کیا حضرت عیسیٰ کو خداوند کہا جا سکتا ہے؟
”جیسے کہ انجیل شریف بیان کرتی ہے،حضرت عیسیٰ کو’خداوند‘ نہیں کہا جا سکتا۔“
جیسے کہ قرآن سکھاتا ہے کہ سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی خداوند (”ربّ“)نہیں ہے،تو بہت سے لوگ انجیل شریف کے حضرت عیسیٰ مسیح کو
”خداوند“ کا لقب دینے پر اعتراض کریں گے۔یہ غلط فہمی پر مبنی ہے،کیونکہ قرآن سورۃ 10:89میں خود فرعون کو ”خداوند“ کہتا ہے –
”اور فرعون کے ساتھ (کیاکیا)جو خیمے اور میخوں کا ملک تھا۔“
”خداوند“محض ایک عزت اور اطاعت کا ایک لقب ہے چاہے وہ کسی آقا،بادشاہ یاحتمی طور پر خُدا تعالیٰ کے لئے ہو۔بے شک،حتمی لحاظ سے خُدا تعالیٰ ہی واحد اور حتمی ”خداوند“ ہے۔
تاہم، جناب عیسیٰ مسیح کے پاس ”خداوند“ کا لقب رکھنے کا خاص دعویٰ ہے۔حضرت عیسیٰ مسیح کی پیدایش سے سیکڑوں سال پہلے،زبور شریف کی تحریروں میں آنے والے مسیحا (مسیح)کو ایک ایسی ہستی کے طور پر بیان کیاگیاہے جسے خُدا تعالیٰ کی طرف سے ”کل زمین کا اختیار“ملا ہے
(زبور شریف 8:2)۔ دوسرے الفاظ میں،آنے والا مسیحا کوکسی خلیفہ یا نائب کی مانند ہو نا تھا،جو مکمل طور پر خُدا تعالیٰ کا فرماں بردار تھا مگر تب بھی خُدا تعالیٰ کی طرف سے بنی نوع ِانسان پر پور ااختیار رکھنے والا تھا۔حضرت عیسیٰ مسیح نے مُردوں میں سے جی اُٹھنے سے شیطان کے کام کو شکست دینے کے بعد اپنے شاگردوں سے کہا،
”آسمان اور زمین کا کُل اختیار مجھے دیا گیا ہے۔“(متی کی انجیل 18:28)
اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنا شاندار اختیار حضرت عیسیٰ مسیح کو عنایت کیا ہے۔وہ انجیل شریف اور قرآن شریف کے مطابق ”کلمتہ اللہ“ کا منفرد لقب بھی رکھتے ہیں۔دوسرے الفاظ میں،حضرت عیسیٰ مسیح تمام بنی نوعِ انسان کے دیکھنے کے لئے خُدا تعالیٰ کی مرضی کا زندہ اظہار یا پیغام ہیں۔ مزید یہ کہ وہی واحد کُلّی طور پر بے گناہ انسان ہیں،اِس لئے وہی وہ واحد شخصیت ہے جس کی کُلّی طور پر پیروی یا تقلید کی جانی چاہئے۔
اِن تمام وجوہات کی بِنا پر یہ حضرت عیسیٰ مسیح کے لئے بالکل درست ہے کہ اُنہیں ”خداوند“ کہا جا ئے کیونکہ انجیل شریف میں اُنہیں باربار یہ کہا گیا ہے۔ہمیں خُدا تعالیٰ کے مقدس صحائف کے مطابق اپنی سمجھ کی تعمیرکرنی چاہیے، اور خُدا کے کلام کو اپنے خیالی تصوارات سے رد نہیں کرنا چاہیے۔
Leave a Reply