حضرت آدم نے4000 ق م میں زندگی گزاری؟
پیدایش5 – ”نسب ناموں کو جمع کریں تو اُن کے مطابق،حضرت آدم او رحضرت حوّا 4000ق م میں زندہ تھے،جو ناممکن ہے۔“
اگر آ پ جدید خیالات توریت شریف کے نسب ناموں پر لاگو کریں، توحضرت آدم او رحضرت حوّا کی تخلیق تقریباً 4000ق م اور حضرت نوح تقریباً2100کے قریب تھے۔جیسے کہ کوئی بھی کتاب مقدس کا سنجیدہ عالم یہ جانتا ہے،یہ کُلّی طور پر عبرانی نسب ناموں کی غلط تشریح ہے، جن میں کئی نسلوں کو چھوڑ دیا گیا ہے۔اِس طرح،حضرت عیسیٰ کو بالکل صحیح ”داؤد کا بیٹا‘ اورداؤد کو ”ابرہام کا بیٹا“ کہا گیا ہے (متی 1باب)۔بنیادی طورپر عبرانی نسب ناموں کا مقصد نسلوں اور آباؤ اجداد کا پتا لگانا ہوتاتھا،نہ کہ کئی نسلوں کے دورانیہ کا تعین کرنا۔کتاب مقدس اِن اعداد کو اِس مقصد کے لئے کبھی بھی استعمال نہیں کرتی
کہ حضرت آدم اور حضرت نوح کب زندہ تھے جس کو تلاش کرنے کی ہم توقع کریں گے کہ اگر ہم جدید لحاظ سے نسب ناموں کو پڑھنے کا ارادہ رکھتے۔
اگر کوئی توریت شریف کے طریقے پر متی 1:1کو رکھے تو اِسے یوں پڑھا جائے گا:”اور ابرہام 100برس کا تھا (جب اُس سے اضحاق پیدا ہوا جس کے ذریعے سے نسل داؤد تک گئی)،اور اُس سے داؤد پیدا ہوا۔اور داؤد 40برس کا تھا (تقریباًوہ تاریخ جب
سلیمان پیدا ہوا،جس سے یسوع مسیح نے پیدا ہونا تھا)،اور اُس کے وسیلے سے یسوع مسیح پیدا ہوئے۔
کوئی شخص یہ بھی پوچھ سکتا ہے کہ پھر کیوں یہ تمام اعداد وشمار اِتنی احتیاط سے درج ہیں؟اِس کی وجہ 960سالہ آدم کے زمانے سے 70سالہ عمر تک کم ہوتے ہوئے زندگی کے دورانیہ کو ظاہر کرنا ہے۔
ہم نسب ناموں کے اس فہم کو کتاب مقدس کے دوسرے حصوں میں بھی اظہار پاتے ہیں -متی 8:1 یورام او رعُزیاہ کے درمیان تین نام حذف کر دیتا ہے۔جب آپ عزرا 7باب اور 1 -تواریخ 6باب میں نسب ناموں کا موازنہ کرتے ہیں تو یہ صاف ظاہر ہے کہ عزرا جان بوجھ کر آٹھویں نام سے پندرھویں نام تک حذف کرتا ہے،اِس طرح وہ اپنی فہرست مختصر بناتا ہے لیکن کچھ اِس طرح سے کہ وہ صحائف کی روایات کے مطابق قانونی تھا۔ہم پیدایش میں تارح کی عمر کا تعین اُس وقت تک نہیں کر سکتے جب تک کہ ہم قدیم شعور میں 26:11کو نہیں سمجھتے۔1
نسب ناموں میں چند کو چھوڑنے اور صرف اہم آباو اجداد کو رکھنے کا روا ج آج بھی افریقہ کے چند معاشروں میں استعمال کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے قدیم نسب ناموں کی سوجھ بوجھ قائم ہے۔
قرآن میں،ہم نسب ناموں کا زیادہ پیچیدہ معاملہ دیکھتے ہیں،جہاں ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ کی ماں کو حضرت ہارون کی بہن بیان
کہا گیا ہے:
”پھر وہ اُس (بچے)کو اُٹھا کر اپنی قوم کے لوگوں کے پاس لے آئیں۔وہ کہنے لگے کہ مریم یہ تو تُو نے بُرا کام کیا۔اے ہارون کی بہن، (ياُخْتَ هَرُونَ) نہ تو تیرا باپ ہی بداطوار آدمی تھا اور نہ تیری ماں ہی بدکار تھی۔“[القرآن 27:19-28 ]
عرب مسیحیوں کے لئے یہ نہایت حیرانی کی بات تھی کیونکہ حضرت عیسیٰ کی ماں حضرت ہارون اور حضرت موسیٰ کی بہن حضرت مریم ہزاروں سال بعد ہو گزری تھیں۔اِس پیچیدہ اقتباس کے ساتھ نمٹنے کے کم از کم تین نظریات موجود ہیں:
2. بظاہر ذاکر نائیک اِس حدیث کی وضاحت سے مطمئن نہیں تھے،اُنہوں نے یہ الزام لگایا کہ ادبی عربی میں بیٹی کی اصطلاح (اُخت) کا مطلب اولادبھی ہے (بغیر ایک بھی ثبوت یا مثال دئیے)۔مسئلہ یہ ہے کہ آیا یہ سچ بھی تھا کہ نہیں،نائیک کے برعکس صحابہ کرام اور نصرانی عربی دونوں کی مادری زبان عربی تھی،مگر اُنہوں نے یہ سوال کبھی بھی نہیں پوچھاتھا۔ مزید یہ کہ پھر نائیک کو اِس بات کا انکار کرنا چاہئے کہ بی بی مریم حضرت ہارون کی نسل سے نہیں بلکہ حضرت داؤد کی نسل سے تھیں،یہی وجہ ہے کہ وہ مردم شماری کے لئے بیت لحم کو گئیں۔
3. عبدالصدیقی یہ رائے دیتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ کی ماں بی بی مریم کی ایک بہن کا نام ہارون بھی تھا مگر یہ حضو ر کی تشریح کے برعکس ہے۔
- Kaiser, Classical Evangelical Essays in Old Testament Interpretation (Grand Rapids, Mich,: Baker, 1972), pp.13-28.
- related by Mughirah ibn Shu’bah in Sahih Muslim , #5326
- Sahih Muslim, Book 25, Number 5326: “Mughira b. Shu’ba reported: When I came to Najran, they (the Christians of Najran) asked me: You read” O sister of Harun” (i. e. Hadrat Maryam) in the Qur’ān , whereas Moses was born much before Jesus. When I came back to Allah’s Messenger (may peace be upon him) I asked him about that, whereupon he said: The (people of the old age) used to give names (to their persons) after the names of Apostles and pious persons who had gone before them.
Leave a Reply