انجیل شریف اور قرآن کے نسخوں میں اختلافات
”کتاب مقدس کے ابتدائی نسخوں میں اختلافات ہیں،جبکہ قرآن کے تمام ابتدائی نسخے مماثل ہیں۔“
یہ ایک آسان نظریہ ہے لیکن یہ سب خیالی ہے اورجیسے کہ ہم درج ذیل باتوں میں دیکھیں گے یہ تاریخی اور متنی اندراج کے ساتھ مناسبت نہیں رکھتا۔
توریت شریف،زبور شریف،انجیل شریف
اور قرآن میں نقل نویسی کی معمولی اغلاط اور اختلافات
ہم سب اِس بات سے متفق ہیں کہ خدا کا کلام تبدیل نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ کتاب مقدس او رقرآن دونوں کی واضح گواہی ہے۔لیکن جب ہم کسی نسخے میں اختلاف دیکھتے ہیں تو کیا یہ بات اُس صحیفہ کو ردّ کرتی ہے؟یقینا نہیں،کیونکہ قرآن اور کتاب مقدس دونوں میں ایسی سینکڑوں نقل نویسی کی اغلاط موجود ہیں۔ پچھلے ہی ماہ میں اپنے اسلامی فاؤنڈیشن بنگالی قرآن میں یہ پڑھ کر حیران رہ تھا کہ ”ایمان دار او رراست باز اپنے لئے ”جہنم“ کمائیں گے“(”دوزخ“جو جنت،آسمان کی جگہ چھپ گیا)! 1 طباعت کی اِس قسم کی غلطی کسی بھی شائع شدہ کتاب کے لئے عام بات ہے۔ نقل نویسی کی غلطیاں محتاط نقل نویسی کرنے والوں کے دنوں میں بھی ہوتی تھیں۔کیا یہ بات ثابت کرتی ہے کہ خدا کا کلام تبدیل نہیں ہو سکتا ہے؟ہر گز نہیں،کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نقل کرنے یا شائع کرنے کی معمولی غلطیوں کی طرف اشارہ نہیں بلکہ خاص متن کی بات کر رہا تھا۔
تاہم،بہت سے لوگ لاعلم نیم خواندہ مذہبی راہنماوں کی پیروی میں صحائف کے بارے ایک فرضی خیال رکھتے ہیں۔
سچائی یہ ہے کہ قرآن اور کتاب مقدس کی ابتدائی نقول میں کئی معمولی متنی اختلافات موجود ہیں۔ ابتدائی مسیحیوں اور مسلمانوں نے اِسے ناگزیر سمجھا او راِس کے بارے میں لکھا، تاہم بعد کے مسلمانوں نے اِس کا انکار کیا او رکسی طرح اِس پر پردہ ڈال دیا۔
آج توریت شریف،انجیل شریف اور قرآن کی کوئی بھی ”اصلی جلد“ موجود نہیں ہے،لیکن اِن میں سے ہر ایک کی ہزاروں قابل بھروسہ ابتدائی نقول موجود ہیں۔ایک غلط نظریہ چند حلقوں میں موجود ہے کہ ترکی اور ازبکستان میں توپکاپی اور سمر قند کے نسخے”اصلی“ جلدیں ہیں۔
تاہم،ماہرین اِس بات پر متفق ہیں کہ یہ حضرت عثمان کی جلدیں نہیں ہیں کیونکہ یہ کوفی عربی رسم الخط میں لکھے ہوئے ہیں جو صرف آٹھویں صدی کے اواخر میں سامنے آیا۔مزید یہ کہ خود حضرت عثمان کی جلدیں اصلی نہیں تھیں کیونکہ وہ قرآنی متن میں مختلف اقسام کو ایک معیار قائم کرنے کے لئے حضرت محمد کی موت کے کئی سال بعد مرتب کی گئیں۔ 2
چونکہ چھاپے خانے پانچ سو سال پہلے ایجاد ہوئے اِس لئے تمام ابتدائی نسخے ہاتھ سے لکھے اور نقل کئے جاتے تھے۔یہ کام ماہر تربیت یافتہ کاتب کیا کرتے تھے جو اپنے تراجم کو باربار پرکھا کرتے تھے۔اِن کاتبوں کے لئے استعمال ہونے والی عبرانی اصطلاح ”سوفیریم“ ہے جس کا لغوی مطلب ہے ”شمار کرنے والے“۔ابتدائی کاتبوں کو یہ لقب اِس لئے دیا گیا کیونکہ وہ ہر کتاب کا ہرلفظ اِس یقین دہانی کے لئے شمار کرتے تھے کہ کہیں اُس میں سے کوئی چیز رہ نہ گئی ہو۔پھر بھی اُن کی بہترین کاوشوں کے باوجود اُن کوخبر ہوئے بغیرخاص طور پر تعداد اور ناموں کے حوالے سے غلطیاں رہ جاتیں۔یہ شمار کیا گیا کہ اوسطاً اُنہوں نے غلطی سے ہر 1,580 حروف کے بعد ایک حرف کی نقل کی تھی اور عموماً جب اُنہوں نے نئی جلدیں تیار کیں، تو اِن غلطیوں کو درست کر لیا۔یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ کتاب مقدس میں موجود کتابت کی تمام غلطیاں توریت شریف،زبور شریف اورانجیل شریف میں نہیں ہیں بلکہ دیگر نبوتی تحریروں میں موجود ہیں۔نقل کی اِن چند معمولی غلطیوں کی موجود گی ناگزیر تھی اور یہ کتاب مقدس اورقرآن دونوں میں پائی جاتی ہیں۔
نقل نویسی کی یہ غلطیاں خُدا تعالیٰ کے کلام کے ابدی تحفظ کو غیر مُستند نہیں کرتیں کیونکہ ہم سائنسی اعتبار سے متن کے تجزیے کے ذریعے اِن
صحائف کی درستگی کا تعین کر سکتے ہیں اور نقل نویسوں کی غلطیوں کو دُور کر سکتے ہیں۔ہمارے پاس الگ الگ متن کی روایات سے
ہزاروں کی تعداد میں بہت سے قدیم صحائف موجود ہیں اور جہاں ایک صحیفے میں معمولی اختلاف ہیں وہاں ہم دوسرے روایتی صحیفے میں اِس کا اصلی متن حاصل کر سکتے ہیں۔اِس کی ایک مثال 2۔تواریخ2 2:2 میں اخزیاہ کی عمر کے حوالے سے ہے۔کچھ صحائف میں اُس کی عمر ”42“برس اور دیگر ابتدائی صحائف میں ”22“برس موجود ہے لیکن سیاق و سباق سے ہم تعین کرسکتے ہیں کہ وہ نقل نویس کی غلطی سے ”42“ لکھا گیا ہے جب کہ اصل متن میں یہ عمر ”22“ برس ہے۔
آج قرآن کی دو جلدیں ہیں،”ورش“اور”حفص“ہیں جن میں اعراب کا معمولی اختلاف ہے۔تاہم،قرآن کی حتمی معیاری جلد مقررکرنے سے پہلے گردونواح میں بہت سے مختلف جلدیں زیر ِ استعمال تھیں۔عبدالرحمان دوئی لکھتے ہیں کہ قرآن
کی ”نئی جلد اِس کے اعلیٰ سرکاری اختیار اور یگانگت کی عام خواہش کی وجہ سے رفتہ رفتہ مختلف جلدوں میں سے لی گئی ہو گی۔“ 3
مثال کے طور پر،سورۃ البقرہ کی پہلی آیت میں ہم پڑھتے ہیں،”عربی“۔(یہ وہ کلام ہے جس میں کوئی شک نہیں)تاہم،ابن ِ مسعود (جو حضور ِاکرم کے پسندیدہ قاری تھے)نے دیگر کئی قاریوں کے ساتھ اِس آیت کو کچھ یوں لکھا،”عربی“] یہ[ وہ کلام ہے جسے نازل کیا گیا جس میں کوئی شک نہیں)
سورۃ البقرۃ آیت نمبر 198 میں ابن ِ مسعود نے ”ان تبتغو فغلاً من ربکم“ ”فی موسم الحج“ (حج کے وقت میں)کے اضافی الفاظ کو شامل کیا،
اسی طرح، موجود قرآن میں سورۃآل عمران کی آیت 19 میں کچھ یوں مرقوم ہے ”ان الدین عنداللہ الاسلام“ (دین تو اللہ کے نزدیک اسلام ہی ہے)۔
لیکن ابن ِمسعود کے متن میں لفظ اسلام کی جگہ الحنفیہ لکھا ہوا تھا۔
سورۃ آل عمران کی آیت نمبر 43 کے آخری حصے میں لکھا ہے، ”واسجدی وار کعی مع الراکعین“ (اور سجدہ کرنا اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرنا) لیکن ابن ِ مسعود کی تلاوت کچھ یوں تھی، ”وارکعی واسجد ی فی الساجد ین“ (اور رکوع کرنا اور سجدہ کرنے والوں کے ساتھ سجدہ کرنا) 4
کوئی بھی شخص اِن جیسے بے شمار اختلافات بیان کرسکتا ہے۔اگر قرآن کی موجودہ جلد سے پہلے اختلافات قرآن کے متن کی
سالمیت کو تباہ نہیں کرتے تو پھر توریت شریف،انجیل شریف اور زبور شریف کے ساتھ بھی ایسا ہی ہے۔جیسے کہ ایک معروف مبصّر نے لکھا،
”صرف چند ہی کتابیں ہی ہوں گی جو بغیر غلطی کے نہیں چھپیں،لیکن اِن غلطیوں کی وجہ سے مصنفین اُنہیں اپنانے سے انکار نہیں کرتے،اور نہ ہی چھاپے خانے کی غلطیاں مصنفین کے ذمے لگائی جاتی ہیں۔صاف گو قاری سیاق و سباق کے ذریعے یا کتاب کے دیگر حصوں کے ساتھ موازنہ کرکے اُن کی اصلاح کرتا ہے۔“
مزید یہ کہ،کتاب مقدس کے مترجمین متن میں موجود اختلافات کو چھپانے کی کوشش نہیں کرتے، لیکن کسی بھی جدید لغوی انگریزی ترجمہ میں فٹ نوٹس ہوں گے جو تمام بڑی اختلاف رکھنے والی عبارتوں کو ظاہر کریں گے۔ایسے ذیلی نوٹس کا سرسری مطالعہ ہمیں بتائے گا کہ یہ اختلافات کتنے تھوڑے اور غیر اہم ہیں۔
- Al-Qur’anul Qarim Bangla Tarjama (Islamic Foundation Bangladesh, Dhaka, 2005), p.126.
- Tabari’s Commentary, 1, 20. See also Suyuti, Al-Itqan fi Ulum al-Qur’ān , Vol. 1, p.160; and al-Bukhari, Vol. 6, p.479.
- Abdur Rahman Doi, Qur’ān : An Introduction, p.27.
- Kitab al-Masahif
Leave a Reply