کیسے یسوع کے پیروکار دُعا مانگتے تھے؟
کیسے یسوع کے پیروکار دُعا مانگتے تھے؟
یسوع کے حقیقی شاگرد دُعا کرنے والے لوگ تھے۔ یسوع نے اپنے شاگردوں کو کوئی رسمی نماز نہیں سکھائی، بلکہ اُس نے خدا کے ساتھ دُعا میں وقت کے طویل دورانیے گزارے۔ دُعا پر یسوع کی بنیادی تعلیم میں اِس بات پر زور دیا گیا ہے کہ دُعا دِل سے کی جانی چاہئے:
مسیحیت میں دُعا کیسے کی جاتی ہے؟ — سی۔ ایس۔ ، شام
میرے شامی دوست، آپ نے ایک اہم سوال پوچھا ہے۔ سب سے پہلے، میں کہنا چاہوں گا کہ میں نے ہمیشہ دُعا میں مسلمانو ں کی سپردگی کو سراہا ہے۔ سچے مسیحی بھی یقیناً دُعا کرنے والے لوگ ہیں۔
عیسیٰ مسیح کے بارے میں انجیل مُقدس جس ایک انتہائی اہم بات کاذکر کرتی ہے وہ اُن کی دعائیہ زندگی ہے۔ اُنہوں نے اکثر اللہ کے ساتھ دُعا کرنے میں طویل وقت گزارا۔ شاگردوں نے اِسے دیکھا۔ اُس کی مثال کی پیروی کرنے کے لئے ایک دن اُنہوں نے اُس سے کہا ”اے خداوند ہمیں دُعا کرنا سکھا۔“
عیسیٰ مسیح نے تب اُنہیں سچی دُعا کرنے کا ایک نمونہ دیا۔
آپ نے فرمایا ”پس تم اِس طرح دُعا کیا کرو کہ اے ہمارے باپ! تُو جو آسمان پر ہے تیرا نام پاک مانا جائے۔ تیری بادشاہی آئے۔ تیری مرضی جیسی آسمان پر پوری ہوتی ہے زمین پر بھی ہو۔ ہماری روز کی روٹی آج ہمیں دے۔ اور جس طرح ہم نے اپنے قرضداروں کو معاف کیا ہے تُو بھی ہمارے قرض ہمیں معاف کر۔ اور ہمیں آزمایش میں نہ لا بلکہ برائی سے بچا۔“
(انجیل متی 9:6-13)
آج حقیقی ایمانداروں کا امتیازی نشان روز انہ دُعا میں وقت گزارنا اور ایک پاکیزہ زندگی بسر کرنا ہے۔
دُعا زبانی یاد کی ہوئی بھی ہو سکتی ہے اور گفتگو پر مبنی(دِل سے اُٹھنے والی) بھی ہو سکتی ہے۔ اگر ایک فرد الفاظ پر توجہ مرکوز کر سکتا ہے تو یاد کی ہوئی دُعائیں فائدہ مند ہو سکتی ہیں۔ لیکن بہت سے مسیحی گفتگو پر مبنی دُعا کرتے ہیں۔
موسیٰ نبی نے اِسی قسم کی دُعا کی مشق کی۔ ہم توریت شریف میں پڑھتے ہیں کہ ”جیسے کوئی شخص اپنے دوست سے بات کرتا ہے ویسے ہی خداوند روبرو ہو کر موسیٰ سے باتیں کرتا تھا“ (خروج 11:33)۔
اگر ہمارا ایک سچا دوست ہو تو ہم اپنے دِلی خیالات کا اظہار کرتے ہوئے اُس دوست سے براہ راست بات کرتے ہیں۔ پھر جو کچھ ہمارا دوست ہمیں کہتا ہے ہم اُسے بھی سُنتے ہیں۔
اِسی طرح، اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے دوست کہتا ہے اور ہمیں دعوت دیتا ہے کہ ہم دُعا میں اپنے دِلی خیالات سے اُس سے بات کریں اور اپنی ہر ضرورت اُس کے سامنے لائیں۔ کوئی بھی ضرورت ہو، اللہ تعالیٰ بہت بڑا اور مہربان ہے اور ہماری ضرورت میں ہماری مدد کرنے کے لئے تیار ہے۔ وہ رویاؤں اور خوابوں کے ذریعے ہمارے ذہن میں ہم سے بات کرنا چاہتا ہے۔ ہمیں سُننے کے لئے ہمیشہ تیار رہنا چاہئے۔
میرا ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ سب سچے عبادت گزاروں کو دعوت دیتا ہے کہ وہ دُعا میں گہرے طور پر آگے بڑھیں اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ حقیقی بات چیت کریں، جس کی ہم عبادت کرتے ہیں اُس کے ساتھ ایک شخصی تعلق رکھیں۔ جس روح میں ہم دُعا مانگتے ہیں اُس کے مقابلے میں ہماری دُعا کا انداز اور مشق کم اہم ہے۔ انجیل مُقدس ہمیں دعوت دیتی ہے کہ روح اور سچائی میں اپنے آسمانی باپ کے پاس آئیں۔
Leave a Reply