تمام پودے کھانے کے قابل ہیں؟
پیدایش16:2-17 – ”یہ سکھاتی ہے کہ تمام پودے کھانے کے قابل ہیں۔“
جب خورونوش کے قوانین یہ بتاتے ہیں کہ صرف سؤر،گوشت کھانے والے،مُردہ جانور،خون اور الکوحل مُضر ہیں تو یہ صرف ذاکر نائیک جیسے ہی لوگ ہوں گے جن میں عام شعور کی کمی ہے کہ اُنہوں نے زہریلے پودوں اورگوشت سے باز رہنا ہے۔جب خُدا تعالیٰ نے حضرت آدم کو اجازت دی کہ وہ باغ میں موجود کسی بھی درخت کا پھل کھائے تو وہ کھانے کا حکم نہیں دے رہابلکہ کھانے کے لئے اپنا انتخاب کرنے کی آزادی دے رہا ہے۔
اگرہم آیت کا بغور مطالعہ کریں تو ہم دو باتیں ملتی ہیں۔پہلی یہ کہ ’کسی بھی درخت‘ کے ذِکر کا ہر گز مطلب ’تمام‘ نہیں ہے کیونکہ یہ کہتے ہوئے اِس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ کم از کم ایک درخت ہے کہ جس میں سے حضرت آدم نہیں کھا سکتے تھے اور وہ نیک و بد کی پہچان کا درخت تھا۔
دوسری اور سب سے اہم بات یہ جملہ کہ ’باغ میں سے‘ہے۔خُدا تعالیٰ نے یہ سہولت اُس وقت رکھی تھی کہ جب حضرت آدم ابھی تک اُس کی کامل تخلیقی حیثیت میں تھے،اِس سے پہلے کہ گناہ دنیا میں داخل ہو۔ ابتدا میں ہر چیز اچھی تھی (پیدایش 31:1)- ہر ایک چیز خُدا تعالیٰ نے
کاملیت میں بنائی تھی۔ابتدائی تخلیقی حالت بغیر گناہ کے تھی۔اِس لئے کوئی بھی پودا زہریلا یا نشہ آور نہیں تھا۔ہر وہ چیز جو خُداتعالیٰ نے بنائی وہ انسان کے فائدے کے لئے تھی۔جب حضرت آدم کے وسیلے سے گناہ دنیا میں داخل ہو اتو وہ کامل حیثیت بگڑ گئی۔حضرت آدم کے گناہ کے نتیجے میں پیدایش 17:3-18میں خُداتعالیٰ کی سزا نے خاص طور پر زمین او رپودوں کو متاثر کیا۔
قرآن میں بھی ایسا ہی ہے، ہم آیات کو زیادہ لغوی معنوں میں نہیں لے سکتے۔الانعام 38:6پڑھئے،
”اور زمین میں جو چلنے پھرنے والا (حیوان)یا دو پروں سے اُڑنے والا جانور ہے،اُن کی بھی تم لوگوں کی طرح جماعتیں ہیں۔“
تاہم بہت اقسام موجود ہیں جو انسانوں کی طرح برادریوں میں نہیں رہتیں،جیسے کہ مادہ کالی بیوہ مکڑی،مثلا ً جو اپنی ساتھی کو اُس سے صحبت کرنے کے بعد کھاتی ہے۔یہ قرآن کو ردّ نہیں کرتی بلکہ صرف یہ وضاحت کرتی ہے کہ بعض اوقات کس طرح ہم اقتباس کو اُس کے لغوی معنوں میں نہیں لے سکتے۔
Leave a Reply