کیا یرمیاہ 8:8بیان کرتاہے کہ توریت شریف تبدیل ہو گئی تھی؟
یرمیاہ 8:8 – ”یہ حوالہ ثابت کرتا ہے کہ توریت شریف بگڑ چکی ہے۔“
”تم کیوں کر کہتے ہو کہ ہم تو دانش مند ہیں اور خدا وند کی شریعت ہمارے پاس ہے؟لیکن دیکھ لکھنے والوں کے باطل قلم نے بطالت پیدا کی ہے۔“(یرمیاہ 8:8)
وہ لوگ جو یرمیاہ کے مرکزی خیال سے واقف ہیں، وہ جانتے ہیں کہ یہ آیت صحائف کی جھوٹی تشریح (تفسیر)کی تعلیم کی بات کر رہی ہے نہ کہ متن کی تبدیلی کی۔یہ بات واضح ہے کہ یرمیاہ نے خُدا تعالیٰ کی شریعت کی پائداری پر شک نہیں کیا،کیونکہ وہ باربار اسرائیل کو شریعت کی پیروی کی تلقین کرتاہے کہ جو خُدا تعالیٰ نے ”تمہارے سامنے رکھی“(یرمیاہ 4:26)۔یہ بات اُس کے لئے تضاد کا باعث ہو گی کہ وہ لوگوں کو ایسی شریعت کی فرمانبرداری کرنے کا کہے جو تبدیل ہو چکی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ یہ آیت یہ تعلیم نہیں دے سکتی کہ توریت شریف تبدیل ہو چکی ہے۔یرمیاہ کے دنوں میں، اسرائیلیوں نے سوچا کہ خُدا اُن کی بت پرستی کو نظر انداز کرے گا اور کبھی سزا نہ دے گا۔یہود ی فقیہوں، کاہنوں اور نبیوں نے گناہ آلودہ اسرائیل کو توریت شریف کے ایسے حصے نہ پہنچاکر جن میں نافرمانی کرنے پر عدالت کرنے کی پیشین گوئی کی گئی تھی، شَہہ دی اور توریت شریف کے صرف ایسے حصے پہنچائے جن میں سلامتی کی پیشین گوئی کی گئی تھی۔یرمیاہ کا اُن کے لئے خُداتعالیٰ کی طرف سے مجموعی پیغام یہ تھا،”تم سب نافرمانی کے سبب ہلاک ہونے والے ہو،جیسے کہ شریعت واضح طور پر کہتی ہے مگر فقیہ ایسے نہیں کہہ رہے۔“جلد ہی یرمیاہ سچا ثابت ہوا کیونکہ فوراً اسرائیل بابلیوں کے ہاتھوں برباد ہو گیا۔
جب ہم اُس کے بعد کا متن دیکھتے ہیں تویہ واضح ہو جاتا ہے کہ یرمیاہ یہاں کیا کہہ رہا ہے۔یرمیاہ فقیہوں (دینی اُستادوں) کی ملامت کررہاتھا جو توریت شریف کی ایسی آیات کو بالکل نہیں پہنچاتے تھے جو واضح طور پر نافرمانی کی عدالت کی پیش گوئی کرتی ہیں، اور چھانٹ چھانٹ کر توریت شریف میں سے ایسی آیات پہنچا رہے تھے جو (فرماں برداری کی اوّلین شرط کو نظر انداز کرتے ہوئے)تسلی اور امن کی پیشین گوئی کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ شریعت کے بالکل برعکس اپنی تقریروں،تبصروں اور تحریروں میں یہ فقیہ پیشین گوئی کر رہے تھے۔
اگر یرمیاہ یہ کہہ رہا تھا کہ فقیہ نے دراصل متن تبدیل کیا تو اِس کا مطلب یہ ہو گا کہ اُنہوں نے نافرمانی کے حوالے سے عدالت کی واضح تنبیہ مٹاڈالیں۔لیکن ہم اب بھی یہ تنبیہ استثنا15:28-68کے متن میں پاتے ہیں۔صاف ظاہر ہے کہ یہ آیت مقدس کلام کے متن کے بگاڑ کے بارے میں بات نہیں کر رہی اور نہ صرف کتاب مقدس بلکہ قرآن بھی یہی تعلیم دیتا ہے کہ اللہ کا کلام تبدیل نہیں ہو سکتا۔,
یرمیاہ کی طرح حضرت مسیح بھی توریت کی شریعت کو نظرا نداز کرنے اور اِس کے بجائے تالمود کی تعلیم دینے کی وجہ سے یہودی فقیہوں کے
مخالف تھے۔آپ نے واضح طور پر کہا،
”میَں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک آسمان اور زمین ٹل نہ جائیں ایک نقطہ ایک شوشہ توریت سے ہر گز نہ ٹلے گاجب تک سب کچھ پورا نہ
ہو جائے۔“(متی 18:5)
اِس سے زیادہ واضح بات نہیں کی جاسکتی۔اَور بھی بہت سی آیات ہیں جو اِسی بات کی تعلیم دیتی ہیں:زبور89:119؛امثال5:30؛
یسعیاہ 8:40؛1 -پطرس23:1؛1 -پطرس25:1؛2 – پطرس 20:1؛2 -تیم 16:3۔یہ بہت دھوکے کی بات ہے کہ اِس طرح کی آیت سیاق و سباق سے باہر لی جائے اور یہ ثابت کیاجائے کہ متن تبدیل ہو چکا ہے جبکہ اِس کے ساتھ سیکڑوں واضح آیات موجود ہیں جو اِس کے برعکس بات کرتی ہیں۔یہ ایسے کہنا ہے کہ جیسے قرآن تعلیم دیتا ہے کہ ”عزرا اللہ تعالیٰ کا بیٹا“ہے،یہ صرف ہم اِس لئے کہتے ہیں کیونکہ یہ الفاظ قرآن میں پائے جاتے ہیں (30:9)۔
Leave a Reply