں،رومانی داستانیں،رویائی ادب،کہانیاں،تصوراتی کہانیاں پڑھتا رہا ہوں۔میں جانتا ہوں کہ وہ کس طرح کی ہوتی ہیں۔میں جانتا ہوں کہ اُن میں سے کوئی بھی اِس (انجیل شریف)کی مانند نہیں ہیں۔2

بہت سے نامور مؤرّخین کے مطابق،عبرانی صحائف انسانی تاریخ میں پہلی اصلی تاریخی تحریریں ہیں،کیونکہ وہ اپنے آباواجداد کے نام کو اُونچا نہیں کرتے بلکہ اُن کی کمزوریاں بھی بتاتے ہیں۔رسولوں نے اِس روایت کی پیروی کی:

”ہم نے دغا بازی کی گھڑی ہوئی کہانیوں کی پیروی نہیں کی تھی بلکہ خود اُس کی عظمت کو دیکھا تھا۔“(2 -پطرس 16:1)

”اِس لئے اے معزز تھیفلُس میں نے مناسب جانا کہ سب باتوں کا سلسلہ شروع سے ٹھیک ٹھیک دریافت کر کے اُن کو تیرے لئے ترتیب سے لکھوں۔تاکہ جن باتوں کی تُو نے تعلیم پائی ہے اُن کی پختگی تجھے معلوم ہو جائے۔“(لوقا3:1-4)

  1. Maurice Bucaille, The Bible, the Qur’ān and Science, (American Trust Publications: Indianapolis, 1979), p viii.

صحائف پرانے ہو چکے ہیں؟

”قرآن کے آنے سے اُسے توریت شریف اور انجیل پر سبقت مل گئی ہے اور وہ غیر متعلقہ ہو گئی ہیں۔“

مسلمانوں کے درمیان یہ ایک وسیع خیال موجود ہے کہ”قرآن کے آنے سے اُسے توریت شریف اور انجیل پر سبقت مل گئی ہے اور وہ غیرمتعلقہ ہو گئی ہیں“۔یہ شاندار الزام قرآن یا حدیث میں کوئی بنیاد نہیں رکھتا یہ محض ایک رائے ہے جو قرآن سے تضاد رکھتی ہے۔

اگر یہ الزامات درست ہوتے تو پھر قرآن یہودیوں او رمسیحیوں کو یہ ہدایت نہ کر رہا ہوتا:”جب تک تم تورات اور انجیل کو اور جو (اَور کتابیں)تمہارے پروردگار کی طرف سے تم لوگوں پر نازل ہوئیں اُن کو قائم نہ رکھو گے کچھ بھی راہ پر نہیں ہو سکتے۔“(سورۃالما ئدہ 68:5)،
اِس کی بجائے یہ بھی کہا جا سکتا تھا،”تمہاری کوئی بنیاد نہیں ہو سکتی جب تک تم توریت شریف اور انجیل شریف کو قرآن ِ کے حق میں ختم نہیں کر دیتے۔“قرآن یہ نہیں کہتا:”اور اہل ِ انجیل کو چاہئے کہ جو احکام خدا نے اِس میں نازل فرمائے ہیں اُس کے مطابق حکم دیا کریں۔“(سورۃ المائدہ 47:5)بلکہ یہ کہتا کہ،”اہل ِ انجیل کو انجیل کو بھول جانا چاہئے اور قرآن کے مطابق حکم دیں۔“
اِس سے یہ بات واضح ہے کہ قرآن نے کبھی بھی پچھلے مکاشفات کی تبدیلی کا الزام نہیں لگایابلکہ اِس کے بجائے ”صاف عربی زبان“
(195:26)میں اُن کے اب تک مُستند ہونے (48:5)کی تصدیق کرتا ہے۔اگر ہر ایک صحیفہ حقیقت میں اپنے پچھلے صحیفے کو ترک کرتا ہے تو پھر ہم حضرت مسیح سے توقع کریں گے کہ اُنہوں نے توریت شریف کو ردّ کیا ہو گامگر اِس کے برعکس اُنہوں نے اِس کی اب تک قائم اور مُستند ہونے کی تصدیق کی اور خدا تعالیٰ کی اگلی کہانی انجیل شریف کا اضافہ کیا۔ 

منسوخ؟ ”ہم جس آیت کو منسوخ کر دیتے یا اُسے فراموش کرا دیتے ہیں تو اُس سے بہتر یا ویسی ہی اَو رآیت بھیج دیتے ہیں۔ کیا تم نہیں جانتے کہ خدا ہر بات پر قادر ہے؟“(سورۃ البقرۃ 106:2)
تاہم یہ آیت بالکل واضح ہے کہ منسوخ کا اشارہ کس طرح ہے یعنی انفرادی طورپر لکھی گئی قرآنی آیات نہ کہ کتابیں۔جب ہم تمام سیکڑوں احادیث کا جائزہ لیتے ہیں جو اِس منسوخ کے نظریے کی طرف اشارہ کرتی ہیں تو یہ بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ یہ آیت قرآنی آیات کی طرف اشارہ کر رہی ہے نہ کہ کسی کتاب کی طرف۔

غلَط مماثلتیں – وہ جو توریت شریف او رانجیل شریف کو متروک سمجھتے ہیں وہ اکثر مشابہتوں سے بحث کرتے ہیں جیسے کس طرح پرانے کمپیوٹر پروسیسرز کی جگہ نئے کمپیوٹرز نے لے لی ہے، یا نئی حکومتیں نئے آئین لے کر آتی ہیں۔تاہم،ایسی مشابہتیں اِس لئے پیش نہیں کی جا سکتیں کیونکہ پروسیسرز اور آئین اِس لئے بدلے جاتے ہیں کیونکہ وہ کامل نہیں ہوتے۔یہ خدا تعالیٰ کی توہین ہے کہ یہ کہا جائے کہ اُس باری تعالیٰ کا کلام نامکمل ہے۔کیا خدا ایسا پیغام دے گا جو غیر مناسب یا عیب والا ہو؟یہ کہنا کہ صحائف یا کلام غیر مناسب ہیں، خدا تعالیٰ کی توہین ہو گی،کیونکہ یہ اُس کے ساتھ انسانی حدود منسوب کرناہے۔جب خدا تعالیٰ کوئی کلام دیتا ہے تو یہ کامل ہوتا ہے اُس کے ”بدلنے“ کی کبھی ضرورت نہیں پڑتی۔ 

درست مماثلتیں – ایک ایسی مماثلت جو خدا تعالیٰ کے کلام کی بالکل مناسب عزت و تعظیم کرتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ بعد کا آنے والا صحیفہ کسی اَن کہی کہانی کے ابواب یا جلدوں کی صورت میں کام کرتا ہے جن کا ہر ایک حصہ خدا تعالیٰ کے سارے منصوبے کو سمجھنے کے لئے بہت اہم ہے۔
کلام کے صحائف کو کسی عمارت کی منزلوں یا درجوں کے ساتھ بھی مماثلت دی جا سکتی ہے۔اگر آپ بنیاد کی عمارت کو ہٹا دیں تو باقی تمام منزلیں بھی گِر جائیں گی۔اس کا ذکر سورۃ المائدۃ 68:5میں کیا گیا ہے:

”کہو کہ اے اہل ِ کتاب جب تک تم تورات اور انجیل کو اور جو (اور کتابیں)تمہارے پروردگار کی طرف سے تم لوگوں پر نازل ہوئی اُن کو قائم نہ رکھو گے کچھ بھی راہ پر نہیں ہو سکتے۔“(سورۃ المائدۃ 68:5)

صحائف یا کلام متضاد نہیں ہو سکتےیہ ممکن ہو سکتا ہے کہ ایک زمانے میں خدا تعالیٰ نے ایک قبیلے کوایک خاص قانون کی پیروی کرنی کی ہدایت کی ہے اور بعد میں ایک اَور قوم کو ایک مختلف قانون کی پیروی کی ہدایت کی ہو،یہ دلیل قابل ِ قبول ہے۔لیکن اگر ایک صحیفہ یہ سکھاتا ہے کہ
نجات شریعت کے وسیلے سے حاصل نہیں کی جاسکتی بلکہ خدا تعالیٰ کے واحد اور ایک ہی نجات کے ابدی انتظام کے وسیلے سے حاصل ہوسکتی ہے تو خدا تعالیٰ کا کلام ہوتے ہوئے یہ بیان کبھی بھی تبدیل نہیں ہو سکتا۔ہر صحیفے کی اپنی اہمیت ہے۔ انجیل شریف کا مرکزی نکتہ یہ بات ہے کہ نجات کیسے حاصل کی جائے جبکہ قرآن کا بنیادی نکتہ بت پرستوں کو روزِعدالت کی تنبیہ ہے۔

پولُس رسول نے انجیل شریف چُرا لی؟

”پولُس نے حضرت عیسیٰ مسیح کا پیغام چُرا لیا اور اُسے اپنے مفاد ات کے مطابق بدل ڈالا۔“

کتاب مقدس یا کسی اور مُستند ذریعے سے ایسا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے کہ رسولی جماعت اور پولُس رسول کے درمیان کوئی بڑی کشمکش موجود تھی۔نقاد پولُس رسول اَور برنباس کے درمیان ایک بڑے اختلاف کے طور پر اعما ل39:15کے بارے میں مبالغہ آرائی کرنا پسند کرتے ہیں۔آئیے!…

اناجیل کا مصنف ہونا

”حضرت عیسیٰ مسیح کے حقیقی بارہ شاگردوں نے چاروں اناجیل میں سے ایک بھی انجیل نہیں لکھی۔“

ابتدائی کلیسیا، جس میں بہت سے مقدس متی،مقدس مرقس،مقدس لوقا او رمقدس یوحناکو شخصی طورپر جانتے ہیں،متفق تھی کہ چاروں اناجیل
مقدس متی،مقدس مرقس،مقدس لوقا او رمقدس یوحنانے ہی لکھی ہیں۔مقدس متی او رمقدس یوحنا دونوں حضرت عیسیٰ مسیح کے بارہ شاگردوں میں سے تھے،مقدس مرقس نے تمام واقعات مقدس پطرس (وہ بھی بارہ میں سے ایک تھا)سے سنے،اور مقدس لوقا پہلی نسل کی کلیسیا کا ایک سرگرم رُکن تھا۔ابتدائی کلیسیا کی تحریروں کا تاریخی ریکارڈ یہ بتاتا ہے کہ ابتدائی کلیسیا اِس بارے میں مُتفق الرائے تھی کہ یہ اصلی مصنفین تھے۔یہ محض گذشتہ چند صدیاں ہیں جب مُلحد علماء نے اِن اناجیل کی تاریخ کو نئی شکل دینے کی کوشش کی۔تاریخ کی اِس جھوٹی توضیح و تشریح
کے پیچھے کام کرنے والی بہت سی قوتیں تھیں:

معجزوں کا انکار – کچھ علما ء کا بنیادی مفروضہ یہ ہے کہ معجزات نہیں ہو سکتے اور نہیں ہوئے،اِ س لئے جتنے بھی واقعات میں معجزات درج ہیں وہ شاید خود سے کہانیاں بنائی گئی ہیں جو رفتہ رفتہ فروغ پاتی گئیں۔ اُن کی منطق یہ ہے کہ اگر کوئی متن تاریخی حقیقت کے طور پر کوئی معجزہ پیش کرتا ہے تو تحریر کا وہ پورا حصہ بھی اُسی طرح گھڑا او ربنایا گیا ہوگا۔اِس لئے جب اناجیل حضرت عیسیٰ مسیح کنواری سے پیدایش اور معجزات کو تاریخی حقائق کے طور پر لکھتی ہیں، تو پھر تمام سوانح حیات بتدریج مبالغہ آرائی میں ڈھلنے والی کہانی ہے جو کسی فرض کئے ہوئے مصنف سے نہیں لکھی جا سکتی تھی۔

نئے نظریات اور اشاعت کی ضرورت – حیاتیات اور طب پڑھنے والوں کے نزدیک،تعلیمی اعتبار سے اِس میں تقریباً لامحدود حد تک نامعلوم مواد تازہ تحقیق کا منتظر رہتا ہے۔تاہم،جہاں تک کتاب مقدس کا تعلق ہے، صدیوں سے تقریباًہر ایک آیت اور کتاب پربیش بہا تحقیقی کام موجود ہے۔ایک جدید عالم کو توجہ حاصل کرنے کے لئے کسی نئے نظریے پر مفروضہ قائم کرنا پڑتا ہے جس میں غالباًکچھ نئی آثارِ قدیمہ کی دریافتوں پر مبالغہ آرائی کی گئی ہوتی ہے۔آپ کو اُن باتوں کے لئے کوئی خراج تحسین نہیں ملے گا جو پہلے ہی کئی مرتبہ کہی جا چکی ہیں۔اکثر ”تاریخی حضرت عیسیٰ مسیح“ کی نئی تصاویر محض موجود ہ تعلیمی جنون کو پیش کرتی ہیں۔جب مارکس ازم بہت مشہور تھا تو حضرت عیسیٰ مسیح
کو مارکسی کے طور پر پیش کیاگیا؛جب تصوف مشہور تھا تو جد ید علما نے اُسے ایک صوفی کا رُوپ دے دیا۔جدیدعلمائے کرام کا تاریخی
حضرت عیسیٰ مسیح بھی اکثر محض اُن کی اپنی سوچ اور جنون کی تصویر پیش کرتا ہے۔

تاریخی -تنقیدی طریقے کو زیادہ گراں قدر سمجھنا – کتاب مقدس کے مطالعے کے طریقہ کار تنقید اعلیٰ اور صورت کی تنقید تاریخ کو دوبارہ سے تشکیل دینے کی کوشش ہیں جو ادبی انداز اور موازنے پر مبنی ہیں۔یہ مطالعہ کے لئے گراں قدر طریقہ کار ہیں اور یہ ماضی کے متعلق ہمار ی تصویر کو واضح کرتے ہیں۔مسئلہ تب ہوتا ہے جب علمائے کرام سادہ تاریخی ریکارڈ پر یقین رکھنے کے بجائے ادبی تجزیوں کو بہت مُستند طریقہ کار سمجھتے ہیں اور تکبّر میں آ کر یہ فرض کرتے ہیں کہ وہ دو ہزار سال بعد بھی اُس وقت کے لوگوں کی نسبت قدیم واقعات کو زیادہ جانتے ہیں۔اِس لئے مثال کے طور پر ہمارے پاس نسخہ جات کی شہادت موجود ہے کہ وہ لوگ جو بارہ شاگردوں کو جانتے تھے،اُنہوں نے کہا کہ متی کی انجیل مقدس متی نے ہی لکھی،لیکن دو ہزار سال بعد علماء غرور میں آ کر یہ قیاس کر تے ہیں کہ اِن ابتدائی قائدین کی نسبت زیادہ جانتے ہیں۔

یونانی انجیل

”یونانی انجیل حضرت عیسیٰ مسیح کی اصلی انجیل نہیں ہو سکتی،کیونکہ حضرت عیسیٰ مسیح عبرانی یا ارامی بولا کرتے تھے۔“

ذاکر نائیک نے دعویٰ کیا ہے،

”اگرچہ حضرت عیسیٰ مسیح عبرانی بولا کرتے تھے،لیکن جو اصلی نسخہ جات آپ کے پاس ہیں وہ یونانی میں ہیں“۔1

یہ سچ ہے کہ غالباًحضرت عیسیٰ مسیح عبرانی سمجھتے تھے اگرچہ اُن کی مادری زبان عبرانی نہیں تھی بلکہ گلیل میں بولی جانے والی ارامی زبان تھی۔ یونانی اُس وقت کی بین الاقوامی زبان تھی اِس لئے یہ فلستین میں وسیع پیمانے پر بولی جاتی تھی۔علما ئے کرام کہتے ہیں کہ بڑھئی ہونے کی وجہ سے حضرت عیسیٰ مسیح یونانی بھی جانتے تھے۔کبھی کبھار اُن کی تعلیم ارامی میں ہو گی جبکہ کبھی یہ یونانی میں ہو گی (مثلاً جب وہ سورفینیکی عورت سے بات کر رہے تھے، مرقس 26:7-30 )۔یہ واضح ہے کہ نیا عہد نامہ (انجیل شریف)اصل میں کوئنے یونانی میں لکھی گئی تھی نہ کہ ارامی سے ترجمہ کی گئی تھی۔کوئنے یونانی زبان کتب مقدسہ کے لئے بالکل مناسب زبان تھی کیونکہ یہ اُس وقت دنیا میں زیادہ سمجھی جانے والی زبان تھی۔کتب مقدسہ صرف خاص ”اعلیٰ“سامی زبانوں میں ہی نازل نہیں کی گئی ہیں۔قرآن خود فرماتا ہے کہ یہ اِس لئے ”عربی میں نازل کیا ہے تاکہ تم سمجھ سکو۔“(2:12)

  1. Zakir Naik, The Qur’ān and the Bible in the Light of Science.

عبرانی میں پرانا عہد نامہ ناپید ہے؟

“موجودہ عبرانی پرانا عہد نامہ یونانی ترجمے سے ترجمہ کیا گیا ہے جب کہ اصلی عبرانی متن اب دستیاب نہیں ہے۔”

ذاکر نائیک شرم ناک حد تک دعویٰ کرتا ہے،

“پرانا عہد نامہ جو اصل عبرانی میں ہے اب دستیاب نہیں ہے۔کیا آپ جانتے ہیں؟پرانے عہد نامے کا جو عبرانی ترجمہ موجود ہے وہ یونانی ترجمے سے کیا گیا ہے۔حتیٰ کہ اصلی پرانا عہد نامہ جو عبرانی میں ہے وہ اب عبرانی زبان میں موجود نہیں ہے۔”
1

نائیک کا یہ دعویٰ کہ پرانا عہد نامہ اصل عبرانی میں موجود نہیں ہے،بالکل غلط ہے۔حضرت مسیح سے صدیوں قبل کے عبرانی پرانے عہد نامے کے سینکڑوں طومار موجود ہیں جو بحیرہئ مردار یا قمران کے طومار کہلاتے ہیں۔یہ پرانے عہد نامے کے قدیم ترین نسخہ جات کو پیش کرتے ہیں۔ اِس دریافت سے پہلے عبرانی پرانے عہد نامے کے قدیم ترین نسخہ جات یونانی ترجمہ میں موجود تھے جنہیں سپٹواجینٹ کہا جاتا ہے،جس کے حوالہ جات ابھی تک علماے کرام دیتے ہیں۔ حتیٰ کہ عبرانی پرانے عہد نامے کے سیکڑوں نسخہ جات مسوراتی روایت میں موجود ہیں جو حیران کُن حد تک بالکل ویسے ہی ہیں جیسے قمران کے قدیم نسخہ جات ہیں۔جیسے کہ علمِ آثارِ قدیمہ مزید قدیم عبرانی طومار دریافت کرتا ہے،تو مزید حیران کُن مطابقت ملتی ہے۔یہ کہنابالکل جھوٹ ہے کہ موجودہ عبرانی متن یونانی سے ترجمہ کیا گیا ہے۔


Zakir Naik, The Quran and the Bible in the Light of Science.

کیا ہر مسیحی گروہ کے پاس اپنی کتاب مقدس نہیں ہے؟

”کیا ہر مسیحی گروہ کے پاس اپنی کتاب مقدس نہیں ہے؟“

مسیحیت کی تمام شاخیں -کیتھولک،پروٹسٹنٹ،آرتھوڈو کس،لوتھرن،اینگلیکن،پینتی کاسٹل وغیرہ کے پاس بالکل ایسی ایک جیسی توریت شریف (تورہ)،زبور شریف (مزامیر)،اور انجیل شریف (نیا عہد نامہ)ہیں۔حتیٰ کہ اگر آپ یہودیوں کی توریت شریف یا زبور شریف کا
مسیحیوں کی کتابوں سے موازنہ کریں تو یہ بالکل ویسی ہی ہیں (اگرچہ اُن کی ترتیب مختلف ہے)۔اِس لئے تمام تینوں متون جنہیں قرآن اختیار مانتا ہے،وہ پوری مسیحی اور یہودی دنیا میں بالکل یکساں ہیں۔

پروٹسٹنٹ اور غیر پروٹسٹنٹ میں واحد فرق یہی ہے کہ کیا اُن میں انبیا کی کتب (کتاب الانبیاء)میں ’اپاکرفا‘ بھی شامل ہیں یا نہیں۔ یہ ’اپاکرفا‘ کتابوں کا ایسا مجموعہ ہے،جسے کیتھولک بھی کتاب مقدس کی فہرست میں ”ثانوی“ درجہ دیتے ہیں۔بالکل ایسا ہی جھگڑا اسلام میں بھی دیکھا جا سکتا ہے،جہاں چند شیعہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ قرآن میں دو اَور سورتیں بھی ہیں جنہیں سُنیوں نے نکال دیا ہے۔ایسے مسائل قبول شدہ کلام اللہ کے مُستند ہونے کو ردّ نہیں کرتے۔