حضرت لُوط کا گناہ
پیدایش 30:19-38 – ”توریت شریف یہ کیسے کہہ سکتی ہے کہ پیغمبر حضرت لُوط اپنے بیٹیوں کے ساتھ سوئے؟ایک پیغمبر کے بارے میں ایسی باتیں کہنا بے عزتی او رتوہین آمیز ہے۔“
یہ ایک بھیا نک واقعے کا اندراج ہے۔جیسے ہی ہم یہ واقعے پڑھتے ہیں ہم اِن اعمال کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے جو پریشان کرنے والے ہیں۔یہ واقعے پڑھ کر ہم پریشان ہو جاتے ہیں،پھر بھی ہمیں اِ س واقعے پر بڑا غور کرنے کی ضرور ت ہے تاکہ ہم سمجھ سکیں کہ حقیقت میں کیا ہوا تھا۔
سب سے پہلا سوال جو ہمیں پوچھنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے:حضرت لُوط کا گناہ کس حد تک تھا؟سب سے پہلے اُن پر شراب نوشی کا الزام ہو سکتا تھا۔یہ الزام لگاتے ہوئے ہمیں یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ حضرت لُوط کے زمانے میں الکوحل کے استعمال سے منع کرنے کے قوانین موجود نہ تھے۔یہ قانون بہت بعد میں آیا۔
دوسرا یہ کہ حضر ت لُوط کس حد تک مباشرت میں ملوث تھے۔یہ ثابت کرنا مشکل ہے کہ اُنہوں نے یہ سارا فعل کسی بدی کے تحت کیا۔اوّل یہ کہ آیت33یہ درج کرتی ہے کہ وہ اِن تمام واقعات سے بے خبر تھے،چاہے وہ سور ہے تھے یا پھر بے ہوش تھے۔دوم یہ کہ اُن کی بیٹیوں نے یہ سوچا کہ اِس سارے عمل کے ہونے سے پہلے ضروری تھا کہ وہ اپنے باپ کو بے ہوش کریں کیونکہ وہ جانتی تھیں کہ اگر وہ باہوش ہوئے تو اُنہیں اِس بُرے منصوبے میں شامل کرنا مشکل ہو گا۔
بہت سے لوگوں میں یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ تمام انبیا ئے کرام بے گناہ تھے،اور راست بازی کا ایک اعلیٰ نمونہ تھے۔تاہم قرآن او ر
کتاب مقدس سے ہم یہ جانتے ہیں کہ حتیٰ کہ حضرت داؤد،حضرت موسیٰ اور حضرت سلیمان گناہ ِ کبیرہ کے مرتکب ہوئے تھے۔
توریت شریف کہیں پر بھی یہ اشارہ نہیں دیتی کہ حضر ت لُوط ایک راست بازی کی مثال تھے بلکہ اِس کی بجائے یہ واضح کرتی ہے کہ اُن کی شراب نوشی اور مباشرت غلط اقدام تھے۔
Leave a Reply