کیا حضرت عیسیٰ مسیح صرف یہودیوں کے لئے ہیں؟
بہت سے نقادیہ ظاہر کرنے کے لئے کہ حضرت عیسیٰ مسیح کو صرف یہودیوں کے لئے بھیجا گیا تھا،دو اقتباسات کی طرف نشان دہی کرنا پسند کرتے ہیں۔یہ تو ایسے کہنا ہے جیسے کہ محمدؐ صرف عرب لوگوں کے لئے بھیجے گئے تھے کیونکہ وہ عرب سے باہر کبھی نہیں گئے اور ایک جگہ قرآن فرماتا ہے،”ہم نے تم کو ایک عربی قرآن نازل فرمایا تاکہ تم مکہ او راِس کے اِرد گرد رہنے والوں کو خبردار کرو۔“ایسے غیر متوازی دعوے کرنے کے لئے آپ کو دوسری آیات کو چھپا نا یا نظر انداز کرنا ہوگا۔نیچے ہم اُن دو اقتباسات کا جائزہ لیں گے اور مجموعی طور پر ثبوت کا جائزہ لیں گے۔
متی 10باب میں حضرت عیسیٰ مسیح اپنے شاگردوں کو عارضی سفر کے لئے بھیج رہے ہیں مگر اِس مرتبہ صرف یہودیوں کے پاس۔ہم جانتے ہیں کہ یہ ہدایات عارضی تھیں،جب کہ لوقا9باب اِس دئیے گئے کام کا خاتمہ درج کرتا ہے اور بعد میں حضرت عیسیٰ مسیح اُن چندابتدائی ہدایات میں خاص طور پر تبدیلی کی (لوقا35:22-36)۔
متی 21:15-28(مرقس23:7-30بھی)میں حضرت عیسیٰ مسیح ایک کنعانی عورت کو واضح کر رہے ہیں کہ کس طرح اُن کی بنیادی زمینی خدمت بنی اسرائیل کے لئے تھی۔اِس حوالہ او رمتی 10باب میں حضرت عیسیٰ مسیح کی اپنے شاگردوں کو ہدایات کویہ تجویز کرنے کے لئے کئی نقادوں نے بگاڑا کہ وہ صرف بنی اسرائیل کے لئے بھیجا گیا تھا۔اِس کے برعکس توریت شریف،زبور شریف او راناجیل میں دس مرتبہ سے زیادہ واضح اقتباسات موجود ہیں۔ صرف پولُس کے خطوط ہی کو دیکھیں جو انکار کئے بغیر یہ کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ مسیح کے پیغام کا مقصد پوری دنیا کے لئے تھا۔یہ سچ ہے کہ اُ ن کی زمینی خدمت یہودیوں کے لئے تھی کیونکہ حضر ت ابراہیم کے وقت سے بنی اسرائیل خُدا کے پیغام کے خادم تھے۔ اِس لئے حضرت عیسیٰ مسیح سب سے پہلے اسرائیل کے لئے پیغام لے کر آئے!
تاہم حضرت عیسیٰ مسیح کی مصلوبیت اور مُردوں میں سے جی اُٹھنا ایک نئے عہد کے دور کا آغاز تھی جس کی نبوت پہلے سے ہو چکی تھی،جب براہ ِ راست تمام قوموں کے لئے دروازہ کھُلناتھا۔حتیٰ کہ اپنی مصلوبیت سے پہلے حضرت یسوع مسیح نے کئی بار واضح طور پر یہ فرمایا،
”دنیا کا نور میں ہوں“(یوحنا12:8)
”راہ او رحق او رزندگی میَں ہوں۔ کوئی میرے وسیلہ کے بغیر باپ کے پاس نہیں آتا۔“(یوحنا 6:14)
حضرت عیسیٰ مسیح نے فرمایا کہ اُن کی آنے والی شخصی قربانی ہو گی:
” جہان کی زندگی کے لئے“(یوحنا 51:6)۔
او رمتی نے حضرت عیسیٰ مسیح کے بارے میں فرمایا،
”اِس کے نام سے غیر قومیں اُمید رکھیں گی۔“(متی 21:12)
جب حضرت جبرائیل نے حضرت عیسیٰ مسیح کی پیدایش کا اعلان کیا تو کہا:
”ڈرو مت کیونکہ دیکھو میں تمہیں بڑی خوشی کی بشارت دیتا ہوں جو ساری اُمت کے واسطے ہوگی کہ آج داؤد کے شہر میں جو ساری اُمت کے واسطے ہوگی کہ آج داؤد کے شہر میں تمہارے لئے
ایک مُنجّی پیدا ہوا ہے یعنی مسیح خداوند۔“(لوقا10:2)
اپنی موت اور مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے بعد حضرت عیسیٰ مسیح نے واضح طور پر فرمایا کہ اُن کا پیغام پوری دنیا کے لئے ہے۔ آپ نے
اپنے شاگردوں کہا:
”پس تم جا کر سب قوموں کو شاگرد بناؤاور اُن کو باپ اور بیٹے اور رُوح القدس کے نام سے بپتسمہ دو۔اور اُن کو یہ تعلیم دو کہ اُن سب باتوں پر عمل کریں جن کا میَں نے تم کو حکم دیا اور دیکھو میں دنیا کے آخر تک ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوں۔“(متی 19:28-20)
ہمیں یہ آخری اور واضح حکم دوبارہ لوقا46:24-48میں ملتا ہے۔محمدؐ کے اپنے صحابہ کرام کو کہے ہوئے الفاظ بہت وزن رکھتے ہیں۔اِسی طرح حضرت عیسیٰ مسیح کے کہے ہوئے الفاظ بھی خاص اہمیت کے حامل ہیں۔
مزید یہ کہ حضرت عیسیٰ مسیح کے متعلق نبوتیں یہ بات واضح کرتی ہیں کہ آنے والا مسیحا تمام قوموں کے لئے تھا۔یسعیاہ نبی مسیحا کے بارے میں فرماتے ہیں:
اُس وقت یوں ہو گا کہ لوگ یسّی کی اُس جڑ کے طالب ہوں گے جو لوگوں کے لئے ایک نشان ہے اور اُس کی آرام گاہ جلالی ہو گی۔“
(یسعیاہ 10:11)
اور
”جزیرے اُ س کی شریعت کا انتظار کریں گے“(یسعیاہ 4:42)
زکریاہ مسیحا کے لئے یوں نبوت کرتا ہے:
”دیکھ تیرا بادشاہ تیرے پاس آتا ہے۔وہ صادق ہے اور نجات اُس کے ہاتھ میں ہے۔وہ حلیم ہے اور گدھے پر بلکہ جوان گدھے پر سوار ہے
…اور وہ قوموں کو صلح کا مُژدہ دے گا،اور اُس کی سلطنت سمندر سے سمندر تک او ردریای ِ فرات سے انتہای ِ زمین تک ہو گی۔“ (زکریاہ9:9-11)
خلاصہ
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ حضرت عیسیٰ مسیح کے پہلے بارہ شاگردوں نے قوموں میں اُس کا پیغام پھیلانے کے لئے ایشیا،یورپ اور افریقہ کا سفر کیا۔اگر حضرت عیسیٰ مسیح کا پیغام صرف یہودیوں کے لئے تھا تو پھر اُنہوں نے اپنی زندگیاں فضول میں ضائع کیوں کیں؟اگر
حضرت عیسیٰ مسیح کی پوری زندگی مضحکہ خیز ناکامی ہوئی،تو اُس کے شاگردوں نے قوموں میں اُس کے پیغام کوپھیلانے میں کبھی بھی اپنی زندگیاں ضائع نہ کی ہوتیں۔
یہ یقین کرنا آسان ہے کہ ہر ایک نبی ایک الگ قوم کے لئے مقرر کیا گیا تھا، لیکن یہ سچ نہیں ہے۔تمام بڑے انبیا ئے کرام حضرت آدم،
حضرت نوح،حضرت ابراہیم،حضرت اسحاق،حضرت یعقوب،حضرت یوسف،حضرت موسیٰ،حضرت داؤد،حضرت سلیمان،حضرت یونس ؑ،حضرت یحیٰی اور حضرت عیسیٰ مسیح یہ سب ایک ہی برادری میں سے تھے جو حضرت یعقوب کے بعد اسرائیل یا ’بنی اسرائیل‘ کہلائی۔خُدا تعالیٰ نے دنیا پر اپنی راہ کو ظاہر کرنے کواُنہیں تین براعظموں کے ملاپ پر رکھتے ہوئے اُنہیں ایک ”مثالی برادری“ کے طور پر منتخب کیا تاکہ قومیں اُن کی طرف مائل ہوں۔حضرت عیسیٰ مسیح اپنی نجات کے وسیلے سے خُدا تعالیٰ کے پاس آنے کے لئے براہ ِ راست قوموں کے لئے دروازہ کھولتے ہوئے نیا عہد لے کر آئے۔
Leave a Reply